اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعرات

30 ستمبر 2021

8:57:59 AM
1184548

استاد حوزہ علمیہ قم:

زائرین اربعین اپنے ساتھ کیا تحفہ لے کر جانا چاہیے؟ امریکہ کے ایک شہر کے سارے شیعہ زیارت پر آئے ہیں

حوزہ علمیہ قم کے استاد نے اس سوال کے جواب میں کہ دنیا بھر سے اربعین ملین مارچ میں آنے والے زائرین واپسی پر اپنے ساتھ کیا تحفہ لے کر جائیں؟ کہا: بہترین تحفہ "معرفت امام حسین (ع)" ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ حوزہ علمیہ قم کے بزرگ استاد نے اربعین ملین مارچ میں شرکت کر کے زائرین کی خدمت کی سعادت حاصل کی انہوں نے اس بارے میں کہا: میری زندگی کے سب سے بہترین لمحات یہی ہیں، تمام علمی کام، درس و بحث و دیگر مصروفیات ایک طرف اور یہ کہ چند روز یہاں آئیں اور زائرین کی خدمت کریں یہ ایک طرف۔


حجۃ الاسلام و المسلمین حسین وحیدپور نے ابنا کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: اربعین کے اس جوش و خروش اور اس کی عظمت کو الفاظ حتیٰ تصاویر سے بھی بیان نہیں کیا جا سکتا، میری نظر میں زائرین کا یہ اجتماع اس وسیع و عریض دریا کے مانند ہے جو سمندر سے ملا ہوا ہے۔
استاد وحید پور جو نجف کربلا کے راستے میں واقع موکب آیت اللہ جواد تبریزی میں خدمات انجام دینے میں مصروف تھے ، انہوں نے مزید کہا: زائرین کا یہ جم غفیر معنویت کے اس سمندر میں غوطہ ور ہے تاکہ اپنے دلوں اور روحوں کو پاک کریں۔ یہ دلوں کو دھلنے کا راستہ ہے۔ یہ زائرین ایک دریا کی شکل میں ہیں اور جب کربلا پہنچیں گے تو سمندر سے متصل ہو جائیں گے۔ دریا جب سمندر سے مل جائے تو وہ سمندر ہو جاتا ہے۔ پانی کا قطرہ اگر زمین پر ٹپکتا ہے تو وہ سوکھ جاتا ہے لیکن اگر یہ سمندر تک پہنچ جائے تو وہ پھر سمندر کا حصہ بن جاتا ہے اور ہمیشہ باقی رہتا ہے، زائرین کا یہ دریا جب کربلا پہنچ کر سمندر سے جڑ جائے گا تو پھر پائیدار ہو جائے گا۔
حجۃ الاسلام و المسلمین وحیدپور نے زائرین امام حسین (ع) کی خدمت کو اپنے لیے سب سے بڑا فخر قرار دیتے ہوئے کہا: اس سال ایرانی زائرین کی بہت کمی محسوس ہوئی ہے۔ انہوں نے موکب آیت اللہ جواد تبریزی میں اپنی خدمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس موکب میں تین وقت کی نماز جماعت سے ادا کرتے ہیں، مجلس پڑھتے ہیں، شرعی احکام بیان کرتے ہیں۔
حوزہ علمیہ قم کے استاد نے مزید کہا: اس سال زوار کی تعداد بہت زیادہ تھی، میں نے اس سال دو مرتبہ نجف سے کربلا کا راستہ طے کیا تاکہ یہ اندازہ لگا سکوں کہ پبلک کتنی ہے پچھلے سالوں کی نسبت زائرین کی تعداد میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی، یہ مت سوچیں کہ اگر ایرانی زائرین نہیں آئے تو اربعین کی تحریک میں کوئی کمی ہو جائے گی، نہ یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں سب شریک ہوتے ہیں۔ اس سال امریکہ اور یورپ سے لوگ زیادہ آئے ہیں اربعین میں۔


انہوں نے ایک حیرت انگریز بات بتاتے ہوئے کہا: امریکہ کے ایک شہر میں شیعوں کے تیس گھر ہیں اس سال تیس کے تیس گھرانے اربعین میں شرکت کے لیے آئے ہیں، یعنی یوں کہا جائے کہ امریکہ کے ایک شہر کے رہنے والے تمام شیعہ زیارت سے مشرف ہوئے ہیں۔
انہوں نے عالمی میڈیا کے اربعین سے بائیکاٹ پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا: بعض اوقات ایک معمولی سانحہ دنیا میں رونما ہوتا ہے جو میڈیا کی پہلی سرخی بن جاتا ہے لیکن یہی میڈیا اربعین کے اس عظیم اجتماع کی خبر منعکس کرنے کو تیار نہیں!
استاد وحیدپور نے کہا: کیا یہ عظیم اجتماع جو کرہ ارض پر سب سے بڑا مذہبی اجتماع ہے اس قابل نہیں ہے کہ میڈیا اسے کوریج کرے؟
انہوں نے میڈیا کے سنسر کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا: وہ جانتے ہیں کہ اگر دنیا کے لوگ ان خوبصورت مناظر کو دیکھیں گے تو ضرور یہ سوال کریں گے کہ "حسین کون ہیں؟ کربلا کہاں ہے؟ کیوں اتنے لوگ یہاں اکٹھا ہوتے ہیں؟ یہ سوالات و جوابات عالمی طاقتوں کے فائدے میں نہیں ہیں۔
حوزہ علمیہ کے ماہر استاد نے یہ کہتے ہوئے کہ میری نظر میں اربعین مارچ نہضت عاشورا سے زیادہ اہم ہے، کہا: یقین جانیے کہ نہضت اربعین کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے، میرا یہ ماننا ہے کہ اربعین پیدل مارچ ہر سال پہلے سے زیادہ پرجوش و خروش ہو گی، یہ بات تجربہ سے ثابت ہے۔ دو سال سے عراقیوں نے یہ محسوس کیا کہ ایرانی زائرین کورونا کی وجہ سے عراق نہیں آ پائیں گے لہذا انہوں نے اس خلا کو پر کیا اور پچھلے سال اور اس سال پہلے سے زیادہ عراقی اربعین ملین مارچ میں شریک ہوئے ہیں۔ عراقیوں نے اپنے پورے وجود سے اس نہضت اور تحریک میں شرکت کی اور میدان میں آئے۔
حوزہ علمیہ قم کے استاد نے اس سوال کے جواب میں کہ دنیا بھر سے اربعین ملین مارچ میں آنے والے زائرین واپسی پر اپنے ساتھ کیا تحفہ لے کر جائیں؟ کہا: بہترین تحفہ "معرفت امام حسین (ع)" ہے۔ زائر اربعین معرفت کے ساتھ یہاں آیا ہے، چونکہ اگر معرفت نہ ہوتی تو ہرگز یہاں نہ آتا یہ عشق، معرفت اور شوق ہے جو یہاں لے کر آتا ہے اس لیے کہ انسان کے بدن میں ایسی کشش ہونا چاہیے جسے کربلا کا مقناطیس اپنی طرف کھینچ سکے۔ عراق کے دوسرے شہروں کا راستہ بہت زیادہ لمبا ہے بعض شہروں سے ۱۵ دن کا راستہ ہے۔ لوگ یہ راستہ طے کر کے آتے ہیں یہ سوائے عشق و محبت کے اور کچھ نہیں ہے۔


حجۃ الاسلام وحید پور نے زور دے کر کہا: زائر اس راستے میں ہر طرح کی مشکل برداشت کرتا ہے، مریض ہوتا ہے، عراق کی گرمی تحمل کرتا ہے گرد و غبار میں آلودہ ہوتا ہے، یہ کام سوائے عشق کے نہیں ہو سکتا، اگر زائر سید الشہداء (ع) کے وجود سے عشق نہ رکھتا ہوتا تو کبھی ایسا نہ کرتا لہذا اس سفر میں انسان اپنی اس معرفت میں اضافہ کر کے جائے اور اپنے ساتھ معرفت کو ہمیشہ کے لیے بطور تحفہ لے کر جائے۔
انہوں نے کہا کہ زائر کو چاہیے کہ وہ اس معرفت کے تحفہ کو لے جا کر دوسروں کو بھی ہدیہ کرے ایک دینی مبلغ کی طرح اپنے اطراف و اکناف میں رہنے والے افراد کو امام حسین کی معرفت دلائے۔ تاکہ حسینی ثقافت پوری دنیا میں پھیل سکے۔

............

242