اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فارس
اتوار

5 فروری 2023

10:55:02 PM
1343954

انقلاب اسلامی کی چوالیسویں سالگرہ؛

مالی وسائل کی سائنسی پیداوار میں تبدیلی میں ایران کا منفرد ریکارڈ / عرصے تک کوئی ایران کے پائے تک نہیں پہنچ سکے گا

دنیا کی سائنسی پیداوار میں 15ویں رتبے پر اور خطے میں پہلے نمبر پر آنا وہ پیشرفت ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے شمار کی جا سکتی ہے۔

عالمی اہل بیت(ع) خبر ایجنسی - ابنا - کے مطابق، سائنس کے نائب وزیر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ مالی وسائل کی سائنسی پیداوار میں تبدیلی کے لحاظ سے ایران کا ریکارڈ عالمی سطح پر منفرد ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ عرصے تک کوئی بھی ملک تبدیلی کی ایرانی شرح تک پہنچ سکے گا۔

قاعدہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کی شرح کو اس ملک کی سائنسی اور جامعاتی اور سائنسی ترقی کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے اور اس لحاظ سے، ایران نے - اسلامی انقلاب کے بعد سائنس کے متعدد شعبوں میں بہت ترقی کی ہے۔

دنیا کی سائنسی پیداوار میں 15ویں رتبے پر اور خطے میں پہلے نمبر پر آنا وہ پیشرفت ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے شمار کی جا سکتی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی سائنسی ترقی سے آگہی کے لئے وزارت سائنس کے نائب وزیر برائی تحقیقات کے ساتھ گفتگو کا اہتمام کیا ہے جو یہاں قارئین و صارفین کے پیش خدمت ہے۔

* پوسٹ گریجویٹ کورسز کا قیام ملک کی کامیابیوں کا محرک ہے

سوال: اعداد و شمار سے اسلامی انقلاب کے بعد ایران کی غیر معمولی سائنسی پیشرفت کا اظہار ہوتا ہے؛  آپ اس صورتحال کا کیسے تجزیہ کرتے ہیں؟

جواب: پوسٹ گریجویٹ کورسز کا آغاز اور توسیع اسلامی انقلاب کے بعد ہماری بہت سی کامیابیوں کا محرک ہے۔ بڑی عمر والے دوستوں کا یاد ہوگا کہ اسلامی انقلاب سے پہلے اگر ہم ڈاکٹریٹ کی سطح کے ماہرین کی تربیت کے لئے ہمیں، اپنی افرادی قوت کو تعلیم کے لئے دوسرے ممالک میں روانہ کرنا پڑتا تھا اور ہم دوسرے ممالک سے وابستہ تھے تا کہ ہمارے طلبا وہاں پڑھ کر مطلوبہ تعلیمی اسناد حاصل کرکے وطن واپس آ جائیں۔

اسلامی انقلاب کے بعد ثقافتی انقلاب کے دوران، پوسٹ گریجویشن کے اعلیٰ معیاری کورسز کا آغاز کیا گیا اور ہم نے ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ، فن و ہنر، طب اور انسانیات میں مناسب کورسز کا اہتمام کیا۔

ان کورسز کی توسیع کے بموجب، ہم نے نہ صرف اپنی مقامی ضرورت اور ترجیحات کی بنیاد پر ماہر افرادی قوت کو تربیت دی بلکہ ان افراد نے تحقیق اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرگرم ہو کر ایران کی سائنسی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔

* اسلامی انقلاب کے سائنسی شعبوں اور جامعات میں خواتین کی اعلیٰ پوزیشن

سوال: اس ترقی اور پیشرفت میں خواتین کا کیا کردار ہے؟

جواب: اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں خواتین کے کردار میں زبردست اضافہ ہؤا ہے۔ آج ایرانی جامعات میں طالبات کی شرح 50 سے 60 فیصد تک ہے۔ فیکلٹی ممبران میں خواتین پروفیسرز کی شرح 28 فیصد ہے جو انقلاب اسلامی سے قبل کے دور میں یہ شرح بہت کم تھی۔

* انقلاب کے آغاز میں کم ہی کسی ایرانی سائنسدان کا نام دنیا کی پہلی سطح پر دیکھنے کو ملتا تھا

سوال: کیا آپ کو انقلاب سے پہلے یا انقلاب کے آغاز کا ایسا کوئی واقعہ یاد ہے؟

جواب: میں سنہ 1983ع‍ میں جامعات کے کھلنے کے بعد ایم ایس سی کا طالبعلم تھا اور ہمارے نصاب میں "سائنسی متون کا جائزہ" کے عنوان سے بھی ایک سبق شامل تھا۔ اس زمانے میں انٹرنیٹ نہیں تھا اور ہمیں دستیاب مطبوعہ ذرائع میں سائنسی تحقیق کرتے تھے۔ میں کیمسٹری کا طالبعلم تھا اور میں ہمیشہ یہ جاننے کی کوشش کرتا تھا کہ کیا میرے مضمون میں، عالمی سطح پر کسی جانے پہچانے ایرانی سائنسدان کا نام ملتا ہے یا نہیں؟

مجھے یاد ہے کہ اگر اس زمانے میں ہمیں سائنسدانوں کے زمرے میں کسی ایرانی سائنسدان کا نام ملتا بھی تھا تو اس کا پتہ ایران میں نہیں تھا؛ یعنی یا تو وہ بیرون ملک حصول تعلیم میں مصروف ہوتا تھا یا پھر تحقیق اور مطالعے کے لئے کسی دوسرے ملک میں مقیم ہوتا تھا، یا کسی بھی وجہ سے اس نے اپنا تحقیقی کام بیرون ملک انجام دیا ہوتا تھا، چنانچہ شاذ و نادر ہی، بین الاقوامی معیار کے کسی مقالے میں ہمیں کسی ایرانی سائنسدان کا نام ملتا تھا۔

 * دنیا میں سائنسی پیداوار اور معاشی ترقی کے درمیان براہ راست تعلق 

ابتدائے انقلاب میں، ملک میں سائنسی پیداوار کی صورت حال ہرگز مناسب نہیں تھی۔ ہم جانتے ہیں جدت کے نظام کا پہلا زینہ سائنسی پیداوار ہے، جس کے بعد ایجادات رجسٹر کرانے، استحقاق محفوظ کرانے (patent)، اطلاقی تحقیق (applied research)، بین الاقوامی سطح پر استحقاق محفوظ کرانے، اصلی [ابتدائی] نمونے کی تیاری (prototype production)، اور تجارتی کاری (Commercialization) کا مرحلہ آتا ہے یعنی سائنسی پیداوار پوری دنیا میں جدت کے نظام کی بنیاد ہے۔

سوال: کیا سائنسی پیداوار کی ترقی معیشت کی ترقی کا سبب بنتی ہے؟

جواب: آپ جانتے ہیں کہ چین آج دنیا کی برتر معیشت بن چکا ہے اور اگر ہم گذشتہ دو دہائیوں کے دوران اس ملک کا جائزہ لیں تو دیکھتے ہیں کہ 20 سال قبل اس ملک کی معیشت کچھ زیادہ مناسب نہیں تھی۔ اسی دور میں چین کی سائنسی پیداوار کی صورت حال بھی اوسط درجے کی توی لیکن آج یہ ملک دنیا کی برتر معیشت بن چکا ہے اور سائنسی پیاوار کے لحاظ سے بھی اس کی پوزیشن مطلوب ہے۔ یہاں تک کہ چین بہت سے شعبوں میں ترقی ممالک سے آگے بڑھ چکا ہے۔ اگر ہم بحیثیت مجموعی یورپی اور مشرقی ایشیائی ممالک کا جائزہ لیں تو دیکھتے ہیں کہ انھوں نے معاشی پیداوار کے ساتھ ساتھ سائنسی پیداوار کو بھی ترقی دی ہے۔ یعنی مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سائنسی پیداوار نے ہی ان ممالک کی معیشت کو ترقی دی ہے۔ چنانچہ کہنا چاہئے کہ سائنسی پیداوار، تجارتی کاری اور معیشت کے درمیان براہ راست تعلق پایا جاتا ہے۔

* ایران عالمی سائنسی پیداوار میں 15 ویں نمبر پر؛ اسکوپس ڈیٹابیس Scopus Indexed Journals میں  78,000 مقالات کے ساتھ

سوال: موجودہ حالت میں ایران سائنسی پیداوار کے لحاظ سے عالمی سطح پر کس نمبر پر ہے؟

جواب: اسکوپس اشاریہ سازی (Scopus Indexing) نے اپنا کام 25 سال سے شروع کیا ہے، ایران کے بارے میں اسکوپس میں مندرجہ اعداد و شمار کا تعلق سنہ 1996ع‍ سے ہے۔ اس سال ایران کے پتے (Address) کے ساتھ 850 سائنسی پروڈکشنز کی اشاریہ سازی کی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ایران جیسے کروڑوں کی آبادی والے ملک کے پاس 850 اشاریئے ہیں، اور ہمارا سائنسی رتبہ دنیا میں 54 ہے۔

ان برسوں کے دوران رہبر معظم امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) اور ملک کے اعلیٰ حکام کی پشت پناہی میں، ہم نے کمیت کے لحاظ سے بھی سائنسی پیداوار میں ترقی کی ہے اور عالمی سطح پر ایران کا سائنسی رتبہ بھی بہتر ہؤا ہے۔

سنہ 2010ع‍ میں ہمارے اشاریہ شدہ مقالات کی تعداد 30000 تک پہنچ گئی اور ہمارا اکیسویں عالمی رتبے پر تھے اور 11 سال بعد سنہ 2021ع‍ میں اسکوپس پر ہمارے اشاریہ شدہ مقالات کی تعداد 78000 تک پہنچی اور ہم عالمی سطح پر سائنسی ترقی کے لحاظ سے پندرہویں نمبر پر پہنچے ہیں۔

* ایک مرحلے میں، ہم نے عالمی سطح پر سائنسی ترقی کی رفتار میں پہلا درجہ حاصل کیا

دوسرے ممالک نے بھی سائنسی پیداوار بڑھانے پر بڑے سرمائے خرچ کئے ہیں، اور ایسا نہیں تھا کہ ہم آگے بڑھ رہے تھے اور اپنی پرانی پوزیشن پر ہی باقی تھے؛ تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں پر ہم سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری کرتے رہے ہیں؛ چنانچہ ہم ایک مرحلے میں ایک بڑی عالمی مسابقت میں سائنسی ترقی کی سرعت میں پہلے درجے پر آئے یعنی ہماری سائنسی پیداوار کی شرح دنیا میں پہلے نمبر پر تھی۔

یقینی امر ہے کہ ہم نے مشکل مراحل طے کر لئے ہیں اور پندرہویں عالمی رتبے سے اگے بڑھنا پہلے سے کہیں زیادہ آستان ہے، لیکن ہمیں اس حوالے سے ان ممالک کے ساتھ مسابقت میں شامل ہونا ہوگا جو ہم سے زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہیں؛ یعنی اگر ہم بھی اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کریں تو ایران کی سائنسی ترقی کا عمل آج سے کہیں بہتر ہوگا۔

* کم سرمایہ کاری کے باوجود، دنیا میں ایران کا موجودہ سائنسی رتبہ ہمارے سائنسدانوں کی منفرد صلاحیت کا ثبوت

سوال: ترقی کن شرطوں سے مشروط ہے؟

جواب: ہم اس وقت اپنی جی ڈی پی کا نصف (0.5) فیصد حصہ تحقیق اور ترقی پر خرچ کرتے ہیں، اور اس کے باوجود اس پوزیشن پر پہنچ سکے ہیں۔ مجھے کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں بھی مالی وسائل کی علمی پیداوار میں تبدیلی  کی شرح ایران کی طرح نہیں ہے۔ جنوبی کوریا اپنی جی ڈی پی کا پانچ حصہ تحقیق اور ترقی پر خرچ کر رہا ہے جبکہ ہماری جی ڈی پی 240 ارب ڈالر ہے جس میں سے صرف نصف (0.5) فیصد حصہ - یعنی 1.2 ارب ڈالر - اس شعبوں پر خرچ کر رہے ہیں؛ اس کے باوجود ہماری ترقی کی شرح 15 فیصد ہے اور یہ ہمارے سائنسدانوں، محققین اور منصوبہ سازوں کی اعلیٰ صلاحیتوں کا عملی ثبوت ہے۔

* ایران سائنس کی پیداوار میں مالی وسائل کی تبدیلی کی شرح کے لحاظ سے دنیا میں منفرد

سوال: کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے ممالک کی نسبت کم سرمایہ کاری کے باوجود، ایران علمی پیداوار کے لحاظ سے بہتر پوزیشن حاصل کر چکا ہے؟

جواب: جی ہاں! سائنسی پیدوار کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران سائنس کی پیداوار میں مالی وسائل کی تبدیلی کی شرح کے لحاظ سے دنیا میں منفرد ہے اور میرا نہیں خیال کہ عرصے تک کوئی ملک ایران کے پائے تک پہنچ پائے گا؛ لیکن اپنے عالمی رتبے کو ترقی دینے کے لئے ہمیں جی ڈی پی کا ایک اچھا خاصا حصہ تحقیق اور ترقی پر خرچ کرنا پڑے گا۔ چھٹے ترقیاتی منصوبے میں بھی قرار دیا گیا ہے کہ جی ڈی پی کا 4 فیصد حصہ تحقیق اور ترقی کو مختص کیا جائے اور اگر سرمایہ کاری اس حد تک پہنچے تو ہم دنیا کے پہلے 10 ممالک کے زمرے میں آئیں گے۔ امید ہے کہ ساتویں ترقیاتی منصوبے میں یہ سرمایہ کاری کی اس سطح کو عملی جامہ پہنایا جائے۔

خطے کے دوسرے ممالک نے بھی سائنسی پیداوار پر اچھی خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔ قطر کی آبادی 35 لاکھ ہے اور اس نے اپنی جی ڈی پی کا 4 فیصد حصہ سائنسی ترقی کے لئے مختص کر دی ہے، یعنی آبادی کے لحاظ سے ہماری سالانہ سرمایہ کاری مناسب نہیں ہے لیکن کم سرمایہ کاری کے ہوتے ہوئے بھی، ہماری مالی وسائل کی سائنسی پیداوار میں تبدیلی کی شرح بہت بہتر ہے اور یہ ہمارے متعلقہ حکام اور محققین کی محنت اور صلاحیت کا ثمرہ ہے۔

* ایک فیصد عالمی سائنسدانوں کی فہرست میں 841 ایرانی سائنسدان شامل، جن کی تحقیقات کا سب سے زیادہ حوالہ دیا گیا ہے

یہ درست ہے کہ ایران ماضی میں سائنس اور علوم منقول و معقول کا گہوارہ رہا ہے لیکن جدید دنیا میں، بین الاقوامی اشاریوں کی گواہی کے مطابق، ہم ماضی قریب میں عالمی سطح پر اتنے زیادہ مشہور نہیں رہے تھے لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عالمی سطح پر ان ایک فیصد مشہور سائنسدانوں کی فہرست میں ہمارے 841 سائنسدان شامل ہیں جن کا عالمی تحقیقات میں سب سے زیادہ حوالہ دیا جاتا ہے۔ ہماری توجہ آج سائنسی پیداوار پر مرکوز ہے کیونکہ یہ ہماری معاشی ترقی اور نمو کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔

* سائنسی پیداوار کے ساتھ ساتھ تجارتی سازی کا نمو

سوال: البتہ اگر سائنسی پیداوار صرف سائنسی پیداوار کی حد تک محدود رہے، تو یہ ملکی مسائل کے حل میں کردار ادا نہیں کرسکے گی؛ درست ہے؟

جواب: اگر سائنسی پیداوار منڈی اور اور ٹیکنالوجی پر اثرانداز نہ ہو تو گویا ہم صرف اش بات پر خوش ہو رہے ہیں کہ ہم سائنسی پیداوار کا اہتمام کر رہے ہیں، تاہم لیکن ہمارے ملک میں انقلاب کی فتح کے بعد تجارتی سازی کے شعبے پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔

مثال کے طور پر کچھ لوگوں کے پاس ایک فکر اور سوچ (Idea) ہے اور اسے اپنی فکر کو مصنوعات میں تبدیل کرنے اور اپنی مصنوعات کو تجارتی بنانے کے لئے مدد اور تعاون کی ضرورت ہے، اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہؤا یہ کہ ترقی اور نمو کے مراکز اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے پارک قائم کئے گئے، اور ساتھ ہی جدت طرازی (Innovation) کے مراکز نے بھی اپنا کام شروع کیا۔

* ملک میں تقریباً ترقی کے 240 مراکز کا قیام

سوال: ترقی کے مراکز اور ان کی کارکردگی کے بارے میں وضاحت فرمایئے۔

جواب: سائنسی ترقی کے مراکز (Scientific development centers) ہیں جہاں فکر (Idea) رکھنے والے افراد جمع ہوتے ہیں، ان مراکز میں تشخیص دی جاتی ہے کہ کیا ان کی فکر پختگی تک پہنچ کے مصنوعات کی پیداوار اور معاشی نمو پر منتج ہو سکتی ہے یا نہیں۔

یہ مراکز وہ ہیں جہاں آپ کم از کم خطرہ مول لے کر سمجھ سکتے ہیں کہ کیا آپ کا فکری سائنسی خاکہ تجارتی بننے کے قابل ہے یا نہیں ہے۔

خوش قسمتی سے، اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد وزارت سائنس نے وزارت صحت اور نائب صدر برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے دفتر کے تعاون سے، سائنسی ترقی کے مراکز تمام صوبوں میں قائم کئے گئے ہیں۔

اس وقت ایران میں 240 سائنسی ترقیاتی مراکز قائم ہیں لیکن ان مراکز کی بہتات کے باوجود ہم ایک شَعری جال (Capillary network) قائم کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے تاکہ اگر چھوٹے صوبوں اور شہروں میں بھی با صلاحیت نوجوان ہیں جن کے پاس آئیڈیا ہے، اپنے ہی شہروں اور ضلعوں میں ہی - بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کئے بغیر - خصوصی حمایت حاصل کر سکیں چنانچہ ملک بھر میں جدت طرازی کے 300 مراکز قائم کئے گئے؛ یوں کہ اگر آج آپ جدت طرازی کے مراکز (یعنی (Innovation centers) کا نقشہ دیکھیں تو بہ آسانی جان سکیں گے کہ یہ مراکز اور ترقی کے مراکز نے ملکی وسعتوں کا احاطہ کر لیا ہے اور میں جرات کے ساتھ کہہ سکتا ہوں یہ تمام مراکز اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد عدل و مساوات کی بنیاد پر قائم کئے گئے ہیں اور اس وقت اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔

* سائنس اور ٹیکنالوجی کے 50 پارک علم پر مبنی کمپنیوں کی حمایت کے لئے

اسی بنیاد پر ایران کے تمام صوبوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے پارک قائم کئے گئے ہیں۔ تجارتی سازی کے شعبے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے پارکوں کے اعلیٰ مراحل ہیںاتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے پارک مصنوعات کی تجارتی سازی کے میدان میں اعلیٰ مراحل کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہم نے تجارتی سازی کے لئے "ٹیکنالوجی کی آمادگی" کی اصطلاح وضع کی ہے۔ یہ سطوح بجائے خود تین سطحوں پر مشتمل ہیں۔ ہمارے سائنس اور ٹیکنالوجی کے پارک اوپر کی سطحوں پر کام کرتے ہیں اور آج تمام صوبوں میں، بہترین ماحول میں، سائنس اور ٹیکنالوجی کے پارک سرگرم عمل ہیں جو ماہرانہ ٹیکنالوجی اور سائنس کی ضرورت کی بنا پر قائم کئے گئے ہیں اور ان کی تعداد 50 تک پہنچتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110