اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
اتوار

12 مارچ 2023

3:43:08 PM
1351802

ڈھول کی تھاپ پر رقصاں شیعت

شیعہ ہونا باعث افتخار و شرف تھا۔ علی، امیرالمواحدین کا موالی اور محب تو سب سے ممتاز اور قابل مثال و تقلید ہوتا تھا، مگر کچھ عرصے سے میں ندامت کے پسینے سے شرابور کیوں ہوں۔ دوسرے مسالک کے دوستوں کا سامنے کرنے سے کترانے کیوں لگا ہوں۔ میں تو اکیلا علی کا ماننے والا درجنوں کے مقابل احساس تفاخر سے بیٹھتا اور جم کر قرآن، نہج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ اور سیرت آل محمد کے حوالے سے مذہب آل محمد کی حقانیت پر بات کرتا چلا جاتا۔

تحریر: تبرید حسین

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ شیعہ ہونا باعث افتخار و شرف تھا۔ علی، امیرالمواحدین کا موالی اور محب تو سب سے ممتاز اور قابل مثال و تقلید ہوتا تھا، مگر کچھ عرصے سے میں ندامت کے پسینے سے شرابور کیوں ہوں۔ دوسرے مسالک کے دوستوں کا سامنے کرنے سے کترانے کیوں لگا ہوں۔ میں تو اکیلا علی کا ماننے والا درجنوں کے مقابل احساس تفاخر سے بیٹھتا اور جم کر قرآن، نہج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ اور سیرت آل محمد کے حوالے سے مذہب آل محمد کی حقانیت پر بات کرتا چلا جاتا۔ یہ مان اور اعتماد جہاں مجھے اپنے مالکوں یعنی آل محمد کی سیرت نے دیا تھا، وہیں میرے دور میں ان کے درویش منش سچے پیروکاروں امام خمینی، شھید حسینی، قبلہ یار شاہ، قبلہ گلاب شاہ، قبلہ سید فضل شاہ صاحب اور ان جیسے سینکڑوں دیگر نے مزید اس مان کو بڑھاوا دیا۔ پھر یہ لوگ اٹھ گئے، علماء کی جگہ باووں اور سرکاروں نے لے لی۔ صاحب عمامہ کی جگہ کڑیوں، بالیوں، بڑھے بال لٹوں والوں نے لے لی۔

شیعہ قوم کے ممبروں پر بھی بندر ناچنے لگے۔ ڈھول کی تھاپ پر رقص سے شروع ہونے والی بات فرزند زہراء و برادر زینب کے جشن کے نام پر بازاری عورتوں کے رقص تک جا پہنچی۔ چرس بھری سگریٹ کو لنگر اور تبرک کے نام پر ثواب کی نیت سے تقسیم کیا جانے لگا۔ آئمہ کی ولادت پر گانے والے گویوں اور ناچنے والی عورتوں پر اہلبیت کے نام پر ویلیں کرائی جانے لگیں۔ حسین کی دکھیاری ماں کے مظلوم اور شھید بیٹے کی مظلومامہ شہادت کی تمثیل ذوالجناح تالیوں کی گونج میں برآمد ہونے لگی۔مسجدوں اور امام بارگاہوں میں صلوات اور نعرہ تکبیر و رسالت و حیدری کی بجائے تالیاں گونجنے لگیں۔ ڈھولچی ڈھول پیٹنے لگے۔ مجلسیں اور امام بارگاہ شہادت حسین و انصاران حسین کی مظلومیت اور مقصد بیان کرنے کی بجائے لہوولعب اور حظ نفس کا سامان مہیا کرنے لگے۔ ماتم، مجلس اور شعائر عزاداری کو خالق اور آل محمد تک پہنچنے کیلئے ذریعہ بنانے کی بجائے ہدف بنا کر قوم کو بے عملی کی کھائی میں دھکا دیا جا نے لگا۔ ہم جیسے غیرت قومی سے زمین میں گڑ گئے۔ جائیں تو جائیں کہاں؟ کس کے سامنے اپنا دکھ لیکر جائیں؟ کس کے سامنے اپنا مجروح سینہ کھولیں؟

مجھے کچھ عرصے سے دوستوں بشمول برادر بزرگ بشارت قریشی نے یہ حکم دیا کہ اس موضوع پر لکھوں۔ مگر جب لکھنا شروع کرتا تو لگتا کہ قلم کی نوک سے سیاہی نہیں شرمندگی کے آنسو گر رہے ہیں۔ دل ہے کہ چھ ماہ کے علی اصغر کی عظیم قربانی کے سبب حیات جاوداں پانے والے دین کی پامالی پر بند ہوئے جا رہا ہے۔ علی اکبر کے سینے میں پیوست برچھی، قاسم کے نازک تن بدن کے ٹکڑے یاد آتے اور دوسری طرف حسین (ع) کی عظیم قربانیوں کا مذاق اڑاتا میرے دور کی نام نہاد تشیع کا کردار۔ پھر ہمت باندھی کہ اگر بی بی سینڑ زہرہ نے روز قیامت اس گناہ گار سے پوچھ لیا کہ میرے بیٹے کی عظیم قربانی اور مقصد پائمال کیا جا رہا تھا تو تم لوگ کیا کر رہے تھے تو شاید ندامت کے چند آنسوؤں اور اس تحریر کے ساتھ معافی کو خواستگاری کر لوں۔

بس آخر میں دو گزارشات:

شیعہ قوم کے ہر فرد سے میری گزارش ہے کہ قومی و بین الاقوامی سازشوں کو تو ایک طرف رکھیں، بس کبھی جشن کے نام پر اس لہو و لعب کے نام پر لاکھوں کروڑوں خرچ کرتے اور ویلیں کرواتے ہوئے یہ ضرور سوچئے گا کہ کتنی سید زادیاں اور شیعہ بیٹیاں اس سال مالی مشکلات کے سبب شادی کے بندھن میں بندھنے سے رہ گئیں۔ ان کے ماں باپ کی حسرتیں خون ہوئے جا رہی ہیں۔ ہماری قوم کے کتنے سپوت پیسے نہ ہونے کے سبب اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے سے معذور ہوئے۔ کتنے لوگ اپنے ماں باپ یا بچوں کے علاج تک نہ کرا سکے اور وہ قبروں تک جا پہنچے اور سب سے بڑھ کر موجودہ مشکل حالات میں کتنے سادات و غیر سادات کا چولھا تک بجھ چکا۔ یاد رکھئے مجالس حسین ہماری شہہ رگ ہیں۔ میں فقط لہوولعب پر صرف کی گئی رقم کو امام کے محبوں کی زندگی کی مشکلات کم کرنے کیلئے خرچ کرنے کی طرف دعوت دے رہا ہوں۔

میری دوسری گزارش

مصلحین سے ہے کہ قوم کو مبتلا کرنے والے چند ایک ہیں، جن کے روزی، روٹی اور پیٹ کے مفادات وابستہ ہیں۔ ان کی نشاندہی کرکے انہیں قوم سے الگ کیجئے، نہ کہ پوری قوم پہ لٹھ لیکر چڑھ دوڑیئے۔ ان نابغوں کے نام نہاد جشنوں میں آنے والے زیادہ تر سادہ لوح محبین آل محمد ہیں۔ ان کو پیار سے سمجھائیں، ان کی تربیت کریں، نہ کہ ان کو اپنے اور حقیقی مذہب آل محمد سے دور کرکے ان قصائیوں کے حوالے کر دیں، جو آل محمد کا نام بیچ کر اپنے لئے کاریں، کوٹھیاں، بنگلے اور جہنم کا ایندھن خرید رہے ہیں۔ آخر میں اپنے مولا کی اس دعا کے ساتھ رخصت چاہتا ہوں کہ "میرے معبود میری عزت کے لیے یہی کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں، میرے فخر کے لئے یہی کافی ہے کہ تو میرا پروردگار ہے، تو ایسا ہے جیسا میں چاہتا ہوں، پس مجھے ویسا بنا دے جیسا تو چاہتا ہے۔" آمین

تبرید حسین