اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
ہفتہ

8 اپریل 2023

2:02:58 AM
1356785

صلح امام حسن علیہ السلام؛

صلح امام حسن(ع) جنگ سے کم نہ تھی / دشمنوں نے امام مجتبیٰ(ع) کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔۔۔ ڈاکٹر فلاحی قمی

امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کی سیاسی حیات، آنجناب کی سیاسی زندگی کا حساس ترین باب ہے۔ اس سلسلے میں دو شبہے پائے جاتے ہیں اول یہ کہ امام حسن (علیہ السلام) نے اپنے انتہائی مستحکم معنوی پس منظر اور الٰہی شخصیت کے باوجود معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی؟ اور دوسرا شبہہ دشمنوں کی کھوکھلی اور بے بنیاد روایات پر مبنی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کی زندگی شادیوں اور طلاقوں میں گذری ہے!

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا - کی رپورٹ کے مطابق، جامعۃ المصطفی العالمیہ کے فیکلٹی رکن حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محمد فلاحی قمی نے کریم اہل بیت حضرت امام حسن مجتبیٰ کی ولادت با سعادت (15 رمضان المبارک) کی آمد پر، "ابنا" کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو کے ضمن میں، مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ امام مجتبیٰ (علیہ السلام) کئی خصوصیات کی بنا پر مشہور ہوئے جن میں سے ایک "کرامت و سخاوت" ہے۔

انٹرویو کے اہم نکات؛ انھوں نے کہا:

امام حسن (علیہ السلام) کے "کریم" ہونے کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہنا چاہئے کہ ائمۂ اہل بیت (علیہم السلام) تمام کے تمام اس وصف سے متصف تھے۔

عبداللہ بن عباس سے مروی ہے: ایک دفعہ ہم مسجد الحرام میں تھے، امام حسن (علیہ السلام) مسجد میں اعتکاف پر تھے اور طواف کعبہ میں مصروف، کہ اسی وقت ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہؤا اور کہا: میں ایک آدمی کا مقروض ہوں، اگر آپ مصلحت سمجھتے ہیں تو میرا قرض ادا کریں۔ امام نے فرمایا: میرے پاس کچھ نہیں ہے کہ آپ کی مدد کر سکوں۔ سائل نے کہا: آپ میرے لئے مہلت لیں ورنہ مجھے گرفتار کیا جائے گا۔ امام نے دیکھا کہ مسئلہ بہت سنجیدہ ہے، تو طواف کو ادھورا چھوڑا۔ مجھے حیرت ہوئی، اور عرض کیا: اے فرزند رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کیا بھول گئے ہیں کہ آپ اعتکاف پر ہیں؟ آپ نے فرمایا: بھولا نہیں ہوں لیکن میں نے اپنے والد امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے سنا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "مَنْ قَضَى أَخَاهُ اَلْمُؤْمِنَ حَاجَةً كَانَ كَمَنْ عَبَدَ اَللَّهَ تِسعَةَ آلاَفِ سَنَةٍ صائِماً نَهَارَهُ وقائِماً لَيْلَه؛ "اگر کوئی اپنے مؤمن بھائی کی حاجت کو پورا کر دے، تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے نو ہزار سال کا عرصہ کھڑے ہوکر نماز میں گذارا ہو اور اس تمام عرصے میں دنوں کو روزہ رکھا ہو"۔

(احمد بن محمد بن فهد الحلی، عدة الداعی ونجاح الساعی، ص 192-193.)

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے چار سال تک ظاہری طور پر حکومت کی اور یہ پورا عرصہ بھی اندرونی سازشوں کے نتیجے میں، جنگوں میں گذرا۔ مسلسل جنگیں اور مسلمانوں کے جانی اور مالی نقصانات حیرت انگیز تھے۔ ناکثین (عہد شکنوں) کے ساتھ لڑی جانے والی جنگ جمل میں، روایات کے مطابق، تین سے تیس ہزار تک لوگ جان کی بازی ہار گئے۔ یہ جنگ کئی دنوں تک جاری رہی؛ قاسطین کے ساتھ لڑی جانے والی جنگ "صفین" میں ایک لاکھ دس ہزار اور مارقین کے ساتھ لڑی جنگ نہروان میں تقریبا چار ہزار افراد کام آئے۔ اسلامی معاشرہ غم زدہ تھا، اس نفاق اور انتشار اور منافقت و ریاکاری نے مسلمانوں کو عجیب مسائل سے دوچار کیا تھا۔ عجیب نکتہ یہ ہے کہ اس اعداد و شمار میں ایک بھی کافر یا مشرک نہیں دکھائی دیتا۔ ان جنگوں ہلاک ہونے والے افراد میں ایسے لوگ موجود تھے جن کی مثال ہم نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی ہے؛ نماز و عبادت میں مصروف رہنے والے لوگ، جن کی پیشانیاں کثرت سجدہ کی وجہ سے اس قدر سخت ہو گئی تھیں جن سے تیغ مار کر خون نہیں نکلتا تھا! ان کی گردنوں میں قرآن مجید کے نسخے لٹکتے تھے اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) قرآنوں کو ان کے گلوں سے کھول دیتے تھے کہ خون سے آلودہ نہ ہوں۔ وہ سب مسلمان تھے جو فتنہ گروں کے دھوکے میں آئے تھے۔ امام حسن (علیہ السلام) ان حالات میں مرتبۂ امامت پر فائز ہوئے۔

ماہ رجب المرجب میں ابھی تین باقی تھے کہ امام حسین (علیہ السلام) مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ شعبان، رمضان، شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ کے دوران مکہ مکرمہ میں قیام کیا۔ چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) کے انقلاب کا عرصہ، 10 محرم الحرام کو آپ کی شہادت تک، مجموعی طور پر 160 دنوں پر مشتمل ہے۔ یہ زمانہ سیدالشہداء امام حسین (علیہ السلام) کا زمانہ ہے جب آپ نے باضابطہ طور پر اسلحہ اٹھایا، جبکہ آپ اپنی شہادت سے 10 سال قبل، امام حسن (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد امامت کے الٰہی منصب پر فائز ہوئے تھے۔ حالانکہ امام حسن (علیہ السلام) کی امامت کا آغاز ہی شمشیر اور لباس رزم کے ساتھ ہؤا تھا۔

 

 

چنانچہ معاویہ کے ساتھ امام حسن (علیہ السلام) کی صلح بھی جنگ سے کچھ کم نہیں تھی، اور حالات و واقعات سے ظاہر ہے کہ آپ کا یہ اقدام بہترین اقدام تھا۔ آپ کے پاس رزم و جہاد کے لئے نفری نہیں تھی، ایک شکست خوردہ لشکر کے سپہ سالار تھے جن میں سے کچھ تو انتقام کا مطالبہ کر رہے تھے مگر باقی لوگ حرص و لالچ میں مبتلا تھے۔ تو اس قسم کے لشکر کے ہوتے ہوئے کیا جنگ جاری رکھنا ممکن تھا؟

نامی گرامی افراد - جنہیں خواصِ لشکر کہا جا سکتا ہے - غداری کے مرتکب ہوئے تھے، امام حسن (علیہ السلام) کے ارد گرد ایسے افراد بکثرت موجود تھے جنہوں نے متعدد بار غداری اور خیانت کا ارتکاب کیا تھا۔ اہل سنت کے مشہور مؤرخ احمد بن ابی یعقوب نے اپنی کتاب "تاریخ الیعقوبی" کے صفحہ 214 پر لکھا ہے: "عبیداللہ بن عباس آٹھ ہزار کا لشکر لے کر امام سے آگے آگے چلتا رہا اور معاویہ کے لشکر میں شامل ہؤا! اس نے معاویہ کے سامنے ہتھیار ڈآلنے کے عوض دس لاکھ درہم کی رشوت وصول کی۔ چنانچہ لشکر بہت ضعیف اور کمزور تھا، جس کا دو تہائی حصہ بھاگ چکا تھا اور باقی افراد بھی جنگ کی ہمت و حوصلے سے عاری ہو چکے تھے۔

ایک روایت کے مطابق، لشکر معاویہ ساٹھ ہزار افراد پر مشتمل تھا؛ اور اگر جنگ چھڑ جاتی تو اصولی طور پر دین اسلام کی نابودی کا خطرہ سروں پر منڈلا رہا تھا؛ امام اور آپ کے پیروکاروں میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہتا کیونکہ اموی دشمن کسی بھی قسم کے اخلاقی یا دینی اقدار کا لحاظ نہيں رکھتے تھے؛ ادھر سلطنت روم کی ہمہ جہت یلغار کا خطرہ تھا۔ وہ بھی مسلمانوں کی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لئے میدان میں آنے کے لئے آمادہ تھے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں: "اَلْحَسَنُ وَ اَلْحُسَيْنُ إِمَامَانِ قَامَا أَوْ قَعَدَا؛ حسن اور حسین (علیہما السلام) دو امام ہیں چاہے وہ اٹھیں چاہے بیٹھ جائیں"۔ (ابن شہر آشوب، محمد بن علی سَرَوی مازندرانی، مناقب آل أبى طالب، ج2، ص138۔) اور امام حسین (علیہ السلام) کے دور کی ذمہ داری جانبازی اور جہاد سے عبارت تھی اور امام حسن (علیہ السلام) کے دور کی ذمہ داری صلح سے؛ لیکن یہ صلح جنگ سے کم نہیں تھی۔

اور پھر امام حسن (علیہ السلام) کی صلح متعدد شرطوں سے مشروط تھی؛ ایک شرط یہ تھی کہ کتاب اللہ اور سنت نبوی کے مطابق عمل کیا جائے۔ صلح کے معاہدے کے مطابق، معاویہ کے بعد حکومت کا عہدہ امام حسن (علیہ السلام) کے سپرد ہونا تھا اور بعدازاں امام حسین (علیہ السلام) کے حوالے کیا جانا تھا۔ معاویہ کے پاس انتخاب کا حق نہیں تھا۔

صلح کے بعد معاویہ نے امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کی کردار کشی کا آغاز کیا۔ بدقسمتی سے کچھ مؤرخین نے اسی کردار کشی سے متاثر ہوکر امام کے لئے ڈھائی سو سے تین سو تک ازواج کا تذکرہ کیا ہے، جو ایک بے بنیاد اور ناممکن دعویٰ ہے۔ اگر ہم تاریخ کا بغور مطالعہ کریں اور امام مجتبیٰ (علیہ السلام) کی ممتاز اخلاقی اور معنوی خصوصیات کو پہچان لیں تو اس قسم کے بے بنیاد دعوے قابل قبول نظر نہیں آئیں گے کہ اس عظیم الٰہی روح کا مالک شادی بیاہ کی طرف اس قدر شدید رغبت رکھ سکتا ہے۔

اس موضوع کا ثبوت امام کے فرزندوں کی تعداد ہے، جو مؤرخین کی مرویات کے مطابق، اگر امام حسن (علیہ السلام) نے زیادہ ازواج اختیار کی ہوتیں تو اس کا لازمہ یہ تھا کہ آپ کے فرزندوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوتی، حالانکہ شیخ مفید اور علامہ مجلسی (رحمہما اللہ) نے لکھا ہے کہ امام کی اولاد کی تعداد 15 تھی۔

ریحانۃ الرسول امام حسن مجبتیٰ (علیہ السلام) کے خلاف سوال یہ اموی تشہیری مہم چلانے والوں سے سوال یہ ہے کہ اگر آپ کی زوجات کی تعداد اتنی زیادہ تھی تو ان کے نام اور ان کے باپ دادا کے نام اور ان کے قبائل کے نام کیا تھے اور ان میں کتنی خواتین امام کے جنازے میں شریک تھیں اور کتنی خواتین نے آپ کی میراث میں سے اپنا حصہ طلب کیا؟

..............

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

..............

110