اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
ہفتہ

18 مارچ 2023

10:53:26 AM
1352869

صہیونیت سوگوار؛

طاقت کی سفارتکاری؛ ایران سعودی سمجھوتے پر ایک نظر

نیا عالمی نظام ایک موقع ہے۔ حقیقی معنوں میں بہادرانہ نرمی اور طاقت و عظمت کی سفارت کاری نئے عالمی نظام میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پوزیشن کا تعین کرتی ہے۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا - کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی سیاستدان و کالم نگار محمد کاظم انبار لوئی نے ایران-سعودی سمھجوتے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے کالم بعنوان "طاقت کی سفارتکاری" کے تحت لکھا:

1۔ ایران نے حالیہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں جوہری صنعت میں بے مثل ترقی رقم کی ہے۔ سیٹری فیوجز میں گیس انجکیٹ کرلی، افزودگی کو 50 فیصد تک پہنچایا، معائنہ کاروں کو این پی ٹی کی حدود تک محدود رکھا، اضافی پروٹوکول (Additional Protocol) کو معطل کردیا، اور 2015ع‍ کے جوہری معاہدے کے تحت نصب شدہ کیمروں کو بند کر دیا، بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ تعلقات کو منطقی بنای اور انہیں سمجھایا کہ کہ فنی راستے سے سیاسی مقاصد کی طرف انحراف منع ہے۔ چنانچہ ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی طرف سے سخت موقف کی توقع کی جا رہی تھی مگر بورڈ آف گورنرز کے آخری اجلاس میں ایران کے خلاف کوئی قرارداد منظور نہ ہو سکی۔ ایجنسی کے اس موقف سے اس حقیقت کی تصدیق ہوئی کہ طاقت کی زبان معذرت خواہی کی زبان سے مختلف ہے اور ہر زبان کا اپنا ہی جواب ہے۔

2۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب نے سات سال بعد سمجھوتے پر دستخط کر دیئے کہ اگلے دو مہینوں میں سفارتی تعلقات بحال کریں اور اپنے سفارت خانوں کو دوبارہ کھول دیں۔ یہ سمجھوتہ مغربی ایشیا کی علاقائی سفارت کاری میں ایک نیا باب اور امریکہ اور صہیونی ریاست کی بالادستی پر ایک کار ضرب، سمجھا جاتا ہے۔ سمجھوتے کے بیجنگ میں انعقاد کے بھی کئی معانی ہیں۔

 اس سمجھوتے کی اہمیت اور افادیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ اور یہودی ریاست بہت زیادہ ناراض ہیں کیونکہ ایک طرف سے سعودی عرب ان کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے اور دوسری طرف سے ایران-سعودی تعلقات کی بحالی ایران اور عرب نیز اسلامی ممالک کے درمیان روابط کے فروغ - عالم اسلام کے درمیان اتحاد اور یکجہتی - کے لئے مناسب ماحول فراہم کرتی ہے۔

یہودی ریاست کے حکام نے اس سمجھوتے کو تل ابیب کی خارجہ پالیسی کے لئے بہت بڑی شکست گردانا ہے اور اس کو امریکہ کے لئے "ہار، ہار اور ہار" قرار دے رہے ہیں۔ وہ اسرائیل اور امریکہ کو اس سمجھوتے کا ہارا ہؤا فریق سمجھتے ہیں۔

مغربی مبصرین بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ "یہ سمجھوتہ سعود عرب کے آزادانہ اور خودمختاری پر مبنی عزم کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں جس میں مغرب کو شامل نہیں کیا گیا!۔

3۔ آئی اے ای اے کا موقف اور بورڈ آف گورنر کی طرف سے ایران کی جوہری ترقی کے خلاف موقف کا نہ اپنایا جانا، نیز ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کا سمجھوتہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ گذشتہ موسم خزان میں ایران میں بلؤوں کے منصوبہ ساز، ان کے میدانی چیلے اور کمان سنبھالنے والے - بالخصوص ایران کے حلفیہ مغربی دشمن - اپنی مسلط کردہ ادراکی جنگ میں شکست قبول اور اس حقیقت کا ادراک کر چکے ہیں کہ انہیں ایران میں 44 سال سے پنپنے والی مضبوط، طاقتور اور عوام کے دلوں میں جڑ پکڑنے والی حکومت کا سامنا ہے؛ چنانچہ اپنے تمام انڈے ایک ٹوکری میں ڈال کر ایران کی بھاگی ہوئی مغرب نشین اپوزیشن کے سپرد نہیں کر سکتے جن کو ایران میں نہ کوئی جانتا ہے اور نہ ہی ان پر اعتماد کرتا ہے۔

4۔ جو لوگ ماضی میں کہتے تھے کہ چودھری [امریکہ] کے اذن کے بغیر کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا، وہ چلے گئے، انھوں نے ایٹمی معاہدے پر بھی دستخط کئے، لیکن چودھری اور نے نہ صرف کوئی پابندی نہیں اٹھائی بلکہ پابندیوں میں کئی گنا اضافہ کیا۔ امریکہ پر اعتماد کرنے والے امریکہ پر اعتماد نہ کرنے والوں سے کہتے تھے کہ "تم دنیا کی زبان نہیں جانتے ہو، ایٹمی معاہدے کے بغیر حتیٰ پینے کا پانی فراہم کرنا بھی ممکن نہیں ہے! لیکن اب ان کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ اور منصف تجزیہ کار ان سے پوچھ رہے ہیں کہ "آیت اللہ ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے یس زبان سے علاقے اور دنیا کے قواعد کو بدل ڈالا ہے؟"۔ چین میں ایران-سعودی مذاکرات کی کامیابی نے واضح کیا کہ ایشیائی، ایشیائیوں کی زبان بہتر سمجھتے ہیں اور اپنے تعلقات کو - یورپ اور امریکی ثالثوں (یعنی رکاوٹوں) کے بغیر مکمل ایشیائی ماحول میں مکمل ایشیائی مذاکرات کے ذریعے منظم کر سکتے ہیں۔  

5۔ تعلقات کی بحالی کے لئے ایران-سعودی سمجھوتہ، اسلامی جمہوری نظام کے دوستوں کے لئے بھی اور دشمنون کے لئے بھی، پانچ خصوصی پیغامات کا حامل ہے:

الف- عرب ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات تباہ کرنے کی صہیونی سازش ناکام ہو چکی ہے؛

ب- "ایران کو الگ تھلگ کرنے" کی پالیسی شکست سے دوچار ہوئی ہے وہی سازش جس کو صہیونی اچھال رہے تھے اور اس کی کامیابی سے مطمئن تھے؛

ج- علاقائی پالیسیاں اصل کھلاڑیوں کے ہاتھوں - مغرب کی مداخلت کے بغیر - وضع کی جا سکتی ہیں؛

د- مغربی ایشیا میں امریکہ اور مغرب کا کردار کمزور ہو چکا ہے؛

ہ- علاقائی طاقت، فوجی ترقی و پیشرفت، اور بحیثیت مجموعی "میدان" کو سفارت کاری کے ساتھ یک جا کیا جا سکتا ہے۔

6۔ سعودی عرب کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے سمجھوتے نے - جو مغرب، صہیونیت اور بعض علاقائی تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں کے خیال میں محال تھا - ثابت کرکے دکھایا کہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے، مشرق کے ساتھ تعاون اور تعلق کو فروغ دینا چاہئے ورنہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ مشرق کے ساتھ "طاقت کے مورچے سے" تعامل اور تعاون، بعض عقل گریزوں کو عقل کی طرف رجوع کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے۔  

7۔ انقلاب اسلامی کے رہبر معظّم امام خامنہ ای (دام ظلّہ العالی) نے 5 نومبر 2022ع‍ کو اسکولوں کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "موجودہ عالمی نظام بدل رہا ہے" اور پھر فرمایا: " یہ تبدیلی تین بنیادی خطوط پر مشتمل ہے:

1- امریکہ کی تنہائی؛

2- سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور حتیٰ کہ سائنسی طاقت کی مغرب سے مشرق منتقلی؛

3۔ امریکی جبر کے مقابلے میں محاذ مزاحمت وسیع تر ہوگا جس کا بانی اسلامی جمہوریہ ایران ہے"۔

عنقریب ایسی خبریں سنیں گے جو ان تین خطوط کے زیادہ سے زیادہ فعال ہونے کی خوشخبری کے حامل ہونگی۔

نیا عالمی نظام ایک موقع ہے۔ حقیقی معنوں میں بہادرانہ نرمی اور طاقت و عظمت کی سفارت کاری نئے عالمی نظام میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پوزیشن کا تعین کرتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔

110