اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
ہفتہ

26 مارچ 2022

2:36:04 PM
1242505

رکن اسلامی جہاد تحریک:

سیف القدس کاروائی میں ایران کا کردار / اسلامی انقلاب نے اسلامی جہاد تحریک کو جان دی اور طاقت بخشی

سیف القدس کاروائی میں ایران کا کردار / اسلامی انقلاب نے اسلامی جہاد تحریک کو جان دی اور طاقت بخشی / پابندیوں نے فلسطین کے بارے میں انقلاب کا نقطۂ نظر تبدیل نہیں کیا / ایران غاصبوں کے مقابلے میں فلسطین کا عظیم اتحادی ہے / ملت فلسطین ایرانی موقف کی قدردان ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ فلسطینی اسلامی جہاد تحریک کے رکن شیخ نافذ عزام نے کہا کہ اسلامی انقلاب کے بعد ایران سلامتی اور معیشت سمیت تمام شعبوں میں ایک خودمختار نمونۂ عمل بننے میں کامیاب ہؤا۔
فلسطینی اسلامی جہاد تحریک کے سیاسی دفتر کے رکن شیخ نافذ عزام نے العالم چینل کے پروگرام "ضیف و حِوار" میں حاضر ہوکر کہا: ہم اسلامی انقلاب کی کامیابی کے دنوں میں مصر کی یونیورسٹیوں میں طالب علم تھے اور ان دنوں ہمارا احساس وہی تھا جو پوری امت مسلمہ کا تھا۔ ہم سب ایک طراوت اور سرور محسوس کر رہے تھے، دیکھتے تھے کہ لاکھوں نہتے لوگ سڑکوں پر آتے ہیں اس لئے کہ ایک طاغوتی حکومت کو - جو امریکہ اور اسرائیل کی اتحادی تھی اور اسلام اور عربی و اسلامی امت کو نقصان پہنچانے کے لئے دشمنوں کا آلۂ کار تھی - سرنگوں کریں۔
شیخ نافذ عزام کے بیان کردہ اہم نکات:
ہم سب خوشی اور سرور محسوس کر رہے تھے اور یہ وہی احساس تھا جس سے ان دنوں پورے عرب اور اسلامی ممالک نیز دنیا کے دوسرے خطے بھی گذر رہے تھے۔ دنیا بھر کے انقلابیوں اور حریت پسندوں نے محسوس کیا کہ ایک مسلم آبادی علماء اور دانشوروں کی قیادت میں ایک خونخوار، وحشی اور مطلق العنان استبدادی حکومت پر فتح پا چکی ہے؛ یوں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے ایک بار پھر مسلمانوں اور اسلام کو اعتبار بخشا۔
فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کی تشکیل میں اسلامی انقلاب کا کردار
ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہؤا تو اسی وقت اسلامی جہاد تحریک کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اسلامی انقلاب کی کامیابی نے اس نوبنیاد تحریک میں روح پھونکی اور طاقت عطا کی۔
اسلامی انقلاب کامیاب ہؤا تو اسلامی جہاد تحریک نے اس کے ساتھ فطرتی اور بے ساختہ انداز سے تعامل کیا اور ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کو فلسطین میں اس انقلاب کی کامیابی کی نگاہ سے دیکھا اور اس کامیابی نے فلسطین میں کامیابی کی امید کو تقویت پہنچائی۔
فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کے بانی شہید ڈاکٹر فتحی شقاقی نے اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا اور انھوں نے وسیع پیمانے پر اس احساس کے معرض وجود میں لانے میں کردار ادا کیا اور جو کتاب انھوں نے امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) کی پیرس سے ایران واپسی سے پہلے مصر میں لکھ کر شائع کی، وہ ہماری لائبریریوں میں موجود تھی اور جس وقت امام کی وطن واپسی کے وقت اسلامی انقلاب پایۂ تکمیل کو پہنچا تو یہ کتاب لوگوں کے ہاتھوں میں تھی۔
اسلامی انقلاب نے اسلامی جہاد تحریک کے اراکین کے دلوں میں امید کی شمع روشن کی
سنہ 1950ع‍ کے عشرے سے سنہ 1970ع‍ کے عشرے تک، اسلام پر تنقید ہورہی تھی اور اسی حوالے سے کچھ افکار رائج تھے اور کچھ نعرے اٹھائے جاتے تھے؛ اور کہا جاتا تھا کہ گویا دین اقوام عالم کے لئے افیون ہے اور لاکھوں انسانوں کو سڑکوں پر لانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
اسلامی انقلاب نے ان تمام نعروں اور افکار کو باطل کرکے رکھ دیا جن کی رو سے انسان کی زندگی میں دین کے کردار کو کمزور سمجھا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ دین و مذہب بڑے اور اہم مسائل کا حل پیش کرنے اور معاشرتی تبدیلیاں لانے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور عالمی افکار میں بھی ایک انقلاب پیدا کیا۔ اسلامی انقلاب نے عربی اور اسلامی معاشروں میں بھی ایک انقلاب پیدا کیا اور انقلابیوں، حریت پسندوں اور دنیا کے تمام مستضعفین کی امیدوں کو تقویت پہنچائی، جس کے نتیجے میں ہم نے فلسطین میں محسوس کیا کہ تبدیلی اور کامیابی کا حصول ممکن ہے اور اسلام ایک بار پھر پوری طاقت کے ساتھ عالمی سطح پر ظاہر ہو سکتا ہے اور دین زندگی کا دھڑکتا ہؤا دل ہے اور انسانوں کو متحرک کرنے پر قادر ہے۔
ہم ہمیشہ یہی سمجھ رہے تھے کہ اسلام ہر زمانے اور ہر مقام و سرزمین کے لئے مناسب ہے، لیکن زمینی حقائق مایوس کن تھے اور چیلنج کافی بڑے تھے اور اسلام اور دین و مذہب پر ہونے والی یلغار بھی بہت وسیع تھی اور ایران کے اسلامی انقلاب نے اقوام عالم کی اٹھان کے حوالے سے امیدوں کو تقویت پہنچائی اور اس حقیقت کو درست ثابت کیا کہ اسلام کی طاقت مظلوم اقوام کو ظالم ترین اور آمرترین حکومتوں کے مقابلے میں، حرکت میں لا سکتی ہے اور کامیابی سے ہم کنار کرسکتی ہے۔

امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) نے مسلمان فلسطینی نوجوانوں کو حوصلہ عطا کیا
اسلامی انقلاب کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اس نے استکباری طاقتوں - بالخصوص امریکہ - کے مقابلے میں ایک جدید نمونۂ عمل پیش کیا، جس [امریکہ] نے ہمیشہ سے دنیا پر اپنا تسلط جمانے کی کوشش کی ہے اور آج بھی اس کوشش میں مصروف ہے؛ اور ممالک اور حکومتوں پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ امریکی پالیسیوں کی مخالفت نہ کریں۔
ہمیں اسلامی انقلاب سے پہلے کے سالوں کو یاد رکھنا چاہئے جبکہ شاہ کی استبدادی حکومت مکمل طور پر امریکہ اور اس کی پالیسیوں کی تابع تھی اور اس کو خلیج فارس کے پولیس مین (gendarme) کا لقب دیا گیا تھا اور اس کی ذمہ داری یہ تھی کہ اس خطے میں امریکہ اور غاصب اسرائیلی ریاست کے مفادات کی حفاظت کرے۔ وہ اپنی قوم کو کچل دیتی تھی اور ہر اٹھنے والی صدا کو خاموش کر دیتی تھی اور مساجد کو محدود کر دیتی تھی، علماء اور دانشوروں کو جیلخانوں میں بند رکھتی یا قتل اور جلا وطن کرتی تھی۔
شاہ کے زمانے کا ایران ایک آلہ کار تھا جو امریکہ اور غاصب اسرائیل کے مفادات کے تحفظ پر مامور تھا لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران ایک آزاد اور خودمختار ملک میں تبدیل ہؤا، اس نے خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کیا اور اسرائیل کے سفارتی عملے کو نکال باہر کیا اور فلسطین پہلی بار اس خطے میں ایک ملک کی حیثیت سے ابھرا اور اسلامی انقلاب نے اسرائیلی سفارتخانے کی عمارت کو فلسطین کے سپرد کیا اور تہران میں اس خطے کی پہلی فلسطینی سفارت قائم ہوئی۔ اسلامی انقلاب کے بعد جن فلسطینی راہنماؤں نے ایران کا دورہ کیا ان میں تحریک آزادی فلسطین کے قائد یاسر عرفات مرحوم، شامل تھے۔
ایران نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد مستحکم اور پائیدار اقتصاد، سیاست اور سلامتی کے معاملات میں آزاد نمونۂ عمل کی حیثیت اختیار کرلی۔ ایران اب نمونۂ عمل اور رول ماڈل بننے کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ ایران نے دنیا بھر میں فلسطین کاز نیز مختلف مسائل میں عربوں کی حمایت کی ہے، جس کی وجہ سے عربوں اور مسلمانوں کے دشمن - بالخصوص امریکہ - اس ملک سے ناراض ہیں۔
ایران فلسطین کاز کی حمایت کی قیمت ادا کر رہا ہے
ایران چار عشروں سے مغربی پابندیوں کا سامنا کرتا آ رہا ہے اور اپنی آزاد اور مستقل پالیسیوں نیز سیاست، معیشت، سلامتی اور عقائد و نظریات میں مغرب سے بےنیاز مستقل رول ماڈل میں تبدیلی پر اصرار کی بنا پر آج تک امریکہ اور اس کے حواریوں کی طرف سے پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ایران فلسطینیوں اور عالمی مستضعفین کی حمایت کی قیمت ادا کر رہا ہے، اور فلسطین اور فلسطینی قوم کی حمایت کے حوالے سے ایران کا شجاعانہ موقف ہی اپنے خلاف کئی عشروں سے لگی مغربی پابندیوں کا باعث ہؤا ہے اور ان پابندیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
مغرب اور اس کے حواریوں کی پابندیاں ایران کی پالیسیوں میں تبدیلی کا سبب نہیں بن سکی ہیں اور ایران نے جو نمونۂ عمل دنیا والوں کے سامنے رکھا ہے مغرب اس کا خاتمہ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔
ایران اپنی پالیسیوں، اصولوں اور پروگراموں کا پابند ہے اور مغربی دباؤ اور اشتعال انگیز مغربی اقدامات فلسطین سمیت علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے حوالے سے ایران کی پالیسیاں تبدیل نہیں کرسکے ہیں۔
اسلامی انقلاب کے رہبر امام سید علی خامنہ ای کی شخصیت
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ) کی رحلت کے بعد نہایت دشوار حالات میں ایران کی راہنمائی کی، انہیں بےشمار دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا مگر امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ) کے راستے پر ثابت قدم رہے اور امریکہ اور غاصب اسرائیل دشمن کے دباؤ کا زبردست مقابلہ کیا جبکہ دشمن ایران کے عزم کو کمزور اور اس نمونۂ عمل کا خاتمہ، کرنا چاہتے تھے۔ امام خامنہ ای نے مشکل ترین حالات میں زیرک اور دانشمند قیادت کی مثالیں قائم کر لیں کامیابی کے ساتھ ، اسلامی انقلاب کے اصولوں اور پروگراموں اور اس کے خلوص کو محفوظ رکھا۔
فلسطینی کاز کے حوالے سے ایران کا موقف مستحکم ہے جو کبھی نہیں بدلے گا
فلسطینی کاز کے سلسلے میں ایران کا موقف تبدیل کرنے کے لئے استکبار اور صہیونیت کی کوششوں میں اب تک کوئی کمی نہیں آئی ہے، بے شک یہ ملک اپنا موقف اور عزم تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا اور ہر موقع پر ملت فلسطین کی حمایت پر زور دیتا آیا ہے۔ ہم بھی ہر موقع مناسبت پر اس حقیقت کا آشکارا اعلان کرتے ہیں اور ماضی اور حال میں فلسطین کے حق میں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کا شکریہ کرتے ہیں اور اس کے قدردان ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ غزہ میں اسلامی مقاومتی محاذ اللہ کے فضل سے بہت طاقتور ہے اور یہ اسلامی جمہوریہ ایران کی ہمہ جہت حمایت کا ثمرہ ہے؛ ایران اس سلسلے میں دباؤ کا سامنا کرتا آیا ہے لیکن اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا ہے۔ ایران کے خلاف مغربی دباؤ ماضی میں بھی ناکام رہا ہے اور آج بھی ناکام اور مہمل ہے۔
ایران کی پالیسی ثابت اور مستحکم ہے اور فلسطینی قوم جانتی ہے کہ فلسطین ایران کی حکمت عملیوں میں سرفہرست ہے؛ اور فلسطین کاز کے سلسلے میں ایران کا نقطۂ نظر اس گہرے یقین و اعتقاد سے جنم لیتا ہے کہ فلسطین عربوں اور مسلمانوں کے ہاں کا بنیادی مسئلہ ہے اور روئے زمین پر رہنے والے ہر مسلمان کا بنیادی مسئلہ ہے چنانچہ ایران فلسطین کے سلسلے میں اپنے شرعی فریضے پر عمل پیرا ہے اور زور دے کر اعلان کرتا ہے کہ صہیونی دشمن اور اس کے آقاؤں کے خلاف جہاد میں فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
سیف القدس کاروائی میں ایران کا کردار
ایران ہر قسم کی جارحیت اور قبضے کے مقابلے میں فلسطین کا عظیم تزویراتی اتحادی ہے۔ فلسطین کو ایک صدی سے جارحیت کا سامنا ہے اور فلسطینی قوم مغرب اور امریکہ کے حمایت یافتہ صہیونی دشمن کے خلاف جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ بے شک صرف ایرانی قوم ہے جس نے ہمیشہ فلسطین کاز کی حمایت کی ہے اور کبھی بھی اپنے موقف سے خوفزدہ نہیں ہوئی ہے اور سیف القدس میں ایران کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
سیف القدس نامی کاروائی فلسطینیوں کے حوصلے اور بہادری کا اظہار تھی اور اس کاروائی کے ذویعے دنیا کو یہ پیغام پہنچایا گیا کہ فلسطین کاز زندہ و پائندہ ہے، ملت فلسطین نے غاصبوں کے آگے سرتسلیم خم نہیں کیا ہے اور اسرائیل، مزید، جو چاہے وہ کر نہیں کرسکتا اور اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔

اسلامی دنیا میں مستضعفین کے تئیں میری حمایت
اسلامی جہاد تحریک میں ہمیں امید تھی کہ عرب اور مسلمان ہمارے کندھوں سے کندھے ملائیں اور ہماری حمایت کریں [لیکن بدقسمتی سے بہت سے عرب اور مسلم حکومتیں یہودی غاصبوں کے بغل میں بیٹھ گئے ہیں]۔ بےشک فلسطین کاز امت مسلمہ کا اہم ترین مسئلہ ہے چنانچہ جب ہم عربی اور اسلامی دنیا کے حالات کو دیکھتے ہیں، تو ہمیں صدمہ پہنچتا ہے اور ان جنگوں سے دکھ اور درد محسوس کرتے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہے [جیسے یمن پر سات سالہ سعودی-صہیونی یلغار]۔ چنانچہ جو کچھ اس وقت یمن میں ہو رہا ہے ہم اس پر غمزدہ ہیں اور دکھ محسوس کرتے ہیں چنانچہ ہمیں امید ہے کہ عرب اور اسلامی ممالک میں جاری اس طرح کی جنگیں بند ہو جائیں تاکہ مسلمانوں کی تمام کوششیں اور تمام صلاحیتیں فلسطین کے لئے یکجا اور مسئلۂ فلسطین پر مرکوز ہو جائیں۔
یقینی امر ہے کہ مسئلۂ فلسطین تما عربوں اور مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ ہے، اسرائیل تمام مسلمانوں اور عربوں کے لئے خطرہ ہے اور جو بھی سمجھتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلق قائم کرکے اپنی قوم کو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے، وہ غلطی پر ہے، اور ایسے حکمران اپنی اقوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ ہم مسلمانوں کی باہمی جنگوں سے شدید نقصان سے دوچار ہوتے ہیں، اور ہمیں صدمہ پہنچتا ہے اور ان جنگوں کی بھینٹ چڑھنے والوں کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ مسلمانوں کی تمام تر کوششیں یکجا ہوجائیں، اور مسلمانوں کے تمام ہتھیاروں کا رخ صحیح نشانے کی طرف موڑ دیا جائے اور وہ صحیح نشانہ وہی غاصب یہودی-صہیونی ریاست ہے جس نے فلسطین، بیت المقدس اور مسلمانوں کے قبلۂ اول "مسجد الاقصیٰ" پر قبضہ جمایا ہؤا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منبع: فاران تجزیاتی ویب سائٹ