اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

18 اپریل 2023

1:14:39 PM
1359157

شیطان کا قیدِ رمضان سے فرار؟

ماہِ رمضان کے نام پر رمضان کے تقدس کی پامالی کی ان تمام صورتوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ طرزِ عمل ہمارے دین کو آلودہ کرنے کی ایسی منظم سازش ہے، جس کا ہم دانستہ اور ناداستہ شکار ہو رہے ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں جس طرح ہمارے معاشرے میں فرقہ واریت کا زہر گھولنے کی کوشش میں ہیں، اسی طرح وہ ہمارے دین میں اپنی ثقافت کا رنگ ڈال کر ہمیں حقیقی اسلامی اقدار سے دور کرنا چاہتی ہیں۔

بقلم سید تنویر حیدر

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ماہِ رمضان اسلام کا سب سے مقدس اور بابرکت مہینہ ہے۔ اس ماہِ مبارک میں ذاتِ خداوندِ قدوس خطا کے پتلے انسان کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات کو لگام دے کر اپنے وجود کو دنیا کی تمام آلاٸشوں سے پاک کرے اور بارگاہِ خداوندی میں سجدہ ریز ہو کر اپنے تمام گذشتہ گناہوں کی معافی کا طلبگار ہو اور پھر راہِ عمل پر نئے رختِ سفر کے ساتھ زندگی کے نئے سفر کی شروعات کرے۔ ایسا سفر جو اس کو اس کی حقیقی منزل یعنی قربِ الہٰی کی منزل تک پہنچا دے۔ روزہ نفسِ امارہ کو زیر کرنے کی ایسی مشق ہے، جس میں بندہء خدا سحر سے شام تک بھوکا پیاسا رہ کر اپنی روح کی غذا کا اہتمام کرتا ہے۔ روزہ ایک مذہبی اور دینی عبادت ہے۔ روزے کی حالت ایسی کیفیت کا نام ہے، جس میں انسان اپنے آپ کو دین کے رنگ میں مکمل طور پر اس طرح رنگ لیتا ہے کہ اس کا ہر عمل شعاٸرِ الہٰی کا ترجمان بن جاتا ہے۔ لیکن مقامِ افسوس ہے کہ ہم میں سے اکثر نے اس مبارک مہینے کو بھی حسبِ سابق محض اپنی نمودونماٸش کا ذریعہ بنائے رکھا۔

آج جب ہم سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر ایامِ رمضان میں رمضان کے نام پر اکثر آن ایئر ہونے والے پروگراموں کو دیکھتے ہیں تو یوں نظر آتا ہے جیسے ہم نے اس ماہِ مبارک میں اپنی نفسانی خواہشات کو لگام دینے کی بجائے انہیں بے مہار چھوڑ دیا ہے اور رمضان کے شب و روز کو اپنے نفس کے مجاہدے کی بجائے انہیں تفریح طبع کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ ہمیں ان مقدس ایام میں مختلف ٹی وی چینلوں میں ایسے نیلام گھروں کی بھرمار نظر آتی ہے، جہاں رمضان کے تقدس کو نیلام کیا جا رہا ہوتا ہے۔اسی طرح مرد و خواتین کے بعض مخلوط پروگراموں میں جس طریقے سے اسلامی شعاٸر کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اس کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ دوسری طرف جب ہم ماہِ رمضان میں افطاری کی دعوتوں کا نظارہ کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے، جیسے ان دعوتوں میں سجے افطاری کے دسترخوان ایسی نماٸش گاہیں ہیں، جو اہلِ ثروت کی حیثیت اور مرتبے کی نمود و نماٸش کا ذریعہ ہیں۔

ماہِ رمضان کے نام پر رمضان کے تقدس کی پامالی کی ان تمام صورتوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ طرزِ عمل ہمارے دین کو آلودہ کرنے کی ایسی منظم سازش ہے، جس کا ہم دانستہ اور ناداستہ شکار ہو رہے ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں جس طرح ہمارے معاشرے میں فرقہ واریت کا زہر گھولنے کی کوشش میں ہیں، اسی طرح وہ ہمارے دین میں اپنی ثقافت کا رنگ ڈال کر ہمیں حقیقی اسلامی اقدار سے دور کرنا چاہتی ہیں۔ رمضان کا مہینہ کھیل تماشوں اور میلوں ٹھیلوں کے لیے مختص نہیں ہے بلکہ سادگی اور خشوع و خضوع کے ساتھ بارگاہِ خداوندی میں عجز و انکسار کے سانچے میں ڈھل کر اپنا دستِ دعا بلند کرنے، اپنی زبان پر ذکرِ الہٰی جاری کرنے، اپنی آنکھوں کو یادِ الہٰی میں نمناک کرنے اور اپنے دل کو نفسانی خواہشوں سے پاک کرنے کے لیے مخصوص ہے۔ زکوٰة و خمس کی طرح روزہ بھی معاشرے کے معاشی مساٸل کو حل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

ہمارے حکمرانوں کو چاہیئے تھا کہ وہ کم از کم اس ماہ مبارکہ میں عوام کی معاشی حالت کی طرف اک نظر اٹھا کر دیکھتے۔ لیکن کیونکہ انہوں نے پہلے ہی سی اپنے آپ کو بھکاری ڈیکلیئر کر رکھا ہے، لہذا ان کے لیے نہایت آسان ہے، کو وہ ماہ رمضان سے فاٸدہ اٹھاتے ہوئے اپنا اپنا کشکول اٹھائے بیرونی دنیا کے کچھ اور چکر لگا آٸیں اور آٸی ایم ایف کی کچھ اور منتیں کر لیں۔ وہ مفلوک الحال طبقہ جس کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہے، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اس مہینے میں انہیں ریلیف کا کوٸی پیکج ملتا، لیکن اس کی بجائے انہیں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے ناتواں کندھوں پر وافر مقدار میں تکلیف کا سامان ضرور اٹھانا پڑا ہے۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں اس ماہ رمضان میں آسمان کی ان بلندیوں سے آشنا ہوٸیں، جہاں تک مرغِ خیال بھی اپنی اڑان بھرنے سے قاصر ہے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ ہمارے حکمران لوگوں کی اس مفلوک الحالی کا درمان کرنے کی بجائے ہمیشہ کی طرح ان کی اس حالتِ زار کو سوشل میڈیا پر اپنی جھوٹی نمود و نماٸش کا ذریعہ بناتے ہوئے نظر آئے اور لوگ ان کی طرف سے بخشش میں ملے محض آٹے کے ایک تھیلے تک پہنچنے کے لیے آٹے کی طرح پستے ہوئے نظر آئے۔ایسی ناگفتہ بہ صورتِ حال میں کوٸی مہنگاٸی کا مارا اس کے سوا کیا کہ سکتا ہے:

اس ملکِ خداداد میں مہنگاٸی کے مارے

زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242