اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
بدھ

24 فروری 2021

12:58:10 PM
1118546

حسینی کوہساری: مرحوم جلال الدین رحمت کی خصوصیات/ عظیم دانشور ہونے کے ساتھ خادم قوم و ملت بھی تھے

انڈونیشیا میں جامعۃ المصطفیٰ کے سابق نمایندہ نے ڈاکٹر جلال الدین رحمت کی سرگرمیوں کو نزدیک سے مشاہدہ کئے جانے کی طرف اشارہ کیا اور کہا: مرحوم نے سماجی خدمات کے باوجود اپنی علمی سرگرمیوں کو نہیں چھوڑا اور مختلف موضوعات جیسے علوم نفسیاتی، علومی سماجی اور علوم دینی؛ زندگی پیغمبر اکرم و ائمہ طاہرین، تفسیر اورعرفان میں ۵۰ جلد کتابیں تحریر کیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ اہل بیت(ع) کونسل انڈونیشیا کے چیئرمین، اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے ممتاز رکن، عالم اسلام کے عظیم دانشور اور شیعہ مفکر مرحوم پروفیسر جلال الدین رحمت کے انتقال کے ساتویں دن کے موقع پر ابنا نیوز ایجنسی کی جانب سے ایک ورچوئل مجلس ترحیم کا انعقاد کیا گیا۔
 یہ مجلس ترحیم جو گزشتہ روز منگل کو منعقد ہوئی اس میں اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے عہدیدار ڈاکٹر محمد جواد زارعان، اہل بیت(ع) کونسل انڈونیشیا کے سربراہ سید عمر شھاب، حوزہ علمیہ کے شعبہ بین الاقوامی امور کے سربراہ سید مفید حسینی کوھساری، انڈونیشیا میں نمائندہ ولی فقیہ عبد المجید حکیم الھی، اور مرحوم کے بیٹے ڈاکٹر مفتاح فوزی رحمت نے اس پروگرام میں گفتگو کی اور مرحوم جلال الدین رحمت کے علمی اور اخلاقی کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی یاد کو تازہ کیا۔
یہ پروگرام جو اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی جانب سے منعقد ہوا اس میں تین زبانوں فارسی، انڈونیشین اور انگلش میں تقاریر کی گئیں۔


حوزہ علمیہ کے شعبہ بین الاقوامی امور کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین حسینی کوہساری نے کہا: مرحوم پروفیسر کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے یونیورسٹی اور حوزہ علمیہ کو آپس میں ملانے کی کوشش کی انہوں نے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد حوزہ علمیہ قم میں بھی کچھ سال تعلیم حاصل کی۔
انہوں نے مزید کہا: ہمیں آج ایسے ہی افراد کی ضرورت ہے جو جدید علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ دینی علوم سے بھی آگاہ ہوں تاکہ علمی معاشرے میں موثر واقع ہو سکیں۔ مرحوم پروفیسر جلال الدین رحمت ایسے ہی شخص تھے انہوں نے انڈونیشیا کی یونیورسٹیوں کے علاوہ آسٹریلیا اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد حوزہ علمیہ قم کا رخ کیا اور یہاں دینی تعلیم حاصل کی اور یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض انجام دینا شروع کئے۔


حوزہ علمیہ کے شعبہ بین الاقوامی امور کے سربراہ نے مرحوم کی دوسری خصوصیت کو ان کا لوگوں کے ساتھ تال میل قرار دیا اور مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: وہ انڈونیشیا میں ایک علمی شخصیت اور ایک مفکر اور دانشور ہونے کے باوجود لوگوں کے ساتھ گہرا تال میل رکھتے تھے یتیموں کی مدد کرنا، فقرا کی دستگیری کرنا ان کی زندگی کا وطیرہ تھا۔
حسینی کوہساری نے لوگوں کی خدمت کو ضروری سمجھتے ہوئے کہا: بسا اوقات معاشرے کی ضروریات اہل علم افراد کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور وہ سماجی خدمات انجام دینے میں مصروف ہو جاتے ہیں اس صورت میں وہ علمی سرگرمیوں کو انجام نہیں دے پاتے۔
انڈونیشیا میں جامعۃ المصطفیٰ کے سابق نمایندہ نے ڈاکٹر جلال الدین رحمت کی سرگرمیوں کو نزدیک سے مشاہدہ کئے جانے کی طرف اشارہ کیا اور کہا: مرحوم نے سماجی خدمات کے باوجود اپنی علمی سرگرمیوں کو نہیں چھوڑا اور مختلف موضوعات جیسے علوم نفسیاتی، علومی سماجی اور علوم دینی؛ زندگی پیغمبر اکرم و ائمہ طاہرین، تفسیر اورعرفان میں ۵۰ جلد کتابیں تحریر کیں۔
انہوں نے مرحوم پروفیسر کی اگلی خصوصیت گنواتے ہوئے کہا: ڈاکٹر جلال الدین رحمت کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ اتحاد بین المسلمین بلکہ اتحاد بین الانسانیہ کے قائل تھے، گرچہ وہ مذہب تشیع کے پکے پابند تھے، انجمن اہل بیت(ع) کے سربراہ تھے، اور انہوں نے مذہب تشیع کو متعارف کروانے کے لیے کئی علمی کاوشیں انجام دیں، صحیفہ سجادیہ کا ترجمہ کیا لیکن اس کے باوجود وہ تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
حسینی کوہساری نے مزید کہا: ڈاکٹر جلاد الدین رحمت کی تقریروں کو صرف انڈونیشیا کے شیعہ نہیں سنتے تھے بلکہ مسلمان اور غیر مسلمان سب شوق سے ان کی تقریروں کو سنتے تھے اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ انسان اپنے مذہب کا پابند ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی اور قومی اتحاد کی راہ میں قدم بڑھا سکتا ہے اور یہی امام خمینی کا بھی نظریہ تھا اور یہی رہبر انقلاب اسلامی کا نظریہ بھی ہے۔


خیال رہے کہ  انجمن اہل بیت(ع) انڈونیشیا (IJABI) کے چیئرمین اور اس ملک کے سابق پارلیمنٹ رکن پروفیسر جلال الدین رحمت ۱۵ فروری ۲۰۲۱ کو ۷۲ سال کی عمر میں کرونا وائرس کی وجہ سے مرحوم ہو گئے۔
مرحوم اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے ممتاز رکن بھی تھے اور انڈونیشیا کے مسلمانوں میں آپ کو ایک خاصی شہرت اور محبوبیت حاصل تھی۔ مرحوم جلال الدین رحمت (کانگ جلال) انڈونیشیا میں شیعت کے بانی تھے کہ جن کی تبلیغ سے لاکھوں افراد مذہب اہل بیت(ع) سے متعارف اور منسلک ہوئے۔ انجمن اہل بیت(ع) جس کے وہ سربراہ تھے انڈونیشیا کے اکثر شہروں میں اس کے شعبہ جات پائے جاتے ہیں۔
مرحوم جلال الدین نے امریکہ کی یونیورسٹی آئیووا میں بین الاقوامی مطالعات، آسٹریلیا کی یونیورسٹی اور انڈونیشیا کے یونیورسٹی میں سیاسی علوم، بین الاقوامی تعلقات اور علوم حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۷۸ میں وہ "پیڈجارن" یونیورسٹی میں پروفیسر منتخب ہوئے، اور آخر عمر تک تدریس، تالیف اور تبلیغ میں مصروف رہے۔
پروفیسر کی موت سے چار روز قبل ان کی زوجہ بھی کورونا وائرس میں مبتلا ہو جانے کی وجہ سے انتقال کر گئی تھیں۔
...........

242