اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
ہفتہ

10 دسمبر 2022

5:07:58 PM
1330008

جنرل بریگیڈیئر علی فدوی:

یہودی ریاست اپنی 80ویں سالگرہ نہیں دیکھ سکے گی / علاقے میں کوئی تبدیلی برداشت نہیں کریں گے / خبیث قوتیں اپنی غلطیاں نہ دہرائیں / موساد کے بےشمار گماشتے گرفتار کر لئے گئے ہیں

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے قائم مقام کمانڈر بریگیڈیئر جنرل علی فدوی نے العالم چینل کے پروگرام "مِن طَهران" کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا: امریکہ انقلاب اسلامی کے آغاز ہی سے ایران کے خلاف تمام سازشوں میں ملوث رہا ہے، جزیرہ فارسی میں امریکی میرینز کے ساتھ آمنا سامنا، اور ان کی گرفتاری کا واقعہ پہلا واقعہ نہ تھا۔ ہم 1987ع‍ میں پہلی بار امریکی جنگی بحری جہازوں سے دو دو ہاتھ کر لئے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے قائم مقام کمانڈر بریگیڈیئر جنرل علی فدوی نے العالم چینل کے پروگرام "مِن طَهران" کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا: امریکہ انقلاب اسلامی کے آغاز ہی سے ایران کے خلاف تمام سازشوں میں ملوث رہا ہے، جزیرہ فارسی میں امریکی میرینز کے ساتھ آمنا سامنا، اور ان کی گرفتاری کا واقعہ پہلا واقعہ نہ تھا۔ ہم 1987ع‍ میں پہلی بار امریکی جنگی بحری جہازوں سے دو دو ہاتھ کر لئے ہیں۔

انٹرویو کا متن درج ذیل ہے:

** جزیرہ فارسی میں ایران اور امریکہ کا آمنا سامنا اور میرینز کی گرفتاری

سوال: ہمارے ناظرین آپ کو جزیرہ فارسی میں امریکی میرینز کے گرفتاری کے واقعے کی بنیاد پر پہچانتے ہیں۔ امریکہ ایران کا سب سے بڑا دشمن ہے، اور ایران اور محور مقاومت امریکہ کے آمنے سامنے ہے، اس تقابل کے بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟

جواب: حق و باطل کا یہ معرکہ سنہ 1960ع‍ سے جاری ہے۔ امریکہ نے اپنے گماشتے کے طور پر محمد رضا پہلوی کی بادشاہت بچانے کی سرتوڑ کوشش کی مگر ناکام رہا۔

امریکہ اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی ایران کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں کا سرچشمہ رہا ہے۔ جزیرہ فارسی میں امریکیوں کے سامنے ہمارا آمنا سامنا، اور امریکی میرینز کی گرفتاری کا واقعہ پہلا واقعہ نہیں تھا، بلکہ 21 مارچ 1987ع‍ کو ہم نے خلیج فارس کے پانیوں ميں، سعودی ساحلوں کے قریب، امریکی جنگی بحری جہازوں کا مقابلہ کیا۔

یہ معرکہ طویل المدت ہے، ہم نے دو مرتبہ امریکیوں کے ساتھ اور دو مرتبہ عراق پر ناجائز قبضے کے بعد برطانویوں کے ساتھ، کامیاب مقابلہ کیا۔ جس دن امریکی جزیرہ فارسی میں پھنس گئے، وہ ایک خاص دن تھا۔ اسی دن صدر اوباما نے، اس واقعے سے چند گھنٹے قبل، کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی افواج کی طاقت اور صلاحیت کے سلسلے میں شیخیاں بگھاری تھیں۔ اگلے دن جوہری معاہدے کا اعلان کرنا، طے پایا تھا، اور امریکیوں نے اسلامی انقلاب کے خلاف زبردست تشہیری مہم کے لئے پروگرام تیار کئے تھے، اور منہ توڑ شکست سے دوچار ہوئے۔

اس تقابل کے بارے میں سب سے بہتر موقف امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالیٰ) نے اپنایا اور فرمایا: "اس واقعے کو اللہ کا کام قرار دینا چاہئے، جو امریکیوں کو ہمارے پانیوں میں کھینچ لایا، تاکہ آپ کاروائی کرکے انہیں اس حال میں گرفتار کریں، کہ انھوں ںے اپنے ہاتھ اپنے سروں پر رکھ لئے تھے۔۔۔ امریکیوں کا جزیرہ فارسی میں آنا یقینا اتفاقیہ نہ تھا، ان کا جی پی اس کام کر رہا تھا، یہ امریکی فوجی عرصہ دراز سے کویت، بحرین اور خلیج فارس کے علاقے میں تعینات تھے، تو پھر وہ عربی جزیروں کے بجائے جزیرہ فارسی میں کیوں داخل ہوئے؟ یہ یقینا خدا کی مشیت تھی۔ اگر آپ اپنے فرائض کو درست انداز سے انجام دیں تو اللہ آپ کے لئے بہترین نتائج مقدر فرمائے گا۔۔۔ امریکیوں کا حقیقی چہرہ وہی تصویر ہے جو جزیرہ فارسی میں گرفتار ہونے والے میرینز سے لی گئی تھی اور وسیع پیمانے پر شائع ہوئی۔ یقینا وہ باطل کے محاذ میں کھڑے ہیں۔ ہمارے صرف ایک جہاز نے اس کاروائی میں شرکت کی، ہمارے پاسداروں کے پاس صرف کالاشنیکوف کی بندوقیں تھی جبکہ وہ دو جنگی جہازوں پر سوار تھے، ان کے پاس مختلف النوع ہتھیار بھی تھے اور یہ جہاز 20mm کے توپوں سے لیس تھے؛ کیا ہؤا کہ ہمارے ایک ہی پاسدار کی للکار سن کر [کیل کانٹے سے لیس] امریکی میرینز نے ہتھیار ڈال دیئے؟! آپ اس سوال کا جواب قرآنی قواعد میں دیکھ سکتے ہیں؛ اس کاروائی کے دوران امریکیوں کی لی گئی تصویر کبھی بھی نہیں بھلائی جا سکے گی"۔

سوال: آج کی پوزیشن کیا ہے؟

جواب: ہماری آج کی طاقت امریکی میرینز کی گرفتاری کے زمانے کی صلاحیتوں سے قابل قیاس نہیں ہے؛ بہت آگے بڑھ چکے ہیں اور ہم نے ترقی کی راہ میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دیا ہے۔ ہر پاسدار کے سینے پر یہ آیت لکھی ہوئی ہے: "وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ" (1) جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آنے والے دن، آپ کی طاقت اور صلاحیت کو پچھلے دن سے کہیں زیادہ ہونا چاہئے۔

فطری امر ہے کہ ہم اپنی تمام تر صلاحیتوں کو ظاہر نہیں کر سکتے، امریکی صرف اس وقت ہماری صلاحیتوں سے آگاہ ہوسکیں گے جس دن وہ اپنے غلط حساب و کتاب () کی وجہ سے کوئی غلطی کر بیٹھیں گے اور ہمیں ان کے خلاف کاروائی کرنا پڑے گی۔

ایرانی ہائپرسانک میزائلوں کے بارے میں بھی صرف ابتدائی وضاحتیں دی گئی ہیں، اور مزید تفصیلات اس بتائی جائے گی جب اس کا زيادہ سے زیادہ اثر متوقع ہوگا۔

**صہیونی ریاست چھ سال بعد تک نہیں رہے گی

سوال: غاصب صہیونی ریاست شام، لبنان اور فلسطین کی طرف سے مقاومت کے ٹھیک نشانے پر لگنے والے میزائلوں کی زد میں ہے؛ اس ریاست کی موجودہ صورت حال کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟

جواب: یہودی تاریخ کے ماہرین کو یقین تھا کہ اس ریاست کی عمر کچھ زیادہ نہیں ہے اور آج یہ یقین غاصب ریاست کے سیاستدانوں کو بھی یقین ہے کہ یہ ریاست اپنی تاسیس کی 80ویں سالگرہ نہیں منا سکے گی۔ سابق صہیونی وزیر اعظم نے محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کی صلاحیتوں کا کھلا اعتراف کیا ہے۔

انقلاب اسلامی اور محور مقاومت کے امام نے فرمایا: مغربی کنارے کو بھی غزہ کی طرح مسلح کرنا چاہئے اور صہیونیوں پر دباؤ بڑھانا چاہئے اور آج صورت حال یہ ہے کہ مغربی کنارے سے ہر روز نئی خبریں آ رہی ہیں۔ فلسطینیوں کی آج کی نسل مقاومت اور مزاحمت کا سرچشمہ ہے، یقینا غاصب صہیونیوں کا انجام رسوا کن شکست کے سوا کچھ بھی نہ ہوگا۔

** اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کو عراق میں گھونسلا نہیں بنانا چاہئے

سوال: عراقی کردستان میں کرد علیحدگی پسند اور دہشت گردوں نے اڈے قائم کئے ہیں، عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السودانی نے حال ہی میں ایران کا دورہ کیا اور دوسری طرف سے القدس کور کے کمانڈر جنرل قاآنی نے عراق کا دورہ کیا، کیا ایران کو عراقی کردستان سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہوگا؟

جواب: اس مسئلے کا سرچشمہ عراق کے اندر ہے، ہم عراق میں صرف ایک حکومت کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ عراق کی مرکزی حکومت ہے۔ بغداد اور اربیل میں منقعدہ اجلاسوں میں بھی عراقی حکام کا ماننا تھا کہ عراقی سرزمین سے ایران کو خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہئے۔

یقینا اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کو عراق میں گھونسلا نہیں بنانا چاہئے اور انہیں وہاں سے جانا چاہئے۔ ہم طویل عرصے سے ان سے کہتے آئے ہیں کہ یہ کام وہ خود ہی انجام دیں؛ اور اگر پھر وہ آپ کے احکامات کی تعمیل نہیں کرتے تو ہمارا صبر و تحمل بھی زیادہ طویل نہیں ہوگا اور خود ہی اقدام کریں گے۔ ہم نے کئی بار متعدد تحفظات اور احتیاط کے ساتھ کاروائیاں کیں، یہاں تک کہ دہشت گردوں کے گھر والوں تک کو خطرے میں ڈالنے سے گریز کیا۔

** یقینا علاقے میں جغرافیائی تبدیلیاں برداشت نہیں کریں گے / ممالک کے سرحدی جھگڑوں کو علاقے کی جغرافیائی حدود کی تبدیلی پر منتج نہیں ہونا چاہئے

سوال: جمہوریہ آذربائی جان کی سرحد کے پاس جنگی مشقیں ہوئیں، آذربائی جان کے حکمرانوں کا لب و لہجہ نرم ہؤا؛ کیا آذری حکام ان مشقوں کے پیغام کو سمجھ سکے ہیں؟

جواب: موجودہ حالات میں جغرافیائی تبدیلیاں قابل برداشت نہیں ہیں۔ ہماری مشقیں دوسرے ممالک میں ہونے والی مشقوں کی طرح، معمول کی مشقیں تھیں۔ ہم ہر بار مشقوں کے لئے کسی ایک علاقے کا تعین کرتے ہیں، ایک بار شمال مغربی علاقوں میں مشقیں ہوئیں۔ علاقے میں جمہوریہ آذربائی جان کے بارے میں ہماری نگاہ یہ ہے کہ یہ ایک شیعہ مسلم ملک ہے۔ ایران کے بعد دوسرا شیعہ ملک آذربائی جان ہے جس کے زیادہ تر باشندے اثنا عشری شیعہ ہیں؛ پورا قفقاز ہی ایسا ہی تھا۔ ہم نے جس علاقے میں جنگی مشقوں کا اہتمام کیا سابق سوویت آذربائی جان اور ایرانی آذربائی جان کے درمیان واقع ہے۔ قفقاز کا علاقہ - بشمول آذربائی جان - قاجاری بادشاہوں کی نا اہلی کی وجہ سے ایران سے الگ ہؤا ہے۔ آذری راسخ العقیدہ شیعہ ہیں اور سوویتی کمیونزم کے 70 سالہ تسلط کے باوجود انھوں نے اپنا عقیدہ محفوظ رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ آذری عوام کے ساتھ ہمارا کوئی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ہمارے درمیان منفرد اشتراکات پائے جاتے ہیں۔ معمول کے مطابق، ایک حکومت کو ہونا چاہئے جو آذربائی جان کی شیعہ اکثریت پر خاص توجہ مبذول رکھے۔

بلاشبہ ممالک کے درمیان سرحدی اختلافات کو جغرافیائی تبدیلیوں کا باعث نہیں بننا چاہئے۔ یہ اہم مسئلہ ہے اور ہم اس پر زور دیتے ہیں۔

** ایران کے حالیہ بلوے؛ خبیث قوتیں اپنی غلطیاں سوویں مرتبہ نہ دہرائیں

سوال: ہم نے دو مہینوں تک جاری رہنے والے حالیہ بلؤوں میں بیرونی ممالک کا کردار دیکھ لیا؛ سعودیوں نے بہت ہی بھونڈا کردار ادا کیا؛ اب بلؤوں کے خاتمے پر اسلامی جمہوریہ ایران ان ممالک کے ساتھ کس انداز سے پیش آئے گا؟

جواب: اگر ایک ذرہ برابر عقل و ہوش رکھتے ہوں تو انہیں سمجھنا چاہئے کہ جب شیطان کبیر (امریکہ) نے گذشتہ 44 سالہ دور میں اسلامی انقلاب کے خلاف ہر وہ اقدام کر چکا ہے جو وہ کر سکتا تھا لیکن ایک بار بھی کامیاب نہیں ہو سکا کیونکہ وہ کچھ کر ہی نہیں سکتا تھا؛ جب بڑی طاقت ہونے کے دعویدار امریکی اسلامی انقلاب کے مقابلے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکا ہے تو ظاہر ہے کہ دوسرے بھی کامیاب نہیں ہونگے۔

آٹھ سالہ جنگ کے دوران عراقی کی بعثی حکومت ہی نہیں بلکہ 87 ممالک ہمارے خلاف لڑ رہے تھے، امریکہ، سوویت اتحاد، تمام یورپی ممالک اور خلیج فارس کی تمام ریاستیں صدام کے مورچے میں کھڑی تھیں اور صرف شام تھا جس نے صدام کا ساتھ نہیں دیا۔ (کہا جاتا ہے کہ صدر حافظ اسد کی والدہ ایک مؤمنہ خاتون تھیں جو شام کی طرف سے ایران کی حمایت کا سبب بن گئی تھیں۔ واللہ العالم)

باقی تمام ممالک باطل کے محاذ کے ساتھ اور ہمراہ تھے، جن کی چوٹی پر امریکی تھے، اور یہ جنگ آٹھ سال تک جاری رہی لیکن آخرکار ہمارے دشمن کامیاب نہیں ہو سکے۔

اور پھر اس جنگ سے بہت بڑی صلاحیتیں حاصل کر لیں۔ جنگ کے بعد 30 سال سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے اور اس دور سے ہماری فوجی صلاحیتوں میں اضافے کا عمل ایک دن کے لئے بھی نہیں رکا ہے؛ کیونکہ یہ ایک فریضہ ہے نماز کی طرح، یعنی فرائض پر عمل کی کبھی بھی چھٹی نہیں ہوتی؛ طاقت میں اضافے کے عمل میں بھی چھٹی کا تصور نہیں ہے اور ترقی کی طرف بڑھتا ہؤا عمل مسلسل جاری ہے۔

جب یہ عمل زور و شور سے جاری ہے تو کیا پھر بھی خبیثوں کو اپنی غلطی سوویں بار دہرانا چاہئے؟ کیا محض اس لئے کہ سائبر اسپیس اور میڈیا پر ان کا کنٹرول ہے، وہ چاہیں کر سکتے ہیں اور جھوٹ بول سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔

سوال: آل سعود کے خلاف کیسا اقدام عمل میں لانے کی ضرورت ہے؟

جواب: تمام مسلمان ایک خاندان کی طرح ہیں، ہم ہمیشہ سے کہتے رہے ہیں کہ گھر کے خاندان میں جھگڑا بھی ہوتا ہے لیکن خاندان کا اندرونی جھگڑا، خاندان سے باہر کے جھگڑے سے بالکل مختلف ہے۔ امریکہ، صہیونی اور ان کی پیروی کرنے والے خبیث عالم اسلام سے باہر ہیں۔ چنانچہ ہمارا برتاؤ سب کے ساتھ ایک جیسا نہیں ہوگا۔ ہم مسلم ممالک اور اسکتباری ممالک کے درمیان فرق کے قائل ہیں۔ ہم اسلامی انقلاب کی ام القریٰ کی حیثیت سے اسلامی ممالک کے عوام کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مسلمانوں کے حوالےس ے ہماری نظر دوسروں کی نسبت مختلف ہے اور یہ تفکر انقلاب اسلامی کی نمایاں خصوصیت ہے۔

** ایران موساد کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے / یہودی ریاست کے جاسوسوں کی گرفتار

سوال: ایران میں موساد کے متعدد جاسوسوں کی گرفتاری کی عالمی عکاسی ہوئی ہے، آپ اس بارے میں کچھ معلومات دے سکتے ہیں؟

جواب: انقلاب اسلامی سے پہلے غاصب صہیونی ریاست اور ایران کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم تھے؛ صہیونیوں نے امریکہ کے حکم پر ایران میں ریشہ دوانی کی تھی۔ انقلاب کے بعد بھی کوشش ہوئی کہ ان کے جاسوس ایران میں رہیں۔ اس طرف سے ہماری طاقت اور صلاحیت میں مسلسل اضافہ ہئا ہے اور صہیونیوں اور امریکیوں کی خباثتوں پر ہماری نگرانی بھی شدید سے شدیدتر ہوئی ہے اور ہو رہی ہے۔ یہ عمل مسلسل جاری ہے۔ ہم نے لا تعداد صہیونی جاسوسوں کو پکڑ لیا ہے اور پکڑتے رہیں گے اور انہیں ان کے جرائم کے تناس سے سزا دیں گے۔

** وہ غلطی کر بیٹھیں گے تو ہماری حصولیابیوں سے آگاہ ہو جائیں گے! اور اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوگی

سوال: آپ نے کچھ عرصہ قبل فرمایا کہ ایران کے پاس ایسی ٹیکنالوجیاں ہیں، جس کا کسی بھی علم نہیں ہے؛ یہ ٹیکنالوجیاں کن شعبوں میں کام آتی ہیں؟

جواب: ہم نے بحری، بری، فضائی اور خلائی ٹیکنالوجیوں میں بہت کچھ حاصل کیا ہے، اور ترقی کا عمل جاری ہے، دنیا نے مان لیا ہے کہ ایرانی، مسلمین اور یمنی بہت ذہین ہیں۔ یہ طبعی امر ہے کہ ہم اپنی ٹیکنالوجیوں کو فاش نہ کریں۔ ہمارے دشمن صرف اس وقت ان سے آگہی پائیں گے جب وہ غلط حسابات کی بنا پر کوئی غلطی کر بیٹھیں گے، اور ہم ان کے خلاف اقدام کریں گے۔ اور ہمارا جوابی اقدام ان کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ اور جان لیوا ہوگا۔ ان کے اہل فکر لوگوں کو انہیں کوئی غلطی کرنے سے روکے رکھنا چاہئے۔ امریکی ہماری صلاحیتوں سے بہت کم معلومات رکھتے ہیں، اور ہمارے اقدام کے بعد ان کے اور صہیونیوں کے جاننے کے لئے بہت دیر ہو چکی ہوگی؛ کیونکہ وہ یہ دیکھنے کے لئے باقی ہی نہ رہیں گے کہ اسلامی انقلاب کا محاذ حق کس قدر طاقتور ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ؛ اور تم (اے مؤمنو) ان (کافروں سے نمٹنے) کے لئے اپنے آپ کو مہیا رکھو، اور جہاں تک فراہم کر سکو، سامان رسد اور اسلحہ اور تیار گھوڑوں کو فراہم رکھو؛ اس لئے کہ خوفزدہ کرو اللہ کے دشمن کو، اور اپنے دشمن کو، اور ان علاوہ ان دوسروں (یعنی اور اسلام و ایمان کا اظہار کرنے والے منافقوں) کو، جنہیں تم نہیں جانتے ہو اور اللہ انہیں جانتا ہے۔ (سورہ انفال - آیت 50)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110