اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعرات

15 جون 2023

1:56:35 PM
1373210

نیٹو کو رسوائی کا سامنا؛

یوکرین میں نیٹو کے ہتھیار عبرت کا نشان!

حالیہ ایام میں یوکرینی افواج نے امریکہ اور یورپ (نیٹو) کی مدد سے، اگلے مورچوں پر روسی دفاعی دیوار کو توڑنے کی کوششیں نہ صرف ناکام رہی ہیں بلکہ یوکرین کے مشرقی اور جنوب مشرقی علاقے جدید ترین مغربی فوجی سازو سامان اور ہتھیاروں کا قبرستان بن گئے ہیں۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، نیٹو کے رکن ممالک نے گذشتہ مہینوں میں یوکرینی افواج کو اچھی خاصی تربیت دی اور اربوں ڈالر کے ہتھیار یوکرین منتقل کرکے انہیں جدیدترین ہتھیاروں سے لیس کیا اور مہینوں انتظار کے بعد، کچھ دنوں سے یوکرینی افواج نے مختلف علاقوں کو روسی افواج سے چھڑانے کے لئے کاروائیوں کا آغاز کیا ہے۔ یہ کاروائیاں مشرقی اور جنوب مشرقی علاقوں میں شروع ہوئیں۔ امریکی اور یورپی حکمرانوں کی توقع تھی کہ یہ جوابی کاروائیاں پندرہ مہینوں سے جاری جنگ میں یوکرین کے حق میں ایک تاریخ موڑ ثابت ہونگی؛ لیکن گذشتہ چند دنوں سے جاری یوکرینی جوابی حملے نہ صرف ان کی توقعات پر پوری نہیں اتر سکے ہیں بلکہ مغربی فوجی صنعت کے لئے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔

یوکرین کے جاری حملے شاید، ماسکو کے ساتھ ممکنہ مذاکرات سے پہلے، نیٹو کے ترکش کا آخری تیر ہے کیونکہ یوکرینی افواج گذشتہ ایک سال سے بھی زیادہ عرصے سے، ہر طرح کی مغربی فوجی امداد کے باوجود، نہ صر جزیرہ نما کریمیا کو روسی افواج سے نہیں چھڑا سکی ہیں بلکہ چار بڑے یوکرینی علاقوں "دونیتسک (Donetsk)، لوہانسک (Luhansk)، خیرسون (Kherson) اور زاپروژیا (Zaporizhia)" کو بھی کھو گئی ہیں اور یہ علاقے روسی وفاق میں ضم ہوئے ہیں؛ اور یوکرین کے بیشتر بنیادی ڈھانچے تباہ ہوچکے ہیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔ اور تو اور، حال ہی میں مشرقی یوکرین کا تزویراتی اہمیت کا حامل شہر باخموت (Bakhmut) روس کنٹرول میں آیا ہے۔

جس وقت سے مغربی ذرائع میں کلیدی لفظ "Counterattack" نیٹو کے رکن ممالک کے ذرائع میں نمایاں ہو کر ابھرا اور اسی بہانے ہتھیاروں اور فوجی مسائل کی ترسیل میں شدت آئی اور اور اسلحے کی ترسیل نئے مرحلے میں داخل ہوئی، مغربی ممالک نے روس پر شکست مسلط کرنے کی کوششوں میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے۔ انھوں نے ابتدائی طور پر ـ روس کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ کے خوف سے ـ  کچھ ہتھیاروں اور گولہ بارود کی ترسیل کو "سرخ لکیر" سے عبور، قرار دیا تھا؛ لیکن حالیہ چند مہینوں میں انہوں نے اپنا موقف بدل دیا اور اپنی ہی متعین کردہ سرخ لکیر کو مسترد کیا تاکہ یوکرین کی جنگ میں روس کے مقابلے میں کامیابی سے ہمکنار ہوں!

لیکن نیٹو کی نیابتی کاروائیوں (NATO proxy operations) کے آغاز سے تقریبا 12 دن گذرنے کے باوجود روسی دفاعی حصاروں میں سے کوئی حصار نہیں ٹوٹا جا سکا ہے؛ دوسرے لفظوں میں ان کاروائیوں کے پہلے مرحلے کو بند دروازوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یا یوں کہئے کہ روسی توپخانے، ہیلی کاپٹروں اور ڈرون طیاروں نے اپنے شدید حملوں سے سینکڑوں یوکرینی _ مغربی جنگی گاڑیوں، ٹینکوں اور توپوں کو تباہ کرکے، ان کاروائیوں کی پہلی اور دوسری لہروں کو کچل کر رکھ دیا ہے۔

یوکرین کے مبینہ جوابی حملوں کی ناکامی کا اعتراف

مغربی ذرائع ابلاغ نے ـ جو حالیہ مہینوں میں یوکرین کی جوابی حملوں کے بارے میں بہت شور و واویلا مچائے ہوئے تھے، اور اس بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے تھے ـ گذشتہ ہفتے ان حملوں کے آغاز سے لے کر اب تک، متعلقہ علاقوں کی زمینی صورت حال کے بارے میں خاموشی اختیار کر لی ہے۔ لیکن مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ [جن کا تعلق امریکہ اور اہم یورپی ممالک سے ہے] میں شائع ہونے والی چند رپورٹوں میں روس کی تقویت یافتہ لائنوں میں دراندازی کی یوکرینی فوج کی کوششوں کی ناکامیوں اور مغربی ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کو پہنچے والے نقصانات نیز یوکرینی فوج کے جانی نقصانات کی طرف اشارے ہوئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ حملے روسی اندازوں اور تخمینوں کی تبدیلی میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کر سکے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے 12 جون (2023ع‍) کو اپنی رپورٹ بعنوان "روس کے ترقی یافتہ ہتھیار اور بہتر حکمت عملیاں یوکرین کے جوابی حملے کے لئے چیلنجوں کا باعث ہیں"، میں لکھا حملے کے پہلے مرحلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "یوکرینی افواج نے کئی محاذوں پر حملے کئے ہیں، لیکن وہ روسی افواج کی تہہ در تہہ دفاعی لائنوں کے مقابلے میں بہت کم کامیابی حاصل کر سکی ہیں"۔

اس امریکی اخبار کے اعتراف کے مطابق، روس نے اپنی جنکی حکمت عملی بدل دی ہے، فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے اور بہتر ہتھیار تعینات کرکے 1,000 کلومیٹر پر مشتمل فرنٹ لائن میں مضبوطی دفاعی اقدامات کئے ہیں، جو یوکرین کی فوری اور فیصلہ کن فتح کو چیلنجوں سے دوچار کرکے اس جنگ کو تھکا دینے والی طویل جنگ میں بدل سکتے ہیں۔

امریکی چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی (Mark Milley) نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس یہ خلاف توقع نہیں ہے کہ یوکرین کی جنگ تھکا دینے والی طویل جنگ میں بدل جائے۔

ادھر یوکرینی عسکری تجزیہ کار اولے ژدانوف (Oleh Zhdanov) روسی فوجی، یوکرینی طیاروں کو ناکارہ بنانے کی غرض سے وسیع پیمانے پر ڈرون طیاروں اور برقی جنگ (یا برقی مقناطیسی جنگ = Electromagnetic warfare) کے آلات کا استعمال کر رہا ہے۔

اولے کا کہنا تھا کہ روسی فضائیہ اپنے بموں کی تجدیدکاری کی ہے اور انہیں کارآمد اور مؤثر ہتھیاروں میں تبدیل کر چکا ہے؛ اور ان تبدیلیوں سے روسی فضائیہ کو یہ امکان فراہم کر دیا ہے کہ وہ اپنی جنگ طیاروں  کو خطرے میں ڈالے بغیر یوکرینی فوجیوں پر اپنے حملوں میں اضآفہ کریں۔

مشہور برطانوی دفاعی اور سیکورٹی تھنک ٹینک "رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ "روسی" (Royal United Services Institute [RUSI]) کے تجزیہ کاروں نے بھی یوکرین کے ساتھرروس کی جنگ کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے روس نے اگلے مورچوں پر ٹینک شکن اور نفری کو نشانہ بنانے والی پیچیدہ بارودی سرنگیں یوکرین کے حملوں کے لئے بہت بڑا چیلنج ہیں۔

رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ نے مزید لکھا ہے کہ: روسی افواج کی طرف اس پیمانے پر گولہ باری یوکرین کے حملوں کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے، روس کے برقی مقناطیسی جنگی مشینری ہر مہینے بے شمار یوکرینی ڈرون طیاروں کو مار گراتی ہے، اور وہ بدستور اور بدستور یوکرینی ٹیکٹیکل مواصلات کا سراغ لگانے اور ڈی کوڈ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق، روسی افواج نے امریکی ساختہ ہمارس (HIMARS) گائیڈڈ راکٹوں کاکامیابی سے سراغ لگانے اور مار گرانے کے گر سیکھ لئے ہیں۔

ادھر بی بی سی کی رپورٹ مین کہا گیا ہے کہ یوکرین کی کاروائیوں کی حدود واضح نہیں ہیں لیکن امریکہ میں تعینات تھنک ٹینک "انسٹی ٹیوٹ برائے جنگی مطالعات" (Institute for the Study of War [ISW]) نے کہا ہے کہ یوکرینی فوجیں فرنٹ لائن کے کم از کم چار علاقوں میں حملے کر رہی ہیں اور شدیدترین لڑائی میں جنوب مغربی "دونیتسک (Donetsk)، واقع شہر باخموت (Bakhmut)، اور کریمینا (Kreminna) کے نزدیک اور زاپروژیا (Zaporizhia) کے مغرب میں لڑی جا رہی ہے۔

برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے گذشتہ جمعرات (8 جون 2023ع‍) کو یوکرین کے دارالحکومت کیئف (Kyiv) میں دو مغربی اہلکاروں، یوکرین کے دو فوجی اہلکاروں اور عسکری مبصرین کے حوالے سے لکھا تھا کہ یوکرین نے جرمن ساختہ ٹینکوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بھاری بکتر بند حملے شروع کر دیئے ہیں۔

بی بی سی کے اعتراف کے مطابق، یوکرین روسی ساز و سامان اور مورچوں کا جائزہ لیتے ہوئے کچھ ناکامیوں سے دوچار ہؤا ہے، اور کچھ یوکرینی سپاہیوں نے فرانسیسی خبر ایجنسی سے کہا ہے کہ

انہوں نے جمعرات کے دن جدید ساخت کی کئی امریکی بریڈلی جنگی گاڑیاں (Bradley Fighting Vehicles) کھو دی ہیں!

امریکی چینل سی این این نے معلوماتی تجزیوں کے حوالے سے رپورٹ دی کہ یوکرینی فوج گذشتہ چند دنوں کے دوران امریکہ کی فراہم کردہ 16 بکتر بند گاڑیاں، کھو چکی ہے۔

امریکی اخباری ویب گاہ پولیٹیکو (Politico) نے لکھا ہے کہ روسی افواج کامیابی کے ساتھ یوکرین کے جوابی حملوں کو ناکام بنا رہی ہيں، اور تباہ شدہ جرمن ساختہ لیوپارڈ (Leopard) ٹینکوں کی تصویریں سوشل میڈیا پرگردش کر رہی ہیں نیز سوشل میڈیا پر ہی پیدل فوج کے لئے تیار کردہ تباہ شدہ اور جلتی ہوئی امریکی ساختہ بریڈلی بکتربند گاڑیوں کے ویڈیو کلپس نشر کئے جا رہے ہیں۔

ادھر وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے اسٹریٹجک کمیونیکیشن کے رابطہ کار جان کربی (John Kirby) نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے باخموت شہر کے نواح میں لڑی جانی والی گھمسان کی جنگ میں یوکرینی فوج کو پہنچنے والے جانی نقصان اور امریکی ہتھیاروں کو پہنچے والے نقصانات کی تصدیق کی ہے۔

موصولہ رپورٹوں کے مطابق باخموت میں روسی توپخانے کی غیر معمولی گولہ باری سے یوکرینی فوج کو شدید جانی نقصان سے دوچار کرتے ہوئے اس کے ہتھیاروں اور فوجی سازوسامان کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور انہیں مورچے چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا ہے۔

مغربی سازوسامان کی تباہی، خاص طور پر لیوپارڈ سمیت ہر قسم کے آلات اور ہتھیاروں سے لیس ٹینکوں کی تباہی اس حد تک ہے کہ یوکرین کے حکام نے روس کے ساتھ میدان جنگ میں تباہ ہونے والے ہتھیاروں اور جنگی ساز و سامان کی کی تبدیلی اور مغربی ہتھیاروں اور جنگی وسائل کی یوکرین ترسیل پر زور دیا ہے! جبکہ بہت سے مغربی ممالک کہہ چکے ہیں کہ ان کے ہتھیاروں اور گولہ بارود کو گودام خالی ہو چکے ہیں!

یوکرین کے نائب وزیر خارجہ آندرے میلنک (Andriy Melnyk) ـ جو برلن میں یوکرین کے سابق سفیر تھے ـ جرمن ہفت روزہ جریدے اسپیگل (Der Spiegel) سے بات چیتکرتے ہوئے کہا: یوکرینی فوج کو مغربی جنگی ٹینکوں، پیدل دستوں کے لئے جنگی گاڑیوں اور دوسری بکتربند گاڑیوں کی فوری ضرورت ہے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق، ایسے حال میں کہ روس کے خلاف یوکرین کا جوابی حملہ جاری ہے، امریکی اور یورپی حکام نجی حلقوں میں اعتراف کر رہے ہیں کہ بہت بعید ہے کہ یوکرینی حکام اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں اور تمام روسی افواج کو یوکرین سے نکلنے پے مجبور کر سکیں۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس کے خلاف یوکرینی جنگ کی کامیابی کے لئے دو مسئلے مد نظر رکھے جاتے ہیں: ایک یہ کہ یوکرین ان علاقوں کے کلیدی اور اہم حصوں کو روسیوں سے چھڑا دے، اور ان کی حفاظت کرے اور دوسری بات یہ کہ یوکرین روس کو ایسا بے بس کر دینے والا دھچکا لگا دے، جو کریملن کو مجبور کرے کہ وہ مستقبل میں یوکرین میں فوجی آپشنز اپنانے کی پالیسی پر سوال اٹھائے!

اسی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مندرجہ بالا تجاویز اپنی جگہ لیکن یوکرین کے جوابی حملے کی ناکامی زیادہ ممکن ہے۔ اور اگر کسی اہم شہر پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے ـ بالخصوص اگر جانی اور فوجی نقصانات بہت شدید ہوں ـ تو اتحادی ممالک کے دارالحکومتوں اور امریکی کانگریس میں بعض حکام یوکرین کی فوجی حمایت کے سلسلے میں تذبذب کا شکار ہونگے۔

یاد رہے کہ یوکرین کے روسی نژاد باشندوں سے متعلق علاقوں میں روس کی خصوصی کاروائی کے آغاز سے اب تک تقریباً 16 مہینے گذر چکے ہیں، نیٹو کے رکن ممالک نے دل کھول کر یوکرین کو مالی اور فوجی مدد فراہم کی ہے، لیکن آج واقعہ یہ ہے کہ یوکرینی سرزمین کا 20 فیصد حصہ روس کے قبضے میں چلا گیا ہے اور روس میں ضم ہو گیا ہے؛ یوکرین کے بنیادی ڈھانچوں کی وسیع پیمانے پر تباہی بجائے خود زیلینسکی کے لئے چیلنچ کی حیثیت رکھتی ہے، اب تک ان کے ہاتھوں مغرب سے وصول کردہ دسوں ارب ڈالر کی امداد یوکرین کی تباہی پر صرف ہوئی ہے اور اب یوکرین کی تعمیر نو کے لئے اس سے کئی گنا زیادہ مغربی امداد کی ضرورت ہوگی؛ اور معلوم نہیں کہ کیا وہ جنگ کے بعد بھی یوکرین کی مدد کرنا چاہیں گے، اور کیا یہ امداد بعد از جنگ مغرب کے مفاد میں ہوگی؟ اور ہاں! کیا مغرب کے پاس جنگ کے بعد، یوکرین کی امداد کے لئے وسائل ہونگے اور کیا وہ یوکرین کی مدد کر سکیں گے یا ایک بڑی اور ناکام جنگ لڑنے کے بعد اپنے زخم چاٹنے میں مصروف ہو جائیں گے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110