اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
اتوار

26 مارچ 2023

9:38:10 PM
1354327

ہدایت یافتگان؛

ڈاکٹر جعفر راؤل گونزالیس ہسپانیہ کے قیدخانوں سے اسلام کی آغوش تک

ڈاکٹر جعفر (راؤل) گونزالیس (Jafar (Raul) Gonzales) سنہ 1961ع‍ کو میڈرڈ میں پیدا ہوئے، قبول اسلام کے بعد اپنا نام جعفر رکھا۔ وہ ایک عیسائی-کمیونسٹ خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ فاشیت کے خلاف مسلسل جدوجہد کی وجہ سے کئی بار پابند سلاسل ہوئے، اور ہسپانیہ کے عقوبت خانوں میں ایام گذارنے کے بعد مظاہر فطرت کی طرف مائل ہوئے اور کئی سال کوہ و جنگل میں بسر کرنے کے بعد "خالق یکتا" تک پہنچے اور دین اسلام اختیار کیا۔


عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا - کی رپورٹ کے مطابق، ڈاکٹر جعفر گونزالیس، جو راہ نجات پا چکے ہیں، دوسروں کو بھی اس حیرت انگیز تجربے سے گذارنے کے لئے کوشاں ہیں۔

ڈاکٹر جعفر گونزالیس مکتب اہل بیت (علیہم السلام) میں مشرف ہونے والے مشہور یورپیوں میں سے ایک ہیں۔

ڈاکٹر گونزالیس کی تربیت کہاں ہوئی؟

ڈاکٹر جعفر گونزالیس ایسے والدین کے زیر تربیت پروان چڑھے جو کمیونسٹ افکار کی طرف راغب ہوئے تھے لیکن جب انھوں نے اپنے آپ کو اندھادھند پیروی سے چھٹکارا حاصل کیا تو انتہائی کٹھن اور طویل راستے پر گامزن ہوئے یہاں تک کہ اپنا گمشدہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے اور مذہب اہل بیت (علیہم السلام) کی آغوش میں پہنچ گئے۔ راؤل خود کہتے ہیں: "میں نے اپنی بلوغت کا دور ایک ایسے ماحول میں گذارا جہاں کمیونسٹ فکر اور کمیونسٹ تنظیموں میں رکنیت میرے ساتھ رفاقت کا اظہار کر رہی تھی۔ میرے والد کا خیال تھا کہ استکبار کے خلاف جدوجہد اور ظلم و جبر کی سرنگونی کا واحد راستہ کمیونسٹ دھارے کی حمایت، ہے"۔

وہ 22 سال کی عمر میں جبری خدمت سرانجام دینے فوج میں چلے گئے۔ اس زمانے میں انھوں نے سیاسی دھڑوں میں سرگرمیاں سرانجام دینے کی بہتیری کوششیں کیں لیکن انہیں گرفتار کرکے ایک سال قید کی سزا سنا دی۔ جیل خانے میں انہیں ایک ایسے گروپ سے شناسائی ہوئی جو سینما کے شعبے میں سرگرم تھا۔ اسی وقت ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ زندگی ظلم و جبر، مصیبت اور آزمائشوں سے مالامال ہے؛ اور ظلم کے خلاف جنگ کا اس وقت تک کوئی نتیجہ نہیں نکلتا جب تک وہ انسان کی تباہی کا سبب نہ بن جائے، اور یہ ایک مہمل چیز ہے کہ احساس ذمہ داری سے پہلو تہی کی جائے یا دبے ہوئے دکھوں کو کم کرنے کی کوشش کی جائے، یہ لہو و لعب اور چنچل پن کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی غفلتِ نفس ہے۔ چنانچہ انھوں نے سمجھ لیا کہ فلم کی دنیا اس ہدف تک پہنچنے کے لئے بہترین ہے۔

سزا کاٹنے اور رہا ہونے کے بعد، انھوں نے کمیونسٹ افکار کو ترک کردیا، سینما کے شعبے میں تعلیم حاصل کیا، اور فائن آرٹس کے شعبے سے فارغ التحصیل اور سینما اور تھیئیٹر میں سرگرم عمل ہوئے اور اپنی زندگی کا ایک طویل دور اسی میدان میں گذار دیا یہاں تک کہ فلم کے شعبے سے اکتا گئے۔

ڈاکٹر جعفر گونزالیس خود کہتے ہیں: "اس کا میں غوطہ ور ہونے کے بعد، گویا کہ ہوش میں آیا اور اپنے اندر کشمکش اور سرزنش محسوس کردی۔ کیونکہ جو کچھ کر رہا ہوں سب عقل کے خلاف ہے۔ یہ وہی چیز تھی جس نے مجھے شک و تذبذب اور توازن کے فقدان کا احساس دلایا"۔

سائنسی اور علمی شخصیت

ڈاکٹر جعفر گونزالیس نوجوانی کے آغاز پر الکٹرانک انجنيئرنگ کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ جنرل فرانکو کی آمریت کے دور میں انھوں نے اس شعبے کو ترک کردیا اور سینما کے شعبے میں داخل ہوئے اور تقریبا 10 سال کے عرصے تک تدوین کا کام جاری رکھا۔ سنہ 1983ع‍ میں مسلمان ہوئے اور تین سال بعد مذہب اہل بیت (علیہم السلام) اختیار کیا اور 1989ع‍ میں دین اسلام اور مذہب تشیع کے اصولوں اور تعلیمات سے آگاہ ہونے کے لئے ایران چلے آئے اور موسم گرما 1996ع‍ تک دینی تعلیم حاصل کی، اور ہسپانیہ لوٹ کر چلے گئے۔

فکری تبدیلی کا پس منظر

1۔ کمیونزم کی بے ہودگی اور مہملیت

واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر جعفر گونزالیس نے 1979ع‍ میں سنجیدگی سے فیصلہ کیا کہ سینما کے شعبے میں کام کو ترک کردیں اور کبھی بھی اپنی مرضی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ چنانچہ انھوں نے بعدازاں "انسان کی خلقت کے مقصد" پر مطالعے کا آغاز کیا۔ سب سے پہلا مکتب جو انھوں نے تحقیق کا موضوع بنایا مکتب شیوعیت (کمیونزم) تھا، کیونکہ ماضی میں اس مکتب سے ان کا گہرا تعلق رہا تھا۔ لیکن اس بار ان کا مطالعہ اندھادھند پیروی اور بے مقصد لاعلمیوں پر مبنی نہیں تھا، بلکہ آگہی اور غور و فکر پر مبنی تھا۔ چنانچہ انھوں نے کچھ عرصہ کمیونزم کی تلاش میں صرف کیا اور سمجھ گئے کہ یہ مکتب زندگی میں اعلیٰ مقصد کا حامل نہیں ہے۔

2۔ عیسائیت کا جمود

دوسرے مرحلے میں انھوں نے عیسائیت یا مسیحیت کو موضوع تحقیق بنایا اور اس کو ایک جامد و راکد مذہب پایا جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کے امور منظم کرنے کے لئے پوری روش نہیں سکھا پا رہا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ عیسائیت ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے پیروکاروں کو کافی مقدار میں روحانیت عطا نہیں کرتا، لہذا یہ مذہب انسان کو زندگی کے بہکاؤں کے سامنے استقامت کی استعداد نہیں دے سکتا تھا۔

3۔ پرہیز اور روحانی ریاضت

ڈاکٹر جعفر گونزالیس تحقیق اور مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچے کہ حقیقت کی پہچان کا راستہ پرہیزگاری اور ضبط نفس (Self-discipline) ہے۔ چنانچہ اس مکتب کا تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر جنوبی ہسپانوی علاقے میں غرناطہ کی سرحد پر واقع پہاڑیوں میں چلے گئے اور چار سال تک وہیں رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے آسمانوں اور زمین کی خلقت پر غور و فکر کیا۔ وہ پہاڑوں اور دروں میں آفاق کی سیر کرتے تھے یہاں تک کہ ایک نور ان کے وجود میں جلوہ گر ہؤا اور ان کے قلب کی گہرائیوں میں آ بسا۔ جس کے بعد انھوں نے سکون محسوس کیا اور ان کا قلب مطمئن ہو گیا۔  

ڈاکٹر جعفر گونزالیس کہتے ہیں: "ایک شب آسمان کی طرف دیکھ رہا ہے، میں نے ایک خاص توجہ کا احساس کیا کہ جس نے عالم وجود کے خالق کی طرف سے اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ لہٰذا میرا دل گویا کہ ٹوٹ گیا اور میں نے ضعف محسوس کیا اور میری آنکھیں اشک بار ہوئیں، اور میں نے کہا: اے وہ جس نے خلق کیا، پس ابداع کر اگر کہ تو موجود ہے، میری مدد کر، میری دستگیری کر، اور اپنی پہچان کی طرف میری راہنمائی کر، تاکہ میرا قلب اطمینان حاصل کر لے۔ اس کے بعد میں نے اپنے پروردگار کے وجود کو محسوس کر لیا، چنانچہ اس کے ساتھ راز و نیاز کیا اور اپنی توجہ اس کی طرف مبذول کر دی اور اس کے وجود کا ادراک کیا، اور اس کے نور کو اپنے قلب کی گہرائیوں سے محسوس کیا۔ چنانچہ میں نے ان لوگوں سو - جو "جبال" (گاؤں یا شہر) میں میرے ساتھ تھے - کہا: <میں اس ہستی (وجود) کے خالق پر ایمان لایا>۔ تو انھوں نے میرا مذاق اڑایا اور کہا: <تم اب اپنے اپنے اس ورثے سے جان نہیں چھڑا سکتے ہو جو اس ماحول سے تم تک پہنچا ہے جس میں تم تھے؛ تم ہمیشہ وہمی اور خیالی امور کی قید میں زندگی بسر کرتے ہو، یہ وہ وہی امور ہیں جنہیں تم نے بچپن سے سیکھ لیا ہے> لیکن میں نے ان سے کہا: <میں اللہ کے وجود کو محسوس کرتا ہوں>، لیکن انھوں نے میری بات پر توجہ نہیں دی"۔

راؤل گونزالیس شیعہ کیوں ہوئے؟

1۔ مطالعۂ کتب

ڈاکٹر جعفر گونزالیس نے "حقیقت کشف" کرنے کے بعد 40 دن تک کھانے کھانے سے پرہیز کیا۔ انہیں معلوم ہؤا کہ ان کے "ضبط نفس اور روحانی ریاضت" کے مقام پر ایک چھوٹا سا کتب خانہ واقع ہؤا ہے۔ چنانچہ کتب خانے میں جاکر دستیاب کتب کا جائزہ لیا اور انہیں اسلام کے بارے میں ایک چھوٹی سی کتاب ملی جس کے مصنف مصر کے مشہور عالم دین سید قطب تھے۔ اس کتب میں انھوں نے ایسے مفاہیم اور تصورات پا لئے جو ان کے خوف و وحشت کا سبب بنے؛ کیونکہ اس سے پہلے وہ سمجھتے تھے کہ اسلام عربوں کی تقلیدوں اور تبلیغات کا مجموعہ ہے، لیکن جب انھوں نے کتاب کا مطالعہ کیا تو اسلام ہی اللہ کا وہ دین ہے جو اللہ نے اپنے رسول محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر اتارا ہے؛ یہ دین خاتم الادیان ہے اور وہ دین ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) تمام انسانوں کے لئے لائے ہیں۔

یہ ایک باب تھا جو ڈاکٹر جعفر گونزالیس کے سامنے کھل چکا تھا چنانچہ انھوں نے اس کتاب سے راہنمائی لے اسلامی کتب کا مطالعہ کیا اور ان کے واسطے سے اصول دین کو پہچان لیا اور نماز سیکھ لی، اور نتیجہ یہ ہؤا کہ اسلام کی حقانیت کو تسلیم کیا۔ اور یوں انھوں نے چالیس روزہ، روزہ توڑ دیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا: "میں محسوس کرتا ہوں کہ میں نے اپنا گمشدہ اسلام میں تلاش کر لیا ہے"، اور یوں انھوں نے غرناطہ جاکر مسلمانوں سے اس بارے میں سوال پوچھنے کا ارادہ کیا۔ ساتھیوں نے نے ان کے فیصلے سے حیران ہو کر، انہیں اس سفر سے روکنا چاہا"۔

2۔ ایرانی مسلمانوں سے نعارف

ڈاکٹر جعفر گونزالیس کہتے ہیں: "جس شہر میں، میں دین اسلام کی تلاش میں مصروف تھا، اسی شہر میں واپس چلا گیا۔ طویل عرصے تک دور رہنے کی بنا پر، میرے ایک دوست میں مجھے گھر بلایا۔ ان کے سامنے انگریزی زبان کا ایک رسالہ تھا، اس کی ورق گردانی کی۔ رسالے میں کچھ جنگجؤوں کی تصویر دکھائی دے رہی تھی، دوست سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ مسلمانوں کا ایک گروپ ہے، یہ شیعہ ہیں اور ایران میں ہیں اور وہ عراق کے ساتھ جنگ میں مصروف ہیں۔

میں نے کہا: کیوں؟

بولے: نہیں معلوم،

میں نے پوچھا: شیعہ کون لوگ ہیں؟

بولے: نہیں معلوم۔

میرے دل میں خیال گذرا کہ مجھے ایران جانا چاہئے تاکہ اسلام کو قریب سے پہچان لوں"۔

چنانچہ ڈاکٹر جعفر گونزالیس اسی وقت سے ایران کے طویل سفر پر آئے، وہ شہر قم میں اہل بیت (علیہم السلام) کے علوم و معارف سیکھ رہے ہیں اور دین اسلام کی حقانیت میں عین الیقین تک پہنچ گئے ہیں۔

سماجی کردار

وہ تقریبا 9 سال تک تنظیم مدارس میں ارسالِ مبلغین کے شعبے میں سرگرم رہے؛ ہسپانیہ کے شہر برشلونہ (Barcelona) میں حوزہ علمیہ، نماز جمعہ، حسینیہ (امام بارگاہ) کی بنیاد رکھی؛ ہسپانیہ کے منتشر شیعہ مسلمانوں کو اکٹھا کیا؛ ادیان و مذاہب کے ساتھ مکالمے کا سلسلہ شروع کیا؛ دینی متون کا ترجمہ کیا؛ اسلامی متون کے تراجم کے ادارے کی بنیاد رکھی اور اہل بیت (علیہم السلام) کے لئے ہسپانوی زبان میں ایک ویب گاہ کی بنیاد رکھی۔

کاوشیں:

1۔ ترجمۂ قرآن:

انھوں نے سنہ 2004ع‍ کے بعد ہسپانوی زبان میں ترجمۂ قرآن کا آغاز کیا اور 2006ع‍ تک اپنا یہ مشن مکمل کر لیا۔ یہ ڈاکٹر جعفر گونزالیس کی پہلی کاوش تھی۔ انھوں نے ترجمہ قرآن میں 3000 پاورقیاں (Footnotes) ثبت کر دیں، جو علامہ طباطبائی (رحمۃ اللہ علیہ) کی تفسیر المیزان اور آیت اللہ مکارم شیرازی کی تفسیر نمونہ سے ماخوذ ہیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کا ترجمہ ایک جلد سے زیادہ نہ ہو تاکہ عام لوگ اس سے فیضیاب ہو سکیں۔

2۔ الارشاد کا ہسپانوی ترجمہ:

انھوں نے عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کی تجویز پر شیخ مفید (رحمۃ اللہ علیہ) کی کتاب الارشاد کا ہسپانوی ترجمہ مکمل کر لیا ہے اور اس کتاب کی پاورقیوں میں تاریخی معلومات پیش کی ہیں تاکہ قارئین اس زمانے کے ماحول اور حادثات و واقعات سے زیادہ واقف ہوں۔

۔۔۔۔۔۔

ماخذ: عالمی شیعہ شناسی اسمبلی کی کتاب "بررسی علل گرایش مستبصرین به تشیع در پنجاه سال اخیر" (گذشتہ 50 برسوں میں تشیّع کی طرف ہدایت یافتگان کی رغبت کے اسباب)

 ..........

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
...........

110