6 جون 2023 - 21:03
امام خمینی کا انقلاب جاری ہے؛ خود کو مکتب خمینی کا فرزند سمجھتا ہوں / انہیں کو اللہ کی راہنمائی حاصل تھی۔۔۔ مصری راہنما راسم النفیس

ڈاکٹر راسم النفیس نے ابنا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کا انقلاب ایک حیرت انگیز اور غیر معمولی واقعہ تھا اور ہے؛ یہاں تک کہ انقلاب اسلامی کی تاسیس کے 44 بعد بھی، اب تک ایسا واقعہ دہرایا نہیں جا سکا ہے۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا نام اور آپ کی یاد، آپ کے وصال کے 34 سال کا عرصہ گذرنے کے باوجود، آج بھی اپنے چاہنے والوں اور پیروکاروں کے قلب میں زندہ و پائندہ ہے اس لئے کہ "خمینی ہمیشہ کے لئے ایک زندہ جاوید حقیقت ہے"۔

مستضعفین کے پیشوا اور احرار عالم کے رہبر جمینی کبیر (رحمۃ اللہ علیہ) کی وفات کی جونتیسویں برسی کے موقع پر مصر کے شیعہ راہنما اور "التحریر الشیعی" نامی ادارے کے سربراہ ڈاکٹر احمد راسم النفیس نے عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کو انٹرویو دیتے ہوئے امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کے مکتب اور شخصیت سے واقفیت کی کیفیت پر روشنی ڈالی ہے۔

ڈآکٹر النفیس نے کہا: میں اس الٰہی شخصیت [امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کے واسطے سے اسلام سے واقف ہؤا، میری مراد اسلام کی ظاہری صورت نہیں بلکہ اسلام کا عُمق (گہرائی) ہے۔ سنہ 1978ع‍ کے اواخر میں، میڈیکل کالج سے فارغ ہؤا تھا اور مصری فوج میں شامل ہو چکا تھا اور مجھے قانون کے مطابق ساڑھے تین سال تک فوج میں خدمت کرنا تھی۔ سنہ 1978ع‍ کے آخری ایام سے سنہ 1979ع‍ کے آخری ایام تک فارغ تھا، یعنی دن کو فوج میں مصروف عمل رہتا تھا اور سہ پہر کو فارغ ہوتا تھا؛ چنانچہ اسلامی ممالک کے واقعات و حوادث اور مختلف رودادوں کے بارے میں مطالعے میں مصروف رہتا تھا اور خاص طور پر ایران کی خبروں کے درپے رہتا تھا۔ ہاں البتہ اسلامی تحریک سے میرا فکری لگاؤ پہلے سے تھا اور دوسرے فکری دھاروں سے لاتعلق تھا۔ یعنی اس زمانے میں بائيں بازو کے مختلف دھڑے اور دھارے موجود تھے اور سرگرم عمل تھا۔ کلی طور پر میں طلبہ تحریک سے تعلق رکھتا تھا اور ان برسوں میں میڈیکل کالج کی طلبہ ایسوسی ایشن کا صدر تھا۔

 سنہ 1978ع‍ کے آخری ایام سے سنہ 1979ع‍ کے آخری ایام تک کے عرصے میں ـ جہاں تک ممکن تھا ـ اسلامی انقلاب کے واقعات و مسائل سے آگہی حاصل کرتا تھا۔ اس زمانے میں ذرائع ابلاغ بہت کم تھے اور میں صرف ریڈیو مونٹ کارلو کو سنتا تھا جو اسلامی انقلاب کے بارے میں خبریں اور انٹرویو نشر کرتا تھا اور حقائق تک اس سے زیادہ رسائی ممکن نہیں تھی۔

ہمارے ہاں اسلامی تحریکیں اور اسلامی تنظیمیں کہلوانے والوں کے بارے بات کرنے کا مطلب یہ تھا کہ ہم اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مصروف ہو جائیں کہ "عالم اسلام کو موجودہ بحرانوں سے کس طرح نجات دلائیں؟"

اور اسی تلاش کے دوران یہ عظیم اور حیرت انگیز انقلاب معرض وجود میں آیا اور میرے خیال میں انقلاب اسلامی ایک منفرد اور غیر معمولی واقعہ تھا اور ہے؛ یہاں تک کہ اس اسلامی انقلاب کی تاسیس سے 44 سال کا عرصہ گذرنے کے باوجود، اس نوعیت کا کوئی واقعہ دہرایا نہیں جا سکا ہے۔ یہ انقلاب بپا ہؤا، جبکہ ہم اس کو مکمل طور پر نہیں سمجھ رہے تھے، [اور اس کے ادراک سے عاجز تھے]۔ میں اپنی عمر کے تیسرے عشرے میں تھا اور اس انقلاب کے بہت سے امور و معاملات کا ادراک نہیں کر سکتا تھا: یہ کہ امام خمینی کون ہیں؟ شیعہ کیا ہے اور شیعیاں اہل بیت اور دوسروں کے درمیان فرق کیا ہے؟ اگر کوئی شخص انقلابی ہو اور شیعہ نہ ہو، تو کیا یہ ایک نظام حکومت کی کایا پلٹ اور ایک عادلانہ نظام قائم کرنے کے لئے کافی ہے؟

امر مسلّم ہے کہ ایک نظام حکومت کا تختہ الٹنا ممکن ہے؛ جیسا کہ صدام حسین کی حکومت زوال پذیر ہوئی، انہوں نے [یعنی مغربی طاقتوں اور لیبیائی عوام نے] لیبیا کے نظام حکومت کو سرنگوں کر دیا، شام میں قائم حکومت کا تختہ بھی الٹنے کی کوشش کی؛ لیکن ایک عادلانہ اور مستحکم سیاسی نظام قائم نہ کرنے میں ناکام رہے۔ چنانچہ وہاں [لیبیا] کا نظام دوبارہ الٹا کردیا گیا۔

بے شک ایران کے اسلامی انقلاب کی خصوصیات کے بارے میں زیادہ غور و فکر اور تحقیق کی ضرورت ہے؛ اس کی تمام جہتوں کا مطالعہ کرنا چاہئے، کیونکہ اس کی بہت ساری خصوصیات کو ہنوز پہچانا نہیں جا سکا ہے۔ جو کچھ ہم نے پڑھا ہے اور جو کچھ ہم نے سمجھا ہے، اس پر مزید مطالعے اور تحقیق کی ضرورت ہے، بالخصوص امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کی وفات کے بعد، ترقی کا جو طویل سفر اسلامی جمہوریہ ایران نے انجام دیا ہے، اس کے بارے میں بہت زیادہ بحث و تحقیق کی ضرورت ہے۔

 اسلامی انقلاب کو ابتداء سے اب تک مختلف قسم کے چلنجوں سے دوچار کیا گیا جو بالکل غیر معمولی تھے: اسلامی جمہوریہ پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ سے لے کر شام کی جنگ اور خلیج فارس کے عرب ممالک میں رونما والے سیاسی واقعات تک؛ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس نے اس کے باوجود بھی اپنا مشن جاری رکھا ہے، اور اگر ہم ان حالات کا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے آگے کی طرف سے سفر کا بغور مطالعہ کریں تو ہم مختلف قسم کے نتائج حاصل کریں گے۔

امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) ایک خاص شخصیت کے مالک ہیں، اور یقیناً ایک الٰہی انسان ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ آپ ایک غیر معمولی شخصیت ہیں کیونکہ غیر معمولی شخصیات بھی بہت زیادہ تھیں، اور اس شخصیت کی توصیف کے لئے لفظ "غیر معمولی" کا استعمال کرنا، کافی نہیں ہے، میں صرف کہتا ہوں کہ امام ایک الٰہی انسان ہیں، کیونکہ اس قسم کے افراد کو اللہ کی طرف سے راہنمائی ملتی ہے۔

مغرب کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے بھی امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) مختلف خصوصیات کے حامل تھے۔ مستکبر اور سامراجی مغرب، [امریکہ،] برطانیہ اور فرانس دنیا میں مکر و فریب کے سرکردگان ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ استکباری اور استعماری طاقتیں دنیا میں افراتفری اور انارکی چاہتی ہیں لیکن ان کی یہ بات دقیق اور بالکل درست (Accurate) نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ استکبار جہاں جاتا ہے [خود ہی] انارکی اور لاقانونیت پھیلا دیتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربی مستکبرین  ایسا کیوں کرتے ہیں اور اس قسم کے ہتھکنڈوں کا سہارا کیوں لیتے ہیں اور جواب یہ ہے کہ وہ مزید عالمی معاملات کے انتظام و انصرام کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

اگر ہم اس پورے عرصے میں اس عظیم انسان ـ یعنی اس الٰہی شاہکار ـ کی کارکردگی پر سرسری نگاہ ڈالیں، تو دیکھ لیں گے کہ آپ ایک ایسی حالت کی خاکہ کشی کرنے اور وجود میں لانے میں کامیاب ہوئے جس کے بدولت عالمی مستضعفین عالمی استکبار اور مستکبرین کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ان پر تنقید کریں اور ان کے اقدامات اور پالیسیوں پر احتجاج و اعتراض کریں، جبکہ دوسرے ایسا کرنے سے عاجز تھے۔

ان بزرگ اور عظیم الٰہی انسانوں میں ایک راز موجود ہے جو انہیں اپنی صلاحیتوں سے بہتر فائدہ لینے کی قوت عطا کرتا ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کی عظمت اور قوت اسی کا حاصل [اور ثمر] ہے۔ اس وقت ہم استحکام اور اعتدال کو استثنائی  طور پر ایران اور اس کے دوست اور وفادار ممالک میں دیکھ سکتے ہیں۔

ہم سب امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کے فرزند ہیں، میں اپنے آپ کو اسی مدرسے کا فرزند سجھتا ہوں۔ اس مدرسے نے اس وقت اپنا کام شروع کیا جب میں اٹھائیس یا 29 برس کا نوجوان تھا، یعنی اسی وقت جب اسلامی انقلاب کے قائد امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے اس مکتب اور مدرسے کی تاسیس اور اپنے شاگردوں کی ذمہ داریاں متعین کرنے کا کام شروع کیا۔ آپ کے مدرسے میں شاگرد بن کر حصول تعلیم کے لئے براہ راست رابطے کی ضرورت نہیں تھی۔ مثلاً میں پہلی بار سنہ 1991ع‍ میں ایران آیا۔

مصری ادارے "التحریر الشیعی" کے سربراہ اور مصر کے شیعہ راہنما ڈاکٹر احمد راسم النفیس نے آخر میں کہا: اس انقلاب اور اس اسلامی نشاۃ ثانیہ (Islamic renaissance) کے ساتھ انسانوں کا رابطہ اور تعلق بدستور تعاملی (Interactive) اور شعوری (consciously) ہے، اور میں میں یہاں آپ کی توجہ ایک بہت اہم نکتے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں؛ وہ یہ کہ ایسے کئی راہنما ہو گذر ہیں جو یقینا شاہکار راہنما تھے اور اگر ہم ان کی طرف دیکھیں تو جان لیں گے کہ وہ منظرنامے کو کافی حد تک آگے بڑھا سکے تھے لیکن وہ اپنے مشن کی تکمیل میں ناکام رہے ہیں۔ جن میں سید جمال الدین اسدآبادی (افغانی) جیسے لوگ شامل ہیں۔ کیونکہ مغرب ـ مسلمان نسلوں کے درمیان ـ اس قسم کے مکتب فکر کے استحکام اور فروغ کا خطرہ بہت جلد بھانپ گیا تھا؛ چنانچہ اہل مغرب نے اس مکتب کی بازگردانی (Recycling )  کی اور بد قسمتی سے، اسے آلودہ کیا، انحراف سے دوچار کیا اور اسے مکمل طور پر بگاڑ دیا، جیسا کہ ہماری معاصر تاریخ نے سید جمال جیسی شخصیات کی اصلاحی تحریکوں کے بعد اپنی آنکھوں سے دیکھا؛ جبکہ امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کا اسلامی انقلاب قائم و دائم ہے، مؤثر ہے اور ہمیں امید ہے کہ اسلامی دنیا پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں۔  ان شاء اللہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔

110