اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

6 جون 2023

2:10:16 PM
1371450

علامہ سید جعفر مرتضی العاملی کا انٹرویو؛

امام ہشتم کی ولی‏عہدی اور شیعہ روشن فکری

ائمہ (علیہم السلام) کی زندگی کے واقعات اس لئے اہم ہیں کہ جب ان کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں صحیح راستہ ڈھونڈنے میں مدد ملتی ہے۔ امام رضا (علیہ السلام) مأمون جیسے خلیفہ کے دربار میں حاضر ہوئے جبکہ اصولی طور پر امام (علیہ السلام) اس کو تسلیم نہیں کررہے تھے اور وہ امام (علیہ السلام) اور شیعیان اہل بیت کی نظر میں آل نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خلافت کا غاصب تھا۔ ہم اس واقعے کو نئے زاویئے سے دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، اس انٹرویو میں لبنان کے نامی گرامی مؤرخ، عالم دین، دانشور اور عالم تشیع کی نامور شخصیت "علامہ سید جعفر مرتضیٰ العاملی نے امام کی ولی‏عہدی کے حقیقی واقعے اور اس کے حواشی کے سلسلے میں نئی نگاہ سے سے تجزیہ کیا ہے۔

۔۔۔۔۔

انٹرویو کا متن: 

امام ہشتم کی ولی‏عہدی اور شیعہ روشن فکری (روشن خیالی = Intellectuality)

سوال: ولی‏عہدی امام رضا (علیہ السلام) کی سیرت اور تاریخ حیات کا ایک اہم پہلو ہے اور اس سلسلے میں سوال یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل و اسباب تھے جن کی بنا پر مأمون نے امام رضا (علیہ السلام) کو خراسان آنے کی دعوت دی؟

جواب: مأمون کی حالت اس دور میں عجیب تھی؛ وہ درحقیقت سیاسی گھٹن کا سامنا کررہا تھا اور اس کے سامنے پیش آمدہ سیاسی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ عوام کی ناراضگی کا تھا۔ یہ صورت حال عباسی سلطنت کی تشکیل کے ابتدائی ایام کے حالات سے تعلق رکھتی تھی۔

عباسی ابتدا میں دین کی طرف بارگشت، جاہلیت سے آزادی اور اہل بیت (علیہم السلام) کی خون خواہی کا نعرہ لگا کر سیاسی میدان میں اترے تھے مگر برسر اقتدار آتے ہی اپنے نعروں اور وعدوں سے مکر گئے اور ظاہر ہؤا کہ ان کے سیاسی روئے ان کے بنیادی منشور سے بالکل مختلف ہیں۔ حتی کہ انہوں نے عوام اور امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کے خاندان پر جو ستم روا رکھا؛ وہ ان مظالم اور مصائب سے کہیں زیادہ بڑا اور افسوسناک تھا جو اموی سلاطین مسلمانوں پر روا رکھے ہوئے تھے۔ یہ مسائل عباسی سلطنت کی ابتدا ہی سے ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ اور بعد کے ادوار میں اس کی شدت میں اضافہ ہوا۔

یہ جرائم ہارون کے دور میں اس حد تک پہنچے تھے کہ بعض لوگوں کو یقین ہوگیا کہ ہارون ناصبی اہل بیت (علیہم السلام) کا دشمن ہے۔ یہ صورت حال عالم اسلام کے بعض گوشوں میں عوامی انقلابات کا باعث ہوئی اور آل رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا جو بھی فرد جدوجہد کا پرچم اٹھاتا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ان کے پرچم تلے اکٹھی ہوجاتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ «ابوالسرایا» نامی سالار کے ساتھ مأمون کی جنگ میں تقریباً دو لاکھ افراد مارے گئے۔

عوامی ناراضگی کے علاوہ مأمون کو عباسیوں کے اندرونی جھگڑوں کا بھی سامنا تھا۔ عباسیوں کے اندرونی جھگڑوں اور مأمون کی اپنے بھائی امین کے ساتھ جنگ اور امین کا قتل کیا جانا اور اس کا سر قلم کیا جانا وہ عوامل تھے جن کی بنا پر مأمون کی سلطنت عباسیوں کے درمیان متزلزل ہوگئی تھی۔

اب مأمون اس حالت سے نکلنے کی کوشش میں علی (علیہ السلام) کی محبت کا دعویدار ہؤا اور عوام کے ساتھ بھی نرمی برتنے لگا اور یہ ظاہر کرنے لگا کہ وہ آل نبی (علیہم السلام) کا دشمن نہیں ہے۔

بے شک اس نمائش سے مأمون کا مقصد لوگوں کو فریب دینے کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ اس نے اسی مکارانہ پالیسی کے تحت ابتداء میں امام رضا (علیہ السلام) کو خلافت کی پیشکش کی اور اس کے بعد آپ کو ولی‏عہدی کی تجویز دی۔

ہم البتہ اس جملے کی یوں اصلاح کرنا چاہیں گے کہ مأمون نے امام کو ولی‏عہدی کی پیشکش نہیں کی بلکہ آپ کو ولی‏عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا۔

یقیناً امام کو یہ منصب سونپنے سے مأمون کی توقعات درست نہیں تھیں اور یہی نادرست توقع ہی اس امر کا باعث ہوئی تھی۔ مأمون نے ولی‏عہدی کا مسئلہ چھیڑا تھا اور اس منصوبے پر عمل درآمد کرکے کئی اہداف حاصل کرنا چاہتا تھا:

وہ اس طرح آل علی (علیہم السلام) کی طرف سے حق خلافت کے دعوے کا امکان ختم کرنا چاہتا تھا کیونکہ مأمون کے بزعم آل علی (علیہم السلام) کے زعیم اس کے ہمراہ ہو جاتے! اور اس طرح آل علی (علیہم السلام) اور شیعیان اہل بیت (ع) کے نزدیک بنوعباس اور مأمون کے خلافت کی غیرقانونی حیثیت بھی قانونی حیثیت میں بدل جاتی اور یہ مسئلہ بھی ختم ہو کر رہ جاتا۔

اس ماجرا سے مأمون کا سب سے بڑا مقصد یہی تھا۔ کیوں کہ شیعیان اہل بیت (ع) جو ہمیشہ سے غیر شرعی اور غیر قانونی حکومتوں کے خلاف سراپا احتجاج تھے امام رضآ (علیہ السلام) کی ولی‏عہدی کے بعد خاموش ہوجاتے اور ساتھ ساتھ امام کی امامت کے بارے میں بھی کئی سؤال ابھر کر سامنے آتے۔

سوال: مأمون کی سیاست بازیوں کے سامنے امام (ع) کا رویہ کیسا تھا؟

جواب: امام (علیہ السلام) نے ابتدائی لمحوں ہی سے واضح کر دیا کہ ان کے خراسان آنے کا سبب مأمون کا جبر تھا۔ البتہ اگر امام خاموش بھی رہتے اور اس سلسلے میں اظہار رائے نہ بھی کرتے پھر بھی لوگ ـ ولی عہدی کا عہدے کی امام کو منتقلی کے بعد ـ بہ آسانی اس حقیقت کا ادراک کر چکے تھے کہ ولی‏عہدی کا عہدہ آپ نے جبر و اکراہ کی بنا پر قبول کیا ہے۔ کیونکہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ خاندان رسالت اور امت اسلامی کی سب سے بڑی شخصیت ہوتے ہوئے بھی ـ جن کی عمر 50 برس تھی ـ 30 سالہ عباسی بادشاہ کے جانشین بن گئے ہیں! اور خلیفہ بھی وہ تھا جس نے حصول اقتدار کی غرض سے اپنے بھائی تک کو قتل کروایا تھا۔ جب عوام ان حقائق کو دیکھتے ہیں تو وہ کسی مشکل کے بغیر اس حقیقت کا ادراک کرلیتے ہیں کہ یہ واقعہ محض ایک سیاسی کھیل ہے جو خلیفہ نے شروع کررکھا ہے۔ اس ضمن میں یہ سوال اٹھنا ممکن تھا کہ "معاذاللہ امام رضا (علیہ السلام) دنیا کی لالچ میں مبتلا ہوگئے ہیں! اور مأمون کے بعد اقتدار پر نظر لگا بیٹھے ہیں مگر یہ اعتراض بہت ہی بعید از قیاس ہے کیونکہ امام رضا (علیہ السلام) اپنے عہد میں زہد، تقویٰ، عقل و خِرَد اور حکمت و عبادت میں ممتازترین درجے پر فائز اور ان ہی حوالوں سے مشہور تھے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امام رضا (علیہ السلام) نے ابتدا ہی سے ایسا رویہ اپنایا کہ مأمون آپ کے ذریعے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ ان ایام میں امام کی پالیسی بہت ہی باریک بینانہ اور غائرانہ تھی۔ مثلاً لوگ ولی‏عہد کی حیثیت سے امام کی بیعت کے لئے آتے ہیں تو امام ولی‏عہدی قبول کرنے کے لئے شرط لگا دیتے ہیں کہ "سیاسی معاملات اور تقرریوں یا معزولیوں میں مداخلت نہیں کروں گا"۔ امام کی یہ شرط ثابت کرتی ہے کہ آپ قلبی طور پر یہ عہدہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے اور اس عہدے سے خوش نہیں تھے۔ امام ولی‏عہدی کی دستاویز پر لکھتے ہیں کہ: "ہمارے پاس علم لدنی ہے جو ہمیں ورثے میں ملا ہے اور میں اس علم کی روشنی میں بخوبی جانتا ہوں کہ یہ امر عملی صورت نہیں اپنا سکے گا مگر میں یہ عہدہ قبول کرنے پر مجبور ہؤا ہوں"۔ اس طرح امام نے مأمون کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔

سوال: کہا جاتا ہے کہ اس دور میں اہل تشیع کے ایک انتہا پسند گروہ اور عباسیوں کے ایک گروہ نے امام کے خلاف موقف اپنایا؛ آپ ان دو مختلف گروہوں کے طرز عمل کا کس طرح تجزیہ کریں گے؟۔

جواب: میں یہاں تاریخ میں ایسے کسی واقعے کی تردید کرتا ہوں کہ "کچھ شیعہ انتہاپسندوں نے امام رضا (علیہ السلام) کے خلاف موقف اپنایا تھا"، کیونکہ میری تحقیق کی روشنی میں، جب امام نے عہدہ قبول کیا تو اہل تشیّع نے حقائق کو آشکار کرنے کی غرض سے آپ کی خدمت میں سوالات اٹھا لئے اور ان کا مقصد لوگوں کے ذہنوں کو اس حوالے سے صاف کرنا تھا چنانچہ کسی شیعہ نے بھی اس سلسلے میں اپنے امام معصوم (علیہ السلام) کے خلاف تنقیدی رویہ نہیں اپنایا۔ شیعہ ناراض ضرور ہوگئے تھے لیکن ان کی ناراضگی کی وجہ یہ تھی کہ یہ واقعہ رونما کیوں ہؤا ہے جو امام (ع) کی اذیت و آزار کا سبب بنا ہے؟ جب امام رضا (علیہ السلام) نے ان کے سوالات کے جوابات دیئے تو ناراض افراد کی تشویش بھی کسی قدر کم ہوئی۔

اس تجزیئے کی دلیل یہ ہے کہ شیعیان اہل بیت اپنے امام معصوم (علیہ السلام) کے ہر عمل پر راضی ہوتے ہیں اور شیعہ عقائد میں اس امر پر تاکید ہوئی ہے کہ علم لدنی کے مالک امام معصوم (علیہ السلام) کے افعال کے سلسلے میں تشویش اور فکرمندی کا کوئی جواز نہیں ہے۔

اور امام کے قول و فعل پر ناراضگی یا تنقید و احتجاج شیعہ عقائد کے منافی ہے، کیونکہ شیعہ مکتب کے مرام اور عقائد کا تقاضا ظالم اور غیرالٰہی حکومتوں پر تنقید کرنے سے عبارت ہے؛ اور شیعہ اس سلسلے میں نہ صرف کسی اختلاف اور تفریق کا شکار نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے امام کے فیصلے کا احترام کیا۔

البتہ عباسیوں کا احتجاج ایک فطری عمل تھا؛ اور بالکل معمول کی بات تھی کہ عباسی سلطنت سے وابستہ عناصر امام رضا (علیہ السلام) کی ولی‏عہدی کے بعد مأمون کی سیاسی کارکردگی سے ناراض اور فکرمند ہو جاتے کیونکہ مأمون کی سیاسی چالیں ان کے لئے قابل فہم نہیں تھیں اور جب انہوں نے دیکھا کہ مأمون نے انہیں جو وعدے دیئے تھے وہ سب دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں تو انہوں نے آپ کے قتل کے منصوبے بنانا شروع کئے تا کہ اس بھنور سے چھٹکارا پائیں جو مأمون نے عباسی خلافت کے لئے ترتیب دیا تھا۔

مأمون کا بھی ہرگز خیال نہیں تھا کہ اس کی نہایت زیرکانہ اور باریک بینانہ منصوبہ بندی پر مبنی چالیں اس طرح ناکام ہوجائیں گی اور جب اس نے دیکھا کہ اس کی ساری مکاریاں شکست سے دوچار ہوئی ہیں تو وہ بھی امام کے قتل کے لئے سنجیدہ ہوگیا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو بنو عباس کی سلطنت کی بساط لپٹ جائے گی۔

سوال: مأمون کی مشینری میں امام رضا (علیہ السلام) کے داخل ہوجانے کا مفہوم کہیں یہ تو نہیں تھا کہ شیعیان حکومت کا جزء بن چکے ہیں اور ان کی سربراہی بھی امام کے ہاتھ میں ہے جو کہ مأمون کے ولی‏عہد ہیں؟

جواب: شیعہ ہر امام کے زمانے میں ‎معاشرے کے روشن خیال (Intellectual) اور ترقی پسند (Prograssive) افراد کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے، اور وہ سیاسی اور ثقافتی واقعات کے تجزیئے اور تحلیل سے بخوبی عہدہ برآ ہوتے تھے۔ دوست و دشمن کا اقرار ہے کہ ذکاوت، کیاست، باریک بینی، زیرکی اور دوراندیشی اہل تشیّع کی ممتاز خصوصیات ہیں۔ معاویہ بن ابی سفیان، حضرت امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کی شیعوں سے مخاطب ہوکر کہا کرتا تھا کہ "علی نے تمہارے افکار کو وسیع اور روشن کر دیا ہے"۔ یعنی یہ کہ معاویہ جو امیرالمؤمنین اور اہل بیت (علیہم السلام) کا دشمن ہے شیعیان اہل بیت (ع) کی اس خصوصیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے۔

یہ اہل بیت (علیہم السلام) کا تربیتی شیوہ ہے اور ائمہ (علیہم السلام) اپنے پیروکاروں کی تربیت اس طرح سے کیا کرتے تھے کہ وہ تعلیم یافتہ اور تجزیہ و تعلیل و تشریح کی قوت سے لیس ہوکر ابھرتے تھے اور اسی بنا پر میرا عقیدہ یہ ہے کہ حقیقی شیعہ کبھی بھی امام کے مد مقابل کھڑے نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے امام کے فیصلے کا خیر مقدم کیا کیونکہ وہ مأمون کے پس پردہ مقاصد سے آگاہ ہوچکے تھے۔

شیعیان اہل بیت کی روشن خیالی اور ترقی پسندانہ سوچ کا چرچا اتنا تھا کہ ہر زمانے کے خلفاء کے دور میں اسے اہمیت دی جاتی تھی اور ہر زمانے کا بادشاہ [یا نام نہاد خلیفہ] ‎معاشرے کے مختلف شعبوں کی حالت سے آگہی حاصل کرنے کے لئے شیعیان اہل بیت کی کارکردگی اور ان کا موقف جاننے کی کوشش کرتا تھا تا کہ یہ معلوم ہوجائے کہ ان حالات کے بارے میں شیعوں کیا تصور اور تجزیہ کیا ہے۔

لہٰذا مذکورہ بالا واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ امام کو ولی‏عہدی کا عہدہ سونپے جانے کے پس پردہ عزائم و مقاصد سے آگاہ ہوگئے تھے۔ انہیں مأمون کے ذہن میں پلنے والی سازشیں بھی معلوم ہوچکی تھیں اور شیعیان اہل بیت کے کے اس واقعے کے بعد کے رویئے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام اپنے پیروکاروں کی صحیح تربیت میں کس حد تک کامیاب ہوگئے تھے۔ چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ وہ سب قابل اعتماد ہیں اور مسائل کے ادراک کی قوت کے مالک۔

سوال: آپ کی خیالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ولی‏عہدی کا مسئلہ ایک لحاظ سے شیعیان اہل بیت کے لئے ایک موقع و فرصت (Opportunity) تھا؛ کیا یہ درست ہے؟

جواب: دیکھئے، یہ بہت ہی پیچیدہ موضوع ہے۔ مأمون کی زمانے میں اہم ترین گروہ اور اہمترین مکاتب کے پیروکار نہایت اونچی سطح پر اپنی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ فکری مکاتب میں زیدیہ اور بنوالحسن (امام حسن (علیہ السلام) کے فرزند)، اور معتزلہ بہت زیادہ سرگرم تھے۔ معتزلہ، جن کی وجۂ شہرت انتہاپسندانہ عقل پرستی تھی، اسی دور میں اپنے مکتب کی تبلیغ و ترویج کے حوالے سے عروج پر تھے۔

معتزلی مکتب کے بانی اور اکابرین اسی دور میں موجود اور فعال تھے۔ معتزلی فرقہ جمہوریت پسندانہ خصوصیت کا حامل تھا اور فکر اور سوچ کی آزادی کو اہمیت دیتا تھا۔ اسی طرح اس دور میں وہ لوگ بھی سرگرم عمل تھے جو فکری لحاظ سے بڑی حد تک محدود اور فکری جمود کا شکار تھے؛ مکتب اہل حدیث کے بانی، جو صرف سند اور متن کا سہارا لیا کرتے تھے، اسی زمانے میں جیتے تھے۔

دوسری جانب سے خوارج بھی بہت سرگرمی دکھا رہے تھے۔ اسی طرح عباسی دور کی طاقت و تسلط کا قوی ترین دور ہارون اور مأمون کا دور تھا۔ فوجی طاقت، سیاسی تسلط اور علم کی ترویج کے لحاظ سے مأمون سارے عباسی خلفاء سے زیادہ قوت کا مالک تھا۔ کہا گیا ہے کہ مأمون طاقتور ترین اور زیرک ترین عباسی خلیفہ ہے۔

وہ اپنے دور میں فکری مکاتب کی بھی راہنمائی کرتا تھا اور اس نے اپنے دور میں طاقتور ترین جاسوسی نظام بھی قائم کیا تھا؛ اور صورت حال یہ تھی کہ اسلامی مملکت کے گوشے گوشے کی معلومات و اطلاعات دربار خلافت کو موصول ہوتی تھیں۔ مگر شیعہ بھی ایک گوشے میں رہنے والے نہیں تھے بلکہ وہ فکری مکاتب کے قلب میں موجود تھے اور ان پر اثرانداز ہؤا کرتے تھے۔ جبکہ ان کا عقیدہ بھی یہ تھا کہ "خلیفہ غاصب اور ظالم ہے"۔ چنانچہ اس دور میں ـ [عباسی دربار کے سائے میں پلنے والے] تمام مکاتب اکٹھے ہوگئے تھے اور وہ تشیّع کی بیخ کنی کے درپے تھے۔

ان ہی حالات میں امام رضا (علیہ السلام) کو سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا کہ آپ دربار خلافت میں حاضر ہوجائیں؛ امام کے پاس اس صورت حال سے چھٹکارا پانے کا چارہ کیا تھا؟ دو ہی راستے آپ کے (ع) سامنے تھے۔ پہلا راستہ یہ تھا کہ تشیع کو نیست و نابود ہونے دیتے اور دوسرا راستہ یہ تھا کہ مأمون کی ولی‏عہدی کا عہدہ قبول کرتے۔

چنانچہ امام (ع) نے وہ راستہ اختیار کیا جو نہ صرف امامت اور تشیع کے لئے نقصان دہ نہیں تھا بلکہ تشیع کے فائدے پر منتج ہوا؛ کیونکہ اس دور میں ـ جبکہ معتزلی فرقے کے پیروکار ‎معاشرے میں عقلیت پسندی (Rationalism) یا عقل پرستی اور جمہوریت پسندی کے دعویدار تھے اور فکر و سوچ کی آزادی کا نعرہ لگا رہے تھے، ـ تشیع کے لئے ضروری تھا کہ اپنے امام اور مقتدا کی مدد سے اس انحرافی مکتب کا مقابلہ کریں جس کی ظاہری صورت بہت آراستہ اور دلفریب تھی۔

امام رضا (علیہ السلام) کی سوچ صرف آپ کے اپنے دور تک محدود نہ تھی بلکہ آپ مستقبل کا افق بھی دیکھ رہے تھے اور مستقبل کے واقعات کے اثبات کے لئے آپ کو معتزلہ جیسے طاقتور فکری مکتب کا آمنا سامنا کرنے کی ضرورت تھی۔ امام محمد تقی الجواد (علیہ السلام) بچپن ہی میں ان مباحث و مناظرات میں شامل ہوئے اور آپ کا یہ  اقدام بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔

امام رضا (علیہ السلام) ثقافت و سیاست کے میدانوں میں حاضر رہے، مناظرات میں شرکت کی اور عقل و منطق کے ذریعے اسلامی عقائد کا اثبات کرکے منطق اسلام کی فوقیت کی سب سے تصدیق کرادی؛ یہاں تک کہ عقل پرستی کی انتہاپسند معتزلی جماعت کی بساط پلٹ گئی۔ اور معتزلیوں نے بھی امام رضا (علیہ السلام) کو معقولات کی دنیا کا امام تسلیم کیا۔ امام نے اس بظاہر نئے لباس میں ظاہر ہوکر شیعہ مکتب کو زبردست فکری قوت میں تبدیل کیا اور آپ نے روشن خیالی اور ترقی پسندی پر پر یقین رکھنے والے گروہوں کی راہنمائی فرمائی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انٹرویو از: علامہ سید جعفر مرتضی العاملی (مرحوم)

مترجم: فرحت حسین مہدوی (ف۔ح۔مہدوی)

یہ مضمون کئی برس پہلے ابنا میں شائع ہؤا تھا اور دوسری ویب گاہوں نے بھی اس کو شائع کیا اور اب عشرہ کرامت سنہ 1444ھ (6 جون سنہ 2023ع‍‌) کو کچھ اصلاحات کے ساتھ ابنا پر دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110