اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
ہفتہ

25 مارچ 2023

10:38:02 PM
1354190

بحرینی انقلاب بدستور جاری؛

ہزاروں بحرینی باشندے آل خلیفہ کے قید خانوں میں بند ہیں / بحرینی عوام صہیونیوں کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے خلاف ہیں ۔۔۔ راشد الراشد

بحرین کی تحریک عمل اسلامی کے راہنما نے کہا: اندازے کے مطابق چار سے سات ہزار بحرینی باشندے آل خلیفہ کے عقوبت خانوں میں بند ہیں، کچھ تو رہا ہو گئے ہیں مگر کچھ ابھی تک پابند سلاسل ہیں۔ بحرین کے ہزاروں عام شہریوں یا اپوزیشن کے کارکنوں کو جبری طور پر یورپ اور دوسرے ممالک میں جلا وطن کیا گیا ہے۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا - کی رپورٹ کے مطابق، بحرینی عوام گذشتہ 12 سال کے عرصے سے اپنے جائز مطالبات منوانے کے لئے پرامن تحریک چلا رہے ہیں، انھوں نے اس عرصے میں ملک کے مختلف حصوں میں پرامن ریلیاں منعقد کی ہیں، لیکن آل خلیفہ کی حکومت نے ان کے مطالبات پر غور کرنے کے بجائے، ہزاروں افراد کو گرفتار کیا اور سینکڑوں کی شہریت منسوخ کر دی؛ لیکن عوامی تحریک جاری ہے بحرینی عوام اپنے مطالبات سے دست بردار ہونے والے نہیں ہیں۔

ڈاکٹر راشد الراشد، فلسفۂ انتظام (Philosophy of Management) میں ڈاکٹریٹ کر چکے ہیں، بحرین کے سیاسی کارکنوں اور عمل اسلامی تحریک کے راہنما ہیں جو گذشتہ 35 سال کے عرصے سے اس تحریک میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔

عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کی جنرل اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے موقع پر ڈآکٹر راشد الراشد کے ساتھ ایک مختصر مکالمہ انجام دیا گیا ہے جس کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے:

ابنا: محرم اور صفر جیسے مذہبی مراسمات جیسے مذہبی مراسمات کی آزادی کے سلسلے میں شیعیان بحرین کی صورت حال کیا ہے؟ کیا آل خلیفہ کی حکومت شیعیان بحرین کے دینی مراسمات کو محدود کرتی ہے؟

جواب: پوری دنیا آل خلیفہ کے جبر اور عوام کی سرکوبی کا مشاہدہ کر رہی ہے اور دیکھ رہی ہے کہ آل خلیفہ کی حکومت عاشورا کے مظاہر و شعائر کا خاتمہ کرکے ملت بحرین کے ساتھ دشمنی کر رہی ہے۔ آل خلیفہ کی حکومت بحرینی عوام کو اربعین کے موقع پر کربلا جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ بحرینی عوام کے خلاف خلیفی حکومت کے معاندانہ اقدامات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے؛ یہ استبدادی حکومت اپوزيشن جماعتوں کے راہنماؤں اور عام شہریوں کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کے گماشتے عوام پر اپنا دباؤ مسلسل بڑھا رہے ہیں اور انقلاب بحرین کو اپنے راستے سے منحرف کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ لیکن 12 سال سے بھی زیادہ عرصے سے عوام پرامن انداز سے اپنی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں؛ اور دوسری طرف سے خلیفی حکومت اپنی مخالفین کو - چاہے وہ کسی بھی طبقے اور جماعت سے تعلق رکھنے والے عوام اور ہر راہنما اور ممتاز سیاسی شخصیات - ختم کرنا چاہتی ہے؛ وہ اپنے موقف پر اصرار کرتی ہے اور دوسری طرف سے بحرینی قوم بھی اپنے موقف پر جمی ہوئی ہے۔ 

دینی اور مذہبی آزادیوں پر آل خلیفہ حکومت کی قدغنیں اس قدر شدید ہیں کہ جو بحرینی عوام زیارت کے لئے ایران آنا چاہیں انہیں دبئی، کویت، قطر، ترکی، قبرص اور یونان جانا پڑتا ہے اور وہاں سے وہ ایران پہنچتے ہیں۔

ابنا: از راہ کرم بحرین کی سیاسی اور سماجی صورت حال پر روشنی ڈالئے۔

جواب: بحرین میں سیاسی مسائل بدستور پہلے کی طرح ہیں، خلیفی حکومت کے ساتھ عوامی مخالفت مسلسل جاری ہے۔ ملت بحرین کے بہت سارے راہنما اور زعماء و بزرگان یا تو پابند سلاسل ہیں یا پھر جبری جلاوطنی پر، بیرون ملک مقیم ہیں اور خلیفی حکومت جبر اور زبردستی کی منطق کا دامن تھام کر اپنی قانونی حیثیت کی بحالی کے درپے ہے۔

بحرین کے اپوزیشن راہنما اور ہر انقلاب شخص، آج آل خلیفہ کے عقوبت خانوں میں پابند سلاسل ہیں، لیکن اپنے قومی مطالبات اور عدل و انصاف اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے مطالبات پر استقامت کر رہے ہیں، اور جھوٹی اور جعلی خلیفی جمہوریت کو مسترد کرتے ہیں۔

ابنا: بعض عرب ممالک غاصب صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے راستے پر گامزن ہوئے، اور آل خلیفہ کی حکومت نے اس جعلی ریاست کے ساتھ تعلقات بحال کر دیئے، اس سلسلے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

جواب: بحرینی عوام کے 14 فروری کے انقلاب ایک لرزہ تھا جو اس حقیقی اور عوامی انقلاب نے آل خلیفہ کے پیکر پر طاری کر دیا۔ اس غیر عوامی، غیر منتخب اور استبدادی حکومت کے پاس سنگ دلی، قساوت، ظلم و جبر اور عوام کی سرکوبی کے سوا کوئی راستہ نہ تھا اور اس نے سیاسی گفتگو اور ملت بحرین کے ساتھ مفاہمت اور سیاسی حل ڈھونڈنے کے بجائے اپنے عقوبت خانوں میں علماء، فقہاء اور قومی راہنماؤں کی سرکوبی، قتل اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے یا ملک بدر کرنے کا راستہ اپنایا۔ خلیفی حکومت ان رویوں کو اپنا کر مباحثے اور مکالمے اور سیاسی مسائل پر مفاہمت کے تفکر سے دور ہوئی اور بحرین کو سیاسی اور سماجی گھٹن کی طرف دھکیل دیا۔

آل خلیفہ حکومت جان گئی کہ بحرینی عوام میں اس کی پوزیشن کمزور ہو گئی ہے تو صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی طرف چلی گئی، اور اندرونی طور پر قانونی حیثیت کھو جانے کے بعد، اسلام دشمن قوتوں کی گود ميں چلی گئی۔ یہ وہ کارڈ تھا جو اس نے بحرینی عوام کے مقابلے میں استعمال کیا؛ یعنی یہ کہ یہ حکومت ایک فریق ہے اور بحرینی عوام فریق مقابل ہے۔ البتہ آل خلیفہ حکومت نے حماقت اور بے وقوفی کی، کیونکہ صہیونی ریاست پورے خطے کے لئے تزویراتی خطرہ ہے۔ اس وقت صہیونی ریاست اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے براہ راست خطرہ سمجھا جاتا ہے خلیفی حکومت اس غاصب اور جعلی ریاست کے ساتھ اپنے تعلقات کے خطرناک نتائج قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ حالانکہ خلیفی حکمرانوں کے اس اقدام کے نتیجے میں ہمارا ملک بدخواہوں، مسلح جماعتوں کی طرف سے خطرے میں پڑ گیا ہے یا یہ کہ بحرین کو جنگ خطرہ لاحق ہو سکتا ہے جبکہ اس اقدام سے بحرین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔

آل خلیفہ حکومت نے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات ایسے حال میں بحال کر لئے، کہ یہ حکومت ایک جائز حکومت نہیں تھی اور اس کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے اور صہیونیوں کے ساتھ تعلقات کی بحالی بحرینی عوام کے ارادے کی عکاسی نہیں کرتی۔ اس ملک کے عوام سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں، اور بحرین کے اندر آل خلیفہ حکومت کے مخالفین صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے خلاف ہیں اور اس کو ایک جرم اور ایک خیانت اور غداری سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اس لحاظ سے بھی آل خلیفہ حکومت اور بحرینی عوام کے درمیان قومی اور دینی جہتوں میں، شگاف پڑ گیا ہے اور حکومت اور عوام بدستور دو الگ الگ فریق ہیں۔

نہ صرف آل خلیفہ حکومت کے مخالفین، بلکہ بحرینی قوام صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے خلاف ہیں اور یہ اقدام بھی خلیفی حکومت کے یکطرفہ اقدامات میں سے ایک ہے۔ جیسا کہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس سے پہلے اس حکومت نے امتیازی سلوک کا سلسلہ جاری رکھا ہوئے، غیر ملکی باشندوں کو شہریت عطا کی ہے، بحرینی عوام کی شہریت چھین لی ہے اور یہ حکومت عوام کی دینی اور مذہبی آزادیوں کو سلب کر چکی ہے، اور یہ سب اس کے یکطرفہ اقدامات ہیں۔

ابنا: بحرینی عوام - بالخصوص بحرینی شیعہ - انقلاب کے ایک عشرے کے دوران کس قسم کے معاشی حالات سے دوچار رہے ہیں اور آج ان کی معاشی صورت حال کیسی ہے؟

جواب: بحرین انتہائی سخت معاشی صورت حال سے گذر رہا ہے، اور یہ صورت حال 14 فروری کے انقلاب کے نتیجے میں بحرینی عوام سے آل خلیفہ خاندان کے انتقام کے زمرے میں آتی ہے۔ بحرینی عوام کی شہریت کی منسوخی اور غیر ملکی پناہ گزینوں کو بحرینی شہریت کی عطائیگی اور انہیں بحرینی عوام پر مقدم رکھنے کی خلیفی پالیسی، ملت بحرین کے حقیقی دکھوں میں سے ہے۔ بحرینی عوام کو روزگار اور شہری حقوق سے محروم کرنے کی خلیفی پالیسی ان دوسرے مصائب میں سے ہے جو آل خلیفہ نے بحرینی عوام پر مسلط کر دی ہے۔

بحرینی عوام انتہائی دشوار صورت حال سے دوچار ہیں، سلامتی اور سماجی لحاظ سے انہیں گھیر لیا گیا اور انہیں ہر لمحہ گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کے گھروں پر حملے، مساجد اور حتی کہ ریستورانوں کی بندش اور عوام کے دینی اور مذہبی شعائر کے خلاف شدید اقدامات، بھی ان ہی مصائب میں سے ہیں۔

ابنا: بحرین کے شیعہ علماء کے ساتھ آل خلیفہ کی حکومت کا رویہ کیسا ہے؟ کیا آپ آل خلیفہ کے عقوبت خانوں میں پابند سلاسل بحرینی راہنماؤں کی تازہ ترین صورت حال سے آگہی رکھتے ہیں؟

جواب: انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہزاروں بحرینی مرد اور خواتین اور قومی جماعتوں کے زعماء اور علمائے دین آل خلیفہ کے قیدخانوں میں قید ہیں؛ جن میں شیخ عبدالجلیل مقداد، شیخ محمد مقداد اور شیخ علی سلمان جیسے نامی گرامی فقہاء اور علماء اور استاد الخواجہ جیسے مشہور قانون دان شامل ہیں۔

اندازوں کے مطابق چار سے سات ہزار بحرینی شہری آل خلیفہ کے عقوبت خانوں میں پابند سلاسل ہیں، ان میں سے کچھ رہا ہوگئے اور کچھ ہنوز قید ہیں۔ ہزاروں عام شہری اور بحرینی اپوزیشن کے کارکن جبری طور پر یورپ اور دوسرے ممالک میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جلاوطن ہونے والے بحرینی شہریوں کو برطانیہ، کینیڈا، ایران، لبنان اور عراق میں پناہ لینا پڑ رہی ہے۔ وہ اپنی سلامتی کو لاحق خطروں کی وجہ سے بحرین واپس نہیں جا سکتے۔ کیونکہ واپسی کی صورت میں انہیں گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

یہ مسائل بحرین میں ایک بڑے بحران کی عکاسی کرتے ہیں اور یہ بحران بدستور قائم و دائم ہے۔ دوسری طرف سے عوام اور مخالفین بھی آل خلیفہ حکومت پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ اور منطقی طور پر آل خلیفہ حکومت اپنے جبر و ظلم اور عوام کی سرکوبی کی پالیسی کو جاری نہیں رکھ سکتی، اور بحرینی عوام بھی اپنی انتہائی کامیابی تک اپنے مطالبات سے دستبردار ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ اپنے انقلاب کو مکمل کامیابی تک جاری رکھنے کے لئے پر عزم ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

مکالمہ: محترمہ وجیہہ سادات حسینی

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔

110