اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
ہفتہ

28 اگست 2021

2:25:19 PM
1174234

ڈاکٹر رجبی دوانی:

اسلامی مقاومت مکتب عاشورا سے جنم لیتی ہے/ حسینی دور کی جاہلیت نبوی دور کی جاہلیت سے بدتر تھی

حکومت حق عوام کے تعاون کے بغیر قائم نہیں ہؤا کرتی؛ جب کوفہ نے حکومت حق کے قیام کا ارادہ ظاہر کیا تو امام حسین علیہ السلام پر واجب ہؤا کہ ان کی دعوت قبول کریں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ عاشورا محض ایک تاریخی واقعہ نہیں تھا بلکہ ایک دائمی ابدی ثقافت و تہذیب اور امت مسلمہ کے لئے دائمی نمونۂ عمل اور لایحۂ عمل ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (ادام اللہ ظلہ العالی) فرماتے ہیں: "امت مسلمہ کو کبھی بھی واقعۂ عاشورا کو - بطور ایک درس، بطور ایک عبرت، بطور پرچم ہدایت - نظر سے دور نہیں کرنا چاہئے۔ یقینا اسلام کی حیاتِ دوبارہ / نَشأَتِ ثانیہ عاشورا اور حسین بن علی علیہما السلام کی مرہون منت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا "وَأنَا مِن حسينٍ" (1) اس ارشاد نبوی کے مطابق، آپ فرما رہے ہیں کہ میرا دین، میرے مشن کا دوام و استمرار حسین علیہ السلام کے ذریعے ہے۔ (1 آذر 1391ھ ش)
قیامِ ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام اور آپ کے قیام کے اسباق اور عبرتیں، ایک مکالمے کا موضوع ہیں جو رہبر انقلاب کی ویب گاہ [KHAMENEI[.]IR نے تاریخ اسلام کے ماہر اور جامعہ کے پروفیسر ڈاکٹر محمد حسین رجبی دوانی کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔
سوال: قیام امام حسین علیہ السلام کے بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے، کیا امام کا قیام محض ظلم و ستم کے خاتمے کی غرض سے تھا یا آپ کے مقاصد میں حکومت کا قیام اور دینی حکمرانی کو عملی جامہ پہنانا بھی شامل تھا؟
جواب: پہلے درجے پر امام حسین سلام اللہ علیہ کا فریضہ یزید کی حکمرانی کے مدمقابل نہی عن المنکَر سے عبارت تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یزید کا برسراقتدار آنا سب سے بڑا مُنکَر تھا اور یزید کا اقتدار لوگوں کے دین، دنیا اور آخرت کو خطرے میں ڈال رہا تھا اور اسلام کو نابودی کے خطرے سے دوچار کررہا تھا؛ کیونکہ یزید کا برسر اقتدار آنے کا انداز بھی شرع مبین، عرف اور اخلاق کے خلاف تھا؛ کیوں؟
اولاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے فرمان کے مطابق، اسلام کسی کو بھی یہ اجازت نہيں دیتا کہ - جو لوگ خدا کے عہد و پیمان کو توڑتے ہیں یا سنت نبویہ کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اللہ کے حرام کو حلال کرتے ہیں، لوگوں پر ظلم اور جبر روا رکھتے ہیں - وہ مسلمانوں کے معشرے کے حکمران بنیں۔
ثانیاً: یزید کا اقتدار پر مسلط ہونا عرف کے بھی خلاف تھا، کیونکہ اس سے قبل معاشرے میں یہ بات تسلیم نہیں کی گئی تھی اور اس سے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں ہؤا تھا کہ ایک خلیفہ اپنے جانشین کو اپنے خاندان سے چن لے اور اپنے بیٹے کو معاشرے پر مسلط کرے۔ چنانچہ یہ عرف کے خلاف تھا۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام کو امیرالمؤمنین علیہ السلام نے بلکہ کوفہ کے عوام کی خواہش اور بیعت کی بنا پر، خلیفہ مسلمین کے طور پر متعین ہوئے تھے۔
ثالثاً: یہ یزید کا تقرر اخلاقی لحاظ سے بھی ایک مُنکَر اور برائی سمجھا جاتا تھا؛ کیونکہ معاویہ نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ صلح نامے کی دستاویز میں اپنے آپ کو پابند کردیا تھا کہ وہ اپنے بعد اپنا جانشین مقرر نہیں کرے گا اور اگر دنیا سے رخصت ہؤا تو اام حسین علیہ السلام اور آپ کے بعد امام حسین علیہ السلام مسلمانوں کے خلفاء ہونگے۔
یہ ایک اصول تھا جس کی بنا پر امام حسین علیہ السلام کا فرض بنتا تھا کہ اس قسم کی برائی کے مد مقابل کھڑے ہوجائیں، لیکن جس وقت یزید لعنۃ اللہ علیہ کی طاغوتی حکمرانی کے خلاف امام حسین علیہ السلام کی استقامت کی خبر کوفہ پہنچی بو تو انھوں نے کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور امام حسین علیہ السلام کو کوفہ آنے اور یہاں کے عوام کی مدد سے اموی حکمرانی کا خاتمہ کریں اور اہل بیت علیہم السلام کی حکمرانی کو عملی جامہ پہنائیں۔
ہم جانتے ہیں کہ اسلامی معاشرے پر حکومت امام معصوم علیہ السلام کے اختیارات اور حقوق میں شامل ہے، لیکن چونکہ عوام میں بھی اس مہم کی قبولیت کی استعداد اور آمادگی ہونا چاہئے تھی - اس لئے کہ عوام کی اطاعت اور معاونت کے بغیر حکومت حق کا قیام ممکن نہيں ہے؛ لہذا جب کوفی عوام نے خود ہی یہ درخواست پیش کی تو امام حسین علیہ السلام پر واجب ہؤا کہ عوام کی درخواست کو مثبت جواب دیں اور کوفہ کی طرف عزیمت اختیار کریں۔ بالفاظ دیگر، کہا جاسکتا ہے کہ اس صورت حال میں امام حسین علیہ السلام پر نئی ذمہ داری اور نیا فریضہ عائد ہؤا اور وہ فریضہ یہ تھا کہ آپ حالات فراہم ہونے پر حکومت قائم کرتے۔ لہذا اس لحآظ سے امام کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ عظیم ترین معروف (اور اچھائی) یعنی اہل بیت علیہم السلام کی حکمرانی کا قیام عمل میں لائیں لیکن بدقسمتی سے، کوفیوں کی خیانت کی وجہ سے یہ مہم انجام کو نہ پہنچ سکی۔
سوال: یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ افراد کے کچھ لوگوں، سفید ریش بزرگوں اور دوسرے لوگوں نے امام حسین علیہ السلام سے سفارش کررہے تھے کہ آپ مکہ سے باہر نہ نکلیں، ان لوگوں کے دلائل کیا تھا؟ بالفاظ دیگر معاشرے کے خواص اور اکابرین یزیدی انحراف کے سامنے خاموشی اور انفعالیت سے کیوں دوچار ہوئے؟
جواب: جب مدینہ میں یزید کے گورنر ولید بن عتبہ بن ابی سفیان نے امام حسین علیہ السلام کو بیعت کرنے یا قتل ہوجانے کے درمیان قرار دیا تو آپ نے مدینہ چھوڑ کر مکہ کی طرف ہجرت کی۔ ہجرت کے وقت ایسی کوئی مستند روایت ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ کوئی آپ کی راہ میں حائل ہؤا ہو، یا کسی نے کوئی سفارش کی ہو کہ آپ مدینہ سے ہجرت نہ کریں۔ لیکن مکہ میں آپ نے چار مہینے اور کچھ دن قیام کیا اور فیصلہ ہؤا کہ کوفہ کی طرف عزیمت کریں، تو محمد بن حنفیہ، عبداللہ بن جعفر اور عبداللہ بن عباس سمیت کچھ رشتہ داروں نے آپ سے عرض کیا کہ کوفہ کی طرف نہ جائیں کیونکہ وہاں کے لوگ اس سے پہلے امیرالمؤمنین اور امام حسن علیہما اسلام سے غداری کرچکے ہیں۔ کچھ لوگوں نے آپ کو تجویز دی کہ یمن یا پھر کسی سرحدی علاقے کی طرف ہجرت کریں تا کہ محفوظ رہیں۔
ان لوگوں کے علاوہ، امام حسین علیہ السلام نے عبداللہ بن عمر جیسے افراد کو دعوت دی کہ آپ کی مدد کو آئیں، لیکن انھوں نے آپ کی دعوت کو قبول نہیں کیا۔ ان کا مدعا یہ تھا کہ امام کی جان کو خطرہ لاحق ہوگا، حالانکہ وہ اس حقیقت کے ادراک سے عاجز تھے کہ یہ امام کی جان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک دینی فریضہ اور شرعی ذمہ داری ہے اور امام کو اپنی ذمہ داری پر عمل کرنا چاہئے، خواہ اس راستے میں آپ کے مقدس وجود کو خطرات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ لہذا یہ افراد نہ صرف امام کے فریضے کے صحیح ادراک سے عاجز تھے، بلکہ ہمدردی کی رو سے آپ کی عزیمت کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے اور گویا دعوی کررہے تھے کہ "ہم مصلحتوں کو امام سے بہتر سمجھتے ہیں!"۔ افسوس کا مقام ہے کہ ایسے افراد نہ خود امام کا ساتھ دیتے ہیں اور نہ ہی اپنے قریبی لوگوں کو امام کا ساتھ دینے کی اجآزت دیتے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ معاذ اللہ یہ لوگ کوفہ کی طرف امام کی عزیمت کو ایک خطا سمجھتے تھے۔ اور پھر امام کا مکہ میں قیام بھی ان کے مفاد میں نہیں تھا کیونکہ مکہ میں آپ کے ہوتے ہوئے یہ لوگ امن سے نہیں رہ سکتے تھے؛ اس لئے کہ یزید لعنہ اللہ نے مکہ کے لئے نیا والی مقرر کیا تھا جو امام کو حج کے ایام میں اچانک نشانہ بنانے کا منصوبہ ساتھ لایا تھا۔ وہ حج کے موقع پر امام کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ ادھر امام واپس مدینہ نہیں جاسکتے تھے تو اس لحاظ سے بھی کوفہ جانے کا فیصلہ، موزون ترین تھا جہاں کئی حاضر مسلح افراد موجود تھے جو جنگ کا وافر تجربہ رکھتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ معاشرے کے خواص اور اکابرین یزید کی طرف سے اسلام کے انحراف کے سامنے انفعالیت اور خاموشی سے کیوں دوچار ہوئے؟ جواب یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کے خواص اور ممتاز افراد صلح امام حسین علیہ السلام کے بعد، معاویہ کے دور حکومت میں، وسیع دگرگونیوں اور انحرافات کا شکار ہوچکے تھے۔ بعض اکابرین اور ممتاز افراد کو - جو شیعیان اہل بیت اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے، - کو کچل ڈالا تھا، ان میں سے بہت سے افراد شہید ہوچکے تھے یا پھر جلاوطنی کی زندگی گذار رہے تھے۔ لہذا جو لوگ معرفت و بصیرت رکھتے تھے، ان کی تعداد بہت قلیل تھی اور عبداللہ بن جعفر، عبداللہ بن عباس جیسے نمایاں افراد اہل بیت علیہم السلام کی ولایت و امامت کے سلسلے میں بہت کم معرفت رکھتے تھے، ادھر ان میں سے کئی افراد کو بنی امیہ نے خرید لیا تھا اور یہ لوگ امویوں کی طرف چلے گئے تھے۔ کچھ لوگ عافیت طلبی میں مبتلا ہوئے تھے اور اپنی جان کی حفاظت کی خاطر، امام حسین علیہ السلام کی نصرت کے لئے تیار نہیں تھے، چنانچہ انھوں نے اس انحراف کے سامنے خاموشی اختیار کی۔
زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس زمانے کے خواص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے سن چکے تھے کہ "بنی امیہ کی حکومت حرام ہے" اور "اگر تم معاویہ کو منبر پر بیٹھے دیکھا تو اسے اتار کر قتل کرو"، اور امام حسن اور امام حسین علیہما السلام بھی صراحت کے ساتھ انہیں اس فرمان نبوی کی یاد دہانی کرا چکے تھے؛ تاہم معاشرے کے خواص جو سقیفہ کی سازش کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے راستے سے منحرف ہوچکے ہیں، وہ نہ صرف امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خلافت کے دوران آپ کی مدد نہیں کریں گے بلکہ جنگ صفین میں فتح کامل کی آمد پر ہی امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھ خیانت اور غداری کرتے ہیں اور جنگ کے خاتم پر حَکَمِیَت کو آپ پر ٹھونس دیتے ہیں اور حکومت حق کی شدید کمزوری کے اسباب فراہم کرکے معاویہ کو تقویت پہنچاتے ہيں؛ حتی عبداللہ بن عباس جیسے خواص نے معاویہ اور یزید کے ہاتھوں پر بیعت بھی کی اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اموی خائن اور غاصب ہیں اور یہ لوگ خود بھی انہیں غاصب اور خائن سمجھتے ہیں، لیکن پھر بھی سوچتے تھے کہ شاید مختلف قسم کے واقعات میں اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں گے۔
سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد اسلامی معاشرہ ان حالات و کیفیات سے کیوں دوچار ہؤا، کہ اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کو اتنےعظیم مصائب اور المیوں کا سامنا کرنا پڑا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے وصال کے چند ہی عشرے بعد کس قسم کے اسباب معرض وجود میں آتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ اس قدر شدید انحراف، بدعت اور راہ اسلام سے دوری سے دوچار ہوجاتا ہے؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے دوران رسالت جاہلیت میں ڈوبے ہوئے عربی معاشروں کو الہی اقدار تک پہنچانے کے لئے اپنی پوری صلاحیتوں سے استفادہ کیا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آنحضرت پر ایمان لانے والوں ـ حتی کہ سابقون - کے درمیان ایسے افراد کی کمی نہیں تھی جو اقدار کی تبدیلی کے لئے مکمل طور پر آمادہ نہیں تھے۔ لہذا جاہلیت - بشمول قبائلی تعصب، اپنے خاندان اور قبیلے کے لئے زیادہ سے زیادہ فخر و اعزآز کے حصول کے جذبات، دوسرے خاندانوں اور قبائل کے ساتھ حسد اور مسابقت وغیرہ جیسے احساسات - کے آثار ان میں بدستور باقی تھے؛ چنانچہ 23 سالہ دور رسالت کے بعد جب امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت کا مرحلہ آن پہنچتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو خوف ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت سے اصحاب آپ کی ولایت کے اعلان کو برداشت نہ کریں اور اسے قبول نہ کریں۔ یہاں تک کہ اللہ نے آپ سے ارشاد فرمایا کہ "... جو اللہ کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے ... اللہ لوگوں [کے شر] سے آپ کی حفاظت کرے گا..."۔ (مائدہ 67) اب سوال یہ ہے کہ آپ کو کن لوگوں کی شرانگیزی سے خطرہ لاحق تھا؟ اس شرانگیزی کا خطرہ ان ہی مسلمانوں کے اندر کچھ افراد اور جماعتوں کی طرف سے تھا جو مسلمان تھے اور حج میں آنحضرت کے ساتھ تھے اور اب حج سے واپسی کے سفر پر تھے۔ چنانچہ جاہلیت اور انحراف کے آثار ان میں ہنوز باقی تھے۔ البتہ خداوند متعال نے ان آثار کے مٹانے اور اپنے پیغمبر کے اقدامات کو آگے بڑھانے اور یہ ضمانت فراہم کرنے کے لئے - کہ آپ کے وصال کے بعد بھی لوگوں کا دین صحیح راستے پر قائم و دائم رہے - اہل بیت علیہم السلام کی ولایت و امامت کی تدبیر اور تشریح فرمائی۔
معاشرے کے درمیان الہی اقدار کی پذیرائی کے لئے - اس انداز سے کہ لوگ اپنے قومی، جماعتی اورگروہی مفادات کو دینی مصلحتوں اور تعلیمات پر ترجیح نہ دیں اور مقد نہ رکھیں - کافی وقت درکار ہے۔ تبلیغ رسالت انجام پا چکی تھی لیکن کچھ لوگ کچھ عرصے تک اپنے بتوں کے تحفظ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ پر ایمان لائے تھے، یا آپ سے کہہ دیتے تھے کہ "ہم ایمان لاتے ہیں لیکن آپ اجازت دیں کہ ہم نماز نہ پڑھیں!"؛ بہت سے لوگوں کا رویہ یہ تھا۔ اللہ کے ہاں طے یہ تھا کہ امامت اور ولایت اس سلسلے کو عروج تک پہنچائے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے وصال کے دن ہی سقیفہ بنی ساعدہ کی خیانت کے ذریعے انحراف کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور ایسے لوگوں نے اقتدار سنبھالا جنہوں نے دین میں تحریف کا ارتکاب کیا اور دین میں بدعتوں کی بنیاد رکھی؛ کیوں؟ اس لئے کہ معاشرے نے ولایت کا دامن چھوڑ دیا اور بدعتوں اور انحرافات کو قبول کرلیا۔
یہ معاشرہ جتنا آگے بڑھتا گیا حالات خراب تر ہوئے یہاں تک کہ 50 سال بعد، یہ معاشرہ دوران جاہلیت سے بھی بدتر ہؤا؛ یعنی انھوں نے اسلام کی ناقص اور ظاہری صورت کو اختیار کرلیا تھا لیکن اندر سے اس قدر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی تعلیمات سے دور ہوچکے تھے کہ سابقہ جاہلیت سے کئی گنا بڑی جاہلیت ان کے ہاں پلٹ آئی؛ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ امام حسین علیہ السلام فرزند رسول ہیں، نہ صرف آپ کی مدد کو نہیں آتے بلکہ آپ کے خلاف تلوار لے کر میدان میں آتے ہیں اور آپ کو شہید کردیتے ہیں؛ اور اتنا عظیم اور المناک واقعہ رونما ہوتا ہے جس کا وقوع حتی کہ جاہلیت کے زمانے میں بھی ممکن نہيں تھا!

سوال: اسلامی معاشرے پر ظلم و جبر اور انحراف و بدعت کے خلاف امام حسین علیہ السلام کے قیام کے سیاسی اور سماجی اثرات کیا تھے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے وصال کے بعد غصبِ خلافت کے نتیجے میں یہ غلط تصور مسلمانوں کے درمیان ابھرا اور مستحکم ہؤا کہ جو بھی شخص جس انداز سے بھی، برسر اقتدار آتا ہے، وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کا خلیفہ اور جانشین ہے، چنانچہ اس کی اطاعت واجب ہے اور کسی کو بھی "کسی صورت میں بھی!" اس کے خلاف اٹھنے اور اس کا مقابلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ تصور اس معاشرے میں مستقر ہوچکا تھا جس نے اہل بیت علیہم السلام کی ولایت کو قبول نہیں کیا تھا؛ البتہ جو لوگ اہل بیت علیہم السلام کی امامت و ولایت کے معتقد تھے، انہیں معلوم تھا کہ یہ حکمران شرعی اور دینی جواز کے بغیر برسر اقتدار آئے ہیں اور غاصب ہیں؛ اور معاشرے کو اس عظیم تباہی سے آگاہ کرنا چاہئے تاکہ لوگ خود ہی حق و حقیقت کا ادراک کریں اور اپنے آپ کو بھی، اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اور دین اسلام کو بھی اس قسم کی بدعت و انحراف سے نجات دلانا چاہئے؛ لیکن جو لوگ ولایت اہل بیت علیہم السلام پر یقین نہیں رکھتے تھے، وہ اس بدعت و انحراف کو قبول کرچکے تھے۔
چنانچہ معاویہ نے معاشرے پر طاری جہل و نادانی کا فائدہ اٹھایا۔ معاویہ سابقہ خلفاء کی طرح "خلیفۂ رسول اللہ" کہلانے پر راضی نہیں ہے بلکہ اپنے گماشتوں کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دلواتا ہے کہ اس کو "خلیفۃ اللہ" کہہ کر پکاریں! امام حسین علیہ السلا نے اپنے قیام کے ذریعے اس طرز فکر کو کچل کر باطل کر دیا یہ سمجھانے کے لئے کہ ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص عالم اسلام کی قیادت و خلافت کی سریر پر براجماں ہو بھی جائے تو وہ جو بھی چاہے کر گذرے، جو بھی انحراف چاہے اختیار کرے، اور جو بدعت بھی چاہے رائج کرے اور لوگوں پر لازم ہو کہ آنکھیں بند کرکے اس کی اطاعت کریں اور اس کے مد مقابل کھڑے ہونے سے اجتناب کریں۔ امام نے واضح کردیا کہ انحراف اور بدعات کے آگے سر خم نہیں کرنا چاہئے اور اس کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہئے، خواہ انسان تنہا اور بےیار و مددگار ہی کیوں نہ ہو۔
لہذا امام حسین علیہ السلام نے یہ درس عظیم اس امت کو دے دیا اور آپ کی شہادت اور کربلا کے جان سوز واقعے کے بعد نہ صرف پیروان اہل بیت اور امامت و ولایت کے معتقدین نے یہ درس سیکھ لیا بلکہ خوارج بھی، جو امیرالمؤمنین علیہ السلام کے دشمن تھے اور امویوں نے انہیں اپنی فاسد حکومت میں اپنی جانب مائل کرلیا تھا، بھی متاثر ہوئے نہ رہ سکے، اور امویوں کے خلاف متعدد تحریکوں اور شورشوں نے سر اٹھایا اور حتی عبداللہ بن زبیر - جو بنی امیہ کی حکمرانی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھا اور خلافت کا دعویدار تھا، ابتداء میں یزید کے خلاف اقدام کرنے سے عاجز تھا - نے بھی امام حسین علیہ السلام کے دکھائے ہوئے راستے سے فائدہ اٹھایا اور لوگوں کو اپنی جانب آنے کی دعوت دی اور لوگوں نے بھی اس کی مدد کی۔
اس کے بعد بھی جابر اموی اور عباسی حکومتوں نے مسلمانوں کو جتانا چاہا کہ وہ خلیفۃ اللہ اور خلیفۃ الرسول ہیں اور آنحضرت کی سنت اور تعلیمات کے خلاف نہیں ہیں، لیکن ان کے ان دعؤوں کو کبھی بھی پذیرائی نہیں ملی اور خلفاء کے ظلم و ستم کے خلاف متعدد تحریکوں کا سلسلہ جاری رہا، اور یہ تحریکیں اسی درس کا نتیجہ تھیں جو امام حسین علیہ السلام مسلمانوں کو سکھا چکے تھے۔
سوال: قیام امام حسین علیہ السلام کی تشریح کے سلسلے میں معاصر دینی امام خمینی، امام خامنہ ای، شہید مطہری وغیرہ کے کردار کے بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟
جواب: امر مسلّم ہے کہ اگر نامی گرامی علماء اور فقہاء شیعہ معاشروں میں اپنے مقام و منزلت کے ناطے، صحیح معنوں میں قیام امام حسین علیہ السلام کی تشریح کی سعی کریں تو ان کی کوششیں فلسفۂ قیام کے صحیح ادراک پر منتج ہوتا ہے اور لوگ اس قیام کو نمونۂ عمل قرار دے سکتے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین مثال حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی شخصیت ہے۔ وہ اسلامی انقلاب کے دوران، سیرت حسینیہ کی پیروی کرتے ہوئے طاغوت کے خلاف جدوجہد کے میدان میں اترے اور لوگوں کی راہنمائی کرکے اسی راہ پر گامزن کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ ہم امام حسین علیہ السلام کے قیام کی روش اور آپ کی استقامت کی بنیاد پر اس تحریک کا آغاز کیا؛ چنانچہ جو لوگ روایتی عزاداری کے عادی ہوچکے تھے۔ انقلاب اسلامی کے دوران طاغوت کے خلاف عظیم ترین تحریک کا حصہ بن گئے اور پہلوی کی فاسد سلطنت کو اسی فکر اور تحریک نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جس کا آغاز امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے امام حسین علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے کیا تھا اور اسی فکر و قیام نے حکومت کا دھڑن تختہ کیا۔
شہید مطہری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی تقاریر میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اسباب کریدتے ہوئے، اس مہم کے طرف اشارہ کیا تھا، تاہم شہید مطہری کا خطاب معاشرے کے عالم و دانشور طبقے سے تھا جن کی تعداد انقلاب سے پہلے کے [طاغوتی] دور اور انقلاب کے بعد کے پہلے برسوں میں، میں کم تھی اور ان لوگوں کا اثر و رسوخ بھی ان ادوار میں کچھ زیادہ نہ تھا؛ لیکن رہبر انقلاب امام سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ تعالی کی تقاریر اور خطبات علماء اور دانشوروں کے ساتھ ساتھ، عام لوگوں پر بھی اثر رکھتے تھے اور امام حسین علیہ السلام کی عاشورائی-کربلائی تحریک کی تشریح میں ان کا کردار بہت زیادہ مؤثر تھا جس نے مشہد سمیت ایران کے مختلف شہروں میں عظیم انقلابی لہریں پیدا کیں۔ انقلاب اسلامی کے بعد بھی - امام جمعہ کے عنوان سے بھی اور صدر اسلامی جمہوریہ اور اسلامی انقلاب کے قائد و امام کے لحاظ سے بھی، بہت عمدہ اور قابل قدر تجزیوں کے سانچے میں مختلف زاویوں سے انقلاب امام حسین علیہ السلام کی تشریح کی اور ان کی یہ تشریح نہ صرف ایران میں بلکہ پوری دنیا میں بہت مؤثر تھی اور لوگوں نے اس انقلاب کو اپنے لئے نمونۂ عمل قرار دیا۔ عالمی اسلامی مزاحمت تحریک اس کا ایک نمونہ ہے۔
سوال: آپ کی نظر میں حسینی تعلیمات اور عاشورائی فکر کی رو سے اسلامی انقلاب کا مشن کیا ہے؟ آج کے معاشرے کے لئے عاشورا کے اسباق اور عبرتوں پر روشنی ڈالئے۔
جواب: انقلاب اسلامی اور امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ امام حسین علیہ السلام کے مکتب سے سبق لے کر، درپیش خطروں سے خوفزدہ ہوئے بغیر، ظلم جبر، فساد، بدعنوانی، ظلم و ناانصافی، دین میں انحراف اور بدعت گذاری کے مد مقابل کھڑا ہونا چاہئے، خواہ انسان بالکل تنہا اور بےیار و مددگار ہی کیوں نہ ہو۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے فرمایا: "چاہے خمینی تنہا ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی راہ حق پر اپنی حرکت کو جاری رکھے گا اور ہم امام حسین علیہ السلام کی مانند، اس انقلاب کے میدان میں اترے اور اس راستے پر بدستور گامزن رہیں گے"۔
چنانچہ اسلامی انقلاب نے کیل کانٹے سے لیس طاقتوں کے رعب و ہیبت کو توڑ کر رکھ دیا اور ثابت کرکے دیکھایا کہ اگر کوئی قوم الہی اور دینی اقدار پر یقین اور عظیم سماجی ذمہ داریاں نبھانے کی ہمت رکھتی ہو تو وہ مسلح ترین قوتوں کے سامنے جم سکتی ہے، خواہ اس کے پاس مقابلے کے لئے کافی وسائل کی قلت ہی کیوں نہ ہو۔ جی ہاں! یقینا بہت ساری سختیوں سے گذرنا پڑتا ہے لیکن اس جماؤ اور ٹہراؤ کا ثمرہ فتح اور کامیابی ہی ہے۔ جس طرح کہ امام حسین علیہ السلام فتح یاب ہوئے اور بنی امیہ کی بساط آپ کے پاک خون کی برکت سے لپٹ گئی اور آج کوئی بھی بنی امیہ کو یاد نہیں کرتا۔ چنانچہ ہمارا مشن اور ہماری ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ جس طرح کہ ہم اپنے انقلاب میں امام حسین علیہ السلام کی پیروی کرکے کامیاب ہوئے ہیں، دوسری اقوام کو بھی یہ سبق منتقل کریں۔ گوکہ اگر کوئی ہمارے اسلامی انقلاب کی 43 سالہ تاریخ کا مختصر سا مطالعہ کرچکا ہو، وہ بخوبی اس حقیقت کا ادراک کرسکتا ہے کہ دشمنان دین و انسان کی طرف کے تمام خطرات اور دھمکیوں کے مقابلے میں، اس نظام اور اس کے عالم و فاضل رہبر امام خامنہ ای حفظہ اللہ تعالی کی کامیاب اور نتیجہ خیز استقامت کا سرچشمہ مکتب عاشورا ہے اور اس نظام اور اس کے امام کی استقامت نے اپنے دیو صفت اور دیوقامت دشمنوں کی تمام سازشوں کو ناکام بنایا ہے اور کسی بھی بیرونی پشت پناہی کے بغیر، ان تمام سازشوں کے مقابلے میں جم کر کھڑا ہے۔
اگر دوسرے ممالک اس سبق کو اچھی طرح سیکھتے تو وہ بھی تمام تر تباہیوں، سازشوں اور یلغاروں کا جم کر مقابلہ کرنے کی ہمت و جرات حاصل کرتے۔ ہم نے دیکھا کہ مصر میں مصری طاغوت (حسنی مبارک) کے خلاف، اسلامی اور دینی محرکات کی بنا پر ایک انقلاب کا آغاز ہؤا اور ایک نام نہاد اسلامی حکومت بھی قائم ہوئی؛ لیکن چونکہ اس انقلاب نے مکتب امام حسین علیہ السلام اور اسلامی انقلاب کے تجربے سے فائدہ نہیں اٹھایا، اور انقلاب کے کرتے دھرتے اس غلط فہمی میں مبتلا ہوئے کہ "اپنی بقاء کے لئے امریکہ اور یہودی ریاست (اسرائیل) کے ساتھ رابطہ رکھنا ضروری ہے"، لہذا یہ حکومت ایک سال سے زیادہ قائم نہ رہ سکی اور سرنگوں ہوئی، اور نابود ہوگئی، اور پھر وہی طواغیت اقتدار پر قابض ہوئے اور عوام کی اسلامی جدوجہد اکارت ہوئی، حالانکہ ہمارا اسلامی انقلاب اللہ کے فضل و کرم سے اور 43 سالہ عاشورائی تفکر کی برکت سے، بد ترین سازشوں کے خلاف کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر محمد حسین رجبی دوانی جامعہ کے استاد اور تاریخ اسلام کے محقق ہیں۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔
110