اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

10 جنوری 2023

6:17:15 PM
1337591

روزانہ ہزاروں انسانوں کی جان لینے والے حیاتیاتی ہتھیار؛ ایک جائزہ

حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال سب سے پہلے رومیوں نے کیا جو دشمن کے آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کے لئے ان میں مردہ جانور پھینکتے تھے؛ جس کی وجہ سے دشمن کی افرادی قوت میں کمی آتی تھی اور جنگجؤوں کے حوصلے گر جاتے تھے۔ دوسری مثال منگولوں کی ہے جو طاعون زدہ جانوروں کے لاشے منجنیق کے ذریعے جزیرہ کریمیا میں پھینکتے تھے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ گذشتہ صدیوں میں وبائی امراض نے تقریبا پچاس کروڑ انسانوں کی جان لی ہے۔ دو عالمی جنگوں سمیت بہت سی جنگوں کے دوران مرض پھیلانے والے عوامل یا زہریلے مواد کا پھیلاؤ ان بیماریوں کا سبب بنتا رہا ہے۔ اور آج یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ موت پر منتج ہونے والی بہت سی بیماریاں ایسے طبیعی عوامل کی وجہ سے پھیلی ہیں اور پھیلیں گی جن میں تبدیلی لائی گئی ہے، اور انہیں حیاتیاتی ہتھیار (Biological Weapons) کہا جاتا ہے۔ یہ حیاتیاتی جنگ، حیاتیاتی اسلحے کے انسداد کے بین الاقوامی قانون کی منظوری کے باوجود، بدستور جاری ہے۔ (1)
اس معاہدے کا مسودہ سنہ 1975ع‍ میں تیار ہؤا - جو حیاتی اسلحے کی ایجاد، تیاری، پھیلاؤ اور ذخیرہ کرنے پر پابندی اور اس طرح کے ہتھیاروں کے تلف کرنے کی ضرورت پر مبنی تھا - معاہدے کی صورت میں "حیاتیاتی اور زہریلے ہتھیاروں کا معاہدہ" (2) کے عنوان سے پہچانا گیا۔ یہ 1925ع‍ میں منعقدہ پروٹوکول کی تکمیل کے لئے لیگ آف نیشنز کی طویل کوششوں کا نتیجہ تھا۔ یہ معاہدہ مختلف قسم کے ہتھیاروں پر ممانعت کے حوالے سے، تخفیف اسلحہ کا پہلا معاہدہ سمجھا جاتا ہے۔ (3) (4)
حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال سب سے پہلے رومیوں نے کیا جو دشمن کے آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کے لئے ان میں مردہ جانور پھینکتے تھے؛ جس کی وجہ سے دشمن کی افرادی قوت میں کمی آتی تھی اور جنگجؤوں کے حوصلے گر جاتے تھے۔ دوسری مثال منگولوں کی ہے جو طاعون زدہ جانوروں کے لاشے منجنیق کے ذریعے جزیرہ کریمیا میں پھینکتے تھے۔ کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ منگولوں کا یہ اقدام قرون وسطی میں یورپ میں طاعون پھیلنے کا سبب بنا اور ڈھائی کروڑ یورپی مارے گئے۔ (5)
حیاتیاتی ہتھیاروں کی شناخت اور ان سے بچاؤ کے لئے، انہیں تین زاویوں سے دیکھنا چاہئے؛ دوسرے لفظوں میں، حیاتیاتی ہتھیاروں کو سرچشمے، ہدف (بشمول انسان، حیوان اور نباتات) اور اوزار کے لحاظ سے دیکھا جا سکتا ہے؛ یعنی ایک حیاتیاتی حملہ ذیل کے عوامل کو مد نظر رکھ کر رونما ہو سکتا ہے:
الف۔ کس قسم کے حیاتیاتی عنصر یا عامل کو استعمال کیا جا رہا ہے (سرچشمہ کیا ہے)؟
ب۔ کس طرح پھیلتا ہے (منتقلی کا اوزار کیا ہے)؟
ج۔ کس چیز کو نشانہ بناتا ہے (ہدف اور نشانہ کیا ہے)؟ (6)
اب یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ حیاتیاتی جنگ ہے کیا؟
جواب: بیکٹریا، وائرس، زندہ مخلوقات سے اخذ شدہ کھمبیوں اور زہریلے مواد کا استعمال جن کا مقصد مطلوبہ ہدف کو ہلاک کرنا یا بے بس بنانا ہو، حیاتیاتی جنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ (7)
حیاتیاتی عوامل جنگی ہتھیاروں کی طرح بہت مؤثر ہو سکتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ نفسیاتی طریقوں سے روزمرہ زندگی میں خوف و ہراس، الجھن اور غیر یقینی کیفیت پیدا کرکے خطرے کا احساس معرض وجود میں لاتے ہیں۔ (8)
حیاتیاتی عوامل کا استعمال آشکار بھی ہو سکتا ہے، نہاں بھی، نیز یہ ہتھیار اپنی منفرد خصوصیات کی وجہ سے، کئی وجوہات کی بنا پر، مختلف ہیں۔ (9) جیسے:
* جانوروں کے مرض آور اعضاء (Pathogenic organism) سے تیار کئے گئے ہیں جو افزائش نسل کر سکتے ہیں اور اپنے حامل (میزبان) کو مرض میں مبتلا یا ہلاک کر سکتے ہیں۔
* مبتلا شخص میں اس کے آثار ہویدا ہونے میں کئی گھنٹے یا کئی دن لگ سکتے ہیں۔
* حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری پر اخراجات نسبتا کم ہی آتے ہیں۔
* حیاتیاتی ہتھیاروں کے موثر استعمال کا کلیدی کردار ان کا پھیلاؤ ہے۔ (10)
* سرچشمے (origin) کے لحاظ سے، حیاتیاتی ہتھیار قدرتی یا غیر قدرتی (اور انسانی ہاتھ کے پیدا کردہ) ہوتے ہیں۔
یہ حیاتیاتی عناصر فطرت [Nature] میں پائے جاتے ہیں؛ لیکن ممکن ہے کہ امراض کی طاقت اور نئی دواؤں کے مقابلے ان کی استقامت بڑھانے یا ماحول میں پھیلاؤ کو مزید وسعت دینے کے لئے ان میں تبدیلی لائی جائے یا انہیں خلیوں اور جینز کی تبدیلی (Mutation) کے عمل سے گذارا جائے۔ اسی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ حیاتیاتی عوامل "سرچشمے کے لحاظ سے" طبعی اور غیر طبعی زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ (11)
ایڈز ایک تجربہ گاہی وائرس!
بطول مثال، ایڈز ان ہی امراض میں سے ایک ہے، جو انسان کی قوت مدافعت میں خلل، T نوعیت کے مدافعتی خلیوں میں - یعنی ہر مائیکرو لیٹر میں 200 خلیوں - کی کمی کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔ (12) اس حوالے سے شائع ہونے والے تحقیقی مقالات کو مد نظر رکھتے ہوئے، ایک خاص قسم کا تجربہ گاہی وائرس ہے جو وسنا (Visna) وائرس میں تبدیلی لا کر معرض وجود میں لایا گیا ہے۔ یہ وائرس سب سے پہلے آئس لینڈ کی بھیڑوں میں پایا گيا تھا۔
اپریل 1984ع‍ میں ڈاکٹر رابرٹ گالو (Robert Gallo) نے اپنے "ایجاد کردہ" وائرس نقص ایمنی انسانی "HIV" (13) کو امریکہ میں رجسٹریشن کے لئے پیش کیا۔ انھوں نے اس وائرس کے بارے میں اپنا تحقیقی مقالہ سنہ 1971ع‍ میں شا‏ئع کیا تھا۔ امریکی حکومت نے امریکی باشندوں کے ٹیکس سے حاصلہ آمدنی میں سے - سنہ 1964ع‍ سے 1978ع‍ تک، ایڈز وائرس کی تیاری کے لئے، "خفیہ وفاقی وائرس پروگرام" - کو 55 کروڑ ڈالر کا بجٹ مختص کیا۔ مکمل اور تسلی بخش سائنسی شواہد اور دلائل موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایڈز ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے وائرس منصوبوں میں سے ایک دو طرفہ منصوبہ سازی کا ثمرہ ہے۔ (14) انجام پانے والے مطالعات کے مطابق، ایڈز کا وائرس "آبادی کم کرنے کی غرض سے" تیار کیا گیا ہے۔ (15)
سارس وائرس ایک تجربہ گاہی وائرس
جینز بیماری کا دوسرا نمونہ سارس ہے جو جینیاتی تبدیلیوں سے معرض وجود میں آتی ہے۔
سارس بیماری جینیاتی ہیرا پھیری سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ مرض سانس کا حاد [شدید] سینڈروم (16) ہے جو شدید بخار، لرزہ، سر درد، بدن میں سستی اور درد سے شروع ہوتا ہے۔ جس کے بعد مریض خشک کھانسی میں مبتلا ہوتا ہے، اور یہ کیفیت بڑھ کر سانس میں خلل پڑنے اور خون میں آکیسجن کی قلت تک بڑھ سکتی ہے۔ ریڈیو گرافی سے "نمونیا" کا اظہار ہوتا ہے اور خون کے ٹیسٹ سے اقراص خون (platelets) نیز سفید جسیموں کی کمی ظاہر ہوتی ہے۔ (17)
روس کے وبائی امراض کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ انسان کے ہاتھ کا بنا ہؤا حیاتیاتی اسلحہ ہے۔ یہ وائرس کن پھیڑ (Mumps) اور خَسْرے (Measles) کا آمیزہ یا مرکب ہے، جبکہ اس طرح کا آمیزہ فطرت میں ہرگز ظاہر نہیں ہوتا اور صرف تجربہ گاہ سے حاصل ہوتا ہے۔ خیال یہ ہے کہ یہ وبا جنوبی چین سے شروع ہوئی، اس میں 3000 افراد مبتلا ہوئے اور 100 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ (18)
طبعی حیاتیاتی ہتھیار
کچھ بیماریاں فطرت میں پائی جاتی ہیں اور طبعی ہیں جیسے چیچک، راج پھوڑا (Anthrax)۔ دہشت گرد ٹولے اور ان کے دنیا پر راج کے سپنے دیکھنے والے آقا حیاتیاتی عوامل کو بروئے کار لا کر اپنے عزائم حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں؛ کیونکہ ان عوامل کی فوجی تشخیص بہت مشکل ہے اور یہ اپنے آپ کو کئی گھنٹوں سے کئی دن تک چھپا سکتے ہیں۔ حیاتیاتی دہشت گردی (Bioterrorism) کے ان عوامل میں سے کچھ وبائی ہیں جو ایک فرد سے دوسرے کو سرایت کرتے ہیں، اور بعض سرایت نہیں کرتے تھے؛ جیسے راج پھوڑا یا انتھراکس۔ اس طرح کے عوامل سے ایک خاص فرد کو دہشت گردی اور قاتلانہ کا نشانہ بنانا مقصود ہوتا ہے۔
حیاتیاتی ہتھیاروں کی زمرہ بندی، ہدف [نشانے] کی بنیاد پر
حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال "ہدف" کے لحاظ سے مختلف ہو سکتا ہے: مثال کے طور پر ہدف انسان ہوں، یا حیوانات ہوں یا پھر نباتاتی ہو تو استعمال کی روشیں مختلف ہیں۔ انسان پر حملے کا میدان وسیع ہے۔ اس جنگ میں انسان کو مختلف اطراف سے نشانہ بنایا جاتا ہے:
- شامہ (سونگھنے) کے ذریعے (ہواسم یا معلق ذرات)
- چکھنے اور کھانے پانے کے ذریعے (جینیاتی طور پر تبدیل شدہ - Transgenic اشیائے حوردنی)
- جلد کے ذریعے (راج پھوڑا یا Anthrax کی طرح)، وریدوں اور رگوں کے ذریعے (آلودہ خون)
کبھی ایک ماحولیاتی علاقہ نشانے پر ہوتا ہے؛ مثلا نباتات (دھان کی ڈنڈی کھانے والا کیڑا)، اور حیوان (برڈ فلو) اور بھیڑ بکریوں کی منہ کھر کی بیماری (19) ایک حیاتیاتی اسلحہ ایک سے لے کر لاکھوں تک انسانوں کی موت کا سبب بن سکتا ہے۔
ایڈز کا وائرس لیبارٹی میں وسنا کا تبدیل شدہ وائرس
جہاں حیاتیاتی ہتھیاروں کا نشانہ انسان ہوتا ہے، جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے نئے امراض ایجاد کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر وسیع پیمانے پر جدرین کاری (Vaccination) - فلو یا انفلوینزا کی مختلف انواع یا زیادہ ہلاکت خیز بیماریاں پھیلانے - کے عوامل کو پھیلا کر ایک بڑے حیاتیاتی اسلحے میں تبدیل ہو کر کروڑوں ایسے انسانوں کی جان لے سکتی ہے جن کا مدافعتی نظام سابقہ جدرین کاریوں سے کمزور ہو چکا ہے۔
حیوانات نشانہ ہوں تو!
جب حیاتیاتی اسلحے کا ہدف حیوان / یا حیوانات ہوں تو قضیہ مختلف ہوگا۔ اس نکتے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ مویشیوں کے خلاف حیاتیاتی جنگ، تہدّفی (نشانہ بند Targeted) ہوتی ہے۔ کیونکہ مویشیوں میں بیماری کا انتشار وسیع پیمانے پر منفی نتائج کا سبب بن سکتا ہے۔ مویشیوں اور حیوانات کی خطرناک ترین بیماریاں عام طور پر متعدی ہوتی ہیں اور نشانہ بننے والے حیوانات اور مال مویشیاں کی اکثریت میں ان کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر منہ کھُر کی بیماری کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ منہ کھُر کا وائرس، آلودہ حیوانات کے نظام تنفس (Respiratory System) کے بالائی حصے میں وافر مقدار میں، پایا جاتا ہے۔ (20)
فصلیں اور نباتات نشانہ ہوں تو!
ممکن ہے کہ حیاتیاتی ہتھیاروں کا نشانہ نباتات ہوں، عام طور پر ہر وہ عامل جو ماحولی نظام (Ecology) کی وسیع پیمانے پر تباہی، نباتات کے اگاؤ میں کمی، پیداوار کی آلودگی اور مختلف فصلوں اور جڑی بوٹیوں نیز ان سے حاصل ہونے والی پیداوار میں امراض پھیلنے کا سبب بنے، غذائی سلسلے (Food Chain) کو خطرے میں ڈال دے؛ یہ ایک قسم کی زرعی حیاتیاتی دہشت گردی ہے۔ یہ سنجیدہ ترین، اہم ترین اور خطرناک ترین جنگوں میں سے ایک ہے جس کا موجودہ زمانے میں ایران، عراق، شام، لبنان اور یمن جیسے ممالک کو سامنا کرنا پڑا ہے، گو کہ حیاتیاتی دہشت گردی سمیت دہشت گردی کی مختلف اقسام کی خالق مغربی دہشت گرد حکومتیں ان اوزاروں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بھی، جنوبی امریکہ اور افریقہ اور جنوبی ایشیا میں بھی، اور یوکرین کی جنگ میں روس کے خلاف بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ان ممالک میں مختلف فصلوں کے لئے بیج کے دانوں کی صورت میں مضر آفات (اور عجیب و غریب کیڑے مکوڑوں، اور غیر بارآور اور نا پيدا آوَر بیجوں کا ان ممالک میں لایا جانا، نیز ان بیجوں کی منتقلی جن میں جینیاتی تبدیلی کی گئی ہے یا ان کو ایک خاص مادے سے خالی کیا گیا ہے، وہ مسائل ہیں جنہوں نے زراعت کو سنجیدہ خطرے سے دوچار کیا ہے۔
اس مسئلے کی مثالیں زیادہ ہیں کہ وہ بہت سے پودوں یا ان سے ملنے والی پیداوار پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ (21) (22) مثال کے طور پر جینیاتی طور پر تبدیل شدہ پودوں اور دانوں کے استعمال کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوئے ہیں: کپاس کی 88 فیصد کھیتیوں میں پوکینیا (23) نامی مرض پیدا کرنے والے جراثیم - جنہیں کپاس کا زنگ بھی کہا جاتا ہے – منشتر کئے گئے ہیں اور اور کپاس ہی کی 70 فیصد کھیتیوں کو کپاس کی پتیاں کھانے والے کیڑوں (Spodoptera littoralis) سے آلودہ کیا گیا ہے۔ (24)
حیاتیاتی ہتھیاروں کی زمرہ بندی منتقلی کے اوزاروں کی بنیاد پر
دوسری طرف سے، حیاتیاتی ہتھیار مختلف روشوں سے اپنے ہدف تک پہنچتے ہیں؛ اور منتقلی کے عام ترین اوزار درج ذیل ہیں:
* دھول کے ذرات یا ہواسم کا ہوا کے ذریعے انتشار؛ جو ایک مؤثر طریقہ ہے۔ ہوا میں جرثومے چھوٹے چھوٹے ذرات کی شکل میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ایک فرد کے متاثر ہونے کے لئے، ان ذرات کافی مقدار میں، سانس لے کر اپنے پھیپھڑوں میں داخل کرے۔ (25)
* دھماکہ خیز مواد
دھماکہ خیز مواد (بشمول میزائل، بم وغیرہ؛ دھماکے سے زہریلے مواد اور حیاتیاتی جنگ کے مواد کا انتشار، ہوا کے ذریعے ہواسم کے انتشار کی طرح مؤثر نہیں ہے۔ کیونکہ بہت سے حیاتیاتی عوامل دھماکے کے ساتھ ہی مر جاتے ہیں، اور اس صورت میں زیادہ سے زیادہ پانچ فیصد حیاتیاتی عوامل بیماری پیدا کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر E133 کلسٹر بم، امریکی حیاتیاتی بموں میں سے ایک ہے جو سرد جنگ کے زمانے میں تیار کیا گیا ہے۔ یہ بم دھماکے سے پھٹتا ہے، تو راج پھوڑا پیدا کرنے والے حیاتیاتی عوامل کو ہوا میں منشتر کرتا ہے۔ (26)
امریکہ سب سے زیادہ حیاتیاتی بم بنانے والا ملک
* جلد میں ٹیکہ لگانے کے ذریعے
یہ روش قاتلانہ حملے یا دہشت گردی کے لئے کافی مناسب ہے؛ لیکن اسے بہت ممکن ہے کہ (زیادہ جانی نقصان کی وجہ سے) استعمال نہیں کیا جاتا۔
* آب و غذا کے ذریعے حیاتیاتی یلغار
اس سلسلے میں پانی کے سبزیوں کی Round up نامی کیڑے مار دوا کے ذریعے آلودگی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ دوا یہودی مونسانٹو کی جینیاتی انجینئرنگ کی پیداوار ہے۔ یہ مادہ پینے کے پانے میں انڈیل دیا جائے تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کن ہونگے۔ بل گیٹس (Bill Gates) اور راکفیلر (Rockefeller) جیسے دولت مند افراد کے زرعی ادارے چاول، مکئی، گندم، سویابین اور دیگر اہم غذائی اشیاء پر کام کرتے ہیں، جن کو جینیاتی تبدیلیوں کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے اور انہیں حیاتیاتی جنگوں کے اوزاروں کے طور پر ے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری مثال کے طور پر، سنہ 2001ع‍ میں بائیوٹیکنالوجی کی ایک کمپنی Epicyte Company نے ایک قسم کی مکئی تیار کرلی جو مَردوں کے اسپرم کو مار دیتی ہے اور انہیں بانجھ بنا دیتی ہے۔ (27)
* مچھر بھی حیاتیاتی ہتھیار ہو سکتے ہیں
موجودہ شواہد کے مطابق، دوسری جنگ عظیم میں ملیریا کے حامل مچھروں کو جنگی مقاصد کے لئے استعمال گیا ہے۔ (28)
* بائیوچپ بطور حیاتیاتی اسلحہ!
مثال کے طور پر مانع حمل چپس (Contraceptive chips) جو انتہائی زیادہ خطرات کا سبب بنتے ہیں اور صرف مانع حمل ہی نہیں ہیں، بلکہ لیونورجسٹریل ہارمون (29) کے ضمنی اثرات کی بنا پر بانجھ پن کا باعث بھی بنتے ہیں۔
* جینیاتی انجنیئرنگ کا استعمال
اس قسم کی انجنئیرنگ کے ذریعے نئے ہتھیاروں کی تیاری ممکن ہو جاتی ہے جو اپنے طبعی یا نیچرل ہم منصوں سے زیادہ مؤثر ہیں۔ مثال کے طور پر 1979ع‍ میں سابق سوویت اتحاد کے شہر سوردلووسک (Sverdlovsk) میں پھیلنے والے غیر مرئی راج پھوڑے کا جراثیم کی مثال دی جا سکتی ہے جو غیر مرئی مرئی جراثیم ہیں جو بیکی لس انتھراسس میں ایک اجنبی جین کے داخل ہونے سے معرض وجود میں لائے گئے ہیں۔ اس اجنبی جین نے راج پھوڑے کے جرثومے میں حفاظتی خصوصیات کے نظام کو بدل کر رکھ دیا ہے اور موجودہ حفاظتی ٹیکے ان کے سامنے حفاظتی بند باندھنے سے قاصر ہیں۔ (30)
مذکورہ بالا مضمون حیاتیاتی ہتھیاروں کے عریض و طویل مجموعے کی مختصر رپورٹ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس عظیم مجموعے کے ہر حصے کے لئے تفصیلی تحقیق اور رپورتاژ نویسی کی ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ مشرقی دنیا، افریقہ، لاطینی امریکہ اور بطور خاص مسلم ممالک کے حکام اور معاشرے آگاہ ہو جائیں اور خطروں کو پہچانیں اور خطرات پیدا کرنے والوں کو بھی، وہی جو گویا جراثیمی ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ اپنے وجود کے تحفظ کے لئے انہیں استعمال ہونے والی ریاستوں کا حتمی زوال نہ آن پہنچا ہو: امریکہ - برطانیہ - جعلی صہیونی ریاست وغیرہ۔
یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ مغرب نے گذشتہ 77 برسوں کے دوران ہمارے ممالک کو اشیائے خورد و نوش اور ادویات اور حفاظتی ٹیکوں سمیت اپنے "خبیث عطیات!" کے ذریعے کن کن مسائل سے دوچار کیا ہے اور ان کی سخاوت کی نشانیاں کہلانے والے اقدامات کن کن غیر مرئی مصائب و مسائل اپنے ساتھ لائے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1. http://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC1326439/
2. Biological and Toxin Weapons Convention
3. http://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/12197874
4. http://www.pgaction.org/campaigns/bwc.html
5. http://www.uhavax.hartford.edu/bugl/bio-war.pdf
6. https://www.ll.mit.edu/publications/journal/pdf/vol12_no1/12_1detectbioagents.pdf
7. https://c.aarc.org/resources/biological/history.asp
8. http://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC1121425/
9. http://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC3148622/
10. https://fas.org/irp/threat/mctl98-2/p2sec03.pdf
11. https://en.wikipedia.org/wiki/Bioterrorism
12. http://www.merriam-webster.com/dictionary/AIDS
13. Human Immunodeficiency Virus [HIV]
14. http://www.topinfopost.com/2013/12/27/the-man-who-created-aids-robert-gallo
15. http://www.bibliotecapleyades.net/sociopolitica/esp_sociopol_cooper12.htm
16. Acute respiratory syndrome
17. http://www.study1000.com/104744/sec_41/p_31.aspx?lang=Fa
18. http://www.abc.net.au/news/2003-04-11/sars-could-be-biological-weapon-experts/1835010
19. Foot-and-Mouth Disease
20. http://bioscience.oxfordjournals.org/content/52/7/577.full
21. http://safirane57.ir/?p=3289
22. http://www.emedicinehealth.com/biological_warfare/page3_em.htm
23۔ Puccinia فنگس کی ایک نسل ہے۔ اس جینس کی تمام انواع پابند پودوں کے پیتھوجینز (مرض پھیلانے والے جراثیم) ہیں اور انہیں زنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
24. http://www.salamatnews.com/news/176276/
25. http://science.howstuffworks.com/biochem-war5.htm
26. http://www.everipedia.com/E133_cluster_bomb/
27. http://www.engdahl.oilgeopolitics.net/
https://www.theguardian.com/science/2001/sep/09/gm.food
28. https://www.theguardian.com/world/2014/feb/14/nazi-scientists-mosquitoes-biological-weapon
29۔ لیونورجسٹریل ہارمون Levonorgestrel hormone یہ مانع حمل دوائیوں نیز مانع حمل بائیوچپس میں پایا جاتا ہے، جو مانع حمل ہونے کے ساتھ ساتھ طویل المدت مسائل - منحملہ بانجھ پن - کا سبب بھی بنتا ہے۔
30. http://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC1326447

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242