اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
ہفتہ

29 اپریل 2023

2:03:48 PM
1361315

ایران-سعودی سمجھوتہ اور اس کے دوطرفہ، علاقائی اور بین الاقوامی اثرات

چین کی وساطت سے، ایران-سعودی سمجھوتے پر دستخطوں نے ایک دنیا کو حیران کر دیا اور تجزیہ کاروں کو اس اہم اور غیر متوقعہ واقعے کی مختلف جہتوں پر بحث و مباحثے کی طرف راغب کر دیا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ایران-سعودی سمجھوتہ وقت اور مقام کے لحاظ سے بھی اہم ہے کیونکہ ایسے وقت میں منعقد ہؤا ہے کہ دنیا، یوکرین کی جنگ کی وجہ سے، قابل تیزی سے بدل رہی ہے، اور اس پر چین کے دارالحکومت بیجنگ میں دستخط ہوئے ہیں، جو اس حقیقت کا اظہار ہے کہ عالمی سطح پر ایک بڑی عالمی طاقت ظہور پذیر ہو رہی ہے۔

اس سمجھوتے نےدوطرفہ، علاقائی اور بین الاقوامی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں جن کا یہاں جائزہ لیا جاتا ہے:

1۔ دوطرفہ تعلقات کی سطح پر

اس میں شک نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے علاقے کے دو اہم ممالک ہیں، اور بین الاقوامی سطح پر دونوں ممالک کے اتحادی بھی موجود ہیں۔ ایران علاقائی سطح پر، محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کی چوٹی پر ہے اور سعودی عرب بھی خلیج فارس تعاون کونسل اور عربی حدود میں اثر گذار ملک ہے۔

اب تکیہ دو اہم علاقائی طاقتیں سیاسی موقف اور بین الاقوامی اتحادوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے تھے، اور موجودہ سمجھوتے پر دستخط کرکے، اور باہمی تعلقات بحال کرکے، باہمی تقابل کے بجائے سیاسی تعاون کی پالیسی پر گامزن ہونا چاہتے ہیں، کیونکہ فریقین اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ تقابل اور تنازعے کے اخراجات بہت بھاری ہیں، اور مفاہمت کی پالیسی بہت آسان اور کم خرچ ہے، اور مختلف قسم کی تبدیلیاں اور موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں یہ تبدیلی معرض وجود میں آئے۔

البتہ یہ سمجھوتہ خلا سے نہیں اترا بلکہ دو ملکوں کے سیاسی ارادے اور - بغداد اور مسقط میں - کئی برسوں سے جاری مذاکرات کا نتیجہ تھا اور چین نے اپنے سیاسی ثقل (وزن) کے بدولت، مذاکرات کے عمل کو حتمی نتیجے تک پہنچایا۔ البتہ حالیہ چند برسوں میں ریاض کی نئی پالیسیوں نے بھی اس سمجھوتے کے لئے ماحول فراہم کیا تھا۔

چند سال قبل سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی ز‏عماء کے بارے میں توہین آمیز موقف اپنایا اور اسے کئی بار دہرایا، امریکہ اپنی مفادپرستانہ پالیسیوں کی بنا پر یمن کی جنگ جاری رکھنے کا خواہاں تھا، اور سعودی عرب کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے کی پالیسی پر گامزن تھا جس کی وجہ سے سعودی حکمرانوں نے بھی امریکہ سے الگ تھلگ ایک آزاد پالیسی اپنائی۔ سعودی عرب نے - بین الاقوامی منڈی میں اوپک کے دائرے میں - تیل پیدا کرنے اور تیل کی فروخت کے سلسلے میں وفاقی روس کے ساتھ معاہدے پر دستخط کئے اور امریکی دباؤ کو نظرانداز کرکے اس معاہدے کا پابند رہا،۔ دوسری طرف سے سعودیوں نے چین کے ساتھ مختلف سمھجوتوں پر دستخط کئے، سعودی عرب ڈالر سے آزاد ہو کر 24 لاکھ بیرل تیل چین کو - چینی کرنسی "یوآن" میں - فروخت کر رہا ہے، جو ریاض کی روایتی پالیسی میں بہت اہم تبدیلی ہے؛ اور اسی تبدیلی نے چین کو - ایران-سعودی مذاکرات نتیجے تک پہنچانے کا موقع فراہم کیا۔

بے شک یہ سمجھوتہ مستقبل میں تیل، سیکورٹی اور اقتصاد کے شعبوں میں بہت اہم کردار ادا کرے گا؛ جس کی ایک مثال سعودی وزیر خزانہ کا یہ بیان ہے کہ "سعودی عرب ایران میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کا خواہاں ہے"؛ نیز سعودی حکام نے حال میں - مستقبل قریب میں - شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت کا اعلان کیا، اور یہ پوری پیشرفت سعودی عرب کی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔

2۔ علاقائی سطح پر

بے شک یہ تاریخی سمجھوتہ خطے پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ دو طرفہ تقابلی [اور تصادم کی] پالیسی، علاقے کے دوسرے ممالک کو بھی متاثر کر رہی تھی اور لبنان، شام، عراق، یمن اور بحرین پر بھی اثرانداز ہوئی تھی اور دوسرے ممالک بھی - جو دونوں ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھتے تھے، - روابط کو فروغ دینے میں محتاطانہ پالیسی اپنائے ہوئے تھے۔ اور دوسری طرف سے یہ تنازعہ خطے اور اسلامی دنیا میں جعلی صہیونی ریاست کے نفوذ کا باعث بن رہا تھا، یہاں تک کہ خلیج فارس کی بعض عرب ریاستوں نے اس تنازعے سے پیدا ہونے والا حالات کا فائدہ اٹھا کر صہیونیوں کے ساتھ سیکورٹی کے سمجھوتے منعقد کر لئے!

ایران-سعودی سمجھوتہ اگرچہ دو فریقی سمجھوتہ تھا اور علاقائی تنازعات کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتا تھا، لیکن سفارتی تعلقات اور رابطے کے راستے کھل جانے کی وجہ سے، آج ان دو ملکوں کے درمیان تمام شعبوں میں مفاہمت کے لئے ماحول فراہم ہؤا ہے۔ نیز یہ سمجھوتہ علاقے میں گھس آنے آنے اور ایران کے ساتھ کشیدگی میں شدت لانے کی صہیونی ریاست کی طفیلی (Parasitic) پالیسیوں کو ناکام بنائے گا۔

اس میں شک نہیں ہے کہ عرصۂ دراز کے بعد، حال ہی میں حماس کے راہنماؤں کا دورہ ریاض اور ان کا عمرہ بجا لانا، لبنانی صدر کے انتخاب کے لئے ہونے والے اتفاق رائے کا امکان معرض وجود میں آنا، شام کے ساتھ بہت سارے عرب ممالک کے تعلقات کی بحالی اور شامی حکام کے مختلف ممالک کے دورے نیز علاقائی حکام کے شام کے دورے، ایران-سعودی سمجھوتے کے ثمرات ہیں جو مستقبل میں خطے کے مفاد اور تل ابیب کی عارضی ریاست کے نقصان، میں ہونگے۔

3۔ بین الاقوامی سطح پر

حالیہ چند سالہ عرصے میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ یوکرین کے جنگ اور نیٹو کے - پراکسی جنگجو (Proxy warrior) کے طور پر - روس کے خلاف جنگ میں کودنے کی وجہ سے، عالمی نظام میں تبدیلی کے عمل کی رفتار میں اضافہ ہؤا ہے۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ مغرب کا یکطرفہ اور یک قطبی نظام، جو سنہ 1990ع‍ کے عشرے میں - مشرقی بلاک کی شکست و ریخت اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد، - دنیا پر مسلط ہو چکا تھا، اب مختلف وجوہات کی بنا پر غروب سے دوچار ہؤا ہے اور چین، روس، ایران اور ہندوستان کے مدار پر ایک نیا کثیر قطبی نظام تشکیل پا رہا ہے۔

مغرب میں انفرادی آزادیوں پر مبنی سماجی پالیسیاں، جو خاندان کے مکمل زوال اور ہمجنس پرستی جیسی سماجی ناہنجاریوں اور بے راہ رویوں پر منتج ہوئی ہیں، اور اس کی نو لبرل (Neo-liberal) اقتصادی پالیسیاں اقتصادی کساد بازاری اور ناقابل برداشت قرضوں کے بوجھ کا سبب بنی ہوئی ہیں، مغرب کے فرسودہ معاشروں کے زوال کا اصل سبب گردانی جاتی ہے۔

اس کے مقابلے میں دنیا ہے ہے جو تمام تر ثقافتی اور سماجی اختلافات کے باوجود خاندانی یکجہتی جیسی اقدار کی پاسداری کرتی ہے اور نہ مغرب کی طرح مختلف جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہے اور نہ ہی مغرب کی طرح عظیم قرضہ جات کی پیچیدہ بیماری میں۔ ایشیائی ممالک کی حالیہ چند برسوں کی مجموعی قومی آمدنی کی شرح (GDP) عالمی اوسط شرح سے اوپر ہے اور ان ممالک کے خلاف مسلسل امریکی اقتصادی پابندیاں لگیں تو انہوں نے پابندیوں سے عبور کرنے کی غرض سے، باہمی لین دین کے لئے نئے راستے ڈھونڈ لئے۔ ماضی میں، شنگھائی سربراہی اجلاس اور برکس گروپ جیسی تنظیموں کی تشکیل، اب امریکی پابندیوں پابندیوں کی شدت کی رو سے، اب اداروں کی تشکیل، توسیع اور تعمیر کے عمل سے گذر رہی ہے جو یقینا مستقبل میں اس نئے ایشیائی محور کے ستونوں کی تکمیل میں مدد دے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حسین رُوے وَران، تہران یونیورسٹی میں شعبۂ عالمی مطالعات کے پروفیسر

ترجمہ فرحت حسین مھدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242