اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

12 جنوری 2023

6:16:31 PM
1338014

آٹھویں دہائی کا خوف، اسرائیل کی آخری سانسیں

بے شک غزہ کی مقاومت کی وسعت اور طاقت اور مغربی کنارے کی جہاد میں شمولیت اسرائیلی افواج کی مایوسی کی بہت بڑی وجہ ہے لیکن مقاومت کی تحریکوں کی فتوحات، جو یہودی آبادکاروں کی الٹی نقل مکانی کا سبب بنی ہیں، بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ المیادین چینل کی ویب گاہ نے اپنے ایک جائزے میں بیان کیا ہے کہ صہیونی 80ویں یوم تاسیس نہ دیکھ پانے سے خائف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی ریاست آٹھ عشروں سے زیادہ باقی نہ رہ سکے گی، اور اندرونی اور بیرونی مسائل اس ریاست کی شکست و ریخت کا باعث بنیں گے۔ / آٹھویں دہائی کا فوبیا، اسرائیل کا وجود ڈگمگا رہا ہے، غاصب ریاست کے دن گنے جا چکے ہیں۔

لبنانی چینل المیادین کی ویب گاہ نے سرزمین فلسطین پر یہودی ریاست کے غصب اور قبضے کے آٹھویں عشرے کے دوران ضعف و زوال کی مختلف جہتوں کا جائزہ لیا ہے اور لکھا ہے: تل ابیب کابینہ کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجوں میں اضافے کی وجہ سے مختلف سیاسی، فوجی اور ابلاغیاتی سطوح پر اس ریاست کے وجود کو لاحق خطروں کے حوالے سے تنبیہات میں شدت آ رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جعلی “اسرائیل” آخری سانسیں لے رہی ہے۔ / بہرحال غاصب اسرائیلی آج Eightieth phobia میں مبتلا ہیں۔

جعلی یہودی ریاست “اسرائیل” کے درپیش چیلنجوں کا مختصر تذکرہ

آٹھویں دہائی کی نفرین (بد دعا)

زیادہ تر یہودیوں کو یقین راسخ ہے کہ اسرائیل نامی ریاست کی عمر 80 برس سے نہیں بڑھ سکے گی۔ جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ سنہ 2028ع‍ میں یہ ریاست حتمی نابودی سے دوچار ہوگی۔ تاریخی حقائق کے مطابق، یہودیوں کی دو سابقہ حکومتوں [داؤد (علیہ السلام) کی بادشاہی اور ہامونیوں کی بادشاہت] 80 برس سے زیادہ قائم نہیں رہ سکی ہیں۔ چنانچہ ان کی تیسری ریاست – جو فی الوقت مقبوضہ فلسطین میں قائم ہے – یہودی سنت کے تحت، عنقریب ختم ہونے والی ہے۔

یہ مسئلہ کچھ عرصہ قبل، سابق صہیونی وزیر اعظم ایہود بارک نے یدیعوت آحارارونوت نامی اخبار کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے واضح طور پر بیان کیا اور کہا: “یہودی تاریخ میں، یہودیوں کی حکومت 80 سال سے زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہی ہے”۔

اس سے پہلے 2017ع‍ میں لیکود پارٹی کے سربراہ اور موجودہ صہیونی وزیر اعظم نے بھی کہا تھا: “میں اسرائیل کو سوویں سالگرہ تک پہنچانے کی کوشش کروں گا کیونکہ ہمارا وجود نہ ضمنی ہے اور نہ بدیہی اور مسلّم ہے۔ تاریخ کہتی ہے کہ قوم یہود کا کوئی بھی ملک 80 برس سے زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکا ہے”۔

گوکہ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہودی اپنے اس خوف کا اظہار کرکے ایک بار پھر مغرب کی ہمدردیاں جیتنے اور صہیونیت کے تحفظ کے لئے ان کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن بہرصورت ان کے وجود اور مقدرات کے سلسلے میں غاصب ریاست کے راہنماؤں کے انتباہات سے یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ “کیا اسرائیل عنقریب مٹنے والا ہے؟”۔

اندرونی تقسیم در تقسیم

“ہم نے ناقابل واپسی کے نقطے کو عبور کر لیا ہے اور اسرائیل آخریں سانسیں لے رہا ہے؛ اس کے اندر اب حیات کا ذائقہ نہیں پایا جاتا اور اسرائیلی (یعنی یہودی) فلسطین میں آتے ہی سمجھ گئے ہیں کہ انہیں ایک جھوٹ کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے، ایسا جھونٹ جو صہیونی تحریک کا اختراع ہے”؛ یہ عبرانی ذرائع کے تجزیہ نگار آری شاویت (Ari Shavit) کے الفاظ ہیں، اور یہ الفاظ اسرائیلی وجود کی موجودہ صورت حال کا خلاصہ قرار دیئے جا سکتے ہیں”۔

اندرونی شگافوں کے جس تجربے سے غاصب اسرائیل گذر رہی ہے، یہ شاید ان کے لئے سے اہم ہوں۔ اسرائیلی تجزیہ نگار گدیون لیوی (Gideon Levy) کا کہنا ہے: “ہم تاریخ کے مشکل ترین لوگوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیلی عدم خود اعتمادی اور اسرائیل نامی سرطانی پھوڑے کے دن گنے جا چکے ہیں اور ان دو بیماریوں کا کوئی علاج نہیں ہے نہ تو آہنی گنبد (Iron dome) ہمارا مسئلہ حل کرسکتا ہے، نہ حصاروں کی تعمیر اور نہ ہی ایٹم بم، ہمارے مسائل حل کرنے کے قابل ہیں۔

حالیہ ایام میں نیتن یاہو کی کابینہ کی تشکیل کی کوششوں کے آغاز سے ہی تل ابیب کے اندرونی تنازعات کا نیا مرحلہ شروع ہو چکا ہے: ایک طرف سے سرکاری عہدوں کی تقسیم پر یہ بیان کئے بغیر کہ ایک گروہ کو جتنی رعایتیں دی جا رہی ہیں، مخالف گروہ کو نہیں دی جا رہی ہیں۔ اس سے زیادہ اہم وہ شدید انتباہات ہیں جو دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کے بر سر اقتدار آنے کے حوالے سے سامنے آرہے ہیں؛ اور دوسری طرف سے یہودی یہودی نوآبادیوں کے رہائشیوں کی طرف سے حکام کی وسیع بدعنوانیوں پر شدید ناراضگی پر مبنی بیانات ہیں۔

شاید صہیونی وزیر خزانہ ایویگدور لیبرمین (Avigdor Lieberman) کے الزامات صہیونیت کو درپیش مسائل کو نمایاں کرنے کا اہم ترین اظہار ہو، جس نے کہا تھا: “نیتن یاہو وہ شخص ہے جو اسرائیلوں کو دو قوموں یا کئی قوموں میں تقسیم کرے گا اور اسرائیلی مفادات کو ذاتی مفادات پر قربان کرے گا۔

اس سلسلے میں موساد کے سابق سربراہ تأمیر پاردو (Tamir Pardo) کا کہنا تھا: “ایسے حال میں کہ اسرائیل کو درپیش بیرونی خطرات کے بارے میں بہت زیادہ بولا جاتا ہے، سب سے بڑے خطرہ پیدا کرنے والے ہم خود ہیں وہ بھی، ہم نے خود ہی اپنی بربادی اور اتلاف ذات کا طریقہ کار ایجاد کیا ہے جو حالیہ برسوں میں عروج تک پہنچا ہے اور یہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ اس المناک سفر کو ناقابل واپسی نقطے تک پہنچنے سے پہلے ہی روک لیں؛ کیونکہ اسرائیل خود کو اپنے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ سے دوچار کر رہا ہے”۔

الٹی نقل مکانی

الٹی نقل مکانی عرصے سے جاری ہے اور دوسرے ممالک سے لائے جانے والے یہودی اپنے آبائی ممالک میں واپس جا رہے ہیں؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ جعلی ریاست کے وجود کے مستقبل سے مایوسی اسرائیلیوں کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے، اور یہ غاصب ریاست کی سلامتی کی بربادی اور ان کی حفاظت میں صہیونی کابینہ کی بے بسی کا نتیجہ ہے۔ آج کی صورت حال یہ ہے کہ یورپی شہریت حاصل کرنے کے لئے مقبوضہ سرزمین سے بھاگ جانے کا موقع تلاش کرنا، یہودی نوآبادیوں کے باشندوں کی اولین ترجیح، بن چکا ہے۔

کنیسٹ (صہیونی پارلیمان) کے سابق سربراہ آبراہام بورگ (Abraham Borg) نے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے مضمون میں لکھا ہے: “اسرائیل صہیونی سپنے کے اختتام کو پہنچ گیا ہے اور بربادی کی طرف جا رہا ہے۔ بہتر ہے کہ اسرائیلی کسی دوسرے ملک کا پاسپورٹ حاصل کر لیں۔۔۔ میں نے خود بھی فرانسیسی پاسپورٹ حاصل کیا ہے!”۔

سنہ 2018ع‍ میں “یہودیوں کی الٹی نقل مکانی اور فلسطین میں استعماری موجودگی کا مستقبل” کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق، سابقہ سوویت اتحاد سے آنے والے یہودیوں سمیت، کم از کم 15 لاکھ یہودی اسرائیل (یعنی مقبوضہ فلسطین) کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

سنہ 2020ع‍ میں ایک مطالعے کے مطابق، تارکین وطن کی صہیونی وزارت نے ایک رپورٹ میں اعتراف کیا کہ صرف اسی سال 16000 یہودی اپنی فردی اور سماجی زندگی کے لئے بڑا خطرہ بننے والے فلسطینی مقاومت کے میزائل لگنے کے خوف سے اسرائیل سے بھاگ گئے ہیں۔

اہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک طرف سے مقبوضہ فلسطین کے غصب میں حصہ لینے والے نوآباد یہودی بستیوں کے مکین مقبوضہ سرزمین سے بھاگنے کو ترجیح دے رہے ہیں تو دوسری طرف سے دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے یہودی کسی صورت میں بھی فلسطین میں آ بسنے کے لئے تیار نہیں ہیں یہاں تک کہ سنہ 1990ع‍ کی دہائی میں سالانہ ایک لاکھ کے قریب یہودی ترک وطن کرکے مقبوضہ فلسطین میں رہ لیتے تھے، اور حالیہ برسوں میں یہ تعداد سالانہ 14000 تک پہنچی ہے جبکہ ہر سال اس سے کہیں زیادہ لوگ، جو ان سے پہلے فلسطین میں بسائے گئے ہیں، واپس جا رہے ہیں۔

فوجی تنظیم میں ٹوٹ پھوٹ

غاصب صہیونی ریاست کے وجود کا انحصار اس کی فوج اور سلامتی اداروں پر ہے، لیکن اب اس کی بقاء کا یہ اہم ترین بنیادی عنصر ہی کھوکھلاہٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ دسمبر 2022ع‍ کے وسط میں، یہودی ریاست کے وزیر جنگ بینی گانٹز نے عبرانی اخبار “اسرائیل ہیوم” کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ان مسائل کی طرف اشارہ کیا جن کا اسرائیلی فوج کو سامنا ہے۔ گانٹز نے اس حوالے سے کچھ حقائق کا انکشاف کیا اور خبردار کیا کہ اسرائیلی فوج نفری کی بھرتی میں بے بس ہو چکی ہے، اور یہ اسرائیل کے لئے ایک سیکورٹی اور سماجی بم ہے اور ہماری فوج نصف آبادی کی فوج ہے [اور باقی نصف آبادی فوج میں حصہ ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہے]۔

اسرائیلی محققین نے صہیونی فوج کی اندرونی دراڑیں اور منفی رجحانات کے پیش نظر، خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے، معیاروں کی شکستوں اور ناکامیوں کے حوالے سے خبردار کیا؛ صہیونی محققین کے مطابق، یہ شکستیں “ایک قومی فوج” کے عنوان سے فوجیوں کے فرائض منصبی کے حوالے سے حاصل ہوئیں، اور یہ فوجی ایک “طبقاتی” فوج میں بدل گئی، ایسی فوج جو مقبوضہ سرزمین میں، اسرائیلیوں کے باہمی اختلافات کو ہوا دیتی ہے اور اندرونی دراڑوں میں اضافہ کرتی ہے۔

اسی اثناء میں صہیونی ریاست کے اندر “نوجوانوں کی تحریکوں کے اتحاد” کے زیر اہتمام صہیوٹی ٹیلی وژن کے چینل 12 کے ایک سروے کے مطابق “ایک تہائی اسرائیلی نوجوان فوجی اداروں میں بھرتی ہونے کی طرف راغب نہیں ہیں”۔ مذکورہ عبرانی چینل نے سروے رپورٹ نشر کرنے کے بعد کہا: “یہ معطیات بہت خطرناک اور دل دوز ہیں”۔

اسرائیل ہیوم کی 24 جولائی 2022ع‍ کی تحقیق کے مطابق، سنہ 2020ع‍ میں یہودی بستیوں کے 2400 سے 2500 تک رہائشی فوج سے نکل بھاگے ہیں، جبکہ سنہ 2021ع‍ میں بھاگنے والے فوجیوں کی تعداد 3100 تک پہنچی ہے۔ [2022 کی رپورٹ ابھی نہیں آئی]۔

صہیونی فوج کے اندرونی اختلافات کے ساتھ ساتھ، فوجیوں کے درمیان منشیات کی لت بھی وسیع پیمانے پر پھیل چکی ہے۔ تل ابیب انسداد منشیات کے ادارے نے سنہ 2018ع‍ میں ایک رپورٹ شائع کر دی جس نے صہیونی بستی نشینوں کو پریشان کر دیا۔ یہ رپورٹ صہیونی فوج میں منشیات کے وسیع استعمال کی عکاسی کر رہی تھی۔ رپورٹ کے مطابق 54/3 فیصد صہیونی فوجی منشیات کی لت میں مبتلا ہے۔ صہیونی مبصرین اور ماہرین نفسیات نے اس رپورٹ کو ایک انتہائی خطرناک انتباہ کا نام دیا۔

مقاومت [مزاحمت] کی طاقت میں زبردست اضافہ

فلسطینی مقاومت کی بڑھتی ہوئی طاقت نے فلسطینی عوام کی زبردست استقامت نے بھی غاصب اسرائیل کی نابودی کے سلسلے میں – جیسا کہ گانٹز نے بھی کہا ہے – صہیونیوں کے خدشات میں بہت اضآفہ کیا ہے۔ گانٹز کا کہنا تھا: “مستقبل میں اسرائیل پر فلسطنیوں کے غلبے کا خدشہ ایک غیر حقیقی خدشہ نہیں ہے، اور اسرائیل آنے والے برسوں میں غدیرا اور الخضیرہ نامی نوآبادیوں کے درمیان محصور ہوجائے گا، اور اسرائیل پگھل کر چھوٹا ہو جائے گا”۔

سنہ 2021ع‍ میں سیف القدس کی لڑائی فلسطینی مقاومت اور صہیونیوں کے درمیان کی آخری لڑائی تھی۔

جس کے بعد سے اب تک اسرائیل کی بقاء کے بارے میں سرکاری اور عوامی سطحوں پر مسلسل گونجنے والے شکوک و شبہات، مقاومت کے حق میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئے ہیں۔

سیف القدس کے معرکے کے تیسرے روز، صہیونی صحافی گڈیون لیوی (Gideon Levy) نے اخبار ہا آرتص میں لکھا: “ہماری منزل (destination) یورپ ہے؛ اور یورپیوں کا فرض بنتا ہے کہ ہمیں پناہ گزین کے طور پر قبول کریں!”۔

سیف القدس نے “مبینہ اسرائیلی قومی سلامتی” کے مفہوم اور شکل و صورت کو زبردست نقصان پہنچایا۔ مقاومت کے مجاہدوں نے اس معرکے کے دوران صہیونی بستیوں میں حساس مراکز کی باقاعدہ شناخت کرنے کے بعد انہیں ٹھیک ٹھیک نشانہ بنایا۔ اس معرکے میں صہیونی غاصب غزہ اور لبنان کی طرف سے فلسطینی مقاومت اور حزب اللہ لبنان کے بے شمار میزائلوں کا نشانہ بنے۔

مغربی کنارے کا چیلنج؛ تازہ ترین خطرناک ترین

مذکورہ بالا خطرات میں سے ہر ایک، جھوٹی اور جعلی ریاست کی بربادی کے لئے کافی ہے، لیکن ان کے ساتھ ساتھ دریائے اردن کے مغربی کنارے کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ مغربی کنارے کا جہادی ریلا، مقاومت کی طاقت میں اضافے کا ناقابل انکار اظہار اور اسرائیلی بقاء کے لئے “تزویراتی خطرہ” ہے۔ صہیونی ٹی وی چینل 13 کا نامہ نگار ایلن بن داوید (Alon Ben David) حالیہ مہینوں میں مغربی کنارے میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں کہتا ہے: “اس اٹھان کی نوعیت کچھ اور ہے، ان تحریکوں سے بالکل مختلف، جنہیں ہم نے سنہ 1980ع‍ اور سنہ 2000ع‍ کے عشروں میں دیکھا تھا”۔

مقاومت کی ہمہ گیر کامیابیاں

بے شک غزہ کی مقاومت کی وسعت اور طاقت اور مغربی کنارے کی جہاد میں شمولیت اسرائیلی افواج کی مایوسی کی بہت بڑی وجہ ہے لیکن مقاومت کی تحریکوں کی فتوحات، جو یہودی آبادکاروں کی الٹی نقل مکانی کا سبب بنی ہیں، بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ حالیہ برسوں داعش کے صہیونی-تکفیری فتنے کا سر کاٹنے سمیت، تمام اندرونی اور بیرونی محاذوں پر علاقائی مقاومت کی تحریکوں کی کامیابیوں اور مقاومت کی افرادی اور عسکری طاقت میں ناقابل انکار اضافے نے عظیم تر چیلنجوں کو جنم دیا ہے، اور یہ چینلج – جو فلسطین کے اندر اور باہر صہیونیت کا گلا کھونٹنے کے مترادف ہیں – صہیونی-یہودی ریاست کی بقا صحیح معنوں میں خطرے میں ڈال چکے ہیں؛ اور غاصب ریاست کے سرغنے اس حقیقت سے بالکل واقف ہیں؛ اور اس کے بارے میں علی الاعلان اظہار خیال بھی کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242