اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

14 ستمبر 2022

4:06:11 PM
1305669

ظہور امام عصر (عج) سے پہلے اٹھنے والے پرچموں کا شرعی اور قانونی جواز

انتظارِ فَرَج پر دلالت کرنے والی حدیثیں

نتیجہ یہ کہ صرف وہ تحریکیں حضرت قائم (علیہ السلام) کے ظہور سے پہلے ناجائز ہیں جو خدا، رسول اور ائمہ (علیہم السلام) کے اذن کے بغیر ہوں، اپنی جانب دعوت کے لئے ہوں، کفر کی طرف دعوت کے لئے ہوں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ گزشتہ سے پیوستہ

بطور مثال، انتظارِ فَرَج سے متعلق احادیث میں دیکھتے ہیں:

تیار رہنا اور وسائل مہیا کرنا

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"لَيُعِدَّنَّ أَحَدُكُمْ لِخُرُوجِ الْقَائِمِ وَ لَوْ سَهْماً؛ تم میں سے ہر ایک کو قیام قائم (عج) کے لئے - خواہ صرف ایک تیر فراہم کرکے – تیار رہنا چاہئے"۔ (6)

"المُنتَظِرُ لِلثّاني عَشَرَ كَالشّاهِرِ سَيفَهُ بَينَ يَدَي رَسولِ اللّه ِ يَذُبُّ عَنهُ؛ جو شخص بارہویں امام حضرت مہدی (عج) کا منتظر ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے تلوار سونت لی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے آگے دشمن سے لڑ رہا ہے اور آنحضرت کا دفاع کر رہا ہے"۔

ہمارے ہاں کے مصادرِ حدیث میں موجود اس طرح کی عبارات اس حقیقت کی عکاس ہیں کہ ظہور کے لئے ماحول سازی کریں اور امام زمانہ (عج) کے ظہور کے لئے تیار رہیں اور اس راہ میں قیام کریں اور آخری سانسوں تک سنجیدہ اقدامات بجا لائیں جس کا لازمہ نظم و ضبط ہے اور نظم و ضبط کے لئے تنظیم اور منظم جماعت کی ضرورت ہے، جس کی اپنی شناخت، شعار اور علامت ہوتی ہے۔ اور تنظیم و جماعت کے فعال کردار کے لئے زعامت و قیادت اور عَلَم و علامت کی ضرورت ہوتی ہے۔

ج) ائمہ معصومین (علیہم السلام) کے بعض اقوال خاص حالات میں اور خاص لوگوں کے لئے کہے گئے ہیں اور امکان ہے کہ ان کے الفاظ بعض خاص حالات میں - خاص طور پر ایسے معاملات میں جو اسلام کے قطعی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے، تقیّہ کی فضا میں اور شیعہ اور تشیّع کی حفاظت کے لئے - کہے گئے ہوں۔

د) بعض روایات کے مطابق، ائمۂ معصومین (علیہم السلام) نے زید بن علی بن الحسین (علیہ السلام)، قیام مختار، آل حسن (علیہم السلام) جیسے بزرگواروں کے قیام کی تائید فرمائی اور ان سب مؤمن مجاہدوں کی تحریکوں کو سراہا جنہوں نے رضائے آل محمد (صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین) کی خاطر اپنے زمانے کے طاغوتوں کے خلاف پرچم انقلاب بلند کیا۔ البتہ بعض مواقع پر - جیسا کہ شکوک و شبہات ڈالنے کی غرض سے منقولہ روایات کی وضاحت میں کہا گیا ہے - بعض تحریکیں افرادی قوت کے ضیاع کے سوا کسی نتیجے پر منتج نہیں ہوتی تھیں، امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے قیام کے عدم جواز کے طور پر نہیں بلکہ شفقت اور ہمدردی کے عنوان سے، حکومت وقت کے خلاف اٹھان سے منع کیا۔ اس کے اثبات کے لئے قارئین کی ایک مثال کی طرف مبذول کراتے ہیں:

امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کے پوتے محمد بن عبداللہ محض بن حسن مثنّیٰ المعروف بہ "نفسِ زکیہ" نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے زمانے میں عباسی زعماء سے بیعت لے کر اموی خلیفہ کے خلاف قیام کیا اور ان کے والد عبداللہ نے امام سے کہا کہ محمد کے ساتھ بیعت کریں تو امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے ان کے والد عبداللہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: "تم ایسا نہ کرو، کیونکہ یہ امر ابھی نہیں آیا، لیکن اگر تمہاری رائے میں تمہارا یہ بیٹا "مہدی" ہے، تو نہ یہ مہدی ہے اور نہ ہی یہ مہدی (عج) کے ظہور کا وقت ہے، اور اگر تم چاہتے ہو کہ اس اللہ کی راہ میں غضب کی خاطر خروج پر آمادہ کرنا چاہتے ہو، کہ وہ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے تو خدا کی قسم ہم تمہیں تنہا نہيں چھوڑیں گے، اور تم ہم میں سے عمر رسیدہ [یا بنی ہاشم کے شیخ] ہو۔ اور ہم اس معاملے میں تمہارے بیٹے کے ہاتھ پر بیعت کریں گے"۔ (8) جس کا مطلب یہ ہے کہ مہدی کے نام سے قیام باطل ہے لیکن امر و نہی کی خاطر قیام کو امام کی تائید حاصل تھی اور اس کے لئے پرچم اٹھانے میں کوئی حرج نہ تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر قیام جائز تھا تو امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے خود کیوں مسلحانہ قیام نہیں کیا؟ یہی سوال ایک شاگرد "سُدَیر بن حُکَیم صیرفی" نے آنجناب سے پوچھا تو آپ نے چند بکریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

"وَاللَّهِ يَا سَدِيرُ لَوْ كَانَ لِي شِيعَةٌ بِعَدَدِ هَذِهِ الْجِدَاءِ مَا وَسِعَنِي الْقُعُودُ؛ (9)

اللہ کی قسم اے سدیر اگر میرے پیروکاروں کی تعداد ان بکریوں جتنی ہوتی تو خانہ نشینی میرے لئے جائز نہ ہوتی اور میں اٹھ کھڑا ہوتا"۔

سدیر کہتے ہیں میں اسی وقت اپنی سواری سے اترا اور جاکر بکریوں کو گن لیا اور دیکھا کہ ان کی تعداد 17 تھی۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَنْ مَدَحَ سُلْطَاناً جَائِراً وَتَخَفَّفَ وَتَضَعْضَعَ لَهُ طَمَعاً فِيهِ كَانَ قَرِينَهُ إِلَى النَّارِ؛ (10)

جو ظالم سلطان کی مدح و تعریف کرے، اور اس کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل و خفیف کرے، وہ دوزخ میں اس کا ہم نشین ہوگا"۔

ہ) صرف خودسرانہ قیام مذموم ہے

حضرت مہدی (عج) کے ظہور سے پہلے اٹھنے والے مذموم پرچم صرف ان لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں جو خودسرانہ طور پر حکمرانی اور زعامت کا دعویٰ ہے اور باطل کی طرف یا اپنی طرف بلاتے ہیں، جبکہ ائمہ (علیہم السلام) کے دور کی تحریکیں ان محمد و آل محمد (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کی طرف بلاتی تھیں اور دور حاضر میں ولایت فقیہ کا نظام استقلال اور معصومین (علیہم السلام) سے بےنیازی کا دعویٰ نہیں رکھتا بلکہ یہ امام مہدی (عج) کی غیبت کے دور میں آنجناب کی نیابت عامہ کے زمرے ميں آتا ہے؛ اور ولایت فقیہ کی حقانیت کے اثبات کے دلائل اسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ چنانچہ نظام ولایت فقیہ کا قیام امام عصر (عج) کی اجازت سے قائم ہؤا ہے؛ یہی نہیں بلکہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں امام عصر (عج) کے ظہور اور عالمی حکومت کے قیام کے ماحول فراہم کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور یوں اس نظام کا قیام آپ سمیت معصومین (علیہم السلام) کے نافذ العمل فرمان کی تعمیل ہے۔

چنانچہ ائمۂ معصومین (علیہم السلام) کے زمانوں کے انقلابات اور تحریکوں پر دلالت کرنے والی احادیث سے سمجھا جاتا ہے کہ جب ان انقلابات کا مقصد رضائے آل محمد (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کا حصول ہوتا تھا تو انہیں ائمہ (علیہم السلام) کی تائید و حمایت بھی حاصل ہوتی تھی؛ بطور مثال امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے امام زین العابدین (علیہ السلام) کے فرزند زید شہید کے انقلاب کی تائید کرتے ہوئے ان کی شان میں فرمایا:

"مَضَى وَاَللَّهِ عَمِّي شَهِيداً كَشُهَدَاءَ اُسْتُشْهَدُوا مَعَ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَعَلِيٍّ وَاَلْحَسَنِ وَاَلْحُسَيْنِ صَلَوَاتُ اَللَّهِ عَلَيْهِم؛ (11)

اللہ کی قسم! میرے چچا [زید بن علی] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)، علی، حسن اور حسین (علیہم السلام) کے قدموں میں لڑ کر شہید ہونے والوں کی طرح، شہید ہوئے"۔

مامون نے جب کہا کہ "زید بن موسیٰ" نے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور وہ بھی "زید بن حسین بن علی (علیہم السلام) کی طرح تھے جنہوں نے حکومت وقت کے خلاف بغاوت کی تھی تو امام علی الرضا (علیہ السلام) نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:

"فَقَالَ الرِّضَا (علیه السلام) إِنَّ زَیْدَ بْنَ عَلِیٍّ لَمْ یَدَّعِ مَا لَیْسَ لَهُ بِحَقٍّ وَإِنَّهُ کَانَ أَتْقَى لِلَّهِ مِنْ ذَاكَ إِنَّهُ قَالَ أَدْعُوكُمْ إِلَى الرِّضَا مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ) وَإِنَّمَا جَاءَ مَا جَاءَ فِيمَنْ یَدَّعِي أَنَّ اللَّهَ نَصَّ عَلَیْهِ ثُمَّ یَدْعُو إِلَى غَیْرِ دِينِ اللَّهِ وَیَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَكَانَ زَیْدٌ وَاللَّهِ مِمَّنْ خُوطِبَ بِهَذِهِ الْآیَةِ" «وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ»؛

میرے بھائی زید کا قیاس زید بن علی سے نہ کرو، کیونکہ اس (زید بن علی) نے کسی کو ایسی کسی چیز کی طرف نہیں بلایا جو ان کا حق نہیں تھا، وہ اس سے کہیں زیادہ پرہیزگار تھے کہ ایسا کوئی دعویٰ کرتے؛ وہ تو کہتے تھے کہ "میں تمہیں آل محمد کی پسندیدہ شخصیت (امام معصوم) کی طرف بلاتا ہوں، اور جو احادیث اہلبیت کے بغیر، امامت کا دعویٰ کرنے والوں کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں، ایسے شخص کے بارے میں ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ گویا خدا نے انہیں امامت کے منصب پر متعین کیا ہے، اور جب لوگ اس کی طرف راغب ہو جاتے ہیں تو وہ انہیں اللہ کے دین کے سوا دوسری چیزوں کی طرف بلاتا ہے، اور علم و آگہی کے بغیر گمراہ کرتا ہے۔ خدا کی قسم! زید بن علی ان لوگوں میں سے ہیں جن کو اس آیت کریمہ میں مُورِدِ خطاب قرار دیا گیا ہے: «اور اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کرو، اس نے تمہیں چن لیا ہے» (12)". (13)

‏چنانچہ حضرت قائم (علیہ السلام) کے ظہور اور قیام سے پہلے، ہر اس تحریک اور علم و پرچم سے باز رکھا گیا ہے جس میں آل محمد (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کی رضا اور خوشنودی اور ان کے متعین کردہ فرائض کو مد نظر نہیں رکھا جاتا۔

و) [ادھر] متعدد روایات و احادیث میں حضرت قائم المہدی (علیہ السلام) کے عالمی انقلاب سے قبل کی تحریکوں کی تائید اور تمجید ہوئی ہے؛ بطور مثال امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ قُمَّ يَدْعُو النَّاسَ إِلَی الْحَقِّ يَجْتَمِعُ مَعَهُ قَوْمٌ كَزُبَرِ الْحَدِيدِ لَا تُزِلُّهُمُ الرِّيَاحُ الْعَوَاصِفُ وَلَا يَمَلُّونَ مِنَ الْحَرَبِ وَلَا يَجْبُنُونَ "وَعَلَى اللَّهِ يَتَوَكَّلُونَ" "وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ"؛

اہلیان قم میں سے ایک مرد قیام کرے گا اور لوگوں کو حق کی طرف دعوت دے گا، اس کے ہمراہ طاقتور جماعت مجمتع ہوگی جو لوہے کے ٹکڑوں کی طرح سخت (مضبوط اور ناقابل شکست) ہونگے، اور واقعات و حادثات کے طوفان انہیں ہلا نہیں سکیں گے اور وہ جنگ سے نہیں تھکیں گے اور ڈریں گے نہیں، اور وہ اللہ پر توکل اور بھروسا کرتے ہیں، اور اور (نیک) انجام صرف پرہیزگاروں کے لئے ہے"۔ (14)

ز) آخری بات یہ کہ: یہ کیسے ممکن ہے کہ کچھ روایات کو تجزیئے اور تحلیل اور سیاق و سباق اور متعلقہ حالات و واقعات کے بغیر پیش کیا جائے اور ان تمام تر آیات کریمہ اور متواتر اور صحیح احادیث شریفہ کو نظر انداز کیا جائے، جو ظالموں اور جابروں کے خلاف قیام و انقلاب کی ضرورت پر زور دیتی ہیں؟ انقلاب اور دعوت کے بغیر طاغوت کی حکومتیں قائم رہتی ہیں تو کیا یہ حضرات مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کے زیر نگیں رہنے کا مشورہ نہیں دے رہے ہیں؟ دنیا بھر میں مختلف قسم کے کفریہ پرچم اٹھتے ہیں، ظلم و جارحیت کرتے ہیں، تو کیا جہاد و دفاع کو معطل ہونا چاہئے؟ کیا یہ لوگ اسلام و قرآن اور تعلیمات محمد و آل محمد (علیہم صلوات اللہ) کی حفاظت کو حرام قرار نہیں دے رہے ہیں؟

مثال کے طور پر، یہاں قرآن کریم کی ایک ہی آیت کریمہ کا حوالہ دیتے ہیں:

"وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا؛

تم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہیں کرتے ہو اور کچھ کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی نجات کے لئے (جو کفار کے ہاتھوں اسیری کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں) کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار ہمیں نکال دے اس بستی سے جس کے باشندے ظالم و ستمگر ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارے لئے اپنے پاس سے ایک حامی اور سرپرست قرار دے اور ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی مددگار قرار دے"۔ (15)

تو کیا یہ آیات عصر نزول قرآن کے لئے مخصوص ہونگی یا یہ تمام زمانوں اور عصر غیبت کے لئے بھی ہیں؟! کیا قرآن تا قیامت منشور حیات بشری نہیں ہے؟

کیا انسانی حسّ عصر نزول تک محدود ہے؟ کیا یہ حسّ اجازت دیتا ہے کہ انسان، انسانوں کی اسیری اور ظالموں کے ظلم و جبر کا خاموش تماشائی بنا رہے؟ مستضعفین وہی لوگ ہیں جو کسی بھی زمانے میں ظلم و جبر کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں تو کیا ان کی نجات کو ہم عصر نزول تک محدود کریں گے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی امیدیں ختم ہوچکی ہیں، اور دست بدعا ہو کر اللہ سے التجا کرتے ہوئے ظلم و ستم کے ماحول سے چھٹکارا مانگتے ہیں، کیا غزہ اور یمن سے بہتر مثالیں تاریخ میں کہیں بھی ملتی تھیں، کیا غزہ اور یمن کے باسیوں کی مظلومیت پر خاموش رہ کر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ممکن ہے؟ خدائے متعال نے اپنے مخاطبین سے کہا ہے کہ اٹھو اور "ولی" اور "نصیر" بنو ان لوگوں کے لئے جو اللہ کی طرف کے ولی اور نصیر کے لئے گڑگڑا رہے ہیں۔ یعنی اللہ نے مسلمانوں کو ولی اور نصیر بننے کا اعزاز دیا ہے، تو کیا اس عظیم الہی پوزیشن کو ضائع کرکے اللہ کی قربت حاصل ہونے کی توقع کر سکتے ہیں؟ منہ تو بہر حال دکھانا ہے، اس دن جب اللہ کے ہاں مجرموں کا کوئی ولی اور نصیر نہ ہوگا: "لَا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا؛ وہ اس دن کوئی بھی معاونت کرنے والا اور کوئی بھی مددگار، نہ پائیں گے"۔

نتیجہ یہ کہ صرف وہ تحریکیں حضرت قائم (علیہ السلام) کے ظہور سے پہلے ناجائز ہیں جو خدا، رسول اور ائمہ (علیہم السلام) کے اذن کے بغیر ہوں، اپنی جانب دعوت کے لئے ہوں، کفر کی طرف دعوت کے لئے ہوں، ظلم و جبر کو تقویت پہنچانے کے لئے ہوں (جیسے صہیونی تحریک اور صہیونی تحریک کو تقویت پہنچانے کے لئے اٹھنے والی ظالمانہ شورشیں) جبکہ ظلم و جبر اور جارحیت اور تجاوز روکنے، اسلام و قرآن کی حفاظت اور مستضعفین کو نجات دینے، اور اسلام و قرآن کی طرف دعوت دینے اور عدل و انصاف کے قیام اور دین کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے اٹھنے والی تحریکیں نہ صرف حرام اور ناجائز نہیں ہیں بلکہ واجب ہیں؛ جس کی ایک مثال مندرجہ بالا ارشاد ربانی ہے۔

قرآن اس لئے نہیں آیا کہ اس کو کپڑوں میں لپیٹ کر بالائے طاق رکھا جائے، یا اس کی نمائشیں لگائی جائیں یا صرف اموات کے ایصال ثواب کے لئے پڑھا جائے، بلکہ یہ تمام علماء اور دانشوروں کے اعتراف کی رو سے ایک مکمل ضآبطہ حیات ہے جسے بالائے طاق رکھ کر نافذ نہیں کیا جاسکتا اور اسلامی حکومت کے قیام کا سب سے اہم مقصد قرآنی تعلیمات و قوانین کا نفاذ ہے، چنانچہ ایران میں ولایت فقیہ کے پرچم تلے حکومت کا قیام، جو ان ہی مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں اور عالمی مستضعفین کے دفاع میں مصروف عمل ہے، ان ناروا تحریکوں سے بالکل الگ ہے اور اس طرح کا قیام و انقلاب نہ صرف ناجائز نہیں ہے بلکہ قطعی اسلامی فریضہ اور لازم و واجب ہے۔ جیسا کہ امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے منقولہ حدیث : " رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ قُمَّ يَدْعُو النَّاسَ إِلَی الْحَقِّ ۔۔۔۔۔ (حوالہ نمبر 14) سے بھی واضح ہے اور ان احادیث و روایات سے بھی جو حضرت مہدی (علیہ السلام) کے ظہور کی آمد پر ایک بڑے قیام کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ان ہی احادیث میں سے ایک کچھ یوں ہے:

"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ إِلَيْنَا مُسْتَبْشِرًا يُعْرَفُ السُّرُورُ فِي وَجْهِهِ ۔۔۔ حَتَّى مَرَّتْ فِتْيَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ فِيهِمُ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، فَلَمَّا رَآهُمُ الْتَزَمَهُمْ وَانْهَمَلَتْ عَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَزَالُ نَرَى فِي وَجْهِكَ شَيْئًا نَكْرَهُهُ، فَقَالَ: «إِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ اخْتَارَ اللَّهُ لَنَا الْآخِرَةَ عَلَى الدُّنْيَا، وَإِنَّهُ سَيَلْقَى أَهْلُ بَيْتِي مِنْ بَعْدِي تَطْرِيدًا وَتَشْرِيدًا فِي الْبِلَادِ، حَتَّى تَرْتَفِعَ رَايَاتٌ سُودٌ مِنَ الْمَشْرِقِ، فَيَسْأَلُونَ الْحَقَّ فَلَا يُعْطَوْنَهُ، ثُمَّ يَسْأَلُونَهُ فَلَا يُعْطَوْنَهُ، ثُمَّ يَسْأَلُونَهُ فَلَا يُعْطَوْنَهُ، فَيُقَاتِلُونَ فَيُنْصَرُونَ، فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ أَوْ مِنْ أَعْقَابِكُمْ فَلْيَأْتِ إِمَامَ أَهْلَ بَيْتِي وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ، فَإِنَّهَا رَايَاتُ هُدًى يَدْفَعُونَهَا إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي، ۔۔۔ فَيَمْلِكُ الْأَرْضَ فَيَمْلَأُهَا قِسْطًا وَعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا؛

عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے، کہ انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت شادمانی کی حالت میں باہر نکلے جب کہ خوشی آپ کے چہرے سے عیاں تھی۔۔۔ یہاں تک کہ بنی ہاشم کے نوجوانوں کی ایک ٹولی وہاں سے گذری جن میں حسن اور حسین (علیہما السلام) بھی تھے تو آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کی حالت متغیر ہوئی اور آپ کی آنکھیں اشکبار ہوئیں۔ ہم نے کہا: اے رسول خدا! ہم آپ کے چہرے میں ایسا کچھ دیکھ رہے ہیں جسے ہم ناپسند کرتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: اللہ نے ہم اہل بیت کے لئے دنیا کے بدلے آخرت کا انتخاب کیا۔ اور میرے بعد میرے خاندان شدید شہر شہر میں جلا وطن کیا جائے گیا، اور انہیں ان کے مقام سے الگ کیا جائے گا، یہاں تک کہ مشرق سے سیاہ جھنڈے اٹھیں گے، تو وہ حق [اور بقول ابن ماجہ ج2، ص1366، خیر] کا مطالبہ کریں گے، تو حق کے غاصبین و قابضین اسے انہیں نہیں دیں گے، دوبارہ مطالبہ کریں گے، اور پھر بھی انہیں نہیں دیا جائے گا۔ چنانچہ وہ جنگ کریں گے اور کامیاب ہونگے، تو تم یا تمہارے احفاد و اعقاب میں سے جو انہیں پائے وہ ہمارے میرے اہل بیت کے امام کی طرف لپکے، خواہ تمہیں گھٹنوں کے بل برف پر گھسٹ کر ہی جانا پڑے؛ یقینا وہ [سیاہ] پرچم ہدایت کے پرچم ہیں جسے وہ [مجاہدین] میرے خاندان کے ایک فرد کے سپرد کریں گے جس کا نام میرے نام سے ملتا ہے۔۔۔ ا نام ہے، تو وہ زمین پر حکومت کرے گا اور اسے عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح کہ اسے ظلم و جور سے پر کیا جا چکا ہوگا"۔ (16)

اس روایت کے آخری جملوں سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ انقلاب حضرت مہدی (علیہ السلام) کے ظہور و قیام سے قبل آنجناب کی عالمی حکومت کے لئے ماحول تیار کرنے کی خاطر بپا ہوگا؛ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے نہ صرف اس انقلاب سے باز نہیں رکھا ہے بلکہ لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ حتی اپنی اولاد و ذریات تک سے کہہ دیں کہ اگر انھوں نے اس انقلاب کو دیکھا تو فورا اس سے جا ملیں اور اس کی حمایت کریں۔ '

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج53، ص8۔

2۔ شیخ حر عاملی، اثباۃ الہداۃ، ج7، ص65؛ وسائل الشیعہ، ج11، ص37۔

3۔ علامہ مجلسی، بحار، ج52، ص303؛ علامہ کلینی، روضۃ الکافی (ج8)، ص264۔

4۔ علامہ کلینی، روضۃ الکافی (ج8)، ص264۔

5۔ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج11، ص35 تا 41۔

6۔ نعمانی، غیبۃ النعمانی، ص172، بحار، ج52، ص366۔

7۔ علامہ مجلسی، بحار، ج52، ص146۔

8۔ شیخ مفید، ارشاد مفید، (فارسی ترجمہ) ج2، ص186۔

9۔ شیخ کلینی، اصول کافی، ج2، ص242۔

10۔ شیخ صدوق، الامالی، 513؛ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج12، ص133۔

11۔ شیخ صدوق، عيون أخبار الرضا (ع)، ج1، ص252؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج46، ص175؛ البحراني، عبد اللہ بن نور اللہ، عوالم العلوم، ج18، ص258۔

12۔ سورہ حج، آیت 78۔

13۔ عيون أخبار الرضا عليہ السلام ؛ ج‏1 ؛ ص249.

14۔ محدث قمی، سفینۃ البحار، ج2، ص446، (واژہ قم)۔

15۔ نساء، 75؛ نیز دیکھئے: بقرہ، 52 و 190 و 193 و 194 و 251؛ بقرہ/193؛ مائدہ، 2 و 32؛ حج 39 و 40؛ ممتحنہ، 8 و 9۔

16۔ الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، (بیروت - 1990)، ج4، ص511؛ سنن ابن ماجہ، ج2، ص1366 ح4082 باب خروج المہدى۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نویسنده : حجت الاسلام و المسلمین محمد محمدی اشتہاردی (رحمہ اللہ)

ترجمہ و تکمیل: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110