اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
ہفتہ

25 ستمبر 2021

8:19:31 AM
1182779

بائیڈن کی بحران زدہ خارجہ پالیسی؛

افغانستان میں امریکہ کی چار بڑی ناکامیاں امریکی تھنک ٹینک کا تجزیہ/ امریکہ اپنے حلیفوں کے لئے مزید قابل اعتماد نہیں ہے

ایک امریکی تھنک ٹینک نے اعتراف کیا کہ افغانستان سے انخلاء میں امریکہ کی نااہلی خارجہ پالیسی کے لئے بدترین نتائج کا حامل ہے/ یہ ایران میں امریکی یرغمالیوں کے بحران سے ملتا جلتا ہے اور یہ غیرمعمولی طور پر بڑا بحران ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ امریکی تجزیہ نگار، "یورو ایشیا گروپ" نامی تھنک ٹینک کا بانی اور سربراہ - جو عالمی خطرات کے سلسلے میں مشاورت و تحقیق کے شعبے میں سرگرم عمل ہے - نیز "گراؤنڈ زیرو میڈیا" کے ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ کا بانی، ایان برمر لکھتا ہے: طویل ترین عسکری مہم جوئی اور امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا نہایت بلاتکلف انخلاء عمل میں آچکا ہے۔ اس جنگ کے آغاز کی کیفیت، جنگ کے تسلسل، اس پر اٹھنے والے اخراجات اور جانی نقصانات کو شدید ملامت و مذمت کا سامنا کرنا پڑے گا، اور بلاشک اس پر بہت ساری کتابیں لکھی جائیں گی۔ لیکن فی الحال ہمیں افغان جنگ کے اختتام کے سلسلے میں امریکہ کی نا اہلیوں کا جائزہ لینا ہے۔
رپورٹ کے خاص نکتے:
افغانستان سے امریکی انخلاء کا عمل ایک بڑی رسوائی
جس پالیسی سے میں متفق ہوں، میں اسے ایک حقیقی تزویراتی حکمت عملی ہے، وہ یہ ہے کہ سابقہ حالات اور طالبان کی پیش قدمی اور اقتدار تک پہنچتے وقت، یا تو ہمیں اپنی افواج میں اضافہ کرنا چاہئے تھا یا پھر وہاں سے نکلنا چاہئے تھا۔ تاہم اس سلسلے کا انتظامی عمل رسوا کن تھا۔ ہمیں اس سے پہلے ایران میں یرغمالیوں کا بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کی رہائی میں ناکام ہوچکے تھے، اور اس بحران کے بعد، افغان جنگ کا خاتمہ، عظیم ترین بحران تھا جس کا ہمیں سامنا کرنا پڑا، اور اس کے نتائج کئی گنا خطرناک ہونگے۔ یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔ ہم امریکہ کی اندرونی پالیسیوں میں بھی عظیم تر بحرانوں سے گذرے ہیں جن میں سے ایک 6 جنوری 2021ء کا بحران تھا، لیکن خارجہ پالیسی میں افغانستان سے انخلاء، عظیم ترین بحران ہے۔
افغان جنگ سے انخلاء کی کیفیت میں بائیڈن کی چار ناکامیاں
غلطی کہاں ہوئی؟ میرے خیال میں بائیڈن کے زیر انتظام معاملات میں ہمیں چار ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے:
1۔ پہلی ناکامی ایک عسکری اور معلوماتی شکست تھی۔ بائیڈن نے اگست میں اعلان کیا کہ امریکی افواج 11 ستمبر کو افغانستان سے خارج ہونگی۔ اس مرحلے میں امریکی خفیہ ایجنسیوں نے کہا کہ افغانستان کی دفاعی افواج دو یا تین سال تک طالبان کو پسپائی پر مجبور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ طالبان نے پیش قدمی کا آغاز کیا تو ان ایجنسیوں کی مقرر کردہ مدت [دو یا تین سال] دو یا تین دن تک کم ہوگئی۔ میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کبھی بھی اتنی بڑی معلوماتی شکست نہیں دیکھی تھی۔ یہاں دو حقیقتیں ایسی ہیں جو حقیقتا جان لیوا ہیں: پہلی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے 20 سال تک، تقریبا 90 ارب ڈالر، افغانستان کی دفاعی افواج کی تربیت پر خرچ کئے، لیکن ان افواج نے وقت آنے پر لڑنے سے انکار کیا۔ دوسری حقیقت یہ کہ امریکہ نے دو دہائیوں تک براہ راست، افغان افواج کو تربیت دی تھی لیکن ابھی تک ان کی صلاحیت اور ہمت و حوصلے سے بےخبر تھا۔
امریکی حلیف مایوس ہوگئے
دوسری شکست ہم آہنگ کرنے کے حوالے سے ہمارے حصے میں آئی۔ امریکہ دو عشروں تک ہمارے حلیفوں کے دوش بدوش لڑا۔ 11 ستمبر 2001ء کے واقعے کے بعد امریکہ نے ان سے کہا کہ کہ آکر ہماری افواج کے ساتھ مل کر لڑیں؛ انھوں نے امریکی درخواست کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اور شجاعت و بہادری کے ساتھ لڑے اور جانی نقصانات برداشت کئے؛ لیکن انخلاء کے وقت صدر بائیڈن نے ان سے مشورہ نہیں کیا۔ انھوں نے صرف فیصلہ سازی، فیصلے کے اعلان اور جاری پالیسیوں کو مد نظر رکھا؛ جیسے: کیا ہمیں پناہ گزینوں کو قبول کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے، اور یہ کہ کیا انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کریں یا نہ کریں، یا پھر ان دو مسئولوں کو کس طرح حل کریں؟ حتی افغانستان میں امریکی سفیر کے کردار جیسے امور کو نظرانداز کیا گیا اور افغانستان میں امریکہ کا عبوری سفیر، کابل چھوڑ کر بھاگ گیا، جبکہ برطانیہ کا سفیر بدستور کابل میں تھا اور اپنے باشندوں کے انخلاء کے لئے کوشاں تھا۔ ہم اس قدر سادہ سے معاملے میں اپنے حلیفوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے میں ناکام کیوں ہوئے؟ ہمیں ہم آہنگی کے شعبے میں اس قدر عظیم شکست برداشت کرنا پڑی ہے اور ہمارے حلیف اس صورت حال سے مایوس ہوچکے ہیں اور وہ اپنی مایوسی کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ وہ چند ماہ پہلے امریکہ سے اپنی مایوسی کا در پردہ اظہار کررہے تھے لیکن اب وہ اعلانیہ اپنی ناامیدی کا اظہار کررہے ہیں۔
انخلاء کے لئے منصوبہ بندی کا فقدان بہت لرزہ خیز ہے
تیسری شکست کا تعلق منصوبہ بندی کے مسئلے سے تعلق رکھتی ہے۔ معلوماتی خطا اور ہم آہنگی میں ناکامی کو برداشت کیا جاسکتا ہے، لیکن اگر ثانوی منظر ناموں کے لئے منصوبہ بندی کی جا چکی ہوتی تو اتنا بڑا المیہ رونما نہ ہوتا۔ حالات ہمیشہ توقع کے مطابق نہیں رہتے اور امریکی معلوماتی اور عسکری اداروں نے تاریخی لحاظ سے اس موضوع کو مد نظر رکھا ہے۔ اس مسئلے کو مد نظر رکھ کر، منصوبہ بندی کے شعبے میں شکست لرزہ خیز ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق، ہم افغانستان میں منصوبہ بندی کے لحاظ سے پوری طرح ناکام تھے۔ امریکہ نے اپنے نظام الاوقات کے مطابق عمل کیا اور مجبور ہوکر افغانستان سے انخلاء کے لئے امریکہ ہی سے فوجی دستے افغانستان روانہ کئے۔ 6000 امریکی فوجی افغانستان بھیج دیئے گئے، یہ تعداد ابتدائی مرحلے میں افغانستان سے نکلنے والی نفری سے زیادہ تھی۔ امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے والے لاکھوں افغانیوں کی سلامتی کے تحفظ کے لئے ہونے والی منصوبہ بندی بھی نہایت کمزور تھی اور ان میں سے ایک بڑی تعداد افغانستان میں رہنے پر مجبور ہوئی۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ جان کی بازی ہار جائیں گے۔ ان سارے کاموں کی انجام دہی انخلاء سے قبل کے مہینوں میں ممکن تھی اور اس مرحلے میں ان کاموں کو انجام دینا چاہئے تھا۔ بہت عجیب ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہؤا۔
بائیڈن کی الٹی پیش گوئی
بالآخر چوتھی شکست، رابطہ برقرار کرنے سے متعلق تھی۔ اب آپ سب نے 8 جولائی کی ویڈیو رپورٹوں کو دیکھ لیا ہے، جن میں صدر بائیڈن افغانستان سے انخلاء کے سلسلے میں امریکیوں کو یقین دہانی کرا رہے ہیں اور پورے افغانستان پر طالبان کے تسلط کے امکان کی نفی کررہے ہیں۔ انھوں نے بڑے اصرار کے ساتھ کہا: "ایسی صورت حال پیش آنے کا امکان نہیں ہے کہ ہمیں افراد کو سفارتخانے کی چھت کے راستے سے نکالنا پڑے، صورت حال 1975ء ویت نام کے علاقے سایگون سے انخلاء کی طرح نہیں ہوگی"۔ یہ پیش گوئی فوری طور پر الٹ گئی، لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے اور سنتے رہے کہ بائیڈن، ان کے وزیر خارجہ اور وائٹ ہاؤس کے دوسرے اہلکار اپنے اعلانیہ موقف کے ضمن میں، افغانستان سے انخلاء کو "کامیاب" بتا رہے ہیں؛ ایسے دعوے جو نہایت حیرت انگیز تھے۔ صدر بائیڈن نے اس بحران کے بالکل وسط میں، کیمپ ڈیوڈ میں چھٹیاں منانے کو ترجیح دی۔ انھوں نے ایک تصویر شائع کروائی جس میں وہ اپنے قومی سلامتی کے مشیروں سے صلاح مشورہ کرتے دکھایا گیا تھا جبکہ ان مشیروں میں سے کوئی ایک بھی کیمپ ڈیوڈ میں موجود نہ تھا! اور انٹرنیٹ کے ذریعے صدر کے ساتھ رابطے میں تھے۔ یہ مسئلہ بھی بہت زیادہ عجیب ہے۔
غلطی ایسی کہ، بائیڈن کو صدارتی عہدے سے محروم کرسکتی ہے
اب موجودہ صورت حال کے پیش نظر، میرا خیال نہیں ہے کہ افغانستان سے انخلاء کا بحران امریکی عوام اور صدر بائیڈن کے لئے سایگون کے بحران سے قابل قیاس ہوگا۔ اس بات کے لئے میرے پاس کئی ثبوت ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے سماجی رابطے کی ویب گاہوں میں موجود اور موجودہ صورت حال پر تنقید کرنے والے اہلیان سیاست کے سوا، باقی عوام کے لئے افغانستان کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ انخلاء کے حامی ہیں۔ ہم اگلے ایام، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں، انسانی حقوق کے سلسلے میں قساوتوں کے شاہد ہونگے۔ لیکن یہ واقعات عوام پسند پالیسیوں میں تبدیلی کا سبب نہیں ہونگے۔ بہر صورت، کام ابھی ختم نہیں ہؤا، حالات اس سے کہیں زیادہ خراب ہوسکتے ہیں۔ یہ امکان پایا جاتا ہے کہ امریکہ اور طالبان ایک بار پھر آپس میں لڑ پڑیں؛ یہ امکان پایا جاتا ہے کہ امریکی مارے جائیں، اغواؤں اور یرغمال بنانے کا بحران ممکن ہے، اور اگر ایسا کوئی واقعہ رونما ہوجائے تو ایران میں یرغمالیوں کا واقعہ دہرایا جاسکتا ہے، اور یہ صورت حال صدر بائیڈن کے صدارت سے محروم ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔
امریکہ ناقابل اعتماد ہے
میرا خیال ہے کہ اندرون ملک صورت حال اس "ناکام سرخ لکیر" کی مانند ہے جو اوباما نے شام کی حکومت کے لئے وضع کی تھی۔ اوباما نے کہا: "اسد کو جانا چاہئے!"، لیکن اسد کہیں بھی نہیں گئے۔ لیکن یہ صورت حال بین الاقوامی سطح پر کچھ زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ امریکہ کے حلفاء کو امید تھی کہ وہ بھی بائیڈن کے منصوبے کا حصہ بنیں اور ایک مشترکہ منصوبے کے تحت سب مل کر افغانستان کو ترک کریں، لیکن اب ان کا احساس یہ ہے کہ امریکہ انفرادی طور پر اقدام کرتا ہے اور یکطرفہ کاروائی کرتا ہے اور اس پر اعتماد اور بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ چین اور روس کے بارے میں تو میرا نہیں خیال کہ بالٹک کا علاقہ یا تائیوان کے مسئلے میں ان ممالک کے لئے کوئی مشکل پیش آئے گی۔ میری رائے کے مطابق، اعتقادی اور آئیڈیالوجیکل لحظ سے، اس بیانیے پر ان کے رجحان اور ان کی قوت کا ارتکاز، - کہ امریکہ بین الاقوامی مشروعیت (International Legitimacy) کھو چکا ہے، - دوسرے ممالک کے ہاں بھی امریکی چہرے کو مخدوش کر دیتا ہے، اور یہ ارتکاز نہ سخت اور نہ نرم موقف پر منتج ہوتا ہے اور ایسی دنیا کو رقم کرتا ہے جس میں امریکہ کے ہاتھ میں سیاسی اور معاشی دباؤ کا کوئی کوئی ذریعہ باقی نہیں رہے گا اور ہر کوئی اپنا راستہ خود چن لے گا، اور یہ دنیا وہ دنیا نہیں ہے جس میں ہم امریکی رہنا پسند کرتے ہیں! [یعنی ایسی دنیا جس میں امریکہ کی من مانیاں بےمعنی ہونگی]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110