5 جون 2023 - 04:03
امام خمینی نے مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا پہلا مسئلہ بنا دیا ... حرم امام میں عوام کے عقیدتمندوں کے اجتماع سے امام خامنہ ای کا خطاب

رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ) کی چونتیسویں برسی کے موقع پر عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ہم سب کو امام خمینی کی چند جہتی عظیم شخصیت کو زیادہ جاننے کی ضرورت ہے۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی انقلاب کے رہبر معظم امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے آج صبح امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ) کے مزار حرم مطہر پر عظیم عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ) کو تاریخ ایران کی ممتاز شخصیت قرار دیا اور ملکی سطح پر، امت مسلمہ کی سطح پر اور عالمی سطح پر امام کی لائی ہوئی تین عظیم تبدیلیوں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: امام کا "ایمان" اور "امید" ان عظیم تبدیلیوں کا نرم [اور فکری] عامل ہے، اور جو بھی ایران اور اس کے قومی مفادات، معاشی صورت حال کی بہتری، ترقی اور عزت و عظمت چاہتا ہے، اسے یہآں کے عوام کے اندر امید اور ایمان کی تقویت کے لئے کام کرنا چاہئے۔

امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) کے خطاب کے اہم نکات:

امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ)، حالیہ صدیوں کی مسلح جاہلیتوں کے زمانے میں الٰہی رسالتوں کا لہراتا ہؤا پرچم ہیں چنانچہ ہمیں، بالخصوص ہمارے نوجوانوں کو، اس عظیم شخصیت کی مختلف جہتوں کو پہچاننا چاہئے۔ امام نہ صرف ہمارے زمانے کی نمایاں ترین شخصیت ہیں بلکہ تاریخ ایران کی نمایاں شخصیات میں سے ایک ہیں۔ کوئی بھی شخص یا دھڑا امام کو تاریخ کے حافظے سے مٹا نہیں سکتا اور آپ کی زندگی اور میں تحریف نہیں کر سکتا، کیونکہ سورج کو ہتھیلی سے نہیں چھپایا جا سکتا۔

امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ) دینی علوم، ایمان، تقویٰ، ذاتی استحکام، عزم و قوت، قیام للہ (خدا کے لئے اٹھ کھڑے ہونے)، انقلابی سیاست اور انسانی نظام میں ارتقاء اور تبدیلی جیسے میدانوں میں حیرت انگیز ہیں، اور یہ تمام جہتیں تاریخ کی کسی بھی نمایاں شخصیت کی سیرت اور حیات میں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ اسی بنا پر ہمارے منفرد امام ہمیشہ زندہ رہیں گے اور اپنے دمکتے چہرے کا سب سے تعارف کراتے رہیں گے۔

امام ایران، امت اسلامیہ اور دنیا میں عظیم تبدیلیاں لائے؛ آپ نے انقلاب اسلامی بپا کیا اور عوام کے ذریعے اسے کامیابی سے ہم کنار کیا، اور یوں بادشاہت کے سیاسی ڈھانچے کو جمہوریت میں، وابستہ، کٹھ پتلی اور ذلیل حکومت کو قومی عزت و عظمت پر مبنی آزاد و خودمختار نظام میں، اسلام دشمن ریاست کو اسلامی نظام میں، استبدادیت اور آمریت کو آزآدی، اور قومی شناخت سے محرومی کو قومی شناخت اور تشخص میں، بدل دیا اور اجنبیوں کی دست نگر قوم کو "ہم کر سکتے ہیں" (We can) کی معجزہ آفریں قوت سے لیس کر دیا، اور ہ حال اور مستقبل کے تمام مسائل کو حل کرے گا۔

امام نے امت اسلامیہ کی سطح پر وسیع تبدیلیاں پیدا کر دیں، اور آپ ان تبدیلیوں کی جہتوں میں اسلامی بیداری کی [جاری] تحریک، امت کی نسبتی آمادگی (Relative preparation) اور فلسطین کا مسئلہ امت کا پہلا مسئلہ بنانے جیسے حقائق شامل ہیں؛ امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ) نے فلسطین کے اداس پیکر میں روح پھونک دی اور آج عالمی یوم القدس نہ صرف ایران [اور اسلامی ممالک] میں بلکہ غیر مسلم ممالک کے دارالحکومتوں میں بھی، فلسطینی مظلوموں کی حمایت کا [عالمی] منظر بن گیا ہے۔

امام کی لائی ہوئی اہم تبدیلی مادیت کے مقابلے میں انفعالیت (Passiveness) سے نجات تھی؛آپ نے اقوام عالم کو معنویت و روحانیت کی طرف متوجہ کیا۔ امام نے روحانیت [خدا کی طرف رجحان] کو دنیا بھر میں زندہ کیا؛ اور معنوی اور روحانی مسائل پر تسلط پسند قوتوں سے وابستہ سیاسی اور تشہیری مراکز کی شدید یلغار، اور مادہ پرستی کی ترویج کی غرض سے ان کی غیر شائستہ کوششیں، اسی تبدیلی کے رد عمل کے طور سامنے آ رہی ہیں۔

کاغذ کے صفحات و اوراق، صوتی پیغامات کی حامل کیسٹیں واحد سخت وسائل (Hardwares) تھے جن کے ذریعے سے امام نے اپنا کلام و پیغام لوگوں تک پہنچایا اور جس چیز نے امام کو عظیم اور معجزنما اقدام کا امکان عطا کیا وہ دو نرم وسائل (Softwares) ہیں: ایمان اور امید۔

استاد شہید مرتضیٰ مطہری (رحمۃ اللہ علیہ) خود کوہِ ایمان تھے اور جب انھوں نے پیرس میں امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ) سے ملاقات کرکے آپ کے وجود میں ایمان کی چار قسموں کا مشاہدہ کیا: "ہدف پر ایمان، منتخب شدہ راستے پر ایمان، عوام [کی بیداری اور حمایت] پر ایمان اور سب سے زیادہ اہم اللہ پر ایمان"۔

دشمنان خدا کے خلاف امام کی جدوجہد کا مطلب یہی ہے کہ آپ اللہ کے وعدوں پر ایمان و اعتماد رکھتے تھے، اور اللہ کا وعدہ ہے کہ جو بھی اس کی مدد کرے، وہ اس کی مدد سے مستفیض ہوتا ہے، اور اللہ کا وعدہ ہے جو اس کی مدد کرے گا وہ اس کی مدد کرے گا اور اس کو ثابت قدمی عطا کرے گا۔، اور مؤمنوں کی نصرت فرمائے گا، ان لوگوں کا دفاع کرے گا جو ایمان لائے ہیں، اور حق کو بقاء سے ہم کنار کرے گا اور ہر اس کو چیز کو بھی جو اس کے بندوں کے فائدے میں ہے اور باطل کو پانے کے اوپر تیرتی ہوئی جھاگ کی طرح زوال اور فنا سے دوچار کرے گا۔

جس اسلام پر امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ) ایمان رکھتے تھے، وہ سرمایہ داری والے اسلام اور کم علم والے [نام نہاد] روشن خیالوں [کا اپنایا ہؤا اور پیش کیا ہؤا] اصطفائی اسلام (جس میں بے ربط آراء اور خیالات و عقائد کو کم آہنگ کرکے اسلام کا نام دیا جاتا ہے)، سے بالکل مختلف ہے: امام کتاب و سنت بمعۂ اجتہاد محکم اور فہم صحیح پر ایمان رکھتے تھے اور بلند بانگ دعوے کرنے والے بے خبر روشن خیالوں اور مبینہ دانشوروں کے تصورات اور تاثرات کو سرے سے مسترد کرتے تھے، جیسا کہ وہ تنگ نظر اور جمود کا شکار افراد کے اسلام کے بھی خلاف تھے، جو اسلام کے سیاسی، حکومتی اور سماجی اسلام سے سطحی تاثر لیتے ہیں اور غیر ذمہ داری کو رواج دیتے تھے۔

امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ) عوام پر بھی یقین و ایمان رکھتے تھے اور آیات الٰہیہ کے گہرے ادراک کی روشنی میں لوگوں کے رجحانات اور عمل ـ یعنی ان کی رائے و نظر اور عوامی ووٹ پر قلبی اعتماد و اعتقاد رکھتے تھے اور بعض لوگوں کی طرف کی فکرمندیوں کے جواب میں فرماتے تھے: "میں لوگوں کو تم سے بہتر جانتا ہوں"۔

یقیناً امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ) کے راستے اور مشن سے عوام کی وفاداری، شہداء کے گھرانوں کے حلم و ایمان، نوجوانوں کی مجاہدت اور دین اسلام اور دینی و انقلابی مسائل کی تکریم و تعظیم کی خاطر منعقدہ بے مثل اور عظیم عوامی اجتماعات سے ثابت ہوتا ہے کہ قوم و ملت کے تئیں امام کی پہچان بہت گہری اور صحیح تھی اور نظام حکومت کے نام "یعنی اسلامی جمہوریہ" میں جمہوریہ کی عبارت عوام کے تئیں امام کے ایمان و اعتقاد سے جنم لیتی ہے۔

جمہوریت کے سلسلے میں امام کی بنیادی کا ایک بڑا نمونہ یہ تھا کہ جیسا کہ آپ نے اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں واضح کیا، آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے پہلے صدر کو ووٹ نہیں دیا تھا لیکن چونکہ عوام کو معتبر اور ان کی رائے کو محترم سمجھتے تھے، لہٰذا آپ نے اسی صدر کی صدارت کو نافذ فرمایا۔

امید کا عنصر امام کے دل میں ای دائمی عنصر تھا، امید امام کی تحریک میں انجن کا کردار ادا کرتی تھی۔ آپ کے کلام میں امید بالکل واضح ہے، آپ نے 1940ع‍ کی دہائی میں قیام للہ (اور اللہ کے لئے اٹھنے) کے بارے میں بات کی، اور 1960ع‍ کی دہائی میں عملی طور پر قیام کا آغاز کیا، سنہ 1980ع‍ کی دہائی میں فوجی اور سیاسی طوفانوں کا کامیاب مقابلہ کیا، اور امام کے دل میں امید کا دائمی سلسلہ ان اثرات پر منتج ہؤا جو آج دکھائی دے رہے ہیں۔ اور خود بھی فرماتے ہیں کہ "میں کبھی بھی مایوسی سے دوچار نہیں ہؤا اور مجھے یقین تھا کہ جب ایک قوم کوئی چیز چاہتی ہے، وہ قطعی طور حاصل ہو کر رہ جاتی ہے"۔ اور اس امید کا سرچشمہ آپ کا ایمان تھا۔ جب مبدأ حقیقی اور خدائے متعال پر ایمان رکھتے ہیں، تو امید کی شمع آپ کے دل میں روشن رہتی ہے اور کبھی بھی بجھتی نہیں ہے۔ امید اور ایمان ایک دوسرے پر اثر ڈالتے ہیں، امیدوں کی تکمیل ایمان کو تقویت پہنچاتی ہے۔ امید حرکت و تحرک کا باعث ہوتی ہے اور سستی اور کاہلی سے اس کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔

جو لوگ منزل مقصود تک پہنچنے کی امید رکھتے ہیں، وہ متحرک رہتے ہیں، یہ کوئی بیٹھ جائے اور اسی اثناء میں منزل مقصود تک پہنچنے کی امید بھی رکھتا ہو، یہ ممکن نہیں ہے، یہ ایک قسم کا فریب ہے اور احادیث شریفہ اور مأثورہ دعاؤں میں اس عمل کو "اغترار باللہ" (یعنی اللہ کو دھوکہ دینا) سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس عمل کی مذمت کی گئی ہے، یہ کہ انسان ہلے جلے بغیر، اور کوشش کئے بغیر، کسی مقصود تک پہنچنے کی آرزو کرے؛ یہ صحیح نہیں ہے کوشش کی ضرورت ہے، امام امید رکھتے تھے اور کوشش بھی کرتے تھے۔

ہم نے امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ) کے بارے میں تین اہم نکات کا تذکرہ کیا اور اب امام سے درس لینے کا مرحلہ ہے، دیکھنا یہ ہے کہ امام ہم سے کیا چاہتے ہیں، اور یقیناً ہم سب کو امام کے احکام کی تعمیل کرنا چاہئے۔ امام عظیم ہیں، زندہ ہیں اور ہمارے ساتھ بات کرتے ہیں، ہمیں ایک طویل راستہ درپیش، ہمارے سامنے بھی عظیم کام اور مشن ہے، چنانچہ ہمیں امام کی سفارشوں اور وصیتوں کی ضرورت ےہے۔ یقیناً آپ کی سب سے بڑی وصیت یہ ہے کہ آپ کے مشن کو جاری رکھیں، آپ کے ورثے کی نگہبانی اور حفاظت کریں؛ ہمیں ان تبدیلیوں کی سمت میں آگے بڑھنا ہے جو آپ نے ملک کے اندر، عالم اسلام اور عالمی سطح پر پیدا کیں۔ اور اس راستے پر گامزن رہنے کے کچھ تقاضے ہیں جو امام کے دور کے تقاضوں سے مختلف ہیں، امر مسلم یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت، کوانٹم، انٹرنیٹ اور ان جیسی سائنسی حصول یابیوں کے اس دور میں، چالیس سال قبل کے ٹیلی فون کے نظام اور ٹیپ ریکارڈر اور ان جیسے آلات سے کام کرنا ممکن نہیں ہے۔ آج کے زمانے میں اس ہدف کے حصول کے لئے عصری تقاضوں کے مطابق وسائل و آلات سے کام لینا پڑے گا۔ آلات اور اوزار تبدیل ہوتے ہیں، لیکن محاذوں کا تعین ہے؛ محاذوں میں تبدیلی نہیں آئی ہے اور نہیں آئے گی، اہداف و مقاصد میں تبدیلی نہیں آتی۔ دشمن کا محاذ، استکبار کا محاذ، جبر کا محاذ، صہیونیت کا محآذ اور دنیا کی جارح طاقتوں کا محاذ کل کی طرح آج بھی قائم ہے؛ تاہم ایک تبدیلی ضرور آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ملت ایران پہلے سے کہیں زيادہ طاقتور ہو چی ہے اور وہ پہلے سے کمزور ہیں لیکن مورچہ بندی وہی ہے، اور جو کچھ ہمارے سامنے ایک خطرناک ذرے کی طرح ظہور پذیر ہو ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس دشمنی اور مورچہ بندی کو بھول جائیں، جب بھول گئے ہیں ضرر و زیاں کے متحمل ہوئے ہیں۔ امام جو تبدیلیاں لائے ہیں، آج ملت ایران کے لئے ضروری ہے کہ ان کی پیروی کریں [اور اسی راستے پر گامزن رہیں]، اور اس ملت کی حیات، طاقت، عزت اور اصلاح امور امام کی حصولیابیوں کی راہ پر گامزن رہنے سے وابستہ ہے۔ ان تبدیلیوں کے دشمن بہت ہٹ دھرم ہیں اور [ان کے دل] کینہ و نفرت سے بھرپور ہیں۔ پوری دنیا میں جارحیت اور تجاوز کی خواہاں طاقتیں، ممکنہ حد تک، جس ملک پر چاہیں، یلغار کرتی ہیں، وہاں اڈے بناتی ہیں، ان کا تیل غارت کرتے ہیں، وہاں کے عوام کا قتل عام کرتی ہیں، اور جرائم کا ارتکاب کرتی ہیں، یہ ایک حقیقت ہے۔ اب اگر ملت ایران اس [استکباری] رجحان کے مقابلے میں بھی متحرک ہونا چاہے تو اس کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ یقیناً اس کو ان ہی نرم عناصر کی ضرورت ہے جو امام کے وجود میں پائے جاتے تھے: ایمان اور امید۔

یہ بھی نوجوانوں کے لئے قابل توجہ ہے کہ ملت ایران کے ساتھ استکبار کی دشمنی جزوی پسپائی سے ختم نہیں ہوتی، وہ لوگ غلطی پر ہیں جن کا خیال ہے کہ اگر ہم فلان مسئلے میں پسپا ہوجائیں تو ہمارے ساتھ استکبار اور صہیونیت کی دشمنی میں کمی آئے گی۔ جہاں ہم نے پسپائی اختیار کی وہاں وہ آگے بڑھے اور ہمیں پہلے سے زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش کی؛ گذشتہ دہائیوں میں ہمارے یہاں کی بعض حکومتوں کا تصور یہ تھا کہ ہمیں مد مقابل محاذ کو کچھ رعایتیں دینا چاہئیں، کچھ پسپائی اختیار کرنا چاہئے؛ لیکن جن ممالک کے آگے ہم نے بعض مسائل میں پسپائی اختیار کی تھی ان ہی نے ہمارے ایک سابق صدر پر غائبانہ مقدمہ چلایا۔ اور ایک حکومت میں، جس میں بدقسمتی سے امریکیوں کی مدد کی گئی تھی، انہوں نے ایران کو " شریری کا محور (یا بدی کا محور = Axis of Evil) قرار دیا۔ وہ اس قسم کی پسپائیوں سے راضی نہیں ہؤا کرتے، وہ ایران کو انقلاب سے پہلے کے حالات میں لوٹانا چاہتے ہیں وہ ایک وابستہ ایران، ایک گمنام اور تشخص سے محروم ایران، اس اور اس کا نست نگر ایران، چاہتے ہیں، اور جزوی پسپائیوں پر راضی نہیں ہوتے۔

میں ملت ایران اور عزیز نوجوانوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی ایران سے محبت کرتا ہے، قومی مفادات اور معاشی حالات کی بہتری چاہتا ہے اور جس کو معاشی مسائل سے تکلیف ہے اور معیشت کی اصلاح چاہتا ہے، آنے والے عالمی نظام میں ایران کی عزتمندانہ پوزیشن کا خواہاں ہے، اس پر لازم ہے کہ ایمان اور امید کو فروغ دے، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہم سب پر لازم ہے کہ اس ملک میں ایمان اور امید کو زندہ رکھیں۔

میری سفارش ایمان و امید کی تقویت ہے اور دشمن کی یلغار کا نشانہ بھی یہی ایمان اور امید ہے۔ وہ ایران میں عوام کے ایمان اور امید کی شمع بجھانا چاہتے ہیں اور عوام ـ بالخصوص نوجوانوں ـ دلوں میں ایمان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں؛ قومی استقلال و خودمختاری کی حفاظت اور قومی مفادات کے حصول کا انحصار ایمان اور امید پر ہے۔ ہمارے مفادات کے مقابلے میں ضدی اور سرکش مخالفین موجود ہیں، جو جو کرسکیں کر گذرتے ہیں اور ان چند دہائیوں کے دوران اپنے تمام تر اداروں اور طاقت کے مراکز کی مدد سے یہی کچھ کرتے رہے ہیں؛ اور زيادہ تر دشمنیوں میں اللہ کے فضل سے ملت ایران کے ہاتھوں مغلوب اور خوار و ذلیل ہوئے ہیں۔

دشمن مسقبل میں بھی چین سے نہیں بیٹھے گا، لیکن سب اس حقیقت کی طرف موجہ ہوں کہ دشمن کی آخری کوشش گذشتہ موسم خزان کے بلؤوں سے عبارت ہے۔ ان بلؤوں کی منصوبہ بندی مغربی تھنک ٹینکس میں ہوئی۔ مغربی خفیہ اداروں نے بلؤوں کی مالی، تشہیری اور عسکری امداد فراہم کی، اور بھاگ دوڑ کا کام ان ہی غدار عناصر نے کیا جنہوں نے اپنے وطن سے پیٹھ پھیر لی تھی، وہی جنہوں نے اپنے وطن سے غداری کی، ایران سے چلے گئے اور اسلام اور ایران کے دشمنوں کے آلہ کار بن گئے۔ کچھ لوگ ایران کے اندر ان کے پیادے تھے۔ ان پیادوں کا مجموعہ کچھ معاندین اور زیادہ تر غافل، جذباتی، اور سطحی فکر کے حامل افراد اور کچھ سماج دشمن غنڈوں پر مشتمل تھے، یہ بلؤوں میں دشمن کے پیادے تھے۔ مغربی ممالک میں دشمن کے تھنک ٹینکس [اور سازشیں بنانے والے اداروں] سے لے کر ایرانی شہروں کی بعض سڑکوں تک، یہ مجموعہ متحرک تھا۔ انہوں نے تمام پہلؤوں کے لئے منصوبہ بندی کی تھی؛ غیر ملکی ریڈیو اور ٹیلی ویژن [قانون و اخلاق کا] لحاظ رکھے بغیر اور بلا تکلف بے پروائی سے لوگوں کو دستی بم بنانے کا طریقے سکھا رہے تھے۔ ایران کی تقسیم کے نعرے لگا اور سکھا رہے تھے؛ اسمگل شدہ ہتھیاروں سے سڑکوں پر مسلحانہ حملوں کو ترویج دیتے تھے؛ ان کے کرائے کے غنڈوں نے جامعات اور مدارس کے طلبہ، بسیجیوں اور پولیس کارکنوں پر تشدد کیا اور انہیں قتل کیا۔ متوجہ رہیں، تا کہ ملت ایران کی عظمت اور جوش و جذبے اور شعور کا بہتر ادراک کیا جا سکے۔ غنڈوں نے یہ کیا، ملک دشمن عناصر نے وہ نعرے لگائے، بیرون ملک بعض ممالک [بالخصوص امریکہ، فرانس اور جرمنی] کے اعلیٰ حکام نے ان ہی دشمنوں کے ساتھ یادگار تصویریں بنوائیں؛ وہ [انٹرنیٹ میں برپا کردہ تشہیری طوفان سے متاثر ہوکر] سمجھتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا کام تمام ہو چکا ہے، ان کی منصوبہ بندی کچھ ایسی تھی کہ گمان کرتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ کا کام تمام ہو چکا ہے اور وہ ملت ایران کو اپنے قابو میں لا سکیں گے۔ احمق پھر بھی غلطی کر بیٹھے، پھر بھی ملت کو نہیں پہچان سکے؛ ملت ایران نے انہیں لائق توجہ نہیں سمجھا، ان کی کالوں کو نظر انداز کیا۔ [اسلام و انقلاب کے] وفادار نجوانوں نے سڑکوں اور جامعات میں کار عظیم انجام دیا۔ یونیورسٹیوں کی بسیج اور عوامی بسیح، وفادار اور دیندار عوام نے اپنے فرائض پر عمل کیا، اور دشمن کو ناکام بنایا۔ دشمن کی سازش باطل ہوئی لیکن یہ انتباہ سب کو مل گیا کہ  "دشمن کے مکر و فریب سے غافل مت ہونا"۔

دشمن ایرانی نوجوان کو ناامید کرنا چاہتا ہے۔ وہ ملک کے کچھ اندرونی مسائل کو تسلسل کے ساتھ بڑھا چڑھا کر ایرانی نوجوان کے سامنا نمایاں کرتے ہیں۔ معاشی مسائل، مہنگائی اور افراط زر جیسے مسائل موجود ہیں، دشمن ان مسائل کو اوزار بنا کر نوجوانوں کے دلوں میں روشنی کا چراغ گل کرنا چاہتا ہے،  جو قابل حل ہیں ان شاء اللہ اور حل ہونگے اللہ کی توفیق اور اللہ کی قوت سے۔ چنانچہ مسائل کو ناامیدی کا سبب نہیں بننا چاہئے؛ مسائل کو حوصلوں کی بلندی سبب بننا چاہئے: کہ ہم ان مسائل کے حل کے راستے تلاش کریں اور ان کا ازالہ کرنے کے لئے کھڑے ہونے والے افراد کی مدد کریں۔ ہمارے ہاں کے مقابلے میں امید افزا عوامل بھی موجود ہیں۔ دشمن نہیں چاہتا کہ ہم ان امید افزا عوامل کو دیکھ لیں، جبکہ یہ عوامل، موجودہ مسائل سے کہیں زيادہ ہیں۔ سائنس، ٹیکنالوجی، صنعتی اور زرعی ڈھانچوں اور نقل و حمل کے بہت اہم ڈھانچوں کی تعمیر، افرادی قوت کی تعلیم و تربیت میں عظیم پیشرفت، تعمیر و ترقی کے حوالے سے سرگرمیوں کی دور افتادہ اور محروم علاقوں میں منتقلی، جیسے امور جو اسی وقت بھی انجام پا رہے ہیں؛ بین الاقوامی پالیسیوں میں پیشرفت، قومی عظمت و عزت میں اضافہ کرنے اور ملکی فوجی اور دفاعی طاقت کے حوالے سے، جو کچھ ہؤا ہے اور ہو رہا ہے، سب امید افزا حقائق ہیں، دشمن چاہتا ہے کہ ہم ان حقائق کو بھول جائیں اور ہمارا نوجوان ان حقائق سے واقف نہ ہو، [کیونکہ] یہ حقائق ہیں جو روشن مستقبل کی نوید دے رہے ہیں۔

جب آپ امید کے بارے میں بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ بعض مسائل کی طرف اشارہ کرکے آپ کی اسی امید کو دھچکا لگانا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ "آپ کو حقائق کی خبر نہیں ہے"، حالانکہ ہم سب ان مسائل کو ـ جو کہ اقتصادی مسائل ہیں ـ جانتے ہیں، بے شک یہ سب کے لئے تکلیف دہ ہیں، کچھ لوگ عوام کو ناامید کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ سماجی تہہوں اور طبقوں میں ایسے لوگ ہیں جنہیں دین، ایمان اور انقلاب کی فکر نہیں ہے؛ یہ درست ہے لیکن آج کی بات نہیں ہے۔ جنگ کے زمانے میں محاذ جنگ پر مؤمن نوجوانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہؤا سمندر دکھائی دیتا تھا لیکن کچھ لوگ بے فکری میں تہران اور دوسرے بڑے شہروں میں لا پروا ہو کر گھومتے پھرتے تھے اور نہ صرف ذمہ داری محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ ذمہ دار افراد کی تضحیک بھی کرتے تھے۔ آپ شہداء کے حالات زندگی کو، وہ جب بڑے شہروں ـ بالخصوص تہران ـ میں آتے تھے تو محاذ کی یاد انہیں ستاتی تھی اور اس کی وجہ یہی تھی۔ سنہ 1980ع‍ کی دہائی، انقلاب اسلامی کی پہلی دہائی تھی لیکن یہ مسائل اس وقت بھی تھے، چنانچہ یہ حیرت کی بات نہیں ہے۔ آج بھی ہیں ایسے لوگ جو انقلاب، اسلام اور ایران کے وفادار نہیں ہیں لیکن یہ پوری ملت ایران کے ترجمان نہیں ہیں۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے زمانے میں تھے ایسے لوگ جو شہادت کے عاشق تھے، جہاد کے مشتاق تھے، اگر ان کا میدان جنگ جانا ممکن نہ ہوتا تو وہ روتے تھے، لیکن کچھ لوگ اسی مدینہ منورہ بھی ایسے بھی تھے جن کے بارے میں خدائے حکیم نے ارشاد فرمایا کہ "وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النِّفَاقِ لاَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ؛ اور آپ کے ارد گرد کچھ صحرائی (بدوی یا بدو) عرب ہیں، اور اس شہر (مدینہ منورہ) والوں میں سے بھی کچھ منافقین ہیں، جو نفاق (منافقت) پر بضد ہیں، آپ ان کو نہیں جانتے، ان کو ہم نہیں جانتے ہیں"۔ (سورہ توبہ، آیت 101) نیز ارشاد ربانی ہے:

"لَئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ؛ اور اگر یہ منافق لوگ، اور وہ جن کے دلوں میں بیماری ہے، اور وہ جو مدینہ میں غلط افواہیں پھیلاتے ہیں، باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے خلاف حرکت میں لائیں گے۔۔۔" (سورہ احزاب، آیت 60)

خود مدینۃ النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) میں ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ نے "مرجفون" (غنط افواہیں اڑانے والے) کا عنوان دیا ہے؛ افواہیں اڑانے والے، خوف و ہراس پھیلانے والے، شک و تذبذب پھیلانے والے، شبہات پھیلانے والے، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دور میں، جبکہ اس زمانے میں نہ انٹرنیٹ تھا، نہ سماجی رابطے کی ویب گاہیں تھیں، نہ اتنے سارے ٹیلی ویژن چینل تھے۔ آج اسزمانے میں تمام آلات و اوزار موجود ہیں، آپ دیکھ لجئے، دیکھئے ایرانی نوجوان اس دور میں کس قدر عظمت کا مظآہرہ کر رہا ہے۔

ہمارے ملک میں مساجد اور انجمنوں میں ہزاروں مقاومتی مراکز (بسیج کے حلقے) ہیں، ان مراکز سے سلامتی کے مدافعین، حرم کے مدافعین، بسیجی طالبعلم کے عنوان سے نوجوان اٹھتے ہیں۔

امید افزا نقطہ یہ ہے کہ ان حالات میں کہ دشمن نے اپنی ساری کوششوں کو مربوط بنا دیا ہے، فلاں یونیورسٹی کے انقلابی طالب علم کو فحش گالیاں پڑتی ہیں، لیکن وہ میدان نہیں چھوڑتا؛ حوزہ علمیہ کا بسیجی طالب علم ٹارچر کی وجہ سے جام شہادت نوش کرتا ہے لیکن وہ دشمن کی مطلوبہ بات زبان پر نہیں لاتا؛ جاں نثار، مدافعین حرم، جہاد تبیین (تشریح و وضاحت کے جہاد) کے محنتی فعالین، مؤمنانہ امداد کے لئے تشکیل یافتہ جمعیتیں، جہادی کیمپ (جو محروم علاقوں کے عوام کے لئے بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے کے لئے لگائے جاتے ہیں)، یہ سب اس ملک کے نوجوان ہیں۔

انٹرنیٹ کے ہوتے ہوئے، سماجی رابطوں کے نیٹ ورکس کے باوجود، لغزشوں اور گناہوں کی طرف بلانے والے بے شمار عوامل کے باوجود، یہ نوجوان اپنے چنے ہوئے راستے پر گامزن ہیں۔ کبھی آپ دیکھتے ہیں کہ ایک دور افتادہ گاؤں سے ایک نورانی شخصیت ظہور پذیر ہو جاتی ہے؛ [تہران کے نواحی شہر] "شہریار" کے نواحی گاؤں سے مصطفی صدرزادہ نامی مخلص اور جان نثار نوجوان اٹھتا ہے، اس طرح کے ہزاروں نوجوان ملکی سطح پر موجود ہیں، یہ سب حقائق امید افزا ہیں۔ انقلابی حلقوں، ممتاز معاشرتی سطح کی ممتاز شخصیات، حوزہ علمیہ اور جامعات میں سرگرم حلقوں اور معاشرے کے مقبول افراد، پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ذمہ داری یہ ہے کہ لوگوں کے ایمان کو تقویت پہنچائیں، ان کی امیدوں کو مضبوط کریں، شکوک و شبہات کا ازالہ کریں، شبہات پھیلانے اور ناامیدی پھیلانے کے سلسلے میں دشمن کی روشوں کو ناکام اور ناکارہ بنا دیں۔

دشمن کی چال یہ ہے کہ نوجوانوں کو ملکی ذمہ داروں، ملک کی آگے کی طرف پیشرفت، ملک کی سیاسی حرکت و فعالیت اور معاشی عمل کی نسبت اور لوگوں کو ایک دوسرے کی نسبت بدگمان کیا جائے؛ یہ دشمن کی چال ہے اس کا مقابلہ کریں۔ دشمن کی ایک چال یہ ہے کہ عوام کو انتخابات کے حوالے سے بدگمان کر دیں۔ اگر زندگی رہی اور توفیق ہوئی تو سال کے آخر میں ہونے والے [پارلیمانی] انتخابات کے بارے میں بات کروں گا۔ اب اتنا ہی کہنا چاہوں گا یہ بہت اہم انتخابات ہیں، اور دشمن نے ابھی سے اپنے توپ خانے کا ہمارے انتخبات کی طرف کر لیا ہے، اور انتخابی بمباری میں مصروف ہے، جبکہ انتخابات کے انعقاد میں ابھی نو مہینے باقی ہیں۔ ان شاء اللہ ملت ایران، عزیز نوجوان اس بیداری، ہوشیاری اور اس عزم و ہمت اور ایمان و امید میں اضافہ کریں اور دشمن کو ناکام بنائیں۔

بار پروردگارا! بحق محمد و آل محمد (صلوات اللہ علیہم اجمعین) اپنی ہدایت اور مکمل فتح و نصرت، اس قوم کو عطا فرما۔ پروردگارا! امام بزرگوار کی روح مطہر کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ محشور فرما۔ ہمیں امام زمانہ (علیہ السلام) کے سپاہیوں کے زمرے میں قرار دے، اور آپ کی دعا کو ہمارے، بالخصوص ہمارے نوجوانوں، کے شامل حال فرما۔ پروردگارا! بحق محمد و آل محمد (صلوات اللہ علیہم اجمعین) ہمارے ملک کے مسائل کو ہمارے ذمہ داروں کے عزم و ارادے اور ہمت سے حل فرما دے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110