اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

30 جون 2023

1:19:20 PM
1376175

غدیر عیداللہ الاکبر؛

بعثت، غدیر، عاشورا اور ظہور

غدیر نہ صرف ایک تاریخی واقعہ بالکہ ایک ایسی حقیقت ہے جو اول خلقت سے آخر خلقت تک جلوہ گر ہوتی رہے گی۔ غدیر انسانی حیات کا "سب کچھ" اور خلقت کی آبرو ہے اور دائما انسانی افکار، قلوب اور طرز زندگی پر اثرات مرتب رتا رہے گا۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، انسانی خلقت و حیات کے آغاز سے، جب ہابیل اور قابیل کا آمنا سامنا ہؤا، حق و باطل کے دو محاذ بھی ظہور پذیر ہوئے اور انسان کو بھی ہابیلی اور قابیلی دھڑوں میں سے ایک کی روشنی میں زندگی کی سمت بندی کے انتخاب کا اختیار ملا، جن میں ایک [ہابیلی] مظلومات، طہارت، عظمت و کرامت اور الٰہی تربیت کی علامت اوردوسرا [قابیلی] ظلم و ستم، اخلاقی پستیوں اور شیطانی تربیت کی علامت ہے:

" فَأَلْهَمَها فُجُورَها وَ تَقْواها * قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاها * وَ قَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها؛ (1)

چنانچہ اس نے اس [نفس] کی بدیوں اور پرہیزگاریوں کی آگہی دی * یقینا کامیاب ہوگیا جس نے نفس کو [فکری اور نفسانی پالیدیوں سے) پاکیزہ کیا * اور بے شک محروم اور ناکام ہؤا جس نے اس کو (پلیدیوں سے) آلودہ اور (جہل و کفر اور فسق کے) پردوں کے پیچھے نہاں کر دیا"۔

یہ ایک سنت الٰہیہ ہے کہ انسان - عقل و حکمت کی نعمت کے سہارے ترقی اور سربلندی کی راہ پر گامزن ہو کر برائیوں کے مقابلے میں کمال، سعادت اور نجات و فلاح پانے کے لئے - نفسانی خواہشوں اور ابلیس لعین کے وسوسوں (اور فتنوں) سے منہ موڑ لے؛ اور جدوجہد اور استقامت کے ساتھ، بطور انسان، اپنے منصبِ خلافتِ الٰہیہ کی حرمت کی پاسداری کرے اور "مسجودِ ملائک" اور "اشرف المخلوقات" کے عزت و افتخار سے سرشار اعلیٰ ترین تمغہ حاصل کر لے۔

بعثت

اس راستے میں خالق کائنات - جس نے انسان کو اپنی خاطر خلق کیا اور فرمایا:

"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ؛ اور میں نے جن و انس کو خلق نہيں کیا مگر اس لئے کہ میری [ہی] بندگی کریں"؛ (2)۔

انتخاب انسانیت کے لئے ایک امتیازی نشان ہے؛ اور اس لئے کہ انسان اپنے انتخاب میں غلطی، تذبذب اور شکوک و شبہات سے دوچار نہ ہو، خدائے متعال نے اس کے لئے اس کے باطنی نبی (عقل) کی مدد سے اپنے ظاہری نبی کو رسالت و نبوت کا کام سونپا تاکہ وہ ہمیشہ تمام بندوں اور بنی نوع انسان پر حجت تمام کرے۔

چنانچہ کمال اور نشوونما کے عمل میں، ہر عصر و عہد کے حالات کے تناسب سے، بنی نوع انسان  کی توحیدی تربیت کے لئے انبیاء کو مبعوث فرمایا جو ان پر آیات کی تلاوت کرتے ہیں، ان کا تزکیہ کرتے [اور انہیں پاکیزہ بناتے] اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں:

"هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ؛ (3)

وقت گذرنے کے ساتھ - ابلیسی محاذ نے بھی، جس نے قسم اٹھا کر انسان کی بندگی کی راہ میں روڑے اٹکانے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا ہے: "قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ * إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ؛ (شیطان نے) کہا: تو تیری قسم کہ میں سب کو ضرور بضرور راستے سے ہٹاؤں گا (اور گمراہ کروں گا) * سوا تیرے مخلص [اور پاک دل] بندوں کے"۔ (4) چنانچہ وہ موّحدین اور یکتاپرستوں اور حیات انسانی کی خوبصورتیوں (عدل و انصاف، امن و سلامتی، معنویت و روحانیت، عبودیت و بندگی اور طہارت و پاکیزگی) کے خلاف مستقل جنگ لڑ رہا ہے اور حضرت انسان کے خلاف فتنہ گری، تحریف، فریب اور کسی بھی قسم کے اقدام سے گریز نہیں کرتا اور آج تک بھی اپنے منحوس اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے۔

ارسالِ رُسُل آدم (علیہ السلام) سے خاتم (صلی اللہ علیہ و آلہ) تک، اور جنی اور انسی شیطانوں بالخصوص فرعونوں اور جابر و ظالم اور فسادی حکمرانوں سے لے کر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے زمانے کے ابولہب اور ابوجہل تک، کے خلاف جدوجہد میں ہر نبی کی کوششوں، مجاہدتوں اور بے پناہ مصائب و مسائل نے ایک حقیقت کو ثابت کرکے دکھایا ہے، اور وہ حقیقت، بعثت کی قدر و منزلت اور شان و عظمت ہے؛ وہی حقیقت بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کا آغاز اور اس کی حمایت کا ذریعہ اور عزت، عظمت اور وقار کی طرف اس کی توحیدی اور مؤمنانہ راہنمائی رہی ہے۔

بعثت کی وہ حقیقت جس نے ہمیشہ انسانوں کی خدمت کے لئے زندگی کو روشن کرنے والی دو چراغوں - یعنی کتاب اور آسمانی شریعت - کی حامل رہی ہے؛ اور ہر زمانے کے انسان کی ذہنی اور ادراکی صلاحیت کے تناسب سے ان چراغوں کو انسانوں کے سامنے رکھا ہے؛ اور اس عظمت کا عروج رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی بعثت میں جلوہ گر ہؤا جنہیں 23 سال کے عرصے میں تمام انبیاء، کتابوں، ادیان و مذاہب اور توحیدی اور آسمانی شریعتوں کی تکمیل، اور یوں انسان کی رہنمائی کی سمت میں نبوت اور رسالت کو کامل کرنے کا مشن سنبھالا تھا؛ لہٰذا آنحضرت کے بعد - جن کی بعثت کتاب کامل (قرآن) اور قانون کامل (اسلام) کی نوید تھی - نہ تو کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی کتاب و شریعت۔ لہٰذا رسول خاتم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بعثت انبیائے الٰہی کی تمام صلاحیتوں کا مظہر تھی، جنہوں نے شجرہ نبوت کو اس کے انتہائی نتیجے [اور ثمرے] کے قریب پہنچایا اور کفر، شرک اور الحاد، ہر قسم کے فسق و فجور، ظلم و ستم اور جرائم اور ہلاکت خیز اعمال کی  پلیدگیوں سے نوع بشر کی نجات و چھٹکارے کی خوشخبری کے ساتھ، نہ صرف بہترین انداز سے دنیا کے یکتاپرستوں کے دلوں میں امید کی کرن پیدا کردی بلکہ پوری انسانیت میں پاکیزگی، وقار، سلامتی اور انصاف کی پیاس ڈال دی۔

غدیر

انبیائے الہی کی جدوجہد کے تسلسل اور انبیاء بالخصوص اسلامی کے نبیّ مکرّم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بعّثت کی رو میں، رحمت و حکمت کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے مشن کے اختتام اور آنحضرت کے وصال کے ایام آن پہنچے۔ حَجَّۃُ الوداع کے دوران اور آخری حج سے واپسی کے وقت، آپ کو غدیر خم کے مقام پر خدائے منان کے حکم سے، آخری مشن سونپا گیا؛ جب خدائے بزرگ و برتر نے آیت کریمہ اتار کر آنحضرت سے ارشاد فرمایا:

"يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ؛

اے رسول! جو اللہ کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا پیغام پہنچایا ہی نہیں ہے"۔ (5)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حکم پر سب رک گئے اور آگے جانے والوں کو واپسی کا حکم ملا؛ نوے، یا ایک لاکھ بیس ہزار یا ایک لاکھ پچاس ہزار افراد حج سے واپسی کے راستے میں پیغمبر رحمت کے شمع وجود کے گرد مجتمع ہوئےاور ایک بڑے اجتماع کا انعقاد عمل میں آیا، ایک بےمثال اجتماع جس کی سابقہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی تھی۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اللہ کے حکم کے نفاذ اور اپنے آخری مشن کی تکمیل کے لئے ایک خطبہ دیا اور اس کے ضمن میں فرمایا:

"اے لوگو! یہ آخری بار ہے کہ میں اس طرح کے اجتماع میں کھڑا ہوتا ہوں، تو سن لو اور اطاعت کرو اور اللہ کے امر کے سامنے سر تسلیم خم کرو"۔ جب لوگوں کی آنکھیں اور ان کے دل آنحضرت کی طرف متوجہ ہوئے تو ایک گہری خاموشی اور ایک عظیم شکوہ و عظمت کی کیفیت اجتماع پر طاری ہوئی۔ سب کی زبان حال اس سوال سے عبارت تھی کہ "کونسا اہم مسئلہ ہے؟ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کیا فرمانا چاہتے ہیں؟!

اس صورت حال میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اجتماع کے بیچ سے علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کو اونٹوں کے پالانوں سے بنائے گئے منبر [اسٹیج] پر اپنے پاس بلایا اور آپ کا کمربند تھام کر اوپر کو اٹھایا تا کہ سب اس تصویر کو دیکھ کر صحن نشین کرلیں اور پھر فرمایا:

" أيُّهَا النَّاسُ! آَلَسْتُ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؛ کیا میں ایمان لانے والوں پر خود ان سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا ہوں؟

سب نے جواب دیا: بَلَىٰ  يَا رَسُولَ اللهِ؛ کیوں نہیں اے رسول خدا (صلی اللہ علیہ آلہ)! خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہم پر ہم سے زیادہ اختیار رکھتے ہیں؛

جب آنحضرت نے حاضرین سے اس الٰہی حقیقت کا اعتراف لیا، تو آسمانی نوا اور ندا کے ساتھ فرمایا: "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ؛ جس کا بھی میں مولا [اور حاکم] ہوں، یہ علی(علیہ السلام) اس کے مولا (اور حاکم) ہی؛ اے خدائے متعال! دوست رکھ اسے جو انہیں دوست رکھے اور دشمن رکھ اسے جو ان سے دشمنی کرے، اور مدد فرما اس کی جو ان کی مدد کرے اور بے رخی برت اسے جو انہیں تنہا چھوڑے"۔ (6)

اس عظيم تاریخی واقعے کی شان و شکوہ میں اس وقت مزید اضافہ ہؤا جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اقدام پر مہر تصدیق و تائید ثبت کرتے ہوئے فرمایا:

"الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا؛

آج کافر لوگ تمہارے دین سے ناامید ہوگئے ہیں، تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور اسلام کو دین کے طور پر تمہارے لئے پسند کر لیا"۔ (7)

اور آپ نے مزید فرمایا: "مَعَاشِرَ النَّاسِ! أَنَا صِرَاطُ اللهِ الْمُسْتَقِیمُ الَّذِي أَمَرَكُمْ بِاتَّبَاعِهِ ثُمَّ "عَلِیٌّ" مِنْ بَعْدِي ثُمَّ وُلْدِي مِنْ صُلْبِهِ، أَئِمَّةٌ يَهْدُونَ إِلَی الْحَقَّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ؛ (8)

اے لوگوں کی جماعت! میں "اللہ کا سیدھا راستہ" ہوں جس نے تمہیں حکم دیا کہ اس کی پیروی کرو اور میرے بعد "علی" [صراط اللہ المستقیم] ہیں اور ان کے بعد ان کی صلب سے آنے والے میرے فرزند، وہ امام جو حق کی طرف ہدایت و راہنمائی دیتے ہیں اور حق کی بنیاد پر عدل و انصاف نافذ کرتے ہیں"۔

مَعَاشِرَ النَّاسِ! قَدْ بَيَّنْتُ لَكُمْ وَأفهَمتُكُم، وَهَذَا عَلِيٌ يُفهِمُكُم بَعدِي؛ أَلَا وَإنِّي عِنْدَ انقِضَاءِ خُطْبَتِي أَدْعُوكُم إلَی مُصَافَقَتِي عَلَی بَيْعَتِهِ وَالإِقرَارِ بِهِ، ثُمَّ مُصَافَقَتِهِ بَعْدِي؛ ألَا وَإنّي قَدْ بَايَعْتُ اللّهَ وَعَلِيٌ قَدْ بَایَعَنِي وَأنَا آخِذُكُمْ بِالبَيْعَةِ لَهُ عَنِ اللّهِ عَزَّ وَجَلَّ <فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًاً؛

اے لوگو! میں نے تمہارے لئے تشریح کردی (اور تمہیں سمجھایا) اور یہ علی (علیہ السلام) ہیں جو میرے بعد تمہیں سمجھائیں گے؛ جان لو کہ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ میرے خطبے کے اختتام کے بعد، میرے ساتھ بیعت کرو کہ ان کے ہاتھ پر بیعت اور ان کی امامت و فرمانروائی کا اقرار کرو گے، اور میرے بعد ان کے ساتھ بیعت کروگے۔ جان لو کہ میں نے اللہ کے ساتھ بیعت کی ہے اور علی (علیہ السلام) نے میرے ساتھ بیعت کی ہے اور میں اللہ عزّ و جلّ کی طرف سے تم سے علی (علیہ السلام) کے لئے بیعت لے رہا ہوں <تو جو عہدشکنی کرے وہ اپنے اوپر عہد شکنی کرتا ہے [اور اپنا ہی نقصان کرتا ہے] اور جو عہد انھوں نے اللہ سے کیا ہے، اسے پورا کرے تو اللہ اسے بہت بڑا صلہ عطا کرے گا"۔ (9)

یہ غدیر کے عظیم کارنامے کی وہ کیفیت ہے جس کی تشریح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے خطبہ غدیر میں بہت خوبصورتی کی ساتھ سے پیش کی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ " لیکن سوال یہ ہے کہ غدیر کا اصل جوہر اور حقیقت کیا تھی کہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے - اس ہیئت اور شکل میں، اور اتنے دشوار حالات اور شدید گرمی میں، لق و دق صحرا کے بیچ، - امت کے عظیم اجتماع کو زحمت دینا ضروری سمجھا اور تین دن اور تین رات انہیں حوض غدیر کے آس پاس، اس [حقیقت و جوہر] کے گرد جمع کئے رکھا؟!"۔

غدیر کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کی کوششوں کے حاصل اور، ثمر اور رسالت و نبوت کے نتیجے کی رونمائی تھی۔

غدیر! نہ صرف ایک خالصتاً تاریخی واقعہ تھا بلکہ یہ امامت اور ولایت کے دھارے کا مظہر تھا۔

غدیر! محض ایک سادہ سا، ایک خاص زمانے کے ایک مرحلے تک محدود مسئلہ نہیں تھا بلکہ بنی نوع انسان کی نجات کے لئے ایک منفرد دھارے کا ظہور و طلوع تھا۔

غدیر! محض امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) جیسی شخصیت سے امت کی محبت کی میثاق لینے کے لئے نہ تھی بلکہ اس میثاق کے تحت امت پر آپ کی امامت و سرپرستی اور ہدایت و راہنمائی قبول کرنے کا تقاضا کیا گیا اور حجۃ الوداع سے واپس آنے والے امت کے نمائندوں نے بیعت کرکے اسے جان و دل سے قبول کیا۔

غدیر انسان کامل کا ظہور و بروز تھا، ایسا انسان کامل جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی آغوش میں پروان چڑھا تھا اور نبوت و رسالت کی راہ میں  اس کی شخصیت کی تعمیر ہوئی تھی اور اب اسے عینی تَجَسُّم کے طور پر سعادت و فلاح کی خواہاں انسانیت کا اطمینان بيش نمونے کے طور پر کردار ادا کرنا تھا۔

نجات

غدیر! سے محض رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بعد کے زمانوں کے لئے آنحضرت کے خلیفہ، جانشین اور وصی کے تعارف کرانا ہی مقصود نہ تھا بلکہ بنی نوع انسان کی عمر کے آخر تک، ہر قسم کی پلیدگی، انحراف، گمراہی، انحطاط اور مظالم اور تباہی سے انسانیت کی نجات کے لئے ایک ابدی دھارے کی ترسیم کرنا مقصود تھی۔

غدیر! "رسالت و نبوت" اور "امامت و ولایت" کے درمیان اتصال کی کڑی ہے۔

غدیر! انسان یکتاپرست انسان - جس کا عینی مصداق خود ہمارے مولا امیرالمؤمنین (علیہ السلام) ہیں - کی ہدایت و تربیت کی راہ میں تمام انبیائے الٰہی کی خواہش و تمنا ہے۔

غدیر! تمام پیغمبروں اور انسانی کتب اور شرائع کی تمام تر کوششوں اور مجاہدتوں کے عینی نتیجے کے طور پر انسان کامل یعنی امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی شخصیت کی تقریب رونمائی ہے۔

اس کے معنی یہ ہیں کہ غدیر کی وسعتیں ابتدائے خلقت اور آدم (علیہ السلام) سے خاتم (صلی اللہ علیہ و آلہ) تک اور آنحضرت کے وصال کے بعد، بنی نوع انسان کی عمر کے تسلسل میں، تا انتہا، پھیلی ہوئی ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ غدیر صرف شیعیان اہل بیت (علیہم السلام) اور دوسرے مسلمانوں سے ہی تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ تو روئے زمین پر رہنے والے - اور فساد، تباہی، ظلم و ستم اور فسق و فجور سے نجات کی امنگ رکھنے والے - بنی نوع انسان کے ہر فرد سے تعلق رکھتا ہے۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ بنی نوع بشر کی بھلائی ہوئی گمشدہ و آرزو غدیر کے تالاب سے طلوع ہوئی؛ کیونکہ علوی ہاتھ کا نبوی ہاتھ سے، نبوت اور رسالت کے تسلسل میں، جُڑ گیا؛ اور رسالت و نبوت کا اختتام ہؤا لہٰذا اب یہ ولایت و امامت ہے جو عدل و انصاف، صلح و سلامتی، حریت و جوانمردی اور طہارت و پاکیزگی کی شیدائی انسانیت کو اپنی طرف بلا رہی ہے۔

غدیر صرف ایک عید سعید ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک جاری و ساری اور غیر منقطع سلسلہ ہے جو اس الٰہی وعدے کے عملی جامہ پہننے تک جاری رہے گا:

"هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ؛ (10)

وہ وہ [اللہ] ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا <تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے>، خواہ یہ مشرکین کو برا ہی کیوں نہ لگے"۔

غدیر! ایک محکم مکتب اور ایک قوی منطق ہے، جو فلاح و سعادت کے خواہاں انسان کی زندگی کے ہر لمحے کو اپنی طرف بلاتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ غدیر کا پیغام ظلم و ستم کے اور ہر زمانے کے فرعونوں کے محلات پر لرزہ طاری کرتا ہے۔

غدیر کی عظمت و اہمیت کے اثبات کے لئے یہی کافی ہے - چاہے تاریخ میں، چاہے عصر حاضر، سخت ترین اور ہٹ دھرم ترین دشمنوں نے اس کے ساتھ دشمنی کی انتہا کی ہے۔

مروان بن حَکَم سے کہا گیا: کیا تم علی کو نہیں جانتے ہو؟

مروان نے فیصلہ کن انداز سے کہا: کوئی بھی علی کو، مجھ سے بہتر، نہیں جانتا؛ وہ خلقت پروردگار میں بہترین اور برترین انسان ہیں، جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔

پوچھا گیا: تو علی پر سبّ و لعن کرتے ہو اور ان کے خلاف فتنہ انگیزی اور منفی تشہیر کیوں کرتے ہو؟ 

تو انتہائی بےشرمی کے ساتھ بولا: "لَا يَسْتَقيمُ لَناَ الأَمْرُ إلاّ بِذَلِكَ؛

اس لئے کہ اس کے سوا ہماری حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا"۔ (11)

گویا مروان کہنا چاہتا تھا کہ "ہم علی کو جانتے ہیں، ان سے افضل و برتر کوئی نہیں ہے، ان کی منطق قوی ہے، ان کا مکتب سوچنے اور سمجھنے والوں کو قائل کر لیتا ہے اور اگر لوگ ان کی منطق و مکتب کو جان لیں تو ان کا خیر مقدم کریں گے اور ہم فریب کاروں کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی اور لوگ ہمیں سیاسی و اقتدار سے الگ کر لیں گے؛ چنانچہ انہیں لوگوں کی نظروں سے گرانا چاہئے تاکہ زمانے کا پھیہ ہمارے حق میں گھومے"۔ اور یہی ہماری آج کے زمانے کی حالت بھی ہے۔

اور ہاں! اگر غدیر زندہ جاوید نہ رہتا اور اگر بنی نوع انسان کے ہر فرد سے اس کا سروکار نہ ہوتا؛ تو معاویہ جیسے حکمران، اور شیطانی قوتیں - جو "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی شہادت کے بعد "منعقدہ اجلاس" کے بعد اٹھنے والے فتنے اور عہدشکنی کے تسلسل میں آنے والے دھارے اور ان سے برآمدہ قوتیں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولایت و امامت اور شخصیت نیز آپ کی اولاد میں آنے والے ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) کے خلاف فتنہ انگیزی اور جنگ و جدل نہ کرتیں۔

عاشورا

عاشورا غدیر کی حقانیت پر مہر تصدیق ہے اور عاشورا عظیم ترین قیمت ہے جو محاذ حق نے پیام غدیر کے لئے ادا کی ہے۔ عاشورا کا واقعہ ایک طرف سے "موحدین اور شکرگزاروں اور اہل ایمان کے محاذ" اور دوسری طرف سے "جاہلیت کے متوالوں، رجعت پسندوں اور پسماندہ افکار کے علمبرداروں کے محاذ" کے درمیان تقابل اور نزاع کا عروج ہے۔

عاشورا کا واقعہ کیوں رونما ہؤا؟

کیا اہل حجاز اور اہل کوفہ و عراق امام حسین اور اہل بیت رسول اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے فرزندوں کو نہیں جانتے تھے؟

غدیر کے خلاف جاہلیت کے اموی وارثوں اور یزیدیوں کی منحوس نفسیاتی اور جھوٹی یلغار ناکام ہوئی تو گویا کہ اب عاشورا کا وقوع پذیر ہونا ضروری تھا! اموی دربار سلطنت میں طے یہی پایا تھا کہ  غدیریوں کی آخریں سانسیں بھی اکھڑ جائیں اور علی (علیہ السلام) اور آپ کے معصوم فرزندوں کا نام اور مکتب ہمیشہ کے لئے، انسانی حیات سے غائب ہو جائے۔ البتہ غدیری-عاشورائی بھی جانتے تھے کہ وہ ایثار کریں گے اور خون کی ندیاں جاری ہونگی تو تب ہی اسلام و قرآن اور مکتب امامت و ولایت کا نیم جان پیکر دوبارہ جی اٹھے گا اور ان کی بقاء کی ضمانت فراہم ہوگی۔ تحریک کربلا کے عظیم کارنامے نے ایک طرف سے اسلام کی بقاء کی ضمانت فراہم کر دی تھی تو دوسری طرف سے یزیدی دنیا پرستوں اور انسان نما درندوں کی خباثت کو عیاں کر دیا جو کربلا میں غدیر کی نجات دہندہ منطق اور امامت کے دھارے کے بالقابل انتہائی گستاخانہ انداز سے آ کھڑے ہوئے تھے۔ گویا کہ ضروری تھا کہ یہ عظیم قربانی اور انتہائی بھاری قیمت ادا کی جائے اور آل رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو وہ جان لیوا مصائب جھیل لئے جائیں، "اس لئے کہ غدیر زندہ اور محفوظ رہے"۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کا واقعہ عاشورا غدیر کے بغیر اور غدیر سے جدا، شاید کبھی بھی رونما نہ ہوتا یا زمین کے کسی ٹکڑے میں ہمیشہ کے لئے قید اور مدفون ہو کر رہ جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ عاشورا بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور اس کی صدا دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ چکی ہے، اور عنقریب صدائے یا لثارات الحسین اور کل یوم عاشورا اور کل ارض کربلا پوری دنیا سے سنائی دینے والی ہے، جو نوع بشر کو متحد کرے گی اور عدل و انصاف کے پیاسوں کو جرأت ہمت عطا کرے گی؛ اور عدل و انصاف مانگنے والے بنی نوع انسان کے فرد فرد کی ہم صدائی اور ہم نوائی، آخری فریاد کی تمہید بنے گی اور آخرکار خاتم الاوصیاء حضرت امام زمانہ (علیہ السلام) کے پرچم تلے دولت کریمہ اور عالمی عدل کی حکومت قائم ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ امام آخر الزمان کی تحریک کی ابتدائی تمہید بھی عاشورا کی تحریک ہے۔

ظہور

غدیر کا پیغام ـ عاشورا کے دن ادا کی جانے والی بھاری قیمت پر، عاشورا کا نجات بخش اور امیدافزا پیغام، اور امام حسین (علیہ السلام) کی عالمی دانش گاہ کی قائل کر دینے والی تعلیمات کے فروغ کی روشنی میں، ـ اقوام عالم تک پھیل جائے گا اور اللہ کے آفاقی وعدے "لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ"؛ (12) کے مطابق عالمی میدان کو آخری فریاد اور آخری تحریک اور امام زمانہ (علیہ السلام) کی دولت کریمہ کے قیام کے لئے آمادہ کرے گا۔

حضرت ولی عصر (علیہ السلام) اللہ کے آخری ولی اور آخری امام معصوم ہیں جن پر رسالت و ولایت کا ازلی سلسلہ پایۂ تکمیل تک پہنچے گا۔ جس طرح کہ آپ کے جد امجد رسول اللہ الاعظم خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے نبوت اور رسالت کا سلسلہ اس انتہائی ہدف و مقصود تک پہنچایا، اللہ کے آخری ولی اور حجت بقیۃ اللہ الاعظم خاتم الاوصیاء (ارواحنا فداہ) بھی انسانی حیات متحدہ حاکمیت کے قیام کے حوالے سے اپنے مشن کو عملی طور پر نافذ کریں گے اور نجات دہندہ کی منتظر انسانیت کی دیرینہ آرزو کو جامۂ عمل پہنائیں گے۔  

امام زمانہ (علیہ السلام) کی دولت کریمہ کے قیام کے ساتھ، انسانی ارمان اور اللہ کے وعدے کے مطابق، پوری انسانیت عدل و انصاف، انسانی عظمت، صحیح معنوں میں الٰہی، توحیدی اور انسانی طرز زندگی کی لذتوں سے محظوظ ہوگا۔ یہ وہی زمانہ ہے جب غدیر اپنی تمام تر عظمت و اہلیت کے ساتھ دنیا میں جلوہ فشاں ہوگا، اور یہ وہ زمانہ ہے جب انسان پہلی بار اس عظمت کا ادراک کرنے کے قابل ہوگا۔

المختصر! غدیر ـ صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے ـ ابتدائے خلقت سے انتہائے حیات تک جلوہ گر ہوگا۔ غدیر انسانی حیات کا ہمہ جہت سرمایہ اور خلقت کی آبرو ہے اور غدیر کو ہمیشہ کے لئے افکار، اذہان اور انسان کے طرز حیات کی رگ و پے پر چھایا رہنا چاہئے؛ تاکہ اس کی روشنی میں "صراط المستقیم" کی تفسیر انجام کو پہنچے اور انسان کی سعادت، فلاح اور نجات کا راستہ ہموار سے ہموار تر ہو جائے۔ ان شاء اللہ

بسلسلۂ عید غدیر سنہ 1443ھ - مورخہ (19 جولائی 2022ع‍)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حجت الاسلام ابوالقاسم علی زادہ، کالم نگار

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔ سورہ شمس، آیات 8 تا 10۔

2۔ سورہ ذاریات، آیت 56۔

3۔ وہ وہ ہے جس نے اُمیین [ام القراء مکہ کے رہنے والے] امیوں کے درمیان بھیجا، ان ہی میں سے، جو ان پر اس کی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاکیزہ بناتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ اس کے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے (سورہ جمعہ، آیت 2۔)۔ 

4۔ سورہ ص، آیات 82-83۔

5۔ سورہ مائدہ کی آیت 67۔

6۔ رسول اللہ [صلی اللہ علیہ و آلہ] کے خطبہ غدیر میں سے اقتباس۔

7۔ سورہ مائدہ، آیت 3۔

8۔ عبد علی بن جمعہ الحویزی، تفسير نور الثقلين، ج2، ص86؛ میرزا محمد قمی مشہدی، تفسير كنز الدقائق، ج5، ص212۔

9۔ سورہ فتح، آیت 10۔

10۔ سورہ توبہ، آیت 33۔

11. البلاذري، انساب الأشراف، - دار الفکر - بیروت - ج2، ص184؛ ابن عساكر، تاريخ مدينة دمشق، ترجمة أمير المؤمنين، ج 38 حدیث 1139۔

12۔ سورہ توبہ، آیت 33۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110