اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ :
پیر

15 جون 2009

7:30:00 PM
111385

حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر الله کا انٹرویو

حزب اللہ لبنان  کے  سربراہ جواب نے حال ہی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نشریاتی ادارے آئي آر آئي بی کو ایک تفصیلی انٹرویو دیا ہے یہ انٹرویو صیہونی حکومت کی حزب اللہ سے شکست کے ٹھیک ایک سال بعد لیا گيا ہے لھذا اسمیں لبنان پر صیہونی حکومت کی تینتیس روزہ جارحیت کے اور اس میں حزب اللہ کی کامیابی کے حوالے سے خصوصی سوالات کئے گئے ہیں.

سوال: ہمیں ایسے بہت سے ثبوت ملے ہیں کہ دنیا کی اکثر سامراجی طاقتوں کی یہ دلی خواہش تھی کہ وہ آپ کو راستے سے ہٹادیں اور آپ اس دنیامیں نہ رہیں لیکن آپ اب بھی قائم ودائم ہیں آپ کے اس مسلسل ڈٹے رہنے کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟

جواب: ظالم اور طاغوتی طاقتوں کی خواہش تھی کہ ہم نہ رہیں لیکن خدا وند عالم کا ارادہ و مصلحت یہ تھی کہ ہم زندہ باقی رہیں لھذا یہ حکم خداتھا اور چونکہ خدا یہی چاہ رہا تھا ویسے بھی اس عالم وجود پر اگر کسی کا حکم غالب ہے تووہ صرف اور صرف خدا کا حکم ہے. پس خدا نے چاہا اور اس نے اپنے مومن اور مجاھد بندوں کی مدد کی اور ان کی رہنمائي فرمائي جس کے نتیجے میں ایک تاریخی فتح حقیقت کا روپ اختیار کرگئي یہ سب کامیابیاں اور کامرانیاں خداے تبارک و تعالی کا عطیہ ہیں.

سوال: گذشتہ سال کی جنگ میں صیہونی حکومت کی شکست کی اصلی وجہ کیا تھی ؟اور اب جبکہ اس جنگ کو ختم ہوئے ایک سال ہوگيا ہے حزب اللہ کی حیثیت و طاقت کو آپ کیسا محسوس کرتے ہیں ؟

جواب: حزب اللہ کی موجودہ صورتحال جنگ کے دنوں کے مقابلے میں بہتر ہے البتہ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھاکہ ہم اس جنگ میں کامیابی کو خداوند عالم کی نعمتوں اور لطف وعنایات میں سمجھتے ہیں.

حزب اللہ کے قیام اور تشکیل کابنیادی  مقصد یہی  ہے کہ ہم الھی ذمہ داریوں پر عمل کریں اور خدا کے احکام کو بجالائيں اپنی شرعی ذمہ داری پوری کریں اور حزب اللہ نے ابھی تک یہی کیا ہےاور اس وقت حزب اللہ اپنی اخلاقی اور قومی ذمہ داری سمجتھے ہوئے لبنان کی مقبوضہ سرزمینوں کی آزادی ،اپنے ملک کی حاکمیت اعلی اور ارضی سالمیت کے تحفظ کے فرائض پر عمل کررہی ہے. حزب اللہ نے دشمن کے مقابلہ میں مسلسل اپنی شرعی ذمہ داری ادا کی ہے کیونکہ خداوند عالم کا ارشاد ہےکہ واعدولھم مااستطعتم من قوۃ یعنی دشمن کے مقابلہ میں اپنی استطاعت کے مطابق اپنے آپ کو تیارکرو لھذا ہم نےاس فریضے کی ادائيگي یعنی دشمن کے مقابلے میں دفاع جوکہ واجب ہے اس کو اداکیا اور دشمن کے مقابلہ کے لۓ قرآنی حکم کے تحت اپنے آپ کو تیار کیا ہے افرادی قوت کے لحاظ سے بھی اور وسائل وذرایع کے لحاظ سے بھی. اس فریضے کی ادائیگي کے لۓ  مضبوط ایمان اور مستحکم عزم و ارادے کا ہونا ایک ابتدااور پیش خیمہ ہے جس کا اظہار اس جنگ میں ہوا جسکے بارےمیں خود صیہونی حکومت نے اعتراف کیا ہے اور ان کے فضائي اور زمینی حملوں کے شدت اور وسعت ماضی میں کی گئي تمام عرب اسرائيل جنگوں سے بھی کئي گنا زیادہ تھی.

میرے نظریے کےمطابق حزب اللہ کے دلیر جوانوں میں استقامت وپائداری ،عزم وارادے کی جو قوت وطاقت ہے اس نے اس تینتیس روزہ جنگ میں صیہونی حکومت کو شکست کا مزہ چکھا یا ہے. حزب اللہ کے نوجوانوں کا یہ  عزم اور حوصلہ ہی تھا جس نے انہیں کسی مرحلے میں کمزور ہونے نہیں دیا  انہوں نے پسپائی اختیار نہیں کی ،شہادت اور آخری سانس تک دشمن کا مقابلہ کیا اور جو زخمی ہوگئے سخت سے سخت زخموں کے باوجود اپنے مقصد اور ھدف سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے .

مجاھدین کے عزم و حوصلے کے ساتھ ساتھ عوام کی دلیری ،بہادری اور بلند حوصلے بھی اس کامیابی کا بنیادی سبب ہیں خاص کر ان علاقوں میں جھاں پردشمن نے زبر دست حملےکئے تھے جنگ زدہ علاقوں سے آنے والے عوام کو دیگر لبنانیوں نے جس طرح خوش آمدید کہا اس کی مثال تاریخ میں کم ملتی ہے اس حوالےسے اسلامی استقامت کے حامی ملکوں خاص کراسلامی جمہوریہ ایران عرب اور اسلامی ممالک نیز دنیا کے آزاد ضمیر انسانوں اور ملکوں نے جس انداز سے اس استقامت کی مدد کی وہ لبنانی قوم کی حوصلہ افزائي اور ان کے عزم وارادے کی مضبوطی کا باعث ہوئي. اگر ہم ان عوامل کے بارے میں جو براہ راست کامیابی کا باعث بنے گفتگو کریں تو ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ خداوند عالم کی نصرت و مدد کے بعد مجاھدین کی میدان کارزارمیں استقامت اور دشمن کے خلاف ڈٹ جانے کی اصلی وجہ وہ ایثار وقربانی اور جانفشانی تھی جس نے دشمن کے تمام ارادوں کو ملیامیٹ کردیا اور ان کی تمام سازشیں نقش بر آب ہوگئيں یہ مجاھدین اسلام کی استقامت اور جرات مندی وبہادری کے اعلی نمونے تھے جسکی وجہ سے صیہونی حکومت اس بات پر مجبور ہوگئي کہ وہ جنگ کے دوران اپنی فوجی اور جنگي حکمت عملی کو بارہ مرتبہ تبدیل کرے اور بلاشبہ اس طرح کی فوجی تبدیلیاں کسی بھی فوجی کمان کے لئے حیران کن اور ناقابل یقین ہیں. اس تینتیس روزہ جنگ میں دشمن نے جب بھی ایک نئي جنگي حکمت عملی  سے حملہ کیا مجاھدین کی طرف سے پہلے سے زیادہ استقامت اور جرات کا مظاہرہ کیا گيا یوں اس جنگ کے تمام مراحل میں اسرائيل حزب اللہ کے مجاھدین کی جرات بہادری اور عزم و ارادےکو ذرہ برابر کمزور کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا. اسرائيل نے تمام ترکوششیں کیں اور اپنے تمام نئے اور پرانے جرنیلوں کی خدمات حاصل کیں اور ان کے پاس جو کچھ تھا وہ میدان میں لے آیا اپنی فضائي اور زمینی طاقت کا بھرپور استعمال کیا لیکن ہرموڑپر اسے ناکامی کے علاوہ کچھ نصیب نہ ہوا.

اب جبکہ اس جنگ کو ایک سال کا عرصہ گذرچکا ہے حزب اللہ کے حوصلے پہلے سے زیادہ بلند ہیں حزب اللہ یقین اور خود اعتمادی کی دولت سے مالامال اور عزم و حوصلے کے اعتبار سے گذشتہ سال کی جنگ کے زمانے سے بہت آگے نکل چکی ہے اسی طرح لبنانی عوام کے اندر حزب اللہ کا اثرو رسوخ پہلے سےکہیں زیادہ بڑھ چکا ہے اور عوامی حلقوں میں نئي نسل کی ایک بڑی تعداد حزب اللہ سے وابستہ ہوچکی ہے اوراس کی بنیادی وجہ ہے حزب اللہ کے وہ کارنامے جو اس نے گذشتہ سال کی جنگ میں اسرائیل کے خلاف انجام دیے ہیں. جنگي سازوسامان اوردوسری ضروریات کے حوالے سے بھی حزب اللہ کی صورت حال جنگ کے زمانے سے بہتر ہے اور بلاشبہ یہ سب کچھ خداوند عالم کا لطف وکرم ہے.

سوال: آپ نے جنگ کے دوران حزب اللہ کے مجاھدوں کی روحانی صفات کی طرف اشارہ کیا تھا شاید یہ بات تمام لبنانیوں خاص کر ایرانی قوم کے لئے دلچسپی کا باعث ہے کہ آپ نے اپنی تقریر کے دوران لبنان کے عوام کو بہترین افراد قراردیا ہے اور خاص کرحزب اللہ کے جوانوں نے آپ کو جو محبت بھرا خط لکھا تھا اور آپ نے اسی انداز میں اس کا جواب بھی دیاتھا کیا آپ اس بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے ؟

جواب: اس میں کسی طرح کا شک نہیں ہےکہ حزب اللہ کے تمام افراد روحانی قوت کے اصل عوامل جیسے ایمان ،ایثار اور جان نثاری کے جذبات اور احساسات کے حامل ہیں البتہ میں نے اپنی تقریروں میں جوکچھ کہا ہے اس کا ہرگزیہ مطلب نہیں ہے کہ میں لبنانی قوم کو تمام اقوام سے افضل و برترسمجھتا ہوں بلکہ میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جنہوں ے ایثاروقربانی کا مظاہرہ کیا ،اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں ،شہید ہوئے، راہ خدا میں شہید دئے اور جنگ کے سخت ترین حالات میں جنگ زدہ علاقوں سے آنے والے مھاجرین کا استقبال کیا اور ان کی دل کھول کرمددکی لبنان کے عوام کی اکثریت سخت ترین حالات میں بھی ڈٹی رہی اور ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے ،جنگ کے دوران عام لوگوں اور مجاھدین کے حوصلے جس قدر بلند تھے  انہیں الفاظ کے پیراے میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے. اس وقت صورتحال یہ تھی کہ جس طرف نگاہ اٹھاتے تباہی اور بربادی دیکھنے کوملتی لوگوں میں تاثرعام ہوگيا تھاکہ اسرائيل اور اسکے اتحادی ہمیں ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد یا اس علاقے سے ہمیشہ کے لئے باہر نکالنا چاھتے ہیں اس طرح کے سخت اور دشوار ترین لمحات میں بھی لوگوں کو فتح و کامیابی کے حوالے سے اطمئنان تھا او انکے دل مطمئن تھے اور میں ان سخت حالات میں اس اطمئنان کوالھی اور غیبی امداد کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتا بلاشبہ یہ ایک بڑی غیبی امداد تھی او اسکا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے کیونکہ قرآن میں جس  غیبی امداد کا ذکر کیا گیا ہے اس میں اطئمنان قلب بھی ایک عظیم خدائي نعمت ہے قرآن کریم کی آیات کا مفہموم یہ ہےکہ ہم ان لوگوں کے قلوب کو اطمئنان اور آرام و سکون عطاکرتے ہیں جو ایمان لاتے ہیں اور پھر استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور میدان جنگ سے پسپائي اختیارنہیں کرتے. ہم نے اسی آرام و سکون اور یقین کا حزب اللہ کے مجاھدین اور عوام کے دلوں میں مشاھدہ کیا اور یہ خداوند عالم کی طرف سے اس جنگ میں ہماری مدد کا واصح نمونہ ہے. دوسری طرف اسرائیل جس کی پوری سامراجی دنیا حمایت کررہی تھی وہ علاقے میں فضائي قوت کے حوالے سے سب سے زیادہ مضبوط فضائيہ تھی اسی طرح اسکے پاس ہرطرح کے جدید اسلحے اور جنگي سازوسامان تھا اسکے علاوہ وہ ایسی جارح اور طاغوتی حکومت ہے کہ کسی کو بھی ذرہ برابر اھیمت نہیں دیتی ،یہ حکومت حزب اللہ کے جوانوں کے مقابلے میں بے دست وپا ہوگئ اور اس پر شدید خوف طاری ہوگيا ،اسرائيل کی فوجی اور سیاسی قیا