اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

31 مارچ 2023

12:41:57 AM
1355140

ہدایت یافتگان؛

امام خمینی میرے سوال کا جواب تھے ۔۔۔ نومسلم ہسپانوی دانشور ڈاکٹر جعفر گونزالیس کا انٹرویو

اشارہ: ڈاکٹر راؤل گونزالیس میڈرڈ کے میں پیدا ہوئے، سنہ 1989ع‍ میں پہلی بار ایران آئے اور آج وہ قم میں مقیم ہیں۔ میگزین Echo of Islam میں دفاع مقدس کے مجاہدوں کی تصویریں دیکھ کر روحانی سفر کا رخ تشیّع کی طرف بدلا؛ قبل ازیں فکری تعطل کا شکار تھے، لیکن ان نورانی چہروں کی روشنی میں حصول معرفت کے لئے پرعزم ہوئے۔ اور یوں "راؤل" "جعفر" بن گئے؛ قرآن کریم کے پہلے ہسپانوی مترجم بنے؛ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی کتب کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ کیا۔ یہاں جعفر گونزالیس کے روحانی سفر کی تفصیل حاضر خدمت ہے۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا:

اسلامی انقلاب جاری و ساری

مسلمانوں کی تمام نسلوں کو جان لینا چاہئے کہ انقلاب اسلام "مسلسل خود تخلیقی" کی کیفیت سے گذر رہا ہے۔ انقلاب اقتدار کی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقلی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عمل (Process) ہے۔ یہ جمہوریت کی طرح بھی نہیں ہے جس میں صرف ووٹ ڈالا جاتا ہے بلکہ انقلاب ہر اس چیز میں عوام کی مسلسل مداخلت کا نام ہے جس کا ان سے تعلق بنتا ہے۔ اس لحاظ سے انقلاب ہر روز اک چیلنج اور ایک مسئلے کا سامنا کرتا ہے، چنانچہ ہمیں انقلابی رہنا پڑے گا۔ یعنی انقلاب ختم نہیں ہؤا ہے اور اس انقلاب کے دائرے میں مسلم نوجوانوں کے لئے بہت کچھ کرنے کے لئے راستہ کھلا ہے۔

ایک وہ وقت بھی تھا جب لوگ نماز ادا کرنے سے شرماتے تھے!

انقلاب اسلامی کا پیغام وہی ہے جو حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے ثابت کرکے دکھایا اور وہ یہ کہ اقوام عالم اللہ کی مدد سے بڑی طاقتوں کے سامنے جم سکتی ہیں اور فاتح و کامیاب ہو سکتی ہیں۔ یہ پیغام اپنے زمانے کے عجیب ماحول میں، بہت عظیم ہے۔ مجھے یاد ہے کہ انقلاب سے پہلے ہسپانوی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم مسلم مراکشی طلبا، جو شرع کے تابع تھے، اپنے ساتھی مراکشی طلباء سے چھپ کر نماز پڑھتے تھے، اور نماز پڑھنے سے شرماتے تھے؛ کیونکہ ساتھی طلبا ان پر فکری پسماندگی کا الزام لگا سکتے تھے!

امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے مسلمانوں کو وقار عطا کیا

امام نے مسلمانوں کی عظمت و عزت لوٹا دی۔ اسلامی انقلاب کے بعد مسلمانوں کو مسلمان ہونے پر فخر کرنے کا موقع ملا اور اپنا اسلام ظاہر کرنے کی ہمت ملی۔ انقلاب اسلامی سے پہلے کوئی بھی ماننے کے لئے تیار نہ تھا کہ سائنسی، فوجی اور سیاسی میدان میں مغربی نظام کے تسلط اور ثقافتی اور ابلاغیاتی یلغار کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن امام نے ثابت کیا کہ امریکہ، مغرب اور دنیا کے تمام ظالموں کا مقابلہ بالکل ممکن ہے۔ امام نے "اللہ اکبر"، کا نعرہ لگایا، یعنی اللہ ہر کام کرنے پر قادر ہے۔ ان دنوں دنیا کے انقلابیوں کا نعرہ "اللہ اکبر" نہیں تھا، لیکن امام نے لوگوں کو جگایا، خود میدان عمل میں اترے اور ثابت کیا کہ اللہ پر توکل کرکے فتح حاصل کرنا ممکن ہے۔ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا عینی مصداق ہیں: "كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللّهِ؛ کتنی چھوٹی جماعتیں ہیں جو بڑی جماعتوں پر غالب آ جا تی ہیں"۔ (سورہ بقرہ، آیت 249)۔ کیونکہ وہ فتح و نصرت کے لئے عسکری قوت پر نہیں بلکہ قوت ایمان پر بھروسہ رکھتے تھے۔ یہ امام کی قوت کی علامت ہے۔

فکر امام کو ترجیح دی جائے

گوکہ امام کی فکر کو صحیح انداز سے فروغ نہیں دیا گیا لیکن اس فکر کے عملی اثرات اتنے تھے کہ یہ انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی بجلی کی سی تیزی سے دنیا بھر میں پھیل گئی۔ سب نے پوچھنا شروع کیا کہ ایران جیسا ملک کیونکر امریکہ کے مقابلے میں کھڑا ہوکر خودمختار بن سکتا ہے، امریکی سفارتخانے پر قبضہ کر سکتا ہے یہاں تک کہ امریکہ کچھ بھی کرنے سے عاجز آ جائے! یہ ایک امید بخش فکر تھی جو تیزرفتاری سے دنیا کے مظلوم انسانوں تک پہنچ گئی، اور کے دلوں کو روشن کر گئی؛ یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔

مغرب کو انقلاب کا ادراک نہیں ہونے دیا گیا

بدقسمتی سے مغرب اس انقلاب کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکا ہے، کیونکہ ہماری آواز مغرب تک نہیں پہنچی اور نہیں پہنچ رہی ہے؛ اور اس سلسلے میں مسلمین بھی قصوروار ہیں۔ مثلا پسپانیہ میں آپ ٹی وی کھولتے ہیں تو ناظرین اپنی زبان بولنے والے کسی شخص کو نہیں دیکھ پاتا جو اس فکر کا تبلیغ کرتا ہو؛ یا پھر مخالف چینلوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ البتہ یہ بھی ہے کہ ایک مغربی انسان کو ملنے والا سب سے پہلا پیغام سیاسی ہوتا ہے کیونکہ مغرب روحانیت سے بیگانہ ہے، چنانچہ وہ انقلاب اسلامی کے خدائی پیغام کا ادراک نہیں کر سکتے۔ گوکہ انقلاب اسلامی دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر رہا ہے: اللہ کے دوست اور اللہ کے دشمن۔

اللہ اور انقلاب اسلامی کے دشمن، اسلام اور اہل بیت (علیہم السلام) کو جانتے تھے، اور بہت جلد سمجھ گئے کہ کیا واقعہ رونما ہؤا ہے؛ چنانچہ کیسنگر کا یہ جملہ مشہور ہے کہ "یا تو اسی وقت اسلامی انقلاب کا راستہ روکیں گے یا پھر ہمیں یہ دیکھنے کی توقع رکھنا چاہئے کہ یہ انقلاب کس طرح مراکش سے بنگلہ دیش تک کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتا ہے"، چنانچہ انھوں نے یہ مشکل حل کرنے کے لئے بہت کچھ کیا، جنگ مسلط کی، جس میں وہ ناکام رہے۔ یہ جو امریکی 11 ستمبر کے بعد - ایران کے پڑوسی ممالک - افغانستان اور عراق پر مسلط ہوئے یہ بھی انقلاب اسلامی کے خلاف امریکی اقدامات کے زمرے میں آتا ہے، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے؛ یہ جو دنیا بھر کے لوگوں نے ان دو حملوں کے سلسلے میں مغرب کے خلاف احتجاج کیا، یہ بھی اس لئے تھا کہ وہ اسلامی انقلاب اور عراق اور افغانستان پر امریکی جارحیت کے باہمی تعلق کا ادراک کر چکے تھے۔

جنگ مخالف تحریکیں انقلاب اسلامی کے ساتھ ہم فکر ہیں

جنگ مخالف تحریکیں ایک لحاظ سے ایران کے بالواسطہ دفاع کا اظہار تھیں؛ کیونکہ یہ تحریکیں انقلاب کے مفاد میں تھے اور بڑی طاقتوں کے مفادات کے خلاف تھیں۔ عالم اسلام زیادہ صراحت کے ساتھ اس حمایت کو ظاہر کرتا ہے لیکن مغربیوں کو یہ امکان فراہم نہیں ہے؛ چنانچہ ان کے رویوں کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے مراکش کے سنیوں کو دیکھا جنہوں نے 33 روزہ جنگ میں، اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی فتح پر خوشی کا اظہار کیا اور اسے "اپنی فتح" قرار دیا، کیونکہ وہ حق و باطل کو پہنچانتے تھے۔ مغرب والے ان لوگوں کی طرح ہیں جو دور بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے ہیں، لیکن اس کے سبب اور معنی کے ادراک سے عاجز ہیں؛ لیکن چونکہ بڑی طاقتوں کی شرپسندانہ حقیقت کو جانتے ہیں، لہٰذا ان کے رویوں کی رو سے صاحب حق فریق کو بھی پہچان لیتے ہیں، چنانچہ ان کا رویہ دیکھ کر ہی جنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرے بپا کرتے ہیں، اور عملی طور پر ہم مسلمانوں کے مورچے میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اس کو بھی انقلاب اسلامی کی کامیابی کے اثرات کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ حتّیٰ کہ میں لاطینی امریکہ کے واقعات کو بھی ایران کے اسلامی انقلاب کے اثرات و ثمرات کے زمرے میں شمار کرتا ہوں، جس کے نتائج رفتہ رفتہ نمایاں ہو رہے ہیں۔

انقلاب اسلامی کے بین الاقوامی تشخص کا استحکام

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی ایک داخلی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ انقلاب ایک بین الاقوامی تشخص رکھتا ہے کہ خواہ اس کا صدر جو بھی ہو، یہ تشخص برقرار رکھتا ہے؛ اور منتخب صدر بھی ایسے انقلاب کا نمائندہ بن جاتا ہے جو دنیا بھر کے معاصر انقلابات سے منفرد ہے۔ اور اس کی انفرادیت بھی اسی میں ہے کہ یہ اللہ کو فتح و کامیابی کا سرچشمہ سمجھتا ہے اور اللہ پر ایمان کو اپنی حرکت و سفر کا محور قرار دیتا ہے۔ یہاں کے صدور شاید اندرون خانہ مختلف انتظامی طریقہ کار سے کام لینا چاہیں لیکن پرچم جو وہ اٹھاتے ہیں، وہ ایک ہی ہے: انقلاب اسلامی کا پرچم۔

انقلاب کی کامیابی کے بعد، ہماری زندگی مہمل ہو گئی!

جو عمل اسلام کے تئیں اہل مغرب کی قربت کا سبب بنتا ہے، وہ ایک روحانی عمل ہے کیونکہ مغرب روحانیت کے خلا سے دوچار ہے۔ ہماری زندگی دنیاوی اور اقتصادی خوشحالی کے لحاظ سے مطلوب تھی اور ہمیں ہر گناہ اور فساد کی آزادی حاصل تھی لیکن ہم پھر بھی خفا اور مضطرب تھے! ابتداء میں ہمارا تصور یہ تھا کہ ہماری پریشانی کا یہ احساس عدل و انصاف کے فقدان کی وجہ سے ہے، چنانچہ ہم نے کمیونسٹ سیاسی دھڑوں اور کمیونسٹ طلباء تنظیموں میں سنہ 1940ع‍ سے 1975ع‍ تک ہسپانیہ پر مسلط آمرانہ نظام کے خلاف جدوجہد کی؛ لیکن جنرل فرانسسکو فرانکو (Francisco Franco y Bahamonde) کا تختہ الٹنے کے بعد، جمہوریت قائم ہوئی تو بھی سکون ملتا نظر نہیں آیا اور ہم نہیں جانتے تھے کہ مسئلہ کہاں ہے؟!

ہمارا فرق ان مسلمانوں کے ساتھ - جو مغرب میں آئے، مغرب نواز ہوئے، لیکن اکتا گئے اور سمجھ گئے کہ ان کا اپنا اسلام ہی سب سے بہتر ہے - یہ تھا کہ ہم اس جڑ اور بنیاد - یعنی اسلام - سے محروم تھے، چنانچہ وہ کھوکھلے پن سے پہلے اپنی جڑوں کی طرف پلٹ گئے لیکن ہم کھوکھلے پن سے دوچار ہوئے! ہم آزادی حاصل کر چکے تھے لیکن پھر بھی پرسکون نہیں ہو پا رہے تھے کیونکہ زندگی ہمارے لئے بے مقصد اور بے معنی تھی!

ہمیں روحانیت کی تلاش تھی

اس کے بعد، ہم اور ہماری نسل نے ایک الگ تھلگ رہنے والے انداز سے روحانیت کا راستہ اپنایا۔ ہم میں سے کچھ مضحکہ خیز انداز سے ہندوستان پہنچ گئے۔ مثال کے طور پر، جب انہوں نے دیکھا کہ بیٹلز جیسے Rock and Roll میوزک گروپ وہاں گئے ہیں اور لمبے بالوں اور خاص قسم کے لباس اور رنگے ہوئے بالوں کے ساتھ واپس آئے اور ان کی موسیقی آہستہ آہستہ بدل گئی تو انہوں نے سوچا کہ ہندوستان میں کچھ تو ضرور ہے! چنانچہ میرے کئی دوستوں نے بدھ مت اختیار کیا اور کچھ کی ملاقات ہندوستانی مسلمانوں سے ہوئی تو مسلمان ہوئے۔ بہرحال مغرب میں کچھ فکری تبدیلیوں - بشمول انقلاب فرانس 1968ع‍ (May 68) - کے بعد باطن کے مطالعے اور روحانیت کی طرف رجحان کا ماحول فراہم ہؤا۔ کیونکہ ہم نے دیکھا کہ جس چیز کو ہم حلّال مشکلات (Deus ex machina) سمجھتے تھے، وہ بھی ہمارے درد کی دوا نہیں تھی۔ فرانس یورپ کا سماجی تھرمامیٹر ہے اور یورپ کی دشواریاں وہاں دوسرے ممالک سے پہلے ظہور پذیر ہو جاتی ہیں۔ ہم نے فرانس کے دو سال بعد حکومت بدل دی، اور پھر بھی اپنے پہلے نقطے پر واپس پلٹ گئے! اس کے بعد ہم فکری تعطل سے دوچار ہوئے۔ اس سے پہلے ہم سب مبینہ طور پر "بامقصد" تھے، ہم سب اپنے آپ کو چے گویرا (Ernesto Guevara) سمجھتے تھے! یعنی اس موقع پر ہم نے محسوس کیا کہ ہماری زندگی بامقصد ہے لیکن کامیابی کے بعد سمجھ گئے کہ کھوکھلے پن کے بھنور میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں؛ چنانچہ ہمیں روحانیت کی ضرورت ہے۔

ایران - عراق محاذ جنگ کی تصویروں نے میرے ابہامات کا جواب دے دیا

اسی فکری سفر کے دوران میری شناسائی مسلم صوفیوں کے ایک گروہ سے ہوئی تو چند ہی دنوں میں میں سمجھا کہ کويا روحانیت کے عروج تک پہنچ گیا ہوں! لیکن کچھ دن بعد سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے وصال کے بعد "جنگ جمل" پیش آئی ہے! پھر میں نے دیکھا کہ یہ جنگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے قریبیوں کے درمیان رونما ہوئی تھی؛ تو مجھے بہت حیرت ہوئی کیونکہ میں ان سب کو اولیاء اللہ سمجھتا تھا! چنانچہ میں اسلام میں بھی ایک تضاد سے دوچار ہؤا! میں نے پوچھ گچھ کی اور کئی لوگوں سے اس واقعے کی حقیقت پوچھی اور پوچھا کہ اس تنازعے میں کونسا فریق حق بجانب تھا؟ لیکن کسی کے پاس بھی اطمینان بخش جواب نہیں تھا۔ یہ وہ نشانیاں تھیں جنہوں نے مجھے تشیّع کی طرف مائل کیا۔ اسی جستجو کے دوران، میں ایسے لوگوں کی تلاش میں تھا جو میرے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خالی جگہ پر کر دیں۔ اسی اثناء میں انگریزی زبان کا ایک ایرانی رسالہ ایکو آف اسلام (Echo of Islam) دیکھنے کو ملا، جس میں محاذ جنگ کے مجاہد نوجوانوں کی تصویریں درج ہوئی تھی۔ ان تصاویر کو دیکھا تو حیران رہ گیا کیونکہ مجھے اس خاص زمانے میں بھی ایک جہاد کا سراغ ملا اور پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ قصہ کیا ہے؟ کیا جہاد آج بھی ہے؟!

پہاڑ کی پناہ میں چلا گیا تھا

ہم ان دنوں سے سیاست سے نفرت کرتے تھے، خبریں نہیں سنتے تھے، اخبار بھی نہیں پڑھتے تھے، یہاں تک کہ میں نے جنوبی ہسپانیہ کے ایک پہاڑ میں پناہ حاصل کی تھی اور ابتدائی انسانوں کی طرح کسی آمدنی اور سہولت کے بغیر زندگی گذار رہا تھا۔ اس لئے بھی پہاڑوں میں چلا گیا تھا کہ جو کچھ میں نے مارکسیوں کی کتابوں میں پڑھا تھا، اسے بھولنا چاہتا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت - جبکہ ہم طلبہ کے مظاہرے بپا کرتے تھے، گرفتار کئے جاتے تھے، پابند سلاسل ہوتے تھے ٹارچر کا شکار ہو جاتے تھے، حتیٰ کہ مارے جاتے تھے - ایک سنجیدہ معنوی بحران سے دوچار تھے اور لامقصدیت ہماری پوری زندگی پر چھا گئی تھی۔ اس سے پہلے جدوجہد کے ایام میں کم از کم ہماری زندگی کا ایک مقصد تھا، جس نے ہماری زندگی کو بامعنی بنایا تھا لیکن کامیابی کے چند ہی ہفتے بعد، ہماری زندگی کا مقصد پگھل کر بہہ گیا اور سفر جاری رکھنے سے عاجز ہو گئے! میں نے ایکو آف اسلام میں کچھ نو عمر نوجوانوں کو دیکھا، جن کے چہرے معصوم تھے، ان کے ہاتھوں میں قرآن تھا اور امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی تصویریں تھیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہ جنگ دوسری جنگوں سے مختلف ہے، میں نے وہاں معنویت اور روحانیت کا مشاہدہ کیا۔ چنانچہ میں نے پوچھا کہ "یہ کون لوگ ہیں؟"، کہا گیا یہ ایک گروہ ہے ایسے لوگوں کا جو کھلے ہاتھوں سے پتھر پر نماز پڑھتے ہیں! میں مزید حیرت زدہ ہؤا کیونکہ یہ بات بہرحال واضح ہو گئی کہ یہ بھی مسلمان ہیں! اللہ نے آہستہ آہستہ راستہ میرے لئے کھول دیا اور میری تلاش و کوشش کا جواب دے دیا اور اگر اسلامی انقلاب نہ ہوتا تو میری یہ جستجو لا حاصل رہتی۔

وہ آپ کو سرے سے جانتے ہی نہیں ہیں

یہ توقع بجا نہیں ہے کہ ایک مغربی انسان نے بھی اسلامی انقلاب کو ایک مسلمان کی نگاہ سے، دیکھا ہو۔ انقلاب اسلامی مغرب میں مختلف انداز سے جلوہ گر ہؤا ہے۔ خدا کے بارے میں ہمارا تصور ان کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔ کوئی بھی ایسا نہیں آیا جس نے اس عالم کی حقیقت کو ان کے لئے بیان کرکے آشکار کر دیا ہو۔ چنانچہ وہ حتیٰ کہ اس سادہ سی حقیقت کو بھی نہیں جانتے کہ یہ انقلاب استعمار مخالف ہے! بلکہ اپنے جھوٹے ذرائع ابلاغ کی غلط اور بے بنیاد تشہیری مہمات کی رو سے، سمجھتے ہیں کہ یہ ایک آمرانہ اور رجعت پسندانہ انقلابی نظام ہے! حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے اپنے ممالک میں حقیقی سیاسی آزادی اور حقیقی انتخاب کا امکان نہیں ہے اور اسی بنا پر وہ اپے ملکوں کے انتخابات میں سنجیدگی سے شرکت نہیں کرتے۔ اور ہاں، ہنری کوربن (Henry Corbin) جیسے لوگ بھی ہیں جو مسئلے کو سمجھتے ہیں؛ لیکن میں ہسپانوی جامعات میں ایسے اساتذہ کو جانتا ہوں جنہوں نے فلسفۂ اسلامی کی تاریخ تک لکھی ہے لیکن وہ اسلام کا ادراک نہ کر سکنے کی وجہ سے کہتے ہیں کہ "اسلامی ممالک کی پسماندگی کا سبب <اسلام> ہے!" ان لوگوں کے جہل و نادانی کا سبب یہ ہے کہ ہم وسیع پیمانے پر اسلام کی صحیح تبلیغ نہیں کر سکے ہیں۔ وہ ایران کو سرے سے جانتے ہی نہیں ہیں۔

وہ معنویت [و روحانیت] جس کی ہمیں ضرورت ہے

امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی معنویت مغربی انسان کے لئے بہت دلچسپ اور دلکش ہے، لیکن مسئلہ در حقیقت یہ ہے کہ امام کی شخصیت ہنوز ہم مسلمانوں کے ہاں بھی جانی پہچانی نہیں ہے، ہم نے ان کا کلام نہیں پڑھا ہے اور اپنے ذرائع ابلاغ میں بھی انہیں بہت کم وقت دیتے ہیں، اسی وجہ سے حتیٰ کہ مسلم نوجوان بھی انہیں صحیح معنوں میں، نہیں جانتے؛ حالانکہ ان کے تعارف کے لئے ایک مستقل ٹی وی چینل قائم کیا جا سکتا تھا! اس صورت حال میں یہ توقع رکھنا بے جا ہوگا کہ جوان نسل کے ہاں امام کی شخصیت کا صحیح ادراک ہو سکا ہو! میں اس وقت امام کی کتاب "اربعین حدیث" کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ کر رہا ہوں۔ میں نے اپنے ترجمے کے متن میں سے کچھ اقتباسات اپنی ویب لاگ میں شائع کر دیئے ہیں۔ ہسپانوی پڑھنے والے قارئین و صارفین نے فوری طور پر رد عمل ظاہر کیا اور پورے متن کی خواہش ظاہر کر دی۔ یعنی انھوں نے اس کتاب کو پسند کیا۔ بہت ساری ہسپانوی شیعہ بھی ہیں جو ایمیل بھیج کر کہتے ہیں کہ "ہم تازہ شیعہ ہوئے ہیں لیکن ان باتوں سے واقف نہیں تھے، یہ کتاب ہمارے لئے بھیج دیجئے"۔

ہم شیطان کے پیٹ کے اندر ہیں!

ہم مغربی انسانوں کے لئے سرمایہ دارانہ نظام سے شکایت کرنا، بہت دلچسپ نہیں ہے، کیونکہ ہم شیطان کے پیٹ میں پروان چڑھے ہیں، اور اس فاسد و بدعنوان نظام کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ ہم اندر سے اس کا ادراک رکھتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ کسی وقت آپ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں کہ "مغرب اتنا بھی برا نہیں ہے"، کیونکہ آپ اس کو باہر سے دیکھتے ہیں! ہمارا مسئلہ اس نظام کا متبادل تلاش کرنا ہے؛ چنانچہ ایک نو مسلم مغربی انسان کے لئے امام کی "تفسیر سورہ حمد" اور "اربعین حدیث" بہت دلچسپے ہے۔ پڑھنے والے، یہ کتابیں پڑھ کر ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا "یہ وہی امام ہیں جو ایک سیاسی راہنما ہیں؟!، کیا امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) اس حد تک عرفان و معرفت کو جانتے تھے ہیں اور اسی حال میں سیاسی راہنما بھی ہیں؟!"۔ یہ مسئلہ مغربی انسان کے لئے بالکل نیا اور انوکھا ہے، کیونکہ دوسرے راہنما ان اوصاف و خصوصیات کے مالک نہیں ہیں، اور اہل تصوف میں بھی یہ فکر نہیں پائی جاتی۔ یہ امام کا تعارف کرانے کا بہترین راستہ ہے۔

امام خمینی (رضوان اللہ تعالی) کی فکر، جاذب و دلکش ہے

امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کے "نظریۂ ولایت فقیہ" کو عالمی پیمانے پر پیش کیا جا سکتا ہے کیونکہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ امام نے اسلامی حکومت کا ایک نظریہ پیش کیا جو منطقی، معقول اور قابل عمل ہے، اتنا کھرا کہ گویا یہ نظریہ کسی ریاضی دان نے لکھوایا ہے۔ اس نظریئے کو انتہائی طاقتور علمی پشت پناہی حاصل ہے اور اس کی تجزیاتی روش منطقی ہے، چنانچہ یہ قارئین و صارفین کے لئے بہت ہی دلکش ہے۔ یا مثلا ان کے فقہی نظریات - بشمول کوئی مواد ایسے شخص کو بیچنے کے بارے میں جس سے وہ حرام فعل میں استعمال کر سکتا ہے، جیسا کہ انگور کسی ایسے عیسائی شخص کو بیچنا، جو ہمیں یقین ہے کہ اس سے شراب بنانے کے لئے استعمال کرے گا، - ان کا فقہی حکم بہت ہی دلچسپ ہے۔ فرماتے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی ادب کے ساتھ پیش آنا چاہئے، البتہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ عیسائی بھی دو قسموں میں بٹے ہوئے ہوئے ہیں: - قاصر (عاجز و بے بس) اور مقصر (وہ جو جان کر شرک و گناہ میں مبتلا ہیں) - اور عیسائیوں کی اکثریت نے چونکہ طفولت سے ہی ایک خاص اعتقادی دائرے میں تربیت پائی ہے چنانچہ وہ اپنے دین کو برحق سمجھتے ہیں، اور حقائق سے نا آگاہ ہیں چنانچہ اکثر عیسائی قاصر ہیں۔

امام کا یہ نظریہ بہت سوں کے خلاف ہے جو تمام عیسائیوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی فکر امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی فکر کا تسلسل ہے جو فرماتے ہیں "ہمارا تعارف کراؤ تا کہ لوگ ہمارے محاسن اور مثبت نکات کا ادراک کریں اور اس کی طرف رغبت پیدا کریں"۔ امام کی فکر اسلام کا لچکدار اور کھلا تاثر ہے اور یہ دین کے جمود زدہ روایتی اور تنگ نظرانہ تاثر سے بالکل مختلف ہے؛ چنانچہ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کا مکتب فکر مغرب کی جوان نسل پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اگر آج کا نوجوان امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی اخلاقی کتاب "اربعین حدیث (چالیس حدیثیں)" - جو کہ تنگ نظروں پر تنقید بھی ہے - کا مطالعہ کرے تو وہ خالص محمدی اسلام سے آشنا ہوگا اور ہدایت پائے گا۔ اس کتاب کو ہمارے حوزات علمیہ کے نصاب میں شامل ہونا چاہئے۔

انقلاب اسلامی ہنوز انجانا ہے

بدقسمتی سے امام اور انقلاب اسلامی - جو کہ امت مسلمہ کا عظیم ورثہ ہے - کی ترویج کا اہتمام نہیں کیا جاتا، اس پر زیادہ سرمایہ کاری نہیں کی جاتی؛ امام کی بعض کتابوں کے، ہسپانوی سمیت مختلف زبانوں میں، تراجم ہوئے ہیں جو حقیقتا کمزور ہیں لیکن شائع ہوئے ہیں، یا اگر تراجم اچھے ہیں تو انہیں صحیح طریقے سے تقسیم نہیں کیا گیا ہے۔۔۔ یہ انقلاب بیرونی دنیا میں انجانا ہے۔ علامہ طباطبائی سمیت بہت سے پائے کے اسلامی دانشوروں کی کتابوں کا ہسپانوی سمیت مختلف زبانوں میں ترجمہ نہیں ہؤا ہے۔ ایران پر صدام کی مسلط کردہ جنگ کے سلسلے میں بنی فلموں کا کسی بھی زبان میں ترجمہ نہیں ہؤا ہے۔ شہید سید مرتضیٰ آوینی کی دستاویزی فلموں کا ترجمہ نہیں ہؤا ہے، کہ اگر ایسا ہوجائے تو یہ فلمیں بہت زیادہ مؤثر ہو سکتی ہیں۔

اسلام اور امت مسلمہ کے دشمن منظم انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں لیکن ہم ابھی تک ایک منضبط اور منظم دفاع کا اہتمام نہیں کر سکے ہیں۔ رہبر معظم امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) کا کلام بھی دنیا والوں کی سماعتوں تک نہیں پہنچ رہا ہے، یا رہبر انقلاب کے کلام کی روشنی میں منصوبہ سازی کا اہتمام نہیں کیا جاتا! حالانکہ مسلمانوں کے درمیان ایک تھنک ٹینک اور ایک کمانڈ روم قائم کرنے کی ضرورت ہے اور منظم اور مربوط طریقے سے دشمن کی ابلاغیاتی یلغار سے نمٹنا چاہئے۔

ہم مسلمین مغرب کے راستے پر کیوں گامزن ہیں؟!

میں 1989ع‍ میں ایران آیا تو یہاں تجارتی اشتہارات ٹی وی پر نشر نہیں ہوتے تھے لیکن آج یہ سب کچھ ہو رہا ہے، عالم اسلام کے ٹی وی پروگراموں کے درمیان بھی یہ سلسلہ جاری ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم اسلامی ثقافت پر ظلم کر رہے ہیں اور ہم اسلام کے مطلوبہ معاشرے کے ہدف سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور مغربی ثقافت کو رواج دے رہے ہیں۔ ایران سمیت عالم اسلام کے مختلف ممالک میں بڑی بڑی عمارتیں بنائی جاتی ہیں جن میں درجنوں فلیٹس ہوتے ہیں اور لوگوں کو ان میں بسایا جاتا ہے۔ یہ ہم مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت نہیں ہے، گھر بنانے کی یہ ثقافت دوسروں کی ہے جو فساد و گناہ و فحاشی اور بے حیائی نیز اضطراب، پریشانی اور نفسیاتی آشفتہ حالی کے فروغ کے اسباب فراہم کر رہے ہیں؛ یہ ہمارے لئے اہم کیوں نہیں ہے؟ ہم کیوں مغرب کے زوال یافتہ راستے پر گامزن ہیں؟ مختلف شعبوں میں اسلام کے دیئے ہوئے پروگرام کو نافذ العمل کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیا یہ سب اسلام سے دوری اور اسلام سے عدم واقفیت کی علامت نہیں ہے؟ کیا یہ قابل قبول ہے کہ ہمارے حوزات علمیہ اور دینی مدارس میں قرآن کریم اور نہج البلاغہ کی تدریس نہیں کی جاتی؟ کیا حوزات علمیہ کا تعلیمی نظام قابل اصلاح نہیں ہے؟ ہم سائنس پر اتنا زور کیوں دیتے ہیں، اور اسی حال میں انسان کی روح و جان کو نظرانداز کیوں کرتے ہیں؟

رینے گینوں (René Jean-Marie-Joseph Guénon – پیدائش 1886ع‍ - وفات 1951ع‍) - جو اسلام قبول کرنے کے بعد " شیخ عبد الواحد یحیٰی" کہلائے - نے خوب کہا ہے کہ "ہم کمیّت زدگی سے دوچار ہوئے ہیں"، (یعنی ہر چیز کی مقدار ہمارے لئے اہم ہے)۔ انقلاب اسلامی ابھی اپنی راہ کے آغاز پر ہے اور اس کو ایک عظیم ثقافتی تبدیلی اور ارتقاء کی ضرورت ہے، تاکہ امام کی فکر کو نافذ کر سکے؛ کیونکہ جب تک کہ امام کی فکر کو پہنچانا نہ جائے گا، اس کی ترویج نہیں ہوگی، یہ مہم سر کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم نے امام کی تعلیمات کے برعکس، کس قدر اختلافات کو ہوا دی جن سے دشمن نے فائدہ اٹھایا! جب ہم خود اسلامی تعلیمات سے دوری اختیار کرتے رہیں گے، نوجوانوں سے کسی قسم کا گلہ شکوہ کرنا بجا نہیں ہوگا، کہ وہ انقلابیوں سے شکوہ مند ہیں یا ان سے دور ہو رہے ہیں! البتہ میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں آج کی نوجوان نسل کی فکری سطح - ماضی کی نسبت - بہت بلند ہے لیکن انتشار، انفرادی اقدامات، ذاتی امور کو مقدم رکھنا اور حقائق سے بے رخیوں کی وجہ سے اس برتر فکری سطح سے صحیح طور پر فائدہ اٹھانا ممکن نہیں ہے۔

اصلی مسئلہ حقیقت کا فقدان ہے نہ کہ پیسے کا فقدان

آج کے حالات ان دنوں سے بہت زیادہ شباہت رکھتے ہیں، جب امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے سابق سوویت اتحاد کے آخری ‌زعیم اور آخری صدر میخائل گورباچوف (Mikhail Sergeyevich Gorbachev) کو خط لکھا تھا۔

امام نے اس خط میں فرمایا تھا: "تمہارا مسئلہ معاشی نہیں ہے بلکہ تمہارا مسئلہ خدا سے دوری ہے"۔

معاشرہ بھی ایک صحت مند بدن کی طرح ہے جو اگر روحانی مسئلے سے دوچار ہو جائے تو رفتہ رفتہ یہ مسئلہ بدن کی سلامتی پر اثرانداز ہوتا ہے اور اس کو ناکارہ کر دیتا ہے۔ معاشرہ بھی جب اللہ سے دور ہو جائے اور اس کے اہداف و مقاصد بے رحمانہ مادی مقاصد میں بدل جائیں، یہ معاشرہ تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے معاشروں کے لئے ایک "مجازی حقیقت" (Virtual Reality) بنا رکھی ہے، جو ان معاشروں کی بیرونی اور زمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رکھتی لیکن جو لوگ اپنا زیادہ تر وقت سائبراسپیس اور سوشل میڈیا میں بسر کرتے ہیں، وہ اس حقیقت کو زمینی حقیقت سے زیادہ حقیقی، سمجھنے لگتے ہیں؛ اور یہ ایک بحران ہے جو مسلسل پھیل رہا ہے، اور تمام شعبوں میں آگے بڑھ رہا ہے۔

مغربی نظام عوام کا دشمن

صورت حال یہ ہوئی کہ تمام حکومتیں سرمایہ داروں کے قبضے میں چلی گئیں۔ خفیہ یہودی خاندان "راکفیلرز" (Rockefeller family OR Rockefellers) اور انتہائی مالدار اشکنازی یہودی خاندان روتھشیلڈز [یا روچیلڈز] (Rothschild family OR Rothschilds) سمیت تقریبا 140 یا 150 سرمایہ دار خاندان، آج دنیا کے حقیقی حکمران ہیں۔ اگر ممالک کے حکمران ان ظالم امراء کے ساتھ تعاون کریں تو بہت خوب لیکن اگر تعاون نہ کریں تو یہ حکمران خاندان انہیں جان سے بھی مار سکتے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے سنہ 2010ع‍ میں پولینڈ کے سابق صدر لیچ آلیگزینڈر کاچینسکی (Lech Aleksander Kaczyńsk) کو قتل کیا اور اعلان کیا کہ وہ ایک فضائی حادثے میں مارا گیا ہے! ہسپانیہ میں ہر مہینے 5000 خاندان بے گھر ہو جاتے ہیں یعنی سنہ 2008ع‍ کے مالی بحران سے اب تک دو سے ڈھائی لاکھ تک ہسپانوی خاندان بے گھر ہوئے ہیں۔ آج ہسپانیہ میں 10 لاکھ خاندان ایسے ہیں جن کا ایک رکن بھی بر سر روزگار نہیں ہے اور ان میں سے بہت سے خاندانوں سڑکوں پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور ان کے پاس شکایت اور احتجاجی مظاہروں کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔

لوگوں کا آمنا سامنا پورے نظام کے ساتھ

آج کی احتجاجی تحریکیں - جو شکایت سے شروع ہوئی ہیں - تیزرفتاری سے پورے نظام ہائے حکومت پر تنقید و احتجاج میں بدل گئی ہے؛ کیونکہ امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) فرمایا کرتے ہیں کہ "لوگ بیدار ہو چکے ہیں"، آج بہت سی چیزیں ذرائع ابلاغ کی وساطت سے لوگوں تک پہنچتی ہیں۔ مغربی عوام آج کہتے ہیں کہ "تمہارے پاس افغانستان، عراق اور یوکرین کی جنگ اور دیوالیہ پن کا شکار بینکوں کے بچاؤ کے لئے پیسہ ہے لیکن ہم پر دباؤ بڑھا رہے ہو اور ہمارے لئے تمہارے پاس پیسہ نہیں ہے!"؛ یعنی آج عوامی تنقید و احتجاج کا رخ پورے مغربی نظام کی طرف ہے، اور لوگ سمجھ گئے ہیں کہ ان کے ممالک میں فیصلہ کرنے کا اختیار صرف ایک فیصد افراد کے پاس ہے، ایک فیصد (1٪) لوگ حاکم ہیں اور 99 فیصد محکوم ہیں۔ اس وقت لاکھوں لوگ امریکہ میں، خیموں یا پرانی گاڑیوں میں رہائش پذیر ہیں اور جو لوگ اس سے پہلے محترم اور صاحب حیثیت تھے، اب تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔

کوئی متبادل راستہ نہیں ہے اور لوگ اسلام سے بھی واقف نہیں ہیں

تو اب نتیجہ کیا ہوگا؟ کچھ بھی نہیں معلوم۔ بدقسمتی سے لوگوں کے پاس متبادل راستہ نہیں ہے اور اسلام سے بھی ناواقف ہیں۔ سوشلزم پہلے ہی ناکارہ ہو چکا ہے اور اب کیپٹلزم (یا سرمایہ دارانہ نظام) بھی، ناکام ہو گیا ہے۔ یہ عین حقیقت ہے کہ مغربی عوام بالکل بے بس ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ ان کے مسئلے کا حل کیا ہے! چنانچہ سڑکوں پر آئے ہیں، گوکہ مغربی ذرائع ابلاغ ان احتجاجی مظاہروں کو کچھ وقتی مسائل سے جوڑنے کے لئے کوشاں ہیں۔

مغرب میں احتجاجی مظاہرے اسلامی ممالک کی حالیہ تحریکوں [یعنی عربی بہار یا اسلامی بیداری] سے شباہت رکھتے ہیں۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ کچھ ستم زدہ قومیں جابر و ظالم حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور بے باکی کے ساتھ اپنی حکومتوں کو تبدیل کر چکے ہیں۔ وہ اسلام کو البتہ نہیں جانتے اور ان تبدیلیوں میں اسلامی کے کردار سے بے خبر ہیں لیکن وہ نتائج کو دیکھتے ہیں اور متاثر ہو جاتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ لوگ خالی ہاتھوں گولی اور بندوق کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انہیں امید ہے کہ خود ہی تبدیلیاں لائیں۔

جس وقت عرب دنیا میں تحریکوں کا آغاز ہؤا تھا، کچھ انارکسٹ مزدوروں نے مجھ سے کہا کہ ان سے خطاب کروں اور کہہ دوں کہ اس بیداری کی جڑ کیا ہے؟ میں نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں اسلام کے کردار پر روشنی ڈالی۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں نے احتجاج کیا اور کہا کہ "یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ اسلام ایران میں کیا کچھ کر رہا ہے اور وہاں خواتین پر دباؤ ہے اور آمریت کی حکمرانی ہے؟! میں نے اپنا سا جواب دے دیا اور پھر ایران آیا تو دو ہفتے بعد میڈرڈ میں احتجاج کا آغاز ہؤا اور جس شخص نے مجھے خطاب کی دعوت دی تھی، اسی نے مجھ سے کہا: "ہم آپ کو ہمیشہ یاد کرتے ہیں اور آپ کی بات ہمیں یاد ہے کہ ہم تبدیلی کے لئے کیوں نہ اٹھ کھڑے ہوں؟"

ایران کا اسلامی انقلاب موجودہ مغربی بحران کا سرچشمہ!

یہ سب ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کی طرف پلٹتا ہے۔ اس انقلاب کا مطلب کیا تھا؟ ایک یہ کہ اس حکمرانوں کی جماعت کا زمانہ گذر چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ کچھ لوگوں نے حتّیٰ کہ ایران بھی نہیں سنا تھا، لیکن یہ انقلاب ان کے اختتام کے آغاز کی علامت تھا، جمے ہوئے پانی میں ایک ہری پتی کی طرح جو سب کو حیرت زدہ کرتی ہے، کہ یہ کیسے ممکن ہؤا ہے کہ یہ کمزور سی پتی جمے ہوئے پانی کو توڑ کر باہر آئی ہے؟ لیکن سب اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ بہار کی آمد آمد ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں ان ہی کے نوکر چاکر حکمرانی کر رہے تھے لیکن ایک سفید ریش نورانی بزرگ نے ان کے عالمی کھیل کو درہم برہم کر دیا اور اسلامی ممالک دوسروں سے پہلے، سمجھ گئے کہ یہ کام ممکن ہے۔

انقلاب نے ان کے جھوٹ کو آشکار کر دیا

عالمی سطح پر دائیں بازو اور بائیں بازو کا جھگڑا بھی ان کے اپنے کھیل کا حصہ ہے، اگر کوئی سرمایہ داری سے ناراض ہوجائے، وہ سوشلزم کی طرف راغب ہو اور جو سوشلزم سے ناراض ہو وہ سرمایہ داری کی طرف پلٹ آئے۔ یعنی دایاں بازو اور بایاں بازو درحقیقت ان ہی کے منصوبے میں متبادل راستوں کا کام دیتے ہیں۔ وہ عشروں سے اسی کھیل کے ذریعے سے لوگوں کو بہلاتے پھسلاتے رہے ہیں یہاں تک کہ اسلامی انقلاب کامیاب ہؤا جس نے دونوں بازؤوں کی نفی کر دی۔ دایاں بازو بھی خوفزدہ ہؤا اور بایاں بازو بھی؛ اور دونوں انقلاب اسلامی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔

ہم سے کہا گیا تھا کہ "سرمایہ دارانہ اور اشتراکی (یا سوشلسٹ) نظاموں کے درمیان تاریخی تصادم پایا جاتا ہے؛ اور میرے سمیت مغربی طلباء بھی سمجھنے لگے تھے کہ گویا یہ سب صحیح ہے مگر، امام تشریف لائے اور ثابت کر دیا کہ "تاریخ کی حقیقی جنگ، اسلام اور کفر کے درمیان ہے"؛ اسلامی انقلاب نے اس بڑے جھوٹ کو عیاں کر دیا۔

یہ ایک نئی دنیا ہے

اس وقت لاطینی امریکہ کے لوگوں کی طرح کی بہت سی قومیں اس نظام کے شر سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، اور جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں ہر روز ایک نیا ملک امریکہ مخالف دھارے میں شامل ہو رہا ہے۔ اگرچہ آزادی سے ان کے مقاصد، اسلامی انقلاب سے ایرانی عوام کی توقعات کی طرح نہیں ہیں۔ بلکہ وہ عالمی نظام سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے ارجنٹائن میں دیکھا، بولیویا، برازیل، پیرو، ایکواڈور اور وینزوئلا میں دیکھا۔ جیسا کہ ایکواڈور کے سابق صدر رافائل کوریا (Rafael Vicente Correa Delgado) نے اپنی صدارت کے دور میں - لاطینی امریکی ممالک کے اجلاس میں - ہسپانیہ کی ملکہ کے سامنے اٹھ کر کہا تھا: "مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ ہم عالمی بینک کے نمائندے کی بات کیوں سنیں؛ انہیں پہلے ان رویوں سے معذرت کرنا پڑے گی جو انھوں نے ہمارے ملک کے ساتھ رو رکھے ہیں"، اور پھر اجلاس سے واک آؤٹ کر دیا تھا۔ یہ دنیا کی نئی صورت حال ہے۔ تاریخ میں آپ نے کہاں دیکھا ہے کہ ایک مستضعف ملک بڑی طاقتوں کے سامنے کھڑا ہؤا ہو؟

وہ اسلام کے واپس آنے سے خائف ہیں

ہسپانیہ کو - موجودہ ہسپانیہ کے جنوب میں رہنے والے - مسلمانوں پر ظلم کی بنیاد پر ہی نہیں، بلکہ سرزمین باسک (Basques) اور کاتالونیا (یا قیطلونیا = Catalonia) اور دوسرے علاقوں پر ظلم و جبر کرکے قائم کیا گیا ہے۔ ہسپانیہ ایک کوہستانی ملک ہے جہاں کے لوگوں نے پہاڑوں کے اندر اپنی زبان و ثقافت کو محفوظ رکھا تھا۔ ایک حصے کی زبان پرتگیزی تھی، بعض علاقوں کی زبان عربی تھی اور باسک کے عوام کی زبان کی جڑ بھی اصولی طور پر غیر لاطینی تھی۔ ابتداء میں انھوں نے وفاقی حکومت کے قیام کا وعدہ دیا، لیکن آہستہ آہستہ نوک و سنان کے ذریعے سب کو یکساں کر دیا؛ آج بھی مسلمانوں کی واپسی سے خوفزدہ ہیں۔ ہسپانیہ کے حکام ڈرتے ہیں کہ اگر وفاقی نظام قائم کیا جائے تو اندلس کے عوام بھی ممکن ہے کہ اپنی اسلامی ثقافت کی طرف پلٹ جائیں اور سمجھ لیں کہ کتابوں میں ان سے کتنا جھوٹ بولا گیا ہے!

انھوں نے تاریخ اسلام کو حذف کر دیا

ہسپانیہ کی چار کروڑ کی آبادی میں سے تقریبا 80 لاکھ لوگ جنوبی پسپانوی علاقے اندلس (یا اندلوسیا = Andalusia) میں رہتے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ ان کی دوسری زبان انگریزی کے بجائے عربی ہو؛ کیونکہ وہ اپنے ماضی سے باخبر ہیں۔ وہ اپنے اسلامی دور کے فکری اور تاریخی خزانوں سے مستقید ہونا چاہتے ہیں اور اس دور کی اسلامی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ علاقہ مساجد اور اسلامی طرز تعمیر کے نمونوں سے بھرپور ہے۔ قرطبہ یا کوردوبا (Córdoba) - جو اندلس کا دارالخلافہ تھا - میں ایک بڑی مسجد " جامع مسجد قرطبہ" (Great Mosque of Córdoba) ہے جسے دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ کوئی شخص قم میں رہائش پذیر ہو، حرم حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی زیارت کرے اور پھر کہہ دے کہ "میں عیسائی ہوں؟"، تو یقینا سننے والے کو یقین نہیں آئے گا۔ وہاں لوگ اپنی تاریخ سے آگہی چاہتے ہیں اور حکومت کی مسلط کردہ جھوٹی تاریخ پر یقین نہیں کر رہے ہیں۔

اسلامی نام بہت زیادہ ہیں

لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میرا خاندانی نام "بو خلدون" یا "مدینہ" کیوں ہے اور اس کا مطلب کیا ہے؟ اس طرح کے بہت سارے خاندانی نام ہیں جن کی جڑیں عربی زبان میں پیوست ہیں۔ میں ایک چوراہے میں رہائش پذیر تھا جس کو "البیضاء اسکوائر" کہا جاتا تھا؛ اس سے کچھ فاصلے پر "فاطمہ اسکوائر" تھا اور آگے "علی عطار اسکوائر"۔ ایک سڑک کا نام "الکعبہ" تھا۔

سنہ 800ع‍ میں پوپ نے شارلیمین (Charlemagne) کو ایک بڑا کتب خانہ بنانے کا مشن سونپا۔ اس نے بہت تلاش کرکے صرف 400 کتابیں ڈھونڈ لیں جبکہ قرطبہ میں مختلف علمی اور سائنسی موضوعات پر مشتمل 40000 کتابیں موجود تھیں۔

ترقی اسلامی تہذیب و ثقافت کے سائے میں

ماضی میں جب میڈرڈ اور لندن جیسے بڑے یورپی شہروں میں یورپی اپنے فضلوں کو کھڑکیوں سے سڑکوں پر پھینکتے تھے، قرطبہ شہر میں 360 عمومی حمام (Bath-houses) تھے۔ اس شہر کی تمام سڑکوں میں چراغ لگے ہوئے تھے اور راتیں روشن ہؤا کرتے تھے۔ یعنی صورت حال ایسی تھی کہ حتّیٰ یورپی اس کا خواب تک بھی نہیں دیکھا تھا۔ جب یورپی وہاں پہنچے تو وہاں کی تہذیب و ثقافت اور صفائی ستھرائی دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے۔

یہ درست ہے کہ اسلامی ثقافت مستقبل قریب میں ہسپانیہ میں لوٹ کر نہیں آئے گی لیکن ایک دن ضرور آئے گا جب یہاں کے لوگ اپنی تاریخ کی طرف پلٹ جائیں گے۔ اس دور کی اسلامی ثقافت حتّیٰ کہ میکسیکو میں بھی دکھائی دے رہی ہے؛ کیونکہ اندلس سے کچھ لوگ بھاگ کر میکسیکو پہنچے اور وہاں اسلامی طرز تعمیر کے مطابق عمارتیں تعمیر کیں۔ اس سلسلے میں کتابیں بھی موجود ہیں جن میں ہسپانوی زبان میں عربی الفاظ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ عربی الفاظ و اصطلاحات کی تعداد ہماری زبان میں بہت زیادہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔

110