اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : کیہان
منگل

7 فروری 2023

2:41:44 AM
1344260

اسلامی انقلاب کی 44ویں سالگرہ؛

امام خمینی اور ملت ایران کے عالمی اثرات

ڈاکٹر سعداللہ زارعی نے اخبار کیہان کے اداریئے میں لکھا: "امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) کی سیاسی شخصیت" نے اپنے طلوع کے لمحات سے ہی ملت ایران کو بھی یہی عظیم سیاسی شخصیت عطا کی۔ اس مسئلے کی تشریح آسان نہیں ہے لیکن مسلمانوں کی نسلیں، جنہوں نے اس مسئلے کا عینی طور پر ادراک کیا ہے، "امام اور امت" کی اس سیاسی شخصیت کی تصدیق کرتی ہیں۔

عالمی اہل بیت(ع) خبر ایجنسی – ابنا - کے مطابق، امام کی سیاسی شخصیت کے طلوع سے قبل، ہماری سیاسی شخصیت ایک عدالت کے قیام، ایک استعماری معاہدے کی منسوخی، آئینی تحریک (Constitutional movement) میں ایک ناقص سی کامیابی اور تیل قومیانے کی تحریک میں چند مہینوں کی وقتی کامیابی وغیرہ تک محدود تھی۔ ہم ان محدود کامیابیوں کے تحفظ سے بھی عہدہ برآ نہیں ہو پا رہے تھے اور ہماری تحریکیں ابتدائے راہ یا بیچ راستے، رک جاتی تھیں۔ کبھی تو ہمیں صغیر و کبیر استبدادیت (رضا شاہ اور محمد رضا شاہ پہلوی کی حکمرانی) میں بہت زیادہ پسپائی بھی اختیار کرنا پڑتی ہے؛ اس سے بھی آگے بڑھ کر حتی کہ - ریجی معاہدہ (1) ژی اور وثوق کے معاہدوں (2) - جیسے منسوخ معاہدوں کے مسئلے کو بھی انجام تک پہنچانے سے عاجز تھے۔

حضرت امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) نے آئینی تحریک سے تیل کے قومیانے کی تحریک تک کی پوری سیاسی تاریخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا - اور فطری امر یہ تھا کہ آپ بھی بہت سوں کی طرح اس نتیجے پر پہنچتے کہ "راستہ بند ہے" اور "کچھ بھی کرنا ممکن نہیں ہے"! جیسا کہ آپ سے پہلے بہت بااثر مراجع تقلید بھی اسی نتیجے پر پہنچے تھے اور حکومتوں سے اپنی توقعات بہت کم کر چکے تھے لیکن - امام کا خیال تھا کہ تحریکوں میں طے شدہ راستے غیر مفید تھے اور امام معصوم (علیہ السلام) کی غیبت کے زمانے میں فقہاء کی ذمہ داریاں رائج الوقت تصورات سے کہیں زیادہ اور وسیع ہیں، چنانچہ انھوں نے اپنی تحریکا کا آغاز اسی چوٹی سے کیا اور انہیں یقین تھا کہ مقصد تک پہنچنا ممکن ہے۔

یہ البتہ سادہ اور آسان سی بات نہ تھی، بلکہ بہت عجیب و غریب نظر آتی تھی۔ یہاں تک کہ آیت اللہ سید محمود طالقانی جیسے جہاد و شہادت کے شیدائی اور طویل عرصے تک قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والے راہنما اور علماء بھی - جو اسلام کے لئے جان کی بازی لگاتے رہے تھے، - گوکہ امام کے اہداف کو مطلوب اور مقدس سمجھتے تھے لیکن ان کے خیال میں یہ اہداف "دستیابی کے قابل نہ تھے"؛ تاہم، اس کے باوجود اسی راہ پر گامزن رہے اور اپنے حصے کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے مگر وہ پہلوی بادشاہت کی کایا پلٹ کو ناممکن سمجھتے تھے۔ تو جب وہ بادشاہت کا تختہ الٹنا ناممکن سمجھتے تھے، یقینا امریکہ اور برطانیہ کا تسلط ایران سے ختم کرنے کو بطریق اَولیٰ غیر ممکن سمجھتے تھے! بہرحال، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف اور فضل کے اعلی مدارج پر فائز فرمائے کہ اپنی اس سوچ کے باوجود، میدان میں ثابت قدم قدمی سے جانفشانیاں کیں اور حقیقتا "صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ" (3) کا مصداق تھے، لیکن وہ اس یقین تک نہیں پہنچ سکے تھے، جو امام کو حاصل تھا اور آپ استکبار اور استبداد پر غلبہ پانے کو عین ممکن سمجھتے تھے۔

حضرت امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) خاص قسم کا روحانی سلوک رکھتے تھے۔ آپ کی کتابیں "شرح دعائے سَحَر" اور انتہائی عمدہ کتاب "اربعین حدیث" بالترتیب سنہ 1928ع‍ اور سنہ 1939ع‍ کو زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہیں چنانچہ ان کتابوں کی تحریر کا کام آپ نے 25 سے 30 سال تک کی عمر میں شروع کیا ہوگا۔ گوکہ یہ کتابیں انتہائی سلیس اور ادب فارسی کے قواعد کے لحاظ سے فصیح ہیں لیکن یہ کہنہ سال عرفاء کے لئے ثقیل ہیں۔ یہ انتہائی عمیق عارفانہ کتابیں اور اپنے عظیم الشان استاد آیت اللہ العظمی شیخ محمد علی شاہ آبادی سے سیکھئے ہوئے پراسرار عرفانی دروس ہی تھے جنہوں نے روحانی عروج کے ساتھ ساتھ امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) کی "سیاسی فکر" کو تشکیل دیا۔ چنانچہ آپ کا نظریہ یہ تھا کہ "ہمیں اپنے فریضے پر عمل کرنا چاہئے اور اس راہ میں "خود" کو ایک طرف کرکے رکھنا چاہئے؛ اور جان لینا چاہئے کہ چونکہ اللہ نے نصرت کا وعدہ دیا ہے اور وہ مسبب الاسباب ہے، عظیم اہداف و مقاصد کا حصول ممکن ہے"۔ امام نے اس حوالے سے قم اور نجف کے بااثر ترین علماء اور آیات عظام کے ساتھ مباحثے کئے ہیں جن سے آپ کی "اعلیٰ سیاسی شخصیت" کا بخوبی اظہار ہوتا ہے۔

امام نے دینی روحانیت اور اخلاص کا تُوشَہ لے کر، اور اللہ کے ساتھ اپنے مسائل حل کرکے، میدان سیاست میں اترے اور اسی عطر کے ساتھ، پوری دنیا پر اثر انداز ہوئے۔ حضرت امام نے ایران سے مغربی اثر و رسوخ کا خاتمہ کرنے اور اس قوم سے بدعنوانوں کا کے خاتمے نیز عالمی حکمرانی کے کلیے اور اصول تبدیل کرنے کے لئے میدان میں آئے، اور اس راستے میں سب سے پہلے خود کو قربان کر دیا۔ بطور مثال ایران میں ایک مرجع تقلید کا قیدخانے میں جانا اور جلا وطن کیا جانا مرسوم نہ تھا لیکن امام نے اس طرح کے سرکاری سلوک کا خندہ پیشانی سے خیر مقدم کیا اور کچھ عرصہ پابند سلاسل رہ کر 14 سال تک جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کر لیں اور ہمہ جہت دباؤ کے باوجود ایک قدم بھی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب پہلوی بادشاہت کسی بڑے مسئلے یا رکاوٹ کا سامنا کئے بغیر امام کو قید اور پھر جلا وطن کرنے میں کامیاب ہوئی تھی! حضرت امام نے اپنی اسلامی تحریک کا مقصد پہلوی حکومت کی کایا پلٹ سے ما وراء قرار دیا تھا، اور فرمایا تھا کہ "میرا مقصد مسلمانوں کے سروں سے اجنبی قوتوں کے تسلط کا خاتمہ ہے"، امام نے اسی دوران، ایک دفعہ فرمایا:

"تمام تر مصائب و مسائل، - جن کا ملت ایران اور مسلم اقوام کو سامنا ہے - اجنبی قوتوں کی طرف سے ہے، امریکہ کی طرف ہیں۔ دنیا کی مسلم اقوام اجنبیوں سے عمومی طور پر اور امریکہ سے خصوصی طور پر نفرت کرتی ہیں۔ اسلامی ممالک کی تمام تر بدبختیوں کا سبب، ان کے مقدرات میں اجنبی طاقتوں کی مداخلت ہے"۔ (4)  

اب آپ امام کی ان آراء کے وقت کو نظر میں رکھئے، یہ وہ زمانہ تھا جب بہت سے بزرگ کہا کرتے تھے کہ "ہم قم کے پولیس سربراہ کو بھی نہیں بدل سکتے؛ آقائے خمینی کیسی باتیں کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ شاہ کو جانا چاہئے! آقا! یہ سب انہونی باتیں ہیں، یہ باتیں صرف خون کی پامالی کا سبب بنتی ہیں!"۔ یعنی جس زمانے میں اکثر بزرگ پولیس سربراہ کی برطرفی کو ناممکن سمجھتے تھے، حضرت امام ایران، عالم اسلام اور دنیا کے مستضعفین کو "اجنبیوں کے تسلط سے آزاد کرانے" کے حصول کے لئے کوشاں تھے۔  

آج برسہا گذرنے کے بعد یقین نہ رکھنے والوں کی اکثر لوگ دنیا سے رخصت ہوئے ہیں، اللہ کی رحمت ہو ان پر، اور بہت سے وہ تھے جو جدوجہد کے لئے پا بہ رکاب ہوئے اور اپنی جان شیریں کو اس راہ میں قربان کردیا، "طُوبَىٰ لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ"، (5) ہم دیکھ سکتے ہیں، جو کچھ امام انجام دینا چاہتے تھے، اور درحقیقت جس کام پر آپ مامور تھے، وہ کافی تک حاصل ہو چکا ہے۔ امام نے 17 اکتوبر 1986ع‍ کے دن صوبہ آذربایجان کے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے خود ہی فرمایا کہ "ہم اس کا صحیح اندازہ لگانے سے قاصر ہیں کہ اس فتح کا حجم کیا ہے۔ دنیا مستقبل میں ادراک کر ہی لے گی کہ ملت ایران کی اس فتح و کامیابی کا حجم کیا ہے"۔ (6)

ان دنوں، جب کچھ لوگ کہتے تھے کہ ہمیں نرمی سے کام لینا چاہئے تا کہ مسلمانوں کا خون محفوظ رہے، اور حقیقت میں قرآن کی اتنی ساری دعوتوں اور نداؤں کو لبیک کہنے کے عمل کو اگلے دن کے لئے ملتوی کرتے تھے، اور معلوم نہ تھا کہ وہ اگلا دن کب ہے! لیکن امام میدان میں آئے اور 15 سال بعد راستہ کھل گیا۔ بے شک حضرت امام کا راستہ مفت اور آسان اور قربانی سے خالی نہیں تھا، لیکن:

* اگر امام نہ اٹھتے تو اور میدان کو تبدیل نہ کرتے، وہی بیرونی اور اندرونی ہاتھ - جن لوگوں نے سات فروری 1979ع‍ کو تہران کے 10 باشندوں کا قتل عام کرنے اور یوں اجنبی قوتوں کا تسلط بحال رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، وہ ملت ایران کے تمام افراد کو یکے بعد دیگرے دشمنان اسلام کے قدموں میں قربان کر دیتے۔

* اگر امام اور امام کا انقلاب نہ ہوتا اور اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں کے واقعات - جن کے نتیجے میں افغانستان اور عراق پر امریکی قبضہ ہؤا - رو نما ہوتے، تو ایران آج سلامتی کے لحاظ سے بہت نازک دور سے گذر رہا ہوتا۔

* اگر امام اور امام کا انقلاب نہ ہوتا تو صہیونیت - جو اس وقت پورے یورپ اور امریکہ پر حکمرانی کر رہی ہے - مسلمانوں کی تمام سرزمینوں - خاص کر امت مسلمہ کی مقدس سرزمینوں پر قابض ہو چکی ہوتی۔ یاد رہے کہ سنہ 1971ع‍ میں خطے کے اسلامی ممالک میں یہودی ریاست کی پیشقدمی اور ان کے قبضے میں جانے والی سرزمینیں سنہ 1930ع‍ کی نسبت دو گنا ہو چکی تھی۔

علم و معرفت کے لحاظ سے حضرت امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) کا انقلاب قرآن کریم، ائمۂ معصومین (علیہم السلام) کی دعاؤں اور اسلامی کی عرفانی میراث پر استوار تھا۔ چنانچہ امام اور ایرانی عوام اپنے ملک اور عالم اسلام کے بنیادی مسائل سے گہرا تعلق رکھتے تھے، انھوں نے اس راستے میں پامردی دکھائی اور بیچ راستے سے پسپا نہیں ہوئے۔ یہ انقلاب آج تک، علاقائی اور عالمی سطح پر، تسلسل کے ساتھ کروڑوں مخاطَبین کو میدان میں لا چکا ہے اور اسے آج بھی ہر دین و مذہب، اور ہر قوم و زبان سے تعلق رکھنے والی قوموں اور نسلوں   کا سب سے اہم محرک سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی کوئی قوموں کی محبت کمانے میں اس الہی انقلاب کے کرداروں اور شخصیات کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ تو یورپ اور امریکہ کی استعماری حکومتیں غیظ و غضب میں مبتلا رہنے دیں اور اس غصے کی بنا پر انہیں اس انقلاب اور اس سے جنم والے نظام کے عظیم راہنماؤں اور تابندہ اداروں کی شان میں گستاخی کرنے دیں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ گستاخیاں ایک ایسی طاقت کے مقابلے میں منہ توڑ شکستوں سے جنم لیتی ہیں، جس پر وہ غلبہ پانے سے عاجز ہیں۔

جب ایک فرانسیسی پادری کہتا ہے کہ "کیا بیٹھ کر دیکھ رہے ہو، جبکہ یورپ میں بچوں پر سب سے زیادہ رکھا جانے والا نام "محمد ہے"، اور پھر کہتا ہے "محمد یورپ پر قبضہ کر رہے ہیں" اور پھر سنہ 2050ع‍ تک کے اعداد و شمار پیش کرکے کہتا ہے: "یورپ کی ستر کروڑ آبادی کا نصف حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہوگا، اور ایشیا اور افریقہ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر، اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بننے والا ہے" اور پھر کہتا ہے: "محمد [صلی اللہ علیہ و آلہ] اور آپ کی کتاب کا بلا تکلف مقابلہ کرنا چاہئے"۔ اور پھر انتہائی حقیرانہ اور بے بسی کی حالت میں کارٹون کھینچا جاتا ہے یا کتاب سوزانی کا ارتکاب کیا جاتا ہے [تہذیب و تمدن کے دعویدار یورپیوں کے ہاتھوں، بالکل قرون وسطیٰ کے زمانے کے جاہل اور اجڈ منگولوں کی طرح] اور یوں وہ اپنے ہاتھوں اپنی مبینہ تہذیب یافتگی بطلان کی لکیر کھیچتے ہیں؛ کیا مغرب کے لئے اس سے بھی بڑی کوئی شکست و ناکامی ہو سکتی ہے؟

ایک سوال: یہ اسلام - جو یورپی حکام کے بقول دنیا کا پہلا زیر بحث موضوع بنا ہؤا ہے - کونسا اسلام ہے؟

یقینا یہ وہی اسلام ہے جو متحرک ہے، محرک ہے، فکر و عمل پیدا کرتا ہے، اور متعدد مرتبہ مغرب کے ساتھ دست بگریبان ہو چکا ہے اور اسے زچ کر چکا ہے۔ اس میدان میں "نقلیوں اور ڈمیوں" کی گنجائش نہیں ہے؛ یہودیوں کا منظور کردہ سعودی اسلام، سیکولر اسلام، انتہاپسند اور تشدد پسند اسلام، انگریزی اسلام، امریکی اسلام وغیرہ، ہرگز نہیں! یہ صرف اور صرف خالص محمدی اسلام  اسلام ہے، خمینی اور خامنہ ای کا اسلام، ایسا اسلام جس کا امام بذات خود ایک امت ہے، اور اس کی امت اقوام عالم کے درمیان، امام کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ امام و امت جو جم کر کھڑے ہیں؛ جیسا کہ امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) فرماتے ہیں:

"ہم آخری سانس تک کھڑے ہیں، اور [یہ] قوم جم کر کھڑی ہے، اور بحمد اللہ پوری طاقت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے"۔ (7) 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: ڈاکٹر سعداللہ زارعی، کالم نویس روزنامہ کیہان - تہران

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ یہ معاہدہ اس زمانے کے مرجع تقلید آیت اللہ سید محمد حسن شیرازی المعروف میرزا بزرگ شیرازی کے تاریخی اور مختصر فتویٰ کے بدولت منسوخ ہؤا اور برطانوی سامراج ایران میں اپنے قدم نہیں جما سکا۔

2۔ ایران اور برطانیہ کے درمیان 1919 کا معاہدہ (یا معاہدہ وثوق): یہ معاہدہ 1919 میں برطانوی حکومت اور اس وقت کے ایرانی وزیر اعظم وثوق الدولہ کے درمیان سات ماہ کے خفیہ مذاکرات کے بعد - اور وثوق الدولہ کو برطانیہ کی طرف سے چار لاکھ تومان کی رشوت کی ادائیگی کے بعد - طے پایا اور 1919 کے معاہدے کے نام سے مشہور ہؤا۔ اس معاہدے کے مطابق ایران کے تقریباً تمام ملکی اور فوجی امور برطانوی مشیروں کی نگرانی میں اور ان کی اجازت سے انجام پانا تھے۔ مگر اندرونی مخالفت اور ایرانیوں اور غیر ملکی مخالفتوں نیز آئینیت کے قانون (آئینی تحریک کے بعد منظور ہونے والے آئین) سے متصادم ہونے کی وجہ سے، کبھی بھی نافذ نہیں ہو سکا۔

3۔ "مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا؛ مؤمنین میں سے ایسے مرد ہیں جنہوں نے اللہ سے اپنے کئے ہوئے عہد کو صداقت کے ساتھ پورا کیا، تو ان میں سے بعض نے اپنا وقت پورا کر دیا [اور جام شہادت نوش کیا] اور ان میں سے کچھ اس [وقت شہادت] کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور انہوں نے (اپنی روش اور عقیدے میں) ذرا بھی تبدیلی نہیں کی"۔ (سورہ احزاب - آیت 23)۔

4۔ صحیفۂ امام، ج1، ص411۔

5۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ طُوبَىٰ لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ؛ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے لئے خوشحالی (اور شادمانی) ہے اور اچھا انجام"۔ (سورہ رعد - آیت 29)۔

6۔ صحیفۂ امام، ج17، ص55۔

7۔ صحیفۂ امام، ج17، ص52۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110