عالمی اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق ڈاکٹر علی رضا معاف نے ایک مضمون میں لکھا:
رہبر انقلاب امام خامنہ ای (حَفِظَہُ اللہُ تَعَالیٰ) کی قیادت کے 34 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے بھی میں نے ایک تفصیلی مضمون بعنوان "تأسیس منطق حِکمی در فهم تصمیمات رهبر انقلاب" (رہبر انقلاب کے فیصلوں کے ادراک میں فلسفیانہ منطق کا کی تأسیس) میں رہبر انقلاب کے انتظام اور قیادت کی پیچیدگیوں، اور رہبر (قائد) اور ولی فقیہ کے عمل کے ادراک کی روشوں اور اصولوں کو تفصیل سے بیان کیا تھا؛ اس مضمون میں امام سید علی خامنہ ای (حَفِظَہُ اللہُ تَعَالیٰ) کی قیادت کے ظرائف و لطائف، باریکیوں اور پیچیدگیوں کے فہم و ادراک کی اہم ترین شہ سرخیوں کا جائزہ لیا جائے گا۔
1۔ دوسرے قیادت کے مسائل اور تقاضے
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے منتخب کیا تو انھوں نے اپنے پہلے مشن میں ہی پروردگار عالم سے التجا کی کہ ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو بھی ان کے ساتھ اس مشن پر مامور فرمائے تاکہ وہ دونوں طاغوت اور فرعون کے خلاف جدوجہد کا بوجھ مل کر اٹھائیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا استدلال یہ تھا کہ "ہارون مجھ سے زیادہ فصیح اور خوش بیان ہیں، اور وہ میری جانشینی کی ذمہ داری سے بخوبی عہدہ بر آ ہو سکتے ہیں:
"وَاجْعَل لِّي وَزِيراً مِّنْ أَهْلِي * هَارُونَ أَخِي * اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي * وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي؛ اور قرار دے میرے لئے وزیر (پشت پناہ) قرار دے میرے خاندان میں سے * ہارون کو جو میرے بھائی ہیں * میری کمر کو ان کے ذریعے مضبوط کر دے * اور انہیں میرے کام میں شریک کر دے"۔ (سورہ طٰہٰ، آیات 29 تا 32)
ہارون (علیہ السلام) تمام امور و معاملات اور تمام مراحل میں موسیٰ (علیہ السلام) کے ناصر و مددگار رہے؛ فرعون سے نمٹنے کے مراحل سے لے کر ہٹ دھرم یہودیوں کو مصر سے کوچ کرانے اور بعدازاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عالمی حکومت کے قیام تک۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بہت سارے مواقع پر ـ کسی مشن پر جاتے ہوئے، یا اپنی غیر حاضری کے وقت، یا اپنے بعد کے ایام کے انتظام کے لئے ـ کہا تھا کہ "میں ہارون کو اپنے بعد تمہارے درمیان جانشین مقرر کرتا ہوں"؛ اور "ان کی پیروی میری پیروی ہے" ۔
حضرت کلیم البتہ سال کے بعض ایام میں ـ اپنی قوم کو۔ جس پر کہ وہ بہت مہربان اور شفیق تھے ـ تنہا چھوڑ کر رب العالمین کے ساتھ راز و نیاز کے شوق سے، کوہ طور پر عزیمت کرتے تھے۔ قوم موسیٰ نے ہارون کے وہ تمام اقوال اپنے پیغمبر موسیٰ (علیہ السلام) سے سن رکھے تھے، مختلف مواقع پر پیغمبر کے جانشین کے طور ان کی پیغمبرانہ اور انتظامی صلاحیت کا قریب سے مشاہدہ کر چکے تھے، لیکن اس کے باوجود وہ ہارون کے ساتھ، وہ طرز سلوک روا نہیں رکھتے تھے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ روا رکھتے تھے، اور پہلے قائد کی طرح، اپنے دوسرے قائد کی پیروی نہیں کرتے تھے۔
اس سلسلے میں پرودگار عالم کا ارشاد ہے:
"وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِن قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنتُم بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي؛ ہارون نے اس سے پہلے ان سے کہہ دیا تھا کہ اے میری قوم والو! تمہیں اس کی وجہ سے آزمائش میں ڈآل دیا گیا اور یقیناً تمہارا پروردگار وہ ہے جو سب کو فیض پہنچانے والا ہے تو تم میری پیروی کرو اور میرے حکم کی تعمیل کرو"۔ (سورہ طٰہٰ، آیت 90)
لیکن قوم نے جواباً کہہ دیا:
"قَالُوا لَن نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَى؛ بولے ہم اس [بچھڑے] کی پوجا میں برابر لگے رہیں گے یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف واپس آئیں"۔ (سورہ طٰہٰ، آیت 91)
اور یوں یہ قوم ہارون (علیہ السلام) کی اطاعت چھوڑ کر سامری کے پیچیدہ فتنے میں الجھ گئی۔ موسیٰ (علیہ السلام) میقات سے واپس آئے، حالات کو دیکھا تو ہارون (علیہ السلام) سے کہنے لگے:
"قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا * أَلَّا تَتَّبِعَنِ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي * قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي؛ انھوں نے کہا: "اے ہارون! کس چیز نے تمہیں روکا کہ جب تم نے دیکھا کہ وہ گمراہ ہو گئے ہیں * تو تم میرے پیچھے چل کر نہيں آئے، تو کیا تم نے میرے حکم کی نافرمانی کی؟ * انھوں نے کہا اے میرے ماں جائے میری داڑھی اور میرے سر کے بال نہ پکڑیئے مجھے ڈر تھا کہ آپ کہیں گے: تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کا خیال نہ کیا"۔ (سورہ طٰہٰ آیات 92 تا 94)
مسئلہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل نے دین تو موسیٰ (علیہ السلام) سے اخذ کیا تھا اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات سے باہر کے ولی کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے عاری تھے۔ وہ گمان کرتے تھے کہ جس ولی [موسیٰ (علیہ السلام)] کے ساتھ انھوں نے مل کر انقلاب بپا کیا تھا، طاغوت کو نیل [یا بحر احمر] میں غرق کر دیا تھا، اور ان کے ساتھ مل کر عالمی حکومت قائم کی تھی، اگر وہ دنیا سے اٹھ جائے، یا اوجھل ہو جائے، تو اس کا دین بھی اس کے ساتھ دفن ہو کر نیست و نابود ہو جائے گا۔ یعنی یہ کہ قوم بنی اسرائیل نے پہلے رہبر کو رہبر کے عنوان سے تسلیم کیا لیکن انتقال قیادت (یا رہبری کی منتقلی) میں بگاڑ اور جمود کا شکار ہوئی۔ البتہ یہ مصیبت اسلام کے صدر اول میں زیادہ پیچیدہ پہلؤوں کے ساتھ دہرائی گئی۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دور کے حجاز اور مکہ اور مدینہ کے لوگ رحمۃٌ للعالمین (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے بہت محبت کرتے تھے، اور اپنی جانیں آپ پر نچھاور کرتے تھے؛ یہاں تک کہ اللہ کے آخری پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے وضو کا ایک قطرہ ـ جو آنحضرت کے چہرہ مبارک سے جاری ہوتا تھا ـ بھی بعنوان تبرک اٹھا لیتے تھے، اور زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے۔ اس قوم نے بھی قوم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی شان میں رسول اللہ الاعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی تاکیدات اور ارشادات کو سن رکھا تھا؛ انہوں نے آپ ہی کی زبان مبارک سے سن لیا تھا کہ آپ نے علی بن ابی طالب (علیہما السلام) سے فرمایا:
"أنتَ مِنّي بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لا نَبيَّ بَعدي؛ آپ کا مرتبہ میرے نزدیک ایسا ہے جیسے کہ ہارون کا مرتبہ تھا موسیٰ کے نزدیک، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا"۔ (1)
لیکن جب غزوہ احد میں آنحضرت کی شہادت کی افواہ اڑی تو وہ لرزہ بر اندام ہوئے، اور دین خدا کا کام تمام سمجھنے لگے! یہاں تک کہ اللہ نے انہیں یاددہانی کرائی اور ارشاد فرمایا:
"وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىَ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللّهَ شَيْئاً وَسَيَجْزِي اللّهُ الشَّاكِرِينَ؛ اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) نہیں ہیں مگر ایک پیغمبر جن کے پہلے سب ہی پیغمبر گذر چکے ہیں تو کیا یہ [اگر] مر جائیں یا مار ڈالے جائیں تو تم الٹے پاؤں پلٹ جاؤ گے اور جو الٹے پاؤں پلٹ جائے تو وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچائے گا اور وہ وقت قریب ہے جبکہ اللہ شکر گزاروں کو صلہ عنایت فرمائے گا"۔ (سورہ آل عمران، آیت 144)
عوام میں دین کے امور آگے بڑھانے کے لئے دوسرے رہبر [اور پیغمبر کے جانشین] کے سمجھنے اور ادراک کرنے کی عدم استعداد اس کے علاوہ تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بعد کے عہد میں بہت سوں نے ـ عدم اہلیت اور امت کی راہنمائی کی عدم صلاحیت کے باوجود ـ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے الٰہی منصب پر نظریں گاڑھی ہوئی تھیں اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے حسد برتتے تھے۔
بہرحال امت نے اگرچہ رسول اللہ الاعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ولایت و امامت کو تسلیم کیا، اور آپ کی حیات میں آپ کے احکامات کی تعمیل بھی کی لیکن آپ کے وصال کے بعد رہبری کی منتقلی کے بارے میں [آپ کی حکم عدولی کی] تنگ نظری، سطحی سوچ، کوتاہ نظری، ناعاقبت اندیشی اور غلطی سے دوچار ہوئی؛ اور آنحضرت کے ارشادات کو نظر انداز کیا۔
معاشرے میں ایسے لوگ ابھرے جو اپنے آپ کو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا ہم پلہ سمجھنے لگے، اور اس کے باوجود کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی تصریحات اور اعلانات کو آپ کی زبان مبارک سے سن لیا تھا جو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی صلاحیت اور فضیلت کو ثابت کرتے تھے، اور خود بھی حضرت امیر (علیہ السلام) کی صلاحیتوں اور فضیلتوں سے بخوبی واقف تھے؛ لیکن ان کی حُبِّ دنیا اور اقتدار پسندی نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو گھر بٹھا دیا اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بہترین متبادل 25 سال تک خانہ نشیں ہوئے اور امت مسلمہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی امامت و قیادت سے محروم ہوئی۔
ان خواص کو قاعدے کے مطابق، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا فرمان سر آنکھوں پر رکھنا چاہئے تھا اور امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی اطاعت گزاری کا اعلان کرنا چاہئے تھا اور آپ کی مدد کے لئے اٹھنا چاہئے تھا مگر انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ ہر ایک نے خود کو آنجناب کے مد مقابل ایک فرد، فرض کر لیا اور آپ کی پیروی کے لئے تیار نہیں ہوئے۔
یہی نہیں بلکہ 25 سال بعد، جبکہ مشہور صحابیوں کی اکثریت دنیا سے رخصت ہو چکی تھی، اور مسلمانوں نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے ساتھ عمومی بیعت کی پھر بھی طلحہ اور زبیر جیسے مشہور صحابیوں نے آپ کے ساتھ اپنی بیعت کو مشروط کرنے کی کوشش کی، اور شرط یہ لگائی کہ اقتدار میں ان کا حصہ محفوظ رکھا جائے [اور گذشتہ خلفاء کے دور کی طرح، بیت المال میں سے ان کا حصہ دوسرے مسلمانوں کی نسبت زیادہ مقرر کیا جائے!] اور جب امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے انہیں غیر مشروط اطاعت گزاری کی طرف بلایا، تو بیعت شکنی پر اتر آئے اور ناکثین کے زمرے میں آکر جنگ جمل کا فتنہ کھڑا کیا اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے خلاف تلوار اٹھائی!
یہ دوسرے قائدین کی دشواریوں میں سے ایک ہے کہ انہیں پہلی قیادت کے بعد لوگوں کے ایسے طبقے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو پہلے اور دوسرے قائد کے درمیانی فاصلے میں تمیز کی صلاحیت نہیں رکھتا، اور دوسری طرف سے پہلے رہبر کے آس پاس کے راستہ بدلنے والے خواص ـ جو خود کو دوسرے قائد کے ہم پلہ بھی سمجھتے ہیں ـ ان لوگوں کو بغاوت، نافرمانی اور عہد شکنی کی ترغیب دلاتے ہیں۔
ایسا ہی ہے یہ مسئلہ بھی کہ جب دوسرے قیادت کے دور میں، ضابطے کے مطابق، رہبر کی طرف سے معاشرے کی پیشرفت کی پالیسی کی تعین، تفسیر اور تشریح کا اہتمام کیا جاتا ہے اور عوام بھی اس کی پیروی کرتے ہیں، تو مسترد شدہ خواص، جو معمول کے مطابق انقلابیوں کی پہلی نسل سے ہوتے ہیں، معاشرے کے قائد سے رشک و حسد برتتے ہیں اور اپنی خود ساختہ تفسیر و تشریح اور پالیسی کو معاشرے کے سامنے رکھتے ہیں جو رہبر کی پالیسی سے متصادم ہوتی ہے، یا حتی پالیسی تبدیل کرنے یا اس کی تأویل کرنے ہیں اور اپنی مرضی کی تاریخ سازی کے ذریعے، رہبر کے مقابلے میں انحراف، نافرمانی، عصیان اور سرکشی کو جائز اقدام کے طور پر ذہنوں میں ڈال دیتے ہيں۔ یہ مسئلہ سبب بنتا ہے کہ دوسرے رہبر کے ہاتھ ـ رہبر اول کی بہ نسبت ـ بندھ جاتے ہیں اور انتظامی اقدامات مشکل اور بھاری ہو جاتے ہیں۔ اور پھر چونکہ یہ لوگ عمر کے لحاظ سے بڑھاپے کے دور سے گذر رہے ہوتے ہیں، اسی لئے با اثر بھی ہوتے ہیں اور معاشرے میں سیاسی و سماجی شان و منزلت بھی رکھتے ہیں، چنانچہ نہ تو ان کے ساتھ سخت رویہ رکھ کر ان کی فتنہ گری کا راستہ روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کے خطرناک اقدامات سے چشم پوشی کی جا سکتی ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے بیٹے بیٹیاں اور حاشیہ بردار بھی میدان میں آتے ہیں اور اپنے خاندانی اثر و رسوخ کی رو سے انقلاب کی میراث سے اپنا حصہ طلب کرنے لگتے ہیں! اور اس لئے کہ ایک طرف سے وہ میں اپنے باپوں اور پہلے اور دوسرے قائد کے بپا کردہ انقلاب کے مقابلے میں کسی طرح تکلف روا نہیں رکھتے، اور دوسری طرف سے بہت بے باک، لاپروا اور انقلاب کی بنیادیں منہدم کرنے کی گستاخی کے حوالے سے اچھی خاصی استعداد کے حامل ہوتے ہیں، چنانچہ انقلاب کی دوسرے راہنماؤں کے لئے ان سے نمٹنا بذات خود ایک حساس اور سنجیدہ مشکل ہے؛ حالانکہ اس قسم کے مشکل مسائل پہلے رہبر کے زمانے میں پیش نہیں آتے۔
دوسرے رہبر کو درپیش ایک بڑا مسئلہ، جو مذکورہ مسائل سے جنم لیتا ہے، یہ ہے کہ اس کے زمانے میں ریاکاری، دوغلاپن اور نفاق ظہور پذیر ہوجاتا ہے۔ کیونکہ پہلے رہبروں کا سامنا، فطری طور پر، انقلاب کے کھلے دشمن سے ہوتا ہے اور اسی راہ میں معاشرے کو راہنمائی فراہم کرنا ہوتا ہے۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ، دوسرے رہبروں کا سامنا سابقہ دوستوں اور موجودہ منافقوں سے ہوتا ہے، جو معاشرے کے اندرونی سانچے میں اسی کھلے دشمن کے اہداف و مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ تنزیل القرآن پر جنگ (رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانے کی جنگیں) اور تأویل القرآن پر جنگ (امیرالمؤمنین علیہ السلام کے دور کی جنگیں) دو قسم کی جنگیں (2) ہیں اور جو کچھ اوپر عرض ہؤا، وہ اسی فرق کا عکاس ہے۔ چنانچہ تدبیر، رواداری، اور صبر کو دوسرے رہبر کے زمانے میں، انحرافات کی دو قسموں سے نمٹنے کے لئے بروئے کار لایا گیا ہے۔
گردش ایام کے اثرات
دوسرے قائدین کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم مگر فطری مسئلہ انقلاب اسلامی کے معرض وجود میں آنے کے آغاز سے گذرنے والا عرصہ ہے۔ کیونکہ انقلاب کے معرض وجود میں آتے وقت کچھ لوگ "جذباتی ہوکر" انقلاب کے عمل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد محسوس کرتے ہیں کہ انقلاب ان کے مفاد میں نہیں تھا، چنانچہ وہ اپنی راہ ٹیڑھی کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو انقلاب کے ارمانوں اور اہداف و مقاصد کے حصول کی کوششوں سے تھک جاتے ہیں، اور تحفظات کا شکار ہو کر انقلاب کے راہ پر اپنے سفر سے "نادم و پشیمان" ہو جاتے ہیں؛ کچھ وہ ہیں جو انقلاب کے دوران کے جانی تکالیف اور مالی نقصانات کو برداشت نہیں کر سکتے ہیں اور اپنے ماضی کے کردار اور اصولی طور پر انقلاب کی نفی کرتے ہیں؛ کچھ پرانے انقلابی اس دوران دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور یوں دوسرے رہبر کے زمانے میں انقلاب کی حامی نسل کے افراد کی تعداد میں کمی آتی ہے۔ اور پھر ان راہنماؤں کا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں انقلابی اقدار کو اگلی نسلوں میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔
مذکورہ مسائل کے علاوہ، کوشش کی جائے تو ایسے دوسرے مسائل کو بھی تلاش کیا جا سکتا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے رہبر کو درپیش مسائل اگر پہلے رہبر کے زمانے کی مشکلات سے زیادہ نہ ہوں، تو کم ہرگز نہیں ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں بھی یہ مسائل، اس انقلاب کی عظمت کے تناسب سے، پیش آئے ہیں اور اگرچہ عوام اور اہل علم و دانش کی مطلق اکثریت نے دوسرے ولی کی پہچان کے سلسلے میں اپنی قابلیت کو بخوبی ثابت کرکے دکھایا ہے اور انقلاب اسلامی کے راہ پر پورے عزم کے ساتھ گامزن ہیں، لیکن انصاف کے تقاضوں کی رو سے کہنا پڑتا ہے کہ رہبر معظم امام خامنہ ای (حَفِظَہُ اللہُ تَعَالیٰ) کی انتظامی قوت، صبر، رواداری، قائدانہ صلاحیتوں اور زبردست تدابیر و انتظامات نے آپ کی قیادت کے پورے 34 سالہ دور کو اس طرح سے پر کردیا ہے کہ معاشرے میں امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ) کی غیر موجودگی کا خلاء محسوس نہیں ہؤا، گوکہ کچھ لوگوں نے دوسرے حوالوں سے مسائل پیدا کئے، نادم انقلابیوں کی اولاد نے ابہامات پیدا کرنے کی کوششیں کیں اور کچھ لوگوں نے حصہ مانگ لیا! بہرحال پہلی اور دوسری قیادت کے درمیان فرق کی وضاحت امام خامنہ ای (حَفِظَہُ اللہُ تَعَالیٰ) کی زبردست کامیابوں کو عیاں کرتی ہے۔
2۔ تنزیل اور تأویل پر جہاد: تاسیس اور تثبیت (استحکام پیدا کرنے) کا جہاد
مورخہ 4 جون 1989ع کو انقلاب اسلامی کے رہبر کبیر اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت آیت اللہ سید روح اللہ موسوی خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) کی رحلت کی خبر سے ایران، عالم اسلام اور عالمی نظام پر سکتہ طاری ہؤا۔ امام سے وداع کے دن کروڑوں انسانوں کی عزاداری سے گذریں تو انقلاب اسلامی اور اسلامی جمہوریہ کی حیات کے دوسرے ورق کی طرف توجہ دینا پڑتی ہے۔ مجلس خبرگان قیادت کے نمائندے وصال امام کے دن سے ہی اکٹھے ہوئے۔ اس وقت کے سربراہ مملکت آیت اللہ خامنہ ای نے آپ کا الٰہی_سیاسی_سماجی وصیت نامہ پڑھ کر سنایا، معدودے چند نمائندوں نے اختلاف کیا مگر مجلس خبرگان کے نمائندوں کی غالب اکثریت نے نئے ولی فقیہ کے کشف و تعین کا کام سرانجام دیا، اور آیت اللہ سید علی خامنہ ای (حَفِظَہُ اللہُ تَعَالیٰ) نئے رہبر کے طور پر پہچانے گئے۔ گوکہ اسی لمحے سے دوسرے رہبر کے مسائل کا بھی آغاز ہؤا۔ وہ لوگ جو قیادت کے سابق قائم مقام آیت اللہ منتظری اور کچھ سابقہ انقلابیوں کے گرد جمع ہوئے تھے اور امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ) کے زمانے میں خاموش تھے یا وہ جو اپنے بائیں بازو کے افکار کو ظاہر نہیں کر سکے تھے، مختلف حوالوں سے اکٹھے ہوئے تا کہ برسوں سے گھٹے ہوئے انحرافی افکار کا اظہار اور پرچار کر سکیں۔
اس لحاظ سے، تاریخ ہمیشہ گواہ رہی ہے کہ جب ایک الٰہی رہبر نے مختلف ادوار میں ایک الٰہی تحریک کا آغاز کیا ہے اور جب لوگوں نے اس کی حمایت کی ہے، اس کی وفات یا شہادت کے بعد کچھ لوگ اس کے جانشین کے پرچم تلے نہیں گئے ہیں اور اس اصلاحی اور انقلابی تحریک کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ منافقین اور شیاطین کے یہ اقدامات آدم ابو البشر (علیہ السلام) کے زمانے سے شروع ہوئے ہیں اور رسول اللہ الاعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دور تک اور آپ کے بعد کی الٰہی تحریکوں کے خلاف دہرائے گئے ہیں۔ پہلے رہبر کا نام لے کر دوسرے رہبر کی تنقیص کی گئی ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی تحریک کو فرعونیوں، قارونیوں، سامریوں اور بنی اسرائیل کے مطلق العنان افراد نے بحق خود ضبط (یا ہائی جیک) کر لیا؛ حضرت عیسی (علیہ السلام) کی تحریک کو معبد کے کاہنوں یا بظاہر عیسائیت اختیار کرنے والے یہودی کاہنوں نے قبضہ کر لیا اور آخرکار اسے ویٹکن (Vatican) کے پوپوں کے سپرد کیا گیا؛ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی تحریک کو سقیفہ بنی ساعدہ والوں نے قبضہ کرلیا یہودیوں نے موسیٰ اور عیسیٰ کے جانشینون ـ ہارون اور پطرس ـ کو خانہ نشین کر لیا اور امویوں نے علی اور آپ کے فرزندوں (علیہم السلام) کو تنہا کر دیا۔ گویا یہ تاریخ کی عادت بن چکی ہے کہ انبیاء کے اوصیاء اور اللہ کی طرف کے اولیاء اور ائمہ ـ جو ایک نئی حرکت کا آغاز کرتے ہیں ـ ان تحریکوں کے بانیوں سے کہیں زیادہ مسائل، رنج و مشقت، اور دشواریوں سے دوچار ہو جایا کریں۔ چنانچہ ہارون (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کے درمیان اختلاف اور دھڑے بندیوں کے خوف سے سامری کے فتنے کے مقابلے میں پسپائی اختیار کی اور حضرت امیر (علیہ السلام) نے دین اسلام کو محفوظ رکھنے کے لئے خانہ نشینی کو ترجیح دی۔ تو سوال یہ ہے کہ دوسرے رہبروں کو فتنہ گروں کے فتنوں کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے اور پہلے رہبروں سے زیادہ مسائل و مشکلات سے کیوں دوچار ہوتے ہیں۔
اس سوال کا جواب دینے کے لئے ابتداء میں صدر اول کے واقعات کا جائزہ لینا پڑے گا اور پھر تأویل اور تنزیل کے مفہوم سے واقفیت حاصل کرنا پڑے گی۔
ہجرت کے بعد کی تیسری دہائی میں سنہ 36ھ کے فرعی مسائل سامنے آئے، کوفہ اور شام کی دو سپاہوں کا آمنا سامنا ہؤا۔ ایک سپاہ کے سپہ سالار امیرالمؤمنین (علیہ السلام) تھے اور دوسری سپاہ کی کمان معاویہ بن ابی سفیان کے ہاتھ میں تھی۔ "روم" کی بستیوں میں سے ایک ویران بستی میں دو سپاہوں کا آمنا سامنا ہؤا۔ "عمار یاسر"، جو شرطۃ الخمیس" (3) کے ان بنیادی پانچ ارکان میں سے ایک تھے، جنہوں نے سقیفہ کے متنازعہ واقعے کے وقت آخری سانس تک امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا ساتھ دینے کا عہد کر لیا تھا۔ دوسرے خلیفہ کے دور میں کوفہ کے والی، کوفہ کی با اثر شخصیت، تیسری خلافت کے دوران سرکاری اداروں اور حکام کے نقائص کو عیاں کر نے والے اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے وفادار ساتھی تھے۔ جنگ صفین میں شامی سپاہ کے مد مقابل، سرگرم تھے اور چین سے نہیں بیٹھتے تھے، اور جب بھی عراقی سپاہ میں کہیں کوئی شک و شبہہ سامنے آتا تھا، عمار یاسر پہنچ جاتے تھے اور حاضرین کو خطبہ دیتے تھے۔ ان سے منقولہ ایک اہم ترین تاریخی جملہ جنگ صفین میں ان کی پہلی رجزخوانی میں ملتا ہے: "نحنُ ضَرَبناكُم عَلى تنزيلِه؛ فَاليَوم نضربُكم عَلى تأويلِه؛ ہم ماضی میں تم سے لڑے اس [قرآن] کی تنزیل پر * تو آج تم سے لڑ رہے ہیں اس کی تأویل پر". (4)
سادہ لوحی ہوگی اگر گمان کیا جائے کہ عشروں تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے مکتب کے شاگرد اور اولین شہدائے اسلام کے فرزند ارجمند عمار بن یاسر کے یہ الفاظ بالبداہہ ان کی زبان سے صادر ہوئے ہوں۔ لہٰذا قرآن کی "تنزیل" اور قرآن اور اسلام کی "تأویل" پر جہاد ایک نکتہ ہے جو احادیث نبوی سے ہم تک پہنچا ہے اور ان احادیث میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی طرف براہ راست اشارہ ہؤا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا ہے: یہ علی (علیہ السلام) تأویل قرآن پر جنگ کریں گے جیسا کہ میں نے تنزیل قرآن پر جنگ کی" (5) اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) جنگ جمل اور جنگ صفین اور دوسرے مواقع پر فرمایا کرتے تھے کہ "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) تنزیل کے لئے لڑے اور مجھے تأویل پر لڑنا پڑ رہا ہے"۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا مسئلہ یہیں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) تنزیل کے لئے لڑتے تھے یعنی آپ کو دشمن کا سامنا تھا یا دشمن کا سامنا کرنا چاہتے تھے۔ ایک خاص شان نزول کے مطابق آیت نازل ہوتی تھی اور مسلمانوں کو معلوم تھا کہ کس مسئلے کے لئے نازل ہوئی ہے، اور جا کر اسی کے مطابق لڑتے تھے اور کسی کے لئے کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہتا تھا۔ لیکن امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو تأویل کے لئے لڑنا پڑ رہا تھا۔ یعنی قرآنی آیت وہی آیت ہے؛ لیکن شان نزول کا تعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دور سے ہے، روح وہی روح ہے، لیکن شکل و صورت مختلف ہے۔ علی کو تأویل پر لڑنا پڑتا ہے۔ لفظ "تأویل" مادہ "أ و ل" سے مشتق ہے، اول کے معنی رجوع کے ہیں، مُؤَوَّل کے معنی مرجع (یعنی ماخذ، منبع، اور جائے رجوع) کے ہیں۔ یہ کہ آپ فرماتے ہیں کہ "مجھے تأویل کے لئے لڑنا پڑ رہا ہے" یعنی جس چیز سے مجھے لڑنا پڑ رہا ہے وہ قرآن کی ظاہری شکل و صورت نہیں ہے، لیکن اس کی روح، باطن اور معنی وہی ہے اور یہ اسی کی طرف پلٹتا ہے، [جو قرآن میں ہے]۔ یعنی مجھ [علی] کو نفاق کے خلاف لڑنا پڑ رہا ہے۔ (6)
چوتھے خلیفہ کے عنوان سے علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی [ظاہری] حکومت کا دور اگرچہ مختصر تھا؛ لیکن آپ کی حکومت کے اسی مختصر دور نے [تاریخ اسلام کے اس دور تک کی] سب سے بڑی جنگوں، سازشوں اور فتنوں کو دیکھ لیا۔ ناکثین، قاسطین اور پھر مارقین کا مقابلہ، کسی بھی حکومت کی کمر توڑ سکتا تھا؛ توضیح یہ کہ اس دن تک مسلمان ایسے محاذ پر نہیں لڑے تھے جس میں ان کے ہم عقیدہ لوگ موجود ہوں، [اور مخالف محاذ میں مسلمین نہیں ہوتے تھے]، اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے دور میں عدالت علویہ اور خالص محمدی اسلام کے ظہور سے پہلے، جہاد یا تو مسلمانوں اور مشرکین یا مسلمانوں اور کفار کے درمیان ہوتا تھا؛ خواہ مشرکین اور کفار کا تعلق جزیرہ نمائے عرب سے ہو خواہ ایران اور روم کی افواج سے۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو طلحہ اور زبیر کے حرص و ہوس کا سامنا کرنا پڑا تو آپ تکاثر (ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی سوچ) کے سامنے ڈٹ گئے۔ علی (علیہ السلام) کی طرف سے اس ہوسناکیوں کی مزاحمت پر آپ کے دور خلافت کا پہلا فتنہ نمودار ہؤا اور ناکثین (عہد شکن) ام المؤمنین عائشہ کے لال اون والے اونٹ کے سائے میں بصرہ پہنچے اور جنگ کی آگ بھڑکا دی۔ مروی ہے کہ امیرالمؤمنین (علیہ لسلام) نے گمراہی کی دھول جھاڑنے کی غرض سے بصریوں سے خطاب کیا، لیکن جب ان کی گمراہی اور نافرمانی کی شدت کو دیکھا تو اپنی سپاہ کی صف بندی کا اہتمام کرتے ہوئے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی:
"وَإِن نَّكَثُواْ أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُواْ فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُواْ أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لاَ أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ؛ اور اگر وہ ـ اپنے عہدو پیمان کے بعد ـ اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین پر طعن و تشنیع کریں تو کفر کے ان سرغنوں سے جنگ کرو، یقیناً ان کی کوئی قسمیں [اور عہد و پیمان] نہیں ہیں، شاید یہ باز آجائیں"۔ (سورہ توبہ، آیت 12)۔
اور پھر فرمایا: "والَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وبَرِئَ النَّسَمَةَ واصْطَفَى مُحَمَّداً بِالنُّبُوَّةِ انَّهُم لاصِحَابُ هَذِهِ الآيَةِ وَمَا قُوتِلُوا مُنْذُ نَزَلَت؛ جس خدا نے بیج کو شگافتہ کیا اور انسان کو پیدا کیا اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو نبوت کے لئے منتخب کیا، یقیناً یہی لوگ [اصحاب جمل] اس آیت کا موضوع ہیں، اور اس آیت کے نزول سے لے کر اب تک عہد شکنوں کے خلاف جنگ نہیں لڑی گئی ہے"۔ (7)
اس زمانے سے اب تک تقریباً 1400 قمری سال گذر چکے ہیں، لیکن تأویل پر مؤمنین کا جہاد بدستور جاری ہے۔ امیرالمؤمنین امام علی (علیہ السلام) کے بعد آپ کے معصوم فرزندوں کا ـ نسل در نسل اور عصر بہ عصر، مختلف طریقوں سے منافقوں کے ساتھ ـ جھگڑا رہا تا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے لائے ہوئے اسلام کی خالص محمدی تفسیر باقی رہے اور تاریخ میں نفوذ کر جائے، اور معلومات کے دور (Information Age) تک پہنچے اور یورپیوں کی نشاۃ الثانیہ (Renaissance) میں دین و مذہب کے الگ تھلگ ہونے تک، قائم رہے اور فقاہت کے شہر قم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی نسل کا ایک سید [روح اللہ موسوی خمینی] اٹھ کھڑا ہو اور "راسخون فی العلم" ـ یعنی ائمۂ اہل بیت (علیہم السلام) ـ کی "تأویل" کو ایک مرتبہ پھر دنیا والوں کے گوش گذار کردے۔ اور وہ وہ ہیں جن کے سوا قرآن کی تأویل کوئی نہیں جانتا۔ (8)
لیکن جہادِ "تنزیل" اور جہادِ "تأویل" کا فرق سمجھنے کے لئے ایک اصطلاح ـ یعنی "نفاق" ـ کا جائزہ لینا پڑے گا۔ جو چیز جہادِ "تأویل" کو سخت اور دشوار کر دیتی ہے، وہ منافقوں کا "نفاق" ہے۔ یہ کہ لوگ سمجھ لیں کہ حکومت کی چوٹی پر طاغوتوں کی موجودگی کے بجائے اسلام کا ہونا بہتر ہے، اگرچہ بہت اہم ہے، اور یہ ایک دشوار مسئلہ بھی نہیں ہے؛ لیکن جو چیز اسے پیچیدہ کر دیتی ہے، یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ اسلام کی حدود میں جینا چاہیں اور اسے الٹ پلٹ دیں اور اسلام کی بدلی ہوئی شکل کو "اسلام کے نام کے سانچے میں" محفوظ کرنا چاہیں اور اس کے متن و بطن اور مندرجات و معانی کو اپنی مرضی سے بدل ڈالیں؛ تو اس صورت میں مارقین (خوارج) ناکثین (اہل جمل) اور قاسطین (لشکر بنی امیہ) کے پیرو ہو جاتے ہیں، اور بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ ریحانۃ الرسول حضرت امام حسین (علیہ السلام) کو ـ اللہ کی قربت کی نیت کرکے (!) ـ اس المناک انداز سے قتل کر دیتے ہیں۔ چنانچہ جب حضرت امیر (علیہ السلام) مصر کے والی محمد بن ابی بکر کے لئے مکتوب تحریر کرتے ہیں، تو ایک حدیث نبوی کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں کہ نفاق اور جہل کا خطرہ کسی بھی دوسرے خطرے سے شدید تر ہے۔ منافقین کا اس زائد الوصف (اور بیان سے باہر) خطرہ تین حقائق میں چھپا ہؤا ہے؛ جیسا کہ استاد شہید مطہری فرماتے ہیں:
1۔ نفاق کی تعریف:
لفظ "نفق" قرآن کریم میں آیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: "فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقاً فِي الأَرْضِ أَوْ سُلَّماً فِي السَّمَاء"۔ (9) لغویون کا کہنا ہے کہ نفق کے معنی راستے کے ہیں، تاہم اس سے مراد خفیہ راستے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب ہم "شرح نظام" پڑھتے تھے تو لفظ "نافقاء" پر پہنچے۔ اور اس کی تشریح کچھ یوں تھی کہ ایک صحرائی چوہا صحرا میں اپنے لئے بل بناتے ہوئے دشمن سے نجات کے لئے ایک تدبیر کرتا ہے۔ اس کے بل کا ایک جانا پہچانا راستہ ہوتا ہے جہاں سے وہ آتا جاتا ہے۔ یہ اس کے بل کا معمول کا دروازہ ہوتا ہے۔ لیکن ایک دور افتادہ حصے میں ـ جو اس ظاہری دروازے سے دور ہے ـ زیر زمین سے اوپر کی طرف [عمودی طور پر زمین کو] کھودتا ہے یہاں تک کہ زمین کی سطح کے قریب پہنچ جائے، لیکن اسے کھولتا نہیں ہے، بلکہ مٹی کی ایک نازک تہہ چھوڑ دیتا ہے یوں کہ وہ قائم بھی رہے؛ اور جب کبھی دروازے کی طرف سے کوئی خطرہ پیش آئے، کوئی درندہ جانور دروازے سے داخل ہوجائے اور اس کے لئے خطرہ پیدا کرے تو وہ جاکر اپنا سر نازک تہہ پر زور سے مارے، اور نکل جائے۔ اس کو کہتے ہیں "نافقاء" یعنی ایک خفیہ اندرونی اور ڈھکا ہؤا راستہ، جو صحرائی چوہوں کی دنیا کے فوجی رازوں میں سے ایک ہے اور دشمن کو اس کا علم نہیں ہوتا۔ منافق کو کیوں منافق کہتے ہیں؟ کہا گیا ہے کہ: اس لئے کہ اس نے اپنے دو راستے چن لئے ہیں، ایک وہ راستہ جس سے گذر کر وہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور دوسرا نکلنے [اور بھاگنے] کا راستہ، جو فرض کرنا چاہئے کہ وہی خفیہ [چور] دروازہ ہے۔ وہ ایک دروازے سے داخل ہوتا ہے اور دوسرے سے نکل جاتا ہے"۔
2۔ نفاق کی کارگزاری
قرآن کریم منافقین کو ـ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے زمانے میں تھے ـ ایک دوسرے سے جدا نہیں دیکھتا بلکہ انہیں ایک منظم اور ہم فکر لوگوں کے طور پر ـ جن میں باہمی یکجہتی پائی جاتی ہے ـ دیکھتا ہے۔ قرآن کریم کی ایک آیت اہل ایمان کے لئے ہے جس میں خدائے متعال کا ارشاد ہوتا ہے:
"وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ؛ اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے دوست (اور مددگار) ہیں وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں"۔ (10)
یعنی مؤمنین ایک دوسرے کے حامی اور بہم پیوستہ ہیں، اور ان کی خصوصیت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلے میں البتہ کفار کا تذکرہ نہیں کرتا، لیکن منافقین کے درمیان اسی طرح کی "یکجہتی" کا قائل ہے، گوکہ ان کے لئے "اولیاء" کا لفظ استعمال نہیں کرتا بلکہ ارشاد فرماتا ہے:
"الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُواْ اللّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ؛ منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے سے (اور ایک جیسے) ہیں جو برائیوں کا حکم دیتے اور بھلائیوں سے باز رکھتے ہیں، اور اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں، وہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا، بلا شبہ منافق ہی فاسق و بد کردار ہیں"۔ (سورہ توبہ، آیت 67)
اور ان کے درمیان کی یکجہتی مؤمنوں کی باہمی یکجہتی سے اگر زیادہ مضبوط نہ ہو تو کم بھی نہیں ہے۔ بعض دوسری آیات (11) میں یہ تعبیر موجود ہے اور مفسرین کا ادراک یہ ہے کہ یہ اس قدر ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں کہ ایک ہو چکے ہیں۔ "بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ" کا مفہوم اتحاد اور یگانگت پر دلالت کرتا ہے؛ جو حامی اور ناصر جیسے مفاہیم سے بالاتر ہے۔ ان کا منصوبہ اور عمل، مؤمنوں کی تدبیر اور عمل کے بالکل برعکس ہے؛ مؤمنین اگر لوگوں کو "معروف" کی ترغیب دلاتے ہیں، اور اگر برائی کے کاموں سے باز رکھتے ہیں جو کہ کار خیر ہے، تو یہ بالکل برعکس عمل کرتے ہیں؛ اچھائی سے باز رکھتے ہیں، اور برائی کی طرف بلاتے ہیں۔ جیسا کہ مؤخر الذکر آیت میں بیان ہؤا ہے۔ یہ اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں قبضِ ید کرتے ہیں اور بسطِ ید نہیں کرتے (اور ہاتھوں کو نہیں پھیلاتے)، کام اور عمل کا وقت آنے پر پیچھے ہٹتے ہیں اور اندر سے اسلامی معاشرے کو زک پہنچاتے ہیں"۔
3۔ نفاق کے اوزار:
منافق کے اوزار کیا ہیں؟ دنیا میں منافق کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ انسان ہے، جو منافق بن جاتا ہے۔ انسان جب ایک معاشرے میں داخل ہوتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اگر اعلانیہ طور پر ان اصولوں کے خلاف عمل کرنا چاہے جن پر وہ معاشرہ یقین رکھتا ہے، تو معاشرہ اسے زمین پر دے مارے گا، چنانچہ فوری طور پر ریاکاری اور دکھاوے کا سہارا لیتا ہے، بھیس بدل دیتا ہے اور] اسی معاشرے کا لباس پہنتا ہے؛ یہ الگ بات ہے کہ معاشرے کو خود، آگاہ ہونا چاہئے، اور اس کا دھوکہ نہیں کھانا چاہئے ... بہت حیرت انگیز ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے دو چیزوں سے فکرمندی ظاہر کی ہے: نفاق اور منافق سے، اور امت سے جب وہ جاہل اور نادان ہو۔ آنحضرت نے فرمایا:
"إِنِّي لَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي مُؤْمِناً وَلَا مُشْرِكاً؛ یقیناً میں اپنی امت کے لئے نہ کسی مؤمن سے ڈرتا ہوں اور نہ ہی مشرک سے"۔ اور فرمایا: " لَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ كُلَّ مُنَافِقِ الْجَنَانِ، عَالِمِ اللِّسَانِ؛ لیکن میں اس تمہارے لئے اس منافق سے ڈرتا ہوں جس کا قلب منافق ہے اور اس کی زبان عالمانہ ہے"، [اور وہ خوش بیان ہے]۔ (12)
اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ہی فرمایا:
"ما أخافُ عَلَى اُمَّتِيَ الفَقْرَ ولكِنْ أخَافُ عَلَيهِمْ سُوءَ التَّدْبِيرِ؛ میں اپنی امت کے لئے غربت اور مال و دولت کے نہ ہونے سے نہیں ڈرتا، لیکن میں ان کے لئے بد تدبیری [اور بد فکری اور ناسمجھی] سے ڈرتا ہوں"۔ (13)
یعنی فقر و غربت اور مال، و دولت کا فقدان، امت کے حوالے سے میرے خوف اور اندیشے کا سبب نہیں ہے، اور غربت میری امت کو برباد نہیں کرتی، جو چیز میری فکرمندی کا باعث ہے وہ معنوی اور فکری فقر و افلاس ہے۔ اگر ارادہ یہ ہو کہ منافق سے اس کا اوزار چھین لیا جائے تو اس کا وسیلہ امت کی بصیرت افزائی ہے جس سے منافق کا نفاق ناکارہ ہو جاتا ہے۔
لہٰذا منافقین کے ہاں کے یہی تین خطرناک عناصر اور ان سے نمٹنے کی مشکل روشیں ہیں جو امتوں کے اوصیاء (اور دوسرے قائدین) کے کام کو مشکل بنا دیتی ہیں؛ اگر وصیِ امت کو بعض اوقات ایسے اہلیان نفاق کے سامنے کھڑا ہونا پڑ جائے جن میں بعض حتیٰ اسلامی انقلاب کے سابقہ دوست اور سابقین ہیں، تو انہیں ہر روز عوام کی اس طرح سے تربیت کرنا چاہئے، کہ وہ ناکثین اور قاسطین کے لئے تر نوالہ نہ بنیں"۔
علامہ سید محمد حسین طباطبائی (رحمۃ اللہ علیہ) کی رائے ہے کہ "جب تک کہ آپ نفاق کو نہیں سمجھیں گے، دینی حکومت کا جائزہ لینا اور تجزیہ کرنا ممکن نہیں ہوگا، اور الٰہی قائدین کے اقدامات کی عظمت کا ادراک نہیں کیا جا سکے گا"۔
امام خامنہ ای (حَفِظَہُ اللہُ تَعَالیٰ) کی قیادت کے 34 سال مکمل ہو چکے ہیں، اور اہل علم، اہل قلم، اہل خطابت و کتابت، اہل ابلاغ اور اہل تبلیغ پر فرض ہے کہ لوگوں کے لئے اس حکیم مُتَاَلِّہ، عالم و فاضل و دانا رہبر کی شخصیت، خصوصیات اور قیادت کے مختلف پہلؤوں کی تشریح کریں۔
[ڈاکٹر مُعاف کا وعدہ] اس سلسلے میں پھر بھی لکھوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات و تشریحات:
1۔ علی ابن ابراہیم قم، تفسیر القمی، مطبوعہ 1404ھ، ج2، ص109؛ حمد بن محمد بن خالد برقی، المحاسن، مطبوعہ 1371ھ، ج1، ص159؛ مسلم نیسابوری، صحیح مسلم، مطبوعہ دار احیاءالتراث العربی، ج4، ص1870-1871؛ صحیح بخاری میں منقول ہے: "أَلاَ تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ، مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي؛ کیا آپ اس پر راضی نہیں ہونگے کہ میری نسبت آپ کی منزلت موسی کی نسبت ہارون کی منزلت کے برابر ہے؟۔ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح بخاری، (تحقیق عبدالباقی طبع 1442)۔ حدیث نمبر 4416، ج6، ص3۔ (و ج5، ص19)
2۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "ألا وإن علي بن أبي طالب أخي ووصيي يقاتل بعدي على تأويل القرآن كما قاتلت على تنزيله؛اور جان لو کہ علی بن طالب میرے بھائی اور وصی و جانشین ہیں جو میرے بعد تأویل قرآن پر جنگ کریں گے جیسا کہ میں نے اس کی تنزیل پر جنگ کی"۔ (شیخ مفید، الارشاد، ج1، ص180؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج22، ص466۔ اہل سنت کے مصادر میں منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اصحاب سے فرمایا کہ "إِنَّ مِنْكُمْ مَنْ يُقَاتِلُ عَلَى تَأْوِيلِ الْقُرْآنِ كَمَا قَاتَلْتُ عَلَى تَنْزِيلِهِ؛ تم میں سے ایک ہے جو تأویل قرآن پر جنگ کرے گا جیسا کہ میں نے تنزیل قرآن پر جنگ کی" (مستدرک علی الصحیحین، حاکم نیسابوری، ج3، ص123) جس پر ابو بکر نے پوچھا "کیا وہ میں ہوں"، فرمایا: نہیں؛ اور عمر نے آگے بڑھ کر پوچھا: "کیا وہ میں ہوں؟" فرمایا نہیں بلکہ وہ وہ ہے جو جوتا سی رہا ہے؛ سب کی نگاہیں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی طرف گھوم گئیں اور دیکھا کہ اپنا جوتا سی رہے ہیں"۔ یہ حدیث احمد بن حنبل نے مسند میں (حدیث نمبر 11289) اور نسائی نے السنن الکبری میں (حدیث نمبر 8541) ابو سعید خدری سے نقل کیا ہے اور ابو سعید نے کہا ہے: اللہ کی قسم! علی (علیہ السلام) قرآن کی تأویل پر جنگ کی اور میں بھی ان جنگوں میں آپ کے ساتھ تھا"۔
3۔ شُرْطَةُ الخَمیس امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے اصحاب کے ایک گروہ کا نام ہے جس کی تعداد 6000 سے 12000 تک بتائی گئی ہے۔ یہ لوگ مختلف امور میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی حکومت کو مدد بہم پہنچاتے تھے، جنگ میں حاضر ہوتے تھے، اور حدود اللہ کے نفاذ، شہر کوفہ کی سلامتی کا تحفظ، امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے جانی تحفظ، اور دفاع کے لئے لشکر جمع کرنے جیسی ذمہ داریاں نبھاتے تھے۔ مختلف روایات کی رو سے مقداد بن اسود، عمار بن یاسر، ابو سنان انصاری، ابو عمرو انصاری، حکیم بن سعید حنفی (ابو یحییٰ)، سلیم بن قیس ہلالی، عبیدہ سلمانی مرادی، یحیی حضرمی، قیس بن سعد، اصبغ بن نباتہ اور نعیم بن دجاجہ جیسے بزرگ شرطۃ الخمیس کے ارکان میں شامل تھے۔
4. الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ابن عبدالبر، ج3، ص1139؛ شرح نہج البلاغہ، ابن ابي الحديد، ج10، ص104؛ فتح الباري فی شرح صحیح البخاری، ابن حجر العسقلاني، ج7، ص384؛ كتاب الفتوح، أحمد بن أعثم الکوفی، ج3، ص159؛ مروج الذہب و معادن الجوہر، علی بن الحسین المسعودی، ص326۔
5۔ فٹ نوٹ نمبر 2 کو دیکھئے۔
6۔ سخنرانی شهید علّامه مطهری، مسجد الجواد تهران، ۱۳۵۰ه.ش مجموعه آثار شهید مطهری . ج25، ص: 213
7۔ تفسیر نور الثقلین، عبد علی بن جمعہ العروسی الحویزی، ج2، ص189؛ بحار الأنوار - علامہ مجلسی، ج32، ص185۔
8۔ ارشاد ربانی ہے: "هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ؛ ۔ وہ وہ ہے جس نے آپ پر یہ کتاب اتاری، اس میں سے کچھ محکم آیتیں ہیں جو کتاب میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں اور کچھ متشابہ ہیں جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ اس کے پیچھے لگے رہتے ہیں جو اس میں متشابہ ہیں، گمراہ کرنے اور اس کی تأویل (اور مرضی کے معنی بنانے) کی خاطر، حالانکہ اس کی حقیقی تأویل (اور اصل معنی و تفسیر) کوئی نہیں جانتا سوا اللہ کے اور ان کے جو علم میں پختہ ومضبوط ہیں؛ [اور جو] کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے اورنصیحت [کا اثر] تو بس عقلمند لوگ لیتے ہیں"۔
9۔ "وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقاً فِي الأَرْضِ أَوْ سُلَّماً فِي السَّمَاء فَتَأْتِيَهُم بِآيَةٍ وَلَوْ شَاء اللّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ؛ اور اگر آپ پر ان کی رو گردانی آپ پر بڑی شاق ہے تو اگر آپ کوئی سرنگ (یعنی خفیہ راستہ) زمین میں نکال سکیں، یا آسمان میں کوئی سیڑھی لگا سکیں، تو کوئی خاص معجزہ ان کے سامنے لایئے اور اگر اللہ چاہتا تو انہیں سیدھے راستے پر اکٹھا کر دیتا تو ہرگز آپ جاہلوں میں سے نہ ہو جایئے"۔ (سورہ انعام، آیت 35)
10۔ "وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَـئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ؛ اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے دوست (اور مددگار) ہیں وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نماز کو قائم رکھتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے [اور بات مانتے] ہیں؛ یہ وہ جن پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے گا بے شک اللہ غلبے والا ہے، حکمت والا"۔ (سورہ توبہ، آیت 71)
11۔ "وإِنَّ الظَّالِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ؛ ظالمین ایک دوسرے کے اولیاء ہیں؛ (سورہ جاثیہ، آیت 19)، "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ؛ اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بناؤ وہ تو ایک دوسرے کے اولیاء (دوست) ہیں"۔ (سورہ مائدہ، آیت 51)، "وَالَّذينَ كَفَرُواْ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ؛ اور کفار ایک دوسرے کے اولیاء ہیں"۔ (سورہ انفال، آیت 73)
12۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: "لَقَدْ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه و آله إِنِّي لَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي مُؤْمِناً وَلَا مُشْرِكاً؛ أَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَمْنَعُهُ اللَّهُ بِإِيمَانِهِ، وَأَمَّا الْمُشْرِكُ فَيَقْمَعُهُ اللَّهُ بِشِرْكِهِ. لَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ كُلَّ مُنَافِقِ الْجَنَانِ، عَالِمِ اللِّسَانِ، يَقُولُ مَا تَعْرِفُونَ، وَيَفْعَلُ مَا تُنْكِرُونَ؛ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مجھ سے فرمایا: میں اپنی امت کے لئے کسی مؤمن اور نہی کسی مشرک سے نہیں ڈرتا؛ اگر مؤمن کو اس کا ایمان باز رکھے گا اور مشرک کو اس کا شرک برباد کرے گا، لیکن میں تمہارے لئے اس منافق شخص سے ڈرتا ہوں جس کا دل دو رخا ہے، اور اس کی زبان عالمانہ ہے۔ وہ بات ایسی کرتا ہے جسے تم نیک سمجھتے ہو [یعنی اس کا کلام دل پسند ہے]، اور وہ جو کرتا ہے وہ تمہارے نزدیک بھونڈا اور ناپسندہ ہے"۔ (نہج البلاغہ، مکتوب نمبر 27 والی مصر محمد بن ابی بکر کے نام خط)
13۔ عوالی اللئالی العزیزیہ فی الاحادیث الدینیہ، محمد بن علی الشیبانی البکری، المعروف بہ ابن ابی جمہور الاحسائی، ج4، ص39۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: ڈاکٹر علی رضا معاف
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110