عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا - کے مطابق، صہیونی اخبار ہاآرتص نے یوری مسگاو (Uri Misgav) کا ایک تجزیہ شائع کرکے لکھا ہے: حالیہ ایام، اسرائیلی سڑکوں پر غیظ و غضب کے ایام تھے۔ ان دنوں کے واقعات نے یقینی طور پر واضح کیا کہ نیتن یاہو کی دہشت گرد حکومت کے خلاف احتجاج درحقیقت ایک جنگ ہے؛ جو دو مہینوں سے شروع ہو چکی ہے لیکن اب وہ اپنی دفاعی ڈھال کی کاروائی، کی پناہ میں چلا گیا ہے۔
مسگاؤ نے خبردار کیا کہ "اسرائیل تقسیم، پاش پاش ہونے اور شکست و ریخت اور زوال کے مرحلے میں پہنچ گیا ہے اور اسرائیلی دہشت گردی فلسطینی شہر "حوارہ" [میں فلسطینی خاندانوں کی ناکہ بندی] تک محدود نہیں رہی ہے۔ اس سے بڑھ کر بھی کوئی واضح علامت ہو سکتی ہے کہ طوفان کے بیچ میں نیتن یاہو نے کل نا اہلی کی بنا پر، اپنی برخاستگی کو ممکن بنانے والے قانون کو منسوخ کیا! وہ جانتا ہے کہ کیا کر رہا ہے، کیونکہ اس وقت اس سے زیادہ بے بس اور عاجز شخص کوئی بھی نہیں ہے۔ منطق کا تقاضا یہ تھا کہ وہ - معاملات کا انتظام چلانے میں عاجز قرار پانے سے بہت پہلے - اپنی نااہلی کی بنا پر کنارہ کشی اختیار کرتا"۔
مسگاؤ نے مزید لکھا ہے: "ہم اس وزیر اعظم کے بارے میں اظہار خیال کر رہے ہیں جس نے اپنی ریاست [اسرائیل] کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے؛ اس نے نہ صرف ریاست کے اداروں کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے بلکہ ان لوگوں پر بھی حملہ کیا ہے جو عوام کی خدمت کر رہے ہیں، اور اس سے بھی بڑھ کر اس نے طرز حکمرانی اور اس فکر پر بھی یلغار کر دی ہے جو اس حکمرانی کو نظم و نسق دیتی ہے۔ تاریخ ایسے راہنماؤں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے حقیقت کا ادراک کیا اور خوب و بد اور درست اور غلط میں تمیز کر سکے ہیں"۔
اس صہیونی لکھاری نے مزید لکھا ہے: "میں تھکی ہوئی آنکھوں سے اس صورت حال کو دیکھ رہا ہوں، لیکن جو کام نیتن یاہو اپنے قوم پرست، انتہا پسند اور ارتھوڈاکس اتحاد کے ساتھ مل کر کر رہا ہے، - اور وہ مل کر اسرائیل کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں - اس سے مجھے کوئی حیرت نہیں ہو رہی ہے۔ میں صرف ایک چیز آپ کو بتانا چاہوں گا اور وہ یہ کہ ان سڑکوں اور چوراہوں پر مخالفین کی موجودگی، جن سے نیتن یاہو کو گذرنا پڑتا ہے، ایک ایسا واقعہ ہے جسے ماضی میں صرف خواب میں دیکھا جا سکتا تھا؛ یہ مظاہرے حقیقی معنوں میں "دنیا کے اختتام" کی عکاسی کر رہے تھے"۔
مسگاؤ نے نے لکھا ہے: "نیتن یاہو ایک حیرت زدہ ماحول میں کام کر رہا ہے؛ اور اس کی کارکردگی اور دوسرے شعبوں میں اس کی سرگرمیوں کے ادراک اور تجزیئے کے لئے اس نکتے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دراصل، برسوں کا عرصہ گذرنے کے بعد یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اس کی بیوی سارہ اعلی عہدیداروں کی تقرری میں مداخلت کرتی ہے، اس کا بیٹا صوبائی معاملات میں مداخلت کرتا ہے اور اپنے باپ کے گھر میں بیٹھ کر سرکاری حکام کے ایک گروپ یا تخریب کاروں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ رہائشی منصوبوں میں اس کے عدالت کیسز، بدعنوانی سے متعلق اس کے خلاف چار عدالتی کیسز، اور آبدوزوں اور اسٹیل ملز میں اس کے حصص کے وہ کیسز، جنہیں ابھی عدالت کے سپرد نہیں کیا جا سکا ہے، سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ معمولی سے مسائل یا غیر اہم افواہیں نہیں ہیں۔ بات یہ ہے کہ جو بھی سمجھ لے کہ اسرائیل اس کی ملکیت ہے اور اسے نذر آتش کرنا اس کے مفاد میں ہے تو وہ اسے نذر آتش کرنے سے دریغ نہیں کرے گا!"
مسگاؤ نے اپنے مضمون کے آخر میں پیشن گوئی کی ہے کہ "نیتن یاہو کی حکومت زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکے گی اور اس کے ورثے کا انجام بھی واضح ہے؛ نیتن یاہو نے صہیونی پراحیکٹ کو تخریب کاری کا نشانہ بنا کر، اپنی تاریخ میں پہلی بار، ایک ایسی حکومت بنا دی جس میں سلامتی اور ذمہ داری کا عنصر ناپید ہے۔ البتہ نیتن یاہو یقینا اسے ہمیشہ شکار کے طور پر استعمال کرنے میں کامیاب رہا ہے۔"
نیتن یاہو اسرائیل کو تیزی سے آئینی، اقتصادی اور سلامتی کے بحران میں دھکیل رہا ہے اور یہ سوچنا غیر منطقی ہے کہ وہ تقریبا 30000 ووٹوں کی اکثریت کی حمایت سے ایسا کرے گا۔ ان تمام خامیوں اور مسائل کے تسلسل کے ہوتے ہوئے، اسرائیلی ریاست کی بقاء ایک معجزہ ہے اور نیتن یاہو اور اس کے حامیوں کو اس کی تباہی کی اجازت نہیں دی جا سکتی"۔
۔۔۔۔۔۔
نکتہ:
یہودی ریاست "اسرائیل" کی بقاء عرصے سے خطرے میں ہے، ایک ایسی ریاست جس کی بقاء کا اصل ذریعہ جنگ ہے اور اس کی تاسیس کے وقت رائج الوقت مفروضہ یہ تھا کہ یہ ریاست کبھی بھی شکست نہیں کھائے گی اور یہ مفروضہ سنہ 1990ع کی دہائی تک کم و بیش مؤثر بھی رہا لیکن سنہ 2000ع سے حزب اللہ لبنان کے ہاتھوں پٹنے کے بعد، فلسطینی مزاحمت نے بھی اس کی پٹائی کا سلسلہ جاری رکھا ہے، یہاں تک کہ نیل سے فرات تک کے نظریئے پر قائم یہودی ریاست کو خود ہی اپنے ہاتھوں بنی ہوئی کنکریٹ کی بلند دیواروں کے اندر محصور ہونا پڑا ہے۔ چنانچہ اس کی بقاء کے دو اہم مفروضے (فاتحانہ جنگیں اور وسعت پسندی) کالعدم ہو چکے ہیں؛ علاوہ ازیں 75 سال گذرنے کے باوجود ابھی تک قوم اور زمین کا مسئلہ حل نہیں کر سکی ہے چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ نیتن یاہو جیسے احمق سیاستدانوں کی غلطیاں صرف اس کی فنا کی رفتار میں اضافہ کر سکتے ہیں، اور جہاں تک کہ اس کی حتمی نابودی کا تعلق ہے، تو غاصب صہیونیوں اور ان کے سیاستدانوں اور اداروں کے پاس کچھ زیادہ فرصت باقی نہیں بچی ہے اور صہیونی حکمرانوں کے اعتراف کے مطابق، یہ ریاست اپنا 80واں یوم تاسیس نہیں دیکھ سکے گی۔ (2028ع قریب ہی ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ و تکمیل: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110