اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : کیہان
جمعرات

9 فروری 2023

5:17:23 PM
1345118

ڈوبتی ہوئی صہیونیت؛

کیا یہودی ریاست کی موجودہ بے چینیاں ماضی سے مختلف ہیں؟

تل ابیب اور یہودی ریاست کے دوسرے شہروں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ معترضین کی ایک نئی نسل "اسرائیل" نامی ریاست میں اپنے مستقبل کو خطرے میں دیکھتی ہے اور اس ریاست کے وجود کو ہی متنازعہ بناتی / یہ احتجاج سیاسی یا معاشی نہیں بلکہ مستقبل سے ناامیدی کا رد عمل ہے۔ یہ احتجاج فلسطینیوں کی کاروائیوں سے بھی تھمنے میں نہیں آ رہی ہے۔ گویا غاصب ریاست کے دن گنے جا چکے ہیں۔

گذشتہ پانچ ہفتوں سے، ہر سینچر کو دن رات گئے، مقبوضہ فلسطین کے مختلف شہروں - خاص کر دارالحکومت تل ابیب - میں ہزاروں لاکھوں صہیونی سڑکوں پر آ کر احتجاج کرتے ہوئے نتین یاہو کی فاشی (fascist) کابینہ کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں۔ ایک مظاہرے میں مظاہرین کی تعداد ایک لاکھ 40 ہزار تک بھی پہنچی، اور ان تمام مظاہروں میں ان کی تعداد 60 ہزار سے کم نہیں ہوئی۔

اس ہفتے کے سینچر کو مسلسل پانچویں ہفتے، تل ابیب کی نئی کابینہ کے خلاف احتجاج کے لئے ہزاروں صہیونی سڑکوں پر آئے۔ عبرانی زبان کے ذرائع نے لکھا کہ اس مرتبہ تل ابیب میں ایک لاکھ 10 ہزار افراد نے نیتن یاہو کے خلاف احتجاج کیا اور گاردین کے مطابق، تل ابیب کے علاوہ 20 دوسرے شہروں میں بھی اسی طرح کے مظاہرے ہوئے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ تل ابیب کی مرکزی سڑک "کاپلان" پر ہزاروں احتجاجیوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا: "نیتن یاہو کی کابینہ عالمی امن کے لئے خطرہ"؛ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مظاہرین دنیا والوں کو بھی نیتن یاہو کے خلاف کردار ادا کرنے کی دعوت دے رہے ہیں! چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ اس مرتبہ کے احتجاجی مظاہرے اور عمومی بے چینی ماضی سے بالکل مختلف ہے، اور اس صورت حال کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

مظاہروں کی نئی لہر کو کئی جہتوں سے، ماضی سے مختلف، قرار دیا جا سکتا ہے:

وسیع پیمانے پر احتجاج

پے در پے احتجاجات جو ہر ہفتے تل ابیب اور فلسطین کے دوسرے مقبوضہ شہروں میں منعقد ہو رہے ہیں، ایک خاص طبقے تک محدود نہیں ہیں، یہ مزدوروں اور ٹریڈ یونینوں وغیرہ کا احتجاج نہیں ہے بلکہ مقبوضہ فلسطین میں آ بسنے والے یہودیوں کے تمام طبقوں کا احتجاج ہے۔ غاصب ریاست نے اپنی 75 سالہ تاریخ میں، سیاسی اور سماجی احتجاجات دیکھے ہیں اور یہ احتجاجات یا تو دائیں بازوں کے خلاف بائیں بازو تک محدود تھا یا بائیں بازو کے خلاف دائیں بازو تک۔ لیکن موجودہ لہر بائیں بازو اور دائیں بازو سے بالاتر ہے، کیونکہ تمام فریق خطرہ محسوس کر رہے ہیں اور سب نیتن یاہو کی کابینہ کی کایا پلٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تمام طبقوں کی مخالفت کے لئے کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں؛ بطور مثال صہیونی ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ عدالتی نظام میں نیتن یاہو کی مجوزہ اصلاحات کی وجہ سے غاصب ریاست کا صحت اور حفظان صحت کا نظام شدت سے متاثر ہوگا؛ اسکولوں کے اساتذہ نے اسی بنا پر نامعلوم عرصے تک ہڑتال کا آغاز کیا ہے، عدالتوں کے متعدد جج مستعفی ہو گئے ہیں، شہری ہوابازی کے سبکدوش پائلٹ اور یونیورسٹیوں کے طلباء سڑکوں پر آکر احتجاج کر رہے ہیں اور انجنیئروں اور رہائشی مکانات تعمیر کرنے والے افراد دھرنا دے رہے ہیں!

مستقبل کے خوف سے احتجاجی مظاہرے

ماضی میں احتجاج کی لہریں - مقبوضہ فلسطین میں، کسی سیاسی تبدیلی، جنگ یا سیاستدانوں کے نسلی امتیاز، یا معاشی مسائل، یا قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف یا 1982ع‍ میں صبرا اور شتیلا کیمپوں میں صہیونی گماشتوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل کی مذمت یا پھر فلسطینیوں کے ساتھ مسلسل جنگوں کے خلاف - اٹھا کرتی تھیں؛ لیکن اس بار احتجاج کی یہ لہر صہیونیوں کے "نامعلوم مستقبل" کے خلاف رد عمل ہے۔

اسی اثناء میں بہت سارے صہیونی تجزیہ نگاروں، سیاستدانوں اور موجودہ اور سابق یہودی زعماء کی طرح، سابق صہیونی وزیر اعظم ایہود بارک (Ehud Barak) اور موجودہ صہیونی صدر اسحاق ہرزوگ (Isaac Herzog) بھی اگلے چند سالوں میں یہودی ریاست کے زوال اور نابودی کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں۔ موجودہ احتجاجی لہر حفظ ماتقدم اور غاصب ریاست کی بقاء کے لئے ایک انسدادی اقدام ہے؛ یعنی یہ احتجاجی لہر صہیونی ریاست کی بقاء ہے اور اس میں روزمرہ سیاسی اور معاشی مسائل مقصود نہیں ہیں۔ لیکن چونکہ یہ ریاست مغرب کی غیر مشروط پشت پناہی کی بنا پر 75 برس تک ظلم و جبر پر قائم رہی ہے، چنانچہ بقاء کے مواقع کچھ زیادہ دستیاب نظر نہیں آتے، اور جیسا کہ ایہود بارک اور اسحاق ہرزوگ نے بھی کہا ہے اور کئی یہودی ربیوں نے بھی پیشن گوئی کی ہے، بعید از قیاس ہے جرائم پیشہ صہیونی حکمران اپنی ظالم اور غاصب ریاست کے 80ویں یوم تاسیس کی تقریبات اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔

کھیل کا میدان بدل گیا ہے

یہ وسیع احتجاجی مظاہرے مقبوضہ علاقوں میں گہری تبدیلیوں کا شاخسانہ ہیں؛ جہاں کھیل کے ضوابط بدل گئے ہیں۔ ماضی میں مقبوضہ علاقوں میں مقاومتی مجاہدین کاروائیاں کرتے تو صہیونیوں کے احتجاجات کا سلسلہ بھی رک جاتا تھا؛ لیکن لیکن مظاہروں کی جدید لہر، ایک فلسطینی مجاہد کی کاروائی میں سات صہیونیوں کی ہلاکت کے ایک دن بعد بھی جاری رہی اور 60000 صہیونیوں نے اگلے دن کے مظاہرے میں حصہ لیا اور مظاہرین نے نیتن یاہو کے خلاف نعرے لگائے؛ کیونکہ وہ سب جانتے ہیں کہ موجودہ صورت حال کے ہوتے ہوئے ان کا مستقبل تاریک ہے۔

مظاہرے قیادت کے بغیر! نشانہ صہیونی ریاست کا وجود!

ماضی میں احتجاجی مظاہرے سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کے زیر اہتمام منعقد ہؤا کرتے تھے؛ لیکن ان کے برعکس اس دور کے احتجاجی مظاہرے کسی جماعت یا سیاسی راہنما کی قیادت کے بغیر منعقد ہو رہے ہیں اور کسی بھی سیاستدان کو تقریر کے لئے مدعو نہیں کیا جاتا۔ علاوہ ازیں ان مظآہروں میں - خلاف توقع - کئی مرتبہ فلسطین کا پرچم بھی دکھائی دیتا ہے، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ چنانچہ سابق وزیر جنگ اور یسرائیل بیتنا (Yisrael Beiteinu) پارٹی کا سرغنہ ایویگدور لیبرمین (Avigdor Lieberman) نے اپوزیشن میں ہونے کے باوجود نیتن یاہو کے خلاف احتجاج کا بائیکاٹ کیا ہے اور کسی مظاہرے میں شرکت نہیں کیا کیونکہ وہ بخوبی جانتا ہے کہ یہ احتجاج نیتن یاہو کے خلاف ہی نہیں ہے بلکہ اس کے مقاصد اس سے کہیں وسیع تر ہیں اور مظاہروں کا یہ سلسلہ در حقیقت صہیونی ریاست کے پورے وجود کے خلاف ایک بحران کی حیثیت رکھتا ہے۔

نیتن یاہو کابینہ ڈیڈلاک کا شکار

نیتن یاہو کی حکومت موجودہ حالات کی وجہ سے مفلوج ہوچکی ہے اور کچھ بھی کرنے سے عاجز ہے۔ ایک طرف سے اسے وسیع احتجاجی مظاہروں کا سامنا ہے اور دوسری طرف سے اس کے انتہاپسند اور متشدد شرکاء - بشمول دائیں بازو کا تشدد پسند وزیر برائے داخلی سلامتی، ایتامار بن گویر (Itamar Ben-Gvir) - نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں نیتن یاہو کی "کمزور" کارکردگی، اور خان الاحمر کے علاقے سے فلسطینیوں کے انخلاء کے مسئلے میں اس کی کوتاہیوں سے غضبناک ہیں۔ بن گویر نے دھمکی دی ہے کہ اگر اگلے آٹھ مہینوں میں ان دو مسئلوں میں قابل سنجیدہ تبدیلی نہیں آئی تو وہ کابینہ سے مستعفی ہوگا؛ اور اس کی کنارہ کشی کی وجہ سے کنیسٹ میں نیتن یاہو اکثر کھو جائے گا اور اس کی کابینہ تحلیل ہو جائے گی۔

تل ابیب میں نئے گروہوں کا غیظ و غضب

مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں میں صورت حال اس قدر انتشار اور بدنظمی کا شکار ہوئے ہیں؛ یہاں تک کہ احتجاجات کے پانچویں ہفتے کے بعد، لندن سے شائع ہونے والے جریدے اکانومسٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ "ماضی میں جنگوں، سیاسی عدم استحکام اور عالمی مالی کساد بازاری کے باوجود بھی تل ابیب کی معاشی حالات بہتر رہتے تھے، لیکن موجودہ صورت حال میں معاشی ماہرین اور کاروباری اداروں کے مالکین کی صدائے اعتراض بھی سنائی دے رہی ہے اور وہ خبردار کر رہے ہیں کہ تل ابیب کی معیشت کو سنجیدہ خطرات کا سامنا ہے"۔

اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق، اب تک تل ابیب کے دو بینکوں کے سربراہوں نے نیتن یاہو کو خطوط لکھ کر کہا ہے کہ "عدالت اور عدالتی نظام کو کمزور کرکے، بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے [اسرائیل میں] معاشی کشش میں کمی آئے گی اور تل ابیب کا مالی رتبہ بھی زوال پذیر ہو جائے گا"۔ تل ابیب کے مرکزی بینک کے سربراہوں کے انتباہ کے بعد 370 اسرائیلی ماہرین معاشیات نے بھی نیتن یاہو کے نام احتجاجی خطوط روانہ کئے اور ان سب نے [غاصب ریاست کی] موجودہ معاشی گڑبڑ کی صورت حال کو تسلیم کیا ہے"۔

وزیر برائے انارکی و افراتفری

مقبوضہ فلسطین میں انتشار اور بے چینی کی صورت حال کا ایک بڑا حصہ تل ابیب کی نئی کابینہ میں [مبینہ] داخلی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر جیسے تشدد پسند افراد کی رکنیت ہے۔ بن گویر ایک انتہائی پریشان حال اور شدید نفسیاتی امراض میں مبتلا شخص ہے؛ یہاں تک کہ سابق صہیونی چیف آف اسٹاف اور سابق وزیر جنگ موشے یعلون (Moshe Ya'alon) نے حال ہی میں کہا ہے: "ایتامار بن گویر "قومی سلامتی کا وزیر" نہیں بلکہ "قومی انارکی اور افراتفری کا وزیر" ہے! [اور انتہائی دائیں بازو سے رکھنے والا وزیر خزانہ] بیزالیل اسموٹرچ (Bezalel Smotrich) اور بن گویر دونوں سلامتی کے بارے میں نہیں سوچتے اور ان کے اقدامات ایک بڑے دھماکے کا سبب بنیں گے"۔

بات یہاں تک پہنچی ہے!

ادھر عدالتی نظام میں ترمیم و اصلاح کے سلسلے میں بنیامین نیتن یاہو کے حالیہ فیصلوں کے بعد، صہیونی فضائیہ کے ایک  پائلٹ زیئیف راز (Ze'ev Raz) نے دھمکی دی ہے کہ وہ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ کے وزیروں کو قتل کر ڈالے گا۔ زیئیف راز سابق صہیونی پائلٹ ہے جس نے سنہ 1981ع‍ عراقی جوہری تنصیب اوسیراکا (Osiraka) کے خلاف فوجی کاروائی میں حصہ لیا تھا۔ راز کا کہنا تھا کہ "اگر نیتن یاہو اپنے عدالتی اصلاحات کے منصوبے کو - جو درحقیقت ایک بغاوت ہے - ترک نہ کرے تو اس کو قتل کرنا چاہئے"۔ راز، - جو نیتن یاہو کی کابینہ کی پالیسیوں کے خلاف ہے - نے مزید کہا: "اگر وزیر اعظم آمرانہ طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کو اور اس کی کابینہ کے وزراء کو ہلاک کرنا چاہئے"۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110