اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

28 مارچ 2023

6:25:37 PM
1354727

استکبار پریشان، صہیونیت بے چین؛

ایران - سعودی سمحھوتے سے کیوں پر امید ہونا چاہئے؟ / غاصب اسرائیل کے بچاؤ کی تدبیریں ناکام

ایران - سعودی سمجھوتہ، ایرانو فوبیا کی امریکی پالیسی کی ناکامی ہے جس کے نتیجے میں ان ڈالروں کا بہاؤ بھی رک جائے گا جو اسی بہانے سعودی عرب ریاستوں کے خزانوں سے مغرب کے خزانوں میں جا رہے تھے۔ خطے کے لئے اس سمجھوتے کا کم از کم ثمرہ امن و آشتی، سلامتی اور معیشت کی بہتر صورت حال، اور ان وسائل اور توانائیوں کے ضائع ہونے کا سد باب ہے جو فریقین اس بے ثمر تنازعے کے نتیجے میں بروئے کار لاتے تھے۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا - کی رپورٹ کے مطابق، ایران - سعودی سمجھوتہ دو ہفتوں سے دنیا کے ذرائع ابلاغ کی شہ سرخی بنا ہؤا ہے اور ہر روز درجنوں تجزیوں، رپورٹوں اور مکالموں کی صورت میں زیر بحث آ رہا ہے۔ یہ "شہ سرخی" ہونا اس سمجھوتے کی غیر معمولی اہمیت کی علامت ہے۔ ایران اور سعودی عرب میں اس سمجھوتے کو دوسرے ممالک سے زیادہ، زیر بحث لایا جا رہا ہے اگرچہ کچھ زرد صحافت میں الجھے ہوئے لوگ بھی ہیں جو اس سمجھوتے کو انتہائی سرسری نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس کی اہمیت گھٹانے کے لئے کوشاں ہیں؛ لیکن بہرحال یہی لوگ بھی اصولی طور پر اس سمجھوتے کو متنازعہ بنانے میں ناکام رہے ہيں، کیونکہ وہ بھی دو ملکوں اور خطے کے ممالک کے لئے اس کے دور رس مثبت اثرات کی نفی کرنے سے قاصر ہیں۔

لیکن، ایران - سعودی معاہدہ اتنا اہم کیوں ہے؟ یہ سمجھوتہ معیشت، سیاست اور سلامتی کے لحاظ سے ایران، سعودی عرب اور پورے خطے اور دنیا کے لئے کس قسم مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے؟ کیا مغربی ممالک - جو بظاہر اس پر مثبت رد عمل دکھا رہے ہیں - حقیقتا اس سمجھوتے سے خوش ہیں؟ ایران - سعودی تنازعے کے سائے میں سیاست اور مذہب کے نام پر دکانیں چمکانے والے کیا اس سمجھوتے سے خوش ہو سکتے ہیں؟ محمد بن سلمان کی خصوصیات اور آل سعود کے ماضی کے رویوں کو دیکھ کر کیا اس سمجھوتے سے پر امید ہونا ممکن ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ایک اصلی دلیل جو اس سمجھوتے کو ممتاز اور اہم بناتی ہے، اس سمجھوتے تک پہنچنے کے لئے طے ہونے والا راستہ ہے۔

یہ سمجھوتہ عراق، عمان، چین، روس وغیرہ کی وساطت سے ڈیڑھ سال تک - تقریبا خفیہ مذاکرات - کے بعد حاصل ہاتھ آیا ہے اور عراق کے سابق وزیر ا‏عظم ڈاکٹر عادل عبدالمہدی کے بقول، اس سمجھوتے کا سنگ بنیاد جنرل شہید قاسم سلیمانی نے رکھا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، امریکہ اور بحیثیت مجموعی مغربی دنیا کا اس سمجھوتے میں ذرہ برابر کردار بھی نہیں رہا ہے، اور کبھی کبھی شائع ہونے والی خبروں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی ممالک صرف "ایران اور سعودی عرب کے درمیان جاری مذاکرات کے عمل" سے با خبر تھے!

یہ وہی بات ہے جس نے مغرب اور مغرب نوازوں کو ناراض کر ردیا ہے۔ مغرب - اور خاص کر امریکہ - آج سے صرف دو سال قبل تک سعودی عرب کو ایک دودھ دینے والی گائے سمجھتے تھے اور اور وہ سعودی عرب کے مغرب سے مشرق کی طرف جھکاؤ کو اپنے لئے بہت بڑی ناکامی سمجھتے تھے۔ (اس سلسلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے موقف کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے جب وہ امریکہ کا صدر تھا)۔ معرب نواز علاقائی سیاستدان بھی ناراض ہیں کیونکہ اس سمجھوتے میں ان کے آقا کوئی کردار ادا نہیں کر سکے ہیں اور یقینا فرقہ واریت کے بیوپاری بھی ناراض ہونگے کیونکہ ان کی دکانیں بند ہونے کا خطرہ بہت سنجیدہ ہے۔

مغرب بھی اور مغرب نواز بھی، مغرب کو تمام شعبوں میں ترقی تک پہنچنے کا محور سمجھتے تھے لیکن چین میں ہونے والے سمجھوتے کا متن لکھنے میں مغرب کی زبان - انگریزی - کو سرے سے نظر انداز کیا گیا اور مسودہ فارس، عربی اور چینی زبانوں میں لکھا گیا۔ اور ثابت ہؤا کہ مغرب اور امریکہ عالمی پیشرفت کا محور و مدار نہیں ہے، یہاں تک کہ صہیونی اخبار نے لکھا کہ "یہ سمجھوتہ اسرائیل کے منہ پر تھوکنے کے مترادف تھا" اور فلان امریکی اخبار نے لکھا کہ "یہ سمجھوتہ امریکہ کے منہ پر طمانچہ تھا"۔ ان ہی نکات کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے مغرب نواز قوتیں اس سمجھوتے کو نقصان پہنچانے یا کم از کم اسے کمزور کرنے یا اس کی اہمیت کم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور ضرور لگائیں گے۔ مغرب نواز قوتوں کے خیال میں ہر وہ عمل نتیجہ خیز نہیں ہونا چاہئے جو مغرب کے راستے سے نہیں گذرتا ہے، کیونکہ اس دھڑے کا فلسفۂ وجود ہی یہی ہے کہ "مغرب کو اقوام عالم کی پائیدار ترقی کا واحد راستہ" قرار دیا جائے! اور اگر مغربی ایشیا کے دو اہم اور بڑے اسلامی ممالک کے درمیان ہونے والے سمجھوتے جیسے اہم سیاسی عمل سے مغرب کو حذف کیا جائے تو اس سے ان کی دکان بند ہو جائے گی۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمت و مصالحت - اگر پائیدار رہے اور کوئی بیرونی یا اندرونی عامل اس کو نقصان نہ پہنچائے تو - ایران کے ساتھ متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، مصر اور پاکستان کی مفاہمت بھی سمجھی جاتی ہے اور اس کا کم از کم مثبت نتیجہ یہ ہے کہ یہ سمجھوتہ ان تمام ممالک اور پورے علاقے کے لئے امن و آشتی اور معیشت اور سلامتی کی صورت حال کی بہتری کا باعث بنے گا، اور ان تمام وسائل اور توانائیوں کے ضیاع کا سد باب ہوگا جو فریقین اس بے ثمر تنازعے پر خرچ کر رہے تھے اور خطے کے ممالک کو بھی ایران کے ساتھ تعاون نہ کر سکنے کی وجہ سے اس کے اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے تھے؛ اور سب سے اہم نکتہ یہ کہ اس سمجھوتے کے نتیجے میں خطے میں - امریکہ کی غیر موجودگی میں - ایک نیا علاقائی نظام تشکیل پا رہا ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سعودی عرب کو امریکی فوجی حمایت کی ضرورت ہے، اور اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ایسی ہیں جن کی بنا پر ریاض، واشنگٹن سے دور نہیں ہو سکتا، جس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت سعودی عرب کو درپیش سب سے بڑا خطرہ آٹھ سال جنگ جیتنے والے یمن کے انقلابی اور حوثی مجاہدین ہیں، اور امریکہ یمن کے انقلابیوں اور سعودی عرب ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ سے اپنی قربتیں بڑھانا ضروری سمجھتا تھا؛ تو سعودی عرب جو "ان عظیم ترین خطروں سے نمٹنے کے لئے" اپنی مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکا ہے، اگر اپنے آٹھ سال پہلے کے دعؤوں سے دستبردار ہو جائے اور ایران اور یمن کے انقلابیوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرے، تو کیا اسے امریکہ کی کوئی ضرورت ہوگی؟ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی قربت اور واشنگٹن کی ایران دشمن پالیسیوں کا ساتھ دینے کے عوض سعودی عرب کو بے پناہ مالی - اور حتی جانی - نقصانات اٹھانا پڑے ہیں اور امریکہ کی حمایت ہی اس صورت حال کے معرض وجود میں آنے کا سبب بنی ہے، اور اسی صورت حال نے سعودی عرب کو ایران کے ساتھ مصالحت و مفاہمت کی ترغیب دلائی ہے، اور سعودی حکمرانوں نے - گو کہ کافی تاخیر سے - اس ضرورت کا صحیح ادراک کر لیا ہے کہ اسے اس مسئلے کو جڑوں سے ہی حل کرنے چاہئے، اور اس مسئلے کے بنیادی حل کا واحد راستہ ایران کے ساتھ مفاہمت ہی ہے۔ اور پھر ایران اور سعودی عرب دو اہم اور بڑے اسلامی ممالک ہونے کے ناطے کبھی بھی ایک دوسرے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔

نیا علاقائی نظام

اگر ہم ایران - سعودی سمجھوتے کو چند دوسرے اہم واقعات کے ساتھ ملا دیں، تو شاید اس مدعا کا ادراک زیادہ آسان ہو جائے کہ "ایک نیا علاقائی نظام تشکیل پا رہا ہے"۔

ایران - سعودی سمجھوتے کے فورا بعد بحرین نے ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا، جس کے بعد متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی تعلقات کی مکمل بحالی کے لئے مذاکرات ہوئے، اور ان سے زیادہ اہم واقعہ یہ شام میں رونما ہؤا اور وہ یہ تھا کہ کئی سالوں سے Assad Must Go کا نعرہ لگانے والے تمام عرب ممالک - جنہوں نے دامے درمے، سخنے، محور مقاومت کے ایک بنیادی ستون یعنی حکومت شام کی سرنگونی کی کوشش کی تھی - کے پارلیمانی وفود نے یکجا دمشق کا دورہ کیا اور آج یہ تمام ممالک شام کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کے لئے ماحول سازی کر رہے ہیں؛ اور ترکیہ کے صدر اردوگان بھی - جو اسد حکومت کے خلاف مغربی - صہیونی فتنے میں پیش پیش تھے - اگلے چند دنوں یا ہفتوں میں مملکت شام کے سربراہ ڈاکٹر بشار الاسد سے ملاقات کرنے والے ہیں اور ترک ذرائع کے مطابق، اس ملاقات سے پہلے، شام کے شمالی علاقوں سے ترک فوجی دستوں کے انخلاء کا امکان بھی ابھر کر سامنے آیا ہے۔

اس اثناء میں صرف امریکہ ہے جو علی الاعلان، اس عربی رجحان پر تنقید کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ عرب حکام اور ارکان پارلیمان کے شام کے دوروں سے خوش نہیں ہے۔ اس صورت حال کے صحیح ادراک کے لئے اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت ہے کہ شام کے خلاف بننے والے منحوس اتحاد کا مقصد صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنا تھا جس کے لئے مغرب - خاص کر امریکہ - نے داعش جیسے عظیم ہیولے کی بنیاد رکھی تھی اور صدر اسد کی حکومت کا خاتمہ اس مقصد کے حصول کے لئے ایک راستہ تھا کہ اسرائیل کی جعلی اور غاصب ریاست کو امن و امان فراہم کی جائے، اور آج بشار الاسد ان ہی ممالک کے نمائندوں کی میزبانی کر رہے ہیں جو ان کا تختہ الٹنے کے لئے مغربی-صہیونی اتحاد کا حصہ بن چکے تھے؛ اور غاصب اسرائیل میں آج امن و امان کے سوا سب کچھ ہے۔ گذشتہ دو عشروں سے اسرائیل کو درپیش چیلنج "شکست و ریخت" کا چیلنج ہے؛ اور اس ریاست کے مغربی بانیوں نے شام میں فتنہ انگیزی کرکے اور داعش جیسے خونخوار ہیولوں کو ایجاد کرکے اسی چیلنج کا خاتمہ کرنا چاہا تھا؛ لیکن آج یہ چیلنج غاصب ریاست کو خورے کی طرح اندر سے کھا رہا ہے۔ مغرب اس ریاست کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہی تھا کہ روس نے اپنے تحفظ کے لئے یوکرین میں اسپیشل آپریشن کا آغاز کیا جو بدستور جاری ہے؛ آج امریکہ اور یورپ یوکرین جتنے بڑے بھنور میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، اور اسرائیل تو درکنار، دوسری جنگ عظیم کے فاتحوں کے بنائے ہوئے عالمی نظام کی شکست و ریخت کے بارے میں مسلسل انتباہات آ رہے ہیں؛ اور اسی بنا پر مغرب نے یوکرین  اپنی تمام تر جنگی صلاحیتوں کو یوکرین کے میدان میں اتار دیا ہے کیونکہ یوکرین کی جنگ مغربی بالادستی کے لئے بقاء کی جدوجہد میں تبدیل ہو گئی ہے۔  

مغرب جانتا ہے کہ یوکرین کی جنگ میں اس کی شکست کے بعد، دنیا وہی پرانی دنیا نہیں رہے گی۔ تو کیا عالمی اور علاقائی نظام، مذکورہ بالا عالمی حالات کے ہوتے ہوئے، تبدیلی سے دوچار نہیں ہو سکے گا؟ کیا اسرائیل کی موجودگی میں اس خطے اور اس دنیا کے حالات - اسرائیل کے بغیر کے عالمی اور علاقائی حالات سے مختلف نہیں ہونگے؟ کیا اسرائیل کے بغیر کی دنیا ماضی کی پیچیدہ اور صہیونیت زدہ دنیا سے مختلف نہیں ہوگی؟ ان سوالات کا جواب کسی تشریح اور وضاحت کے بغیر بھی اظہر من الشمس ہے۔

اور ہاں! ایران - سعودی سمجھوتے کے سلسلے میں، کسی بھی دوسرے سمجھوتے کی طرح، کہنا پڑے گا کہ بین الاقوامی تعلقات میں اہم ترین اور تسلیم شدہ ترین اصول کا نام "سود و زیاں" اور "نفع و نقصان" ہے۔ یہ منطق کبھی کہتی ہے کہ دو ملک تنازعات میں الجھ جائیں اور کبھی اس کا تقاضا ہوت ہے کہ وہی دو ملک مفاہمت اور دوستی کی راہ پر گامزن ہو جائیں۔ یعنی یہ کہ سیاست کے اپنے سے قواعد ہیں، جس میں انتہاپسندانہ بدگمانی اور انتہاپسندانہ خوش فہمی کی گنجائش نہیں ہے؛ عالمی سیاست میں کوئی بھی دائمی ابدی دوست یا دائمی ابدی دشمن نہیں ہوتا، اور پھر اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب دو پڑوسی ممالک ہیں، جن کی ہمسائیگی بہرحال ابدی اور دائمی ہے۔ مذکورہ سمجھوتے کے سلسلے میں قاعدہ یہ ہے کہ جب تک فریقین اس سمجھوتے کے اجزاء پر عمل درآمد کرتے رہیں گے، یہ سمجھوتہ بھی باقی رہے گا اور امید یہی ہے کہ یہ سمجھوتہ قائم و دائم رہے اور وسیع تر اور کامل تر بھی ہو جائے، کیونکہ اسی میں امت مسلمہ کی مصلحت ہے۔

تاہم، کیا مغرب - خاص کر امریکہ - اس سمجھوتے سے خوش ہے؟ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ "نہیں"ع مغربی ممالک جھوٹ بولتے ہیں، کہ وہ اس سمجھوتے سے خوش ہیں، کیونکہ "ایرانو فوبیا" مغربی خارجہ پالیسی کا اٹل اصول تھا، جس کی رو سے وہ دوست اور دشمن کی جگہ بدلنے میں کامیاب ہوئے تھے، اسرائیل کو دوست بنا کر عربوں کے قریب لا رہے تھے، اور عربی خزانوں سے کھربوں ڈالر کی دولت سمیٹ رہے تھے، اور اگر یہ سمجھوتہ اگر نافذ العمل ہو جائے اور اس کی حدود کو مزید بڑھایا جائے، تو خطے کے سر پر لٹکتی ہوئی ایرانو فوبیا کی مغربی تلوار ٹوٹ جائے گی، مغرب کے خزانے عربی ڈالروں سے محروم ہوجائیں گے اور عرب ممالک اپنی ترقی پر توجہ دے سکیں گے۔

سعودی عرب سمیت عرب ممالک کے لئے اس سمجھوتے یہی ایک نتیجہ بھی بہت اہم ہے کہ ان کے وہ کھربوں ڈالر مغرب میں جیب میں چلے جانے سے محفوظ رہیں گے، جو وہ ہر سال ایران کے خوف سے مغرب کی جیب میں ڈال رہے تھے۔ تو کیا مغرب - بالخصوص امریکہ - جو آج سے کچھ ہی عرصہ قبل تک "ایران کے [خیالی] خطرے" سے نمٹنے کے لئے "عربی نیٹو" بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا - اس سمجھوتے سے خوش ہو سکتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: جعفر بلوری، کالم نگار روزنامہ کیہان

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110