عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق،
حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) نے خود ضمانت دی ہے کہ جو بھی عید غدیر کے دن خدا کی خاطر کسی کو قرض دے خداوند متعال اسے کئی گنا عطا فرمائے گا۔ عید غدیر کے دن اپنا بہترین لباس زیب تن کرنا، عطر لگانا، اپنے بچوں کو تحفے دینا اور سال کا بہترین کھانا کھانا۔ نیز آپ نے فرمایا ہے کہ عید غدیر کے موقع پر ایک شخص کو کھانے کھلانا دس لاکھ انبیاء، صدیقین اور شہداء کو کھانا کھلانے کے مترادف ہے اور اتنا ثواب کسی بھی دوسرے موقع پر کھانا کھلانے کے لئے مقرر نہیں کیا گیا ہے۔
حتیٰ اگر یہ کھانا کھلانے کے لئے تمہیں قرض لینا پڑے تو قرض لو اور کھانا کھلاؤ اور اس کام کو ایک رسم میں تبدیل کرو تا کہ تم ہی اس نیک کام کے بانی مبانی بن جاؤ؛ کیونکہ کسی نیک کام میں سب سے پہلا شخص ہونا اور سابقین میں سے ہونا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت زیادہ اہم ہے اور خداوند متعال سب سے پہلے افراد یا سابقین کو خصوصی لطف و مرحمت سے نوازتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہماری اس بات کی سند کیا ہے؟ جواب ملاحظہ ہو:
ارشاد ربانی ہے:
"إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكاً وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ"۔ (1)
"یقینا روئے زمین پر) سب سے پہلا گھر جو تمام لوگوں کے لئے مقرر ہؤا، وہی ہے جو مکہ میں ہے، بابرکت اور سرمایہ ہدایت تمام جہانوں کے لئے"۔
"لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ"۔ (2)
"بے شک وہ مسجد جس کی بنیاد شروع دن سے ہی پرہیز گاری پر رکھی گئی ہے، اس کی زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس میں [نماز کے لئے] کھڑے ہوں"۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اصحاب میں بھی جو ایمان لانے، انفاق و خیرات اور ایثار و قربانی میں پیش پیش تھے ان کا حساب خدا نے دوسروں سے الگ کردیا اور فرمایا:
"السَّابِقُونَ السَّابِقُونَ ٭ أُوْلَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ ٭ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ"۔ (3)
"اور وہ جو سبقت کرنے والے پورے پورے سبقت کرنے والے ہیں ٭ یہ لوگ خاص مقرب افراد ہیں ٭ نعمت کے خاص باغوں میں"۔
"وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ"۔ (4)
"اور شروع شروع ہی میں پہلے اسلام لانے والے مہاجر اور انصار اور جو حسن عمل کے ساتھ ان کی پیروی کریں، اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں"۔
فتح مکہ سے قبل انفاق اور قربانی و ایثار کرنے والوں کا حساب ان لوگوں سے جدا ہے جنہوں نے فتح مکہ اور مسلمانوں کی آخری کامیابی کے بعد حمایت کی۔ ارشاد ہوتا ہے:
"لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُوْلَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا"۔ (5)
"برابر نہیں ہیں تم میں سے وہ جنہوں نے خیرات (اور جان و مال کی قربانی) دی ہو فتح سے پہلے اور جنگ کی ہو، یہ درجے میں زیادہ بڑے ہیں ان سے جنہوں نے اس کے بعد خیرات کی ہے اور جنگ کی ہے"۔
انبیاء (علیہم السلام) لوگوں سے فرمایا کرتے تھے:
"وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ"۔ (6)
"اور میں سے پہلے ایمان لانے والا ہوں"۔
"وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ"۔ (7)
"اور میں سر اطاعت جھکانے والوں میں سب سے پہلا ہوں"۔
جیسا کہ انحراف کی راہ پر بھی سب سے اول ہونا بہت برا ہے:
"وَلاَ تَكُونُواْ أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً"۔ (8)
"اور اس (اللہ) کے سب سے پہلے کافر (و منکر) نہ بنو ہماری آیتوں کو کم قیمت پر نہ بیچو"۔
شیعہ اور سنی روایات کے مطابق سب سے پہلے مرد، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر ایمان لائے، امیرالمؤمنین (علیہ السلام) تھے اور آپ پر سب سے پہلے ایمان لانے والی خاتون ام المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ (سلام اللہ علیہا) تھیں۔
تاریخ اسلام گواہ ہے کہ سلمان فارسی (سلام اللہ علیہ) نے مدینہ کے تحفظ کے لئے خندق کھودنے کی تجویز پیش کی تو سب سے پہلا کدال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مارا جس کے بعد خندق کی کھدائی شروع ہوئی۔ یہ واقعہ جنگ خندق (یا جنگ احزاب) کا ہے گوکہ آج کل کے زمانے میں تمام احزاب نے متحد ہوکر اسلام اور قرآن کی بیخ کنی کا تہیہ کر رکھا ہے جو تمام مسلمانان عالم کے لئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اس زمانے کے احزاب میں اسرائیل اور امریکہ کے کندھے سے کندھا لگانے والے مسلم ممالک کے سربراہان نہ صرف مسلمانوں کے نمائندے نہيں ہیں بلکہ وہ تو احزاب کی صورت میں امت کو تباہ کرنے کا ارادہ کئے ہوئے ہیں۔
احادیث شریفہ میں حکم ہے کہ ہر کام کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرو اور جب بھی پہلی بار کسی بھی مہینے کے ہلال کو دیکھتے ہو تو دعا کیا کرو۔
چند حدیثیں روز غدیر کھانا کھلانے اور افطار دینے کے بارے میں:
روز غدیر مؤمنین کو کھانے کی اہمیت بہت زیادہ ہے؛ امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
"واطعم اخوانك"۔ (9)
"عید غدیر کے دن اپنے [ایمانی] بھائیوں کو کھانا کھلاؤ"۔
امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) نے فرمایا:
"مَنْ أَطْعَمَ مُؤْمِناً کَانَ کَمَنْ أَطْعَمَ جَمِیعَ الْأَنْبِیَاءِ وَالصِّدِّیقِینَ"۔ (10)
"جو اس دن ایک مؤمن کو کھانا کھلائے گویا کہ اس نے تمام انبیاء اور صدیقین کو کھانا کھلایا ہے"۔
اس دن کھانا کھلانے کی عظمت اور ثواب اس قدر ہے کہ امام صادق (علیہ السلام) نے اس کو یوم الاطعام یا کھانے کھلانے کا دن قرار دیا ہے۔ (11)
عید غدیر کے اعمال میں مؤمن کو افطار کرانے کا ثواب بہت اعلیٰ درجے کا عمل ہے۔ احادیث کے مطابق اس عمل میں بہت بڑی فضیلت مضمر ہے۔ امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:
"... وَمَنْ فَطَّرَ مُؤْمِناً فِي لَيْلَتِهِ فَكَأَنَّمَا فَطَّرَ فِئَاماً وَفِئَاماً يَعُدُّهَا بِيَدِهِ عَشَرَةً فَنَهَضَ نَاهِضٌ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَمَا الْفِئَامُ قَالَ مِائَةُ أَلْفِ نَبِيٍّ وَصِدِّيقٍ وَشَهِيدٍ فَكَيْفَ بِمَنْ تَكَفَّلَ عَدَداً مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَات وَأَنَا ضَمِينُهُ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى الْأَمَانَ مِنَ الْكُفْرِ وَالْفَقرِ"۔ (12)
"جو کوئی کسی روزہ دار مؤمن کو روز غدیر کا افطار کرا دے وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے دس فئاموں کو ـ افطار کرایا ہو۔ تو ایک شخص اٹھا اور عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! فئام کیا ہے؟ فرمایا: ایک لاکھ انبیاء، صدیقین اور شہداء؛ تو اس شخص کی کیا فضیلت و عظمت ہوگی جو مؤمنین اور مؤمنات میں سے ایک جماعت کی کفالت کرے [اور افطار کرا دے]، پس میں اللہ کے ہاں اس کا ضامن ہوں کہ وہ فقر و ناداری اور کفر سے محفوظ رہے گا"۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: یوم غدیر خم کا روزہ دنیا کی عمر کے روزوں کے برابر ہے، اور ہر سال اس دن کا روزہ اللہ عز و جل کے نزدیک 100 قبول حجوں اور قبول عمروں کے برابر ہے، یہ دن عید اللہ الاکبر (اللہ کی سب سے بڑی عید) ہے، اللہ نے ہرگز کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس نے اس دن کو عید منائی ہے اور اس کی حرمت کو پہچانا ہے۔ اس عید کا نام آسمان میں "یوم العہد المعہود" (متعینہ عہد) اور روئے زمین پر "یوم المیثاق المأخوذ" (مسلمانوں سے اخذ شدہ، یا لیا گیا عہد) نامہ) اور "یوم جمع المشہود" (وہ دن جس میں لوگ انتہائی اہم معاملے کے لئے جمع ہوں)، ہے۔۔۔ اور اس دن ایک مؤمن کو افطار کرانا۔ (13) بعض روایات کے مطابق امام رضا (علیہ السلام) نے غدیر کے دن لوگوں کے ایک گروہ کو افطار کے لئے روک لیا۔ (14)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخذ:
1۔ سورہ آل عمران آیت 96۔
2۔ سورہ توبہ آیت 108۔
3۔ سورہ بقرہ آیت 10 تا 12۔
4۔ سورہ توبہ آیت 100۔
5۔ سورہ حدید آیت 10۔
6۔ سورہ اعراف آیت 143۔
7۔ سورہ انعام آیت 163۔
8۔ سورہ بقرہ آیت 41۔
9۔ المراقبات، میرزا جواد بن میرزا شفیع مَلِکِی تبریزی، ص256۔
10۔ اقبال الاعمال، سید بن طاؤس، ج2، ص262؛ بحارالانوار، ج95، ص322۔
11۔ بحار الانوار، ج95، ص323۔
12۔ المراقبات، ميرزا جواد آقا تبريزى، ص 256۔ مصباح المتهجد للطوسي ص 752، مناقب آل أبي طالب لابن شهر آشوب ج 3 ص 43، مصباح الزائر للسيد ابن طاووس الفصل 7، بحار الانوار ج 94ص 118۔
13۔ التهذيب، شيخ طوسى، ج3، ص143۔
14۔ الغدير، علامه امينى، ج1، ص287۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110