اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : خیبر
پیر

13 جنوری 2020

7:27:56 PM
1002106

یہ تو واضح سی بات ہے کہ نہ ٹرنپ کو وہ فائدہ اس شہادت سے ہوا جسے سوچ کر اتنابڑا فیصلہ لیا گیا تھا اور نہ ہی صہیونی حکومت کو لیکن وہ جو بظاہر مقصد تھا وہ کیا تھا اس بات پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے.

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ اکیسویں صدی کی جس دہائی میں ہم زندگی گزار رہے ہیں شک نہیں کہ اس میں مشرق وسطی کے حالات کبھی اتنے نا بہ گفتہ نہیں تھے ، اور نہ ہی کبھی اتنے خطرناک تھے جتنے ابھی ہیں ، یقینا صاحبان فکر و نظر خطے کے نازک حالات کو بھی دیکھ رہے ہیں اور سامراج کی ریشہ دوانیاں بھی انکے پیش نظر ہوں گی اور دنیا کے منظر نامے پر نظر رکھنے والے اس بات کی تائید کریں گے کہ ایسے بحرانی حالات موجودہ دور میں اس سے پہلے دیکھنے کو نہیں ملے وہ بھی ایسے حالات جہاں پل پل کے بارے میں ایک غیر یقینی کیفیت پائی جاتی ہو کہ کب کیا ہو جائے پتہ نہیں نہ ہی جنگ کے بارےمیں کچھ کہا جا سکتا ہے نہ ہی یہ کہا سکتا ہے کہ کب ایک چھوٹا سا تصادم خطے کو آگ میں جھونک دے بارہا ایسا ہوا کہ لگا ایک مکمل جنگ شروع ہوا چاہتی ہے لیکن پھر ٹل گئی اور ہر ایک نے چین کی سانس لی ۔
گزشتہ دنوں جب ایران نے عراق میں امریکی بیس ”عین الاسد” پر بیلسٹک میزائل سے حملہ کیا تو ایسا لگ رہا تھا کہ ہر طرف ایک بار پھر جنگ کے شعلے بھڑک جائیں گے ، توقع یہ تھی کہ ایران کی جانب سے جوابی کاروائی کے بعد امریکہ بھی جواب دے گا اور یوں خطرناک جنگ کا آغاز ہو جائے گا ۔امریکہ کی کھلی دھمکی بتا رہی تھی حالات کیا ہونگے ہر ایک کو انتظار تھا امریکہ کی طرف سے اب کیا اقدام ہوگا اور اس کے لئے نظریں جمی تھیں وہائیٹ ہاوس میں ہونے والے امریکی صدر جمہوریہ کے خطاب پر لوگ ہر ایک سوچ رہا تھا کہ نہ جانے امریکی صدر کی زبان سے کیا نکل جائے اور دنیا پھر سمیٹتی رہ جائے لیکن بالکل توقع کے برخلاف وہ سب کچھ نہیں ہوا جسکی دھمکی دی گئی تھی اور بات اقتصادی پابندیوں پر سے ہوتے ہوئے یہاں پر ختم ہو گئی کہ ہمارے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں اور ہم زیادہ طاقت ور ہیں لیکن اپنی طاقت کو جنگ میں صرف کرنا نہیں چاہتے ہم خوش ہیں کہ ایرانی حملے میں ہماری فوج کو ئی نقصان نہیں ہوا اور کوئی امریکن ہلاک نہیں ہوا حملے میں کتنا نقصان ہوا اسکی الگ الگ روایتیں ہیں لیکن اتنا تو طے ہے کہ ایران نے تقریبا ۷۰ سال کے اس طلسم کو توڑ دیا جو امریکہ نے اپنی طاقت کا بنایا تھا کہ اس پر کوئی حملہ نہیں کر سکتا پرل ہاربل کے بعد بظاہر یہ پہلا حملہ ہے جو کسی ملک کی جانب سے کسی امریکی بیس پر ہوا ہو ادھر سب نے دیکھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے وعدہ انتقام کے مطابق انتقامی کاروائی کرتے ہوئے عراق میں موجود امریکی بیس پر حملہ کر کے واضح طور پر اس بات کا اعلان کر دیا کہ ہر گز ہم خاموش تماشائی نہیں بنے رہیں گے اگر ہم پر حملہ ہوا تو بھرپور انداز میں جواب دیں گے ۔شاید یہی پیغام اس بات کا سبب بنا کہ دشمن نے واضح طور پر پیچھے ہٹتے ہوئے بالکل اس طرح کا رد عمل پیش کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو جب کہ اس سے پہلے لگ رہا تھا کہ مشرق وسطی آتش فشاں کے دہانے پر ہو اور ایک چنگاری آگ کے دھانے کا منھ کھول دے اور پھر ہر طرف آگ ہی نظر آئے ۔
امریکہ نے قاسم سلیمانی کو شہید کرنے کا خطرناک قدم کیوں اٹھایا؟
جو کچھ ہوا وہ اپنے اند ر بہت سے سوالات لئے ہوئے ہے اس پر پھر کبھی روشنی ڈالی جا سکتی ہے فی الحال تو اس بات کو بیان کرنا ہے کہ سامراج نے قاسم سلیمانی جیسی شخصیت کو نشانہ بنانے کی غلطی کیوں کی ؟ جب کہ اسے معلوم تھا اسکا انجام پورے خطے کو نا امنی کے دھانے میں جھونکنا ہوگا ۔ کیا امریکہ کو پتہ نہیں تھا کہ خطے میں لوگ اسکے لئے اپنے سینوں میں نفرت کی آگ دہکائے بیٹھے ہیں کہ کب موقع ملا اور اسکے خلاف نکل کر واضح طور پر پیغام دیں کہ ہمارے علاقوں سے واپس جاو اب ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے ، کیا امریکہ کو احساس نہیں تھا کہ قاسم سلیمانی کی شخصیت ایران میں ایک قومی ہیرو کی ہے اور یہ وہ شخصیت ہے جسے ہر فکر و زاویہ نظر سے ہٹ کر ایک سحر انگیز شخصیت کے طور پر ایران کا ہر طبقہ مانتا ہے بعید ہے کہ امریکہ کے پالیسی ساز افراد ان باتوں سے غافل ہوں لیکن بات تویہ ہے کہ امریکہ کے پالیسی میکرز اور دیگر ماہرین سیاست کو پتہ ہی اس وقت چلا جب تیر کمان سے نکل چکا تھا اور صہیونی لابیوں کے زیر اثر امریکی صدر نے ایسی حماقت کر دی تھی جسکی امریکن کانگریس سے لے کر کسی بھی حکمت عملی طے کرنے والے سنجیدہ فرد کو توقع نہیں تھی اس سے بے خبر کہ قاسم سلیمانی کی شہادت کےدور رس نتائج کیا ہو سکتے ہیں ، یہ تو شہید قاسم سلیمانی کی تشیع جنازہ اور لوگوں کی انکے سلسلہ سے عقیدت نے واضح کیا کہ شخصیت کے نقوش لوگوں کے دل و دماغ پر کس قدر گہرے تھے یقینا لوگوں کا شہادت پر رد عمل ایسا تھا کہ جسےدیکھ وہ بھی پچھتا رہے ہوں گے جو سوچ رہے تھے قاسم سلیمانی کی شہادت کے ذریعہ ہم ایک قوم کو اپنے سامنے جھکانے میں کامیاب ہو جائیں گے یہ اور بات ہے کہ ڈھیٹ بن کر اب بھی وہی پرانا راگ الاپ رہے ہیں جسے کوئی سننے کو تیار نہیں ہے ۔دہشت گردی سے شہید قاسم سلیمانی کے نام کو جوڑنا اپنی حماقت کو اور واضح کرنا ہے کیونکہ دنیا جانتی ہے شہید قاسم سلیمانی کون ہے دنیا با خبر ہے کہ داعش سے مقابلہ کے لئے آہنی عزم لئے قاسم سلیمانی اپنی عسکری حکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردوں کا قلع قمع نہ کرتے تو آج نہ یورپ میں ہی سکون ہوتا نہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہی ان کے شر سے محفوظ رہتے ۔ ہر ایک جانتا ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کو پورے علاقے میں ایک مسیحا کے طو رپر تسلیم کیا جاتا ہے شہید قاسم سلیمانی صرف ایران کے کمانڈر نہیں تھے بلکہ انہوں نے سرحدوں سے ماوراء ہو کر انسانیت ، اسلام اور توحید کی حفاظت کی تھی خاص کرجس وقت داعش کا عفریت پورے عراق کے دامن گیر ہواچاہتا تھا اس وقت اسی شخصیت نے اپنی عسکری حکمت عملی سے داعش کو پیچھے کھدیڑ دیا تھا اور یہیں سے لگ رہا تھا شہید قاسم سلیمانی کو انسانیت کی اس عظیم خدمت کی بڑی قیمت چکانی ہوگی اور وہ انہوں نے اپنی شہادت کے ذریعہ چکائی ،
داعش کو ختم کرنے کا خراج:
کسی نے بڑی اچھی بات کی کہ سردار قاسم سلیمانی کو اس لئے شہید کیا گیا کہ انہوں نے عراق کو داعش سے بچایا تھا وہ داعش جسے وجود بخشنے میں سامراج نے زبردست گٹھ جوڑ کی تھی اور ۹۰ ممالک سے لوگوں کو لا کر لاکھوں ڈالر خرچ کئے تھے تاکہ اسلام کا ایک کریہہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش کر کے اپنے مفادات کو حاصل کیا جا سکے لیکن شہید قاسم سلیمانی نے سامراج کے منصوبے پر داعش کو شکست دے کر پانی پھیر دیا یہی چیز اس بات کا سبب بنی کہ شہید قاسم سلیمانی سے وہ لوگ انتقام لیں جنکی سیاست کی تکمیل کے لئے یہ شخصیت ایک بڑی رکاوٹ بن گئی تھی ، آپکی جنگی حکمت عملی اور قائدانہ صلاحیتوں کا ہر ایک معترف تھا سخت سے سخت مرحلہ میں آپ اپنی عسکری حکمت عملی سے پاسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ عراق ہو یا شام یا پھر یمن اور لبنان ہر جگہ مزاحمتی محاذ آپ کو ایک ایسے کمانڈر کے طور پر دیکھتا تھا جسکی سربراہی میں وہ ہر دشمن سے ٹکر لے سکتا ہے اور اسلامی و حق پسند مزاج رکھنے والے افراد ملک و سرحد سے ماوراء آپ کے نام پر متفق نظر آتے تھے یہ وہ دوسری چیز تھی جو دشمن کی آنکھ کا کانٹا تھی دشمن دیکھ رہا تھا کہ کس طرح ہم پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کر کے لاکھوں ڈالر خرچ کر کے اپنے اہداف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ ایک فرد ہر جگہ ہمارے منصوبوں پر پانی پھیر دیتا ہے ، آپ عراق کے گزشتہ ماہ اور اس سے پہلے کے حالات دیکھ لیں کہ کس طرح ایک انتشار کی کیفیت تھی اور دشمن کس حد تک کامیاب ہو رہا تھا ایسے میں دشمن کے منصوبوں کو ناکامی اس وقت دکھی جب مختلف دھڑوں میں بنٹ جانے اور الگ الگ آوازیں نکالنے والوں کو شہید قاسم سلیمانی پر متحد دیکھا گیا اور دشمن نہیں چاہتا تھا کہ کوئی ایک مقام ایسا ہو جہاں سے سب کو ایک ڈوری میں پرویا جا سکتا ہو اور سب متحد ہو سکیں اس لئے کہ اتحاد کا مطلب دشمن کی تباہی اور اسکے مفادات پر کاری ضرب اسے پتہ تھا کہ ہم حکومت اسی وقت تک کر سکتے ہیں جب تک یہ لوگ آپس میں لڑتے رہیں گے جب تک یہ لڑتے رہیں گے ہم انہیں لوٹ سکتے ہیں لیکن جب یہ ایک ہو گئے تو یہ ہمارے بارے میں سوچنا شروع کر دیں گے کہ ہماری سرزمین پربیرونی فورسز کا کیا مطلب ہے ؟
سامراج کے اہداف کی تکمیل میں شہید قاسم سلیمانی بڑی رکاوٹ:
سامراج دیکھ رہا تھا کہ اگر اختلاف ڈال کر حکومت کرنے کی پالیسی کو کوئی شخص ناکام بنانے کی طاقت رکھتا ہے تو اسکا نام قاسم سلیمانی ہے لہذا اس نے ایسے فرد کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا جو سامراج کے منصوبوں کو عملی ہونے کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہو گیا تھا اس سے غافل کہ شہادت کے بعد شہیدقاسم سلیمانی کا خون اب وہی کام کرے گا جووہ خود زندہ رہ کر کر رہے تھے بلکہ شاید خون کے ذریعہ وہ کام بھی ہو سکے جو زندگی میں قاسم سلیمانی نہیں کرسکے اور ہم اسکی جھلکی کو دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد سامراج و عالمی استکبار کے سامنے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ خطے کو چھوڑ کر واپس پلٹ جائے اور بہت سے مغربی ممالک نے اپنی فورسز کو بلانا بھی شرو ع کر دیا ہے اور ایران کے عراق میں موجود امریکی بیس پر حملے کے بعد دھیرے دھیرے جب اسکے نتائج سامنے آئیں گے تو ہم مزیددیکھیں گے کہ کس طرح قاسم سلیمانی کا خون وہ کام کر رہا ہے جو وہ خود بھی نہیں کر سکے تھے ، یقینا انکا وجود پورے مزاحمتی محاذ اور خاص کر ایران کے لئے ایک برا سرمایہ تھا ایسا سرمایہ جسکے چھن جانے کی بھرپائی آسانی سے ممکن نہیں ہے لیکن آپ دیکھیں کہ انکی زندگی میں عراق میں کتنا اتحاد تھا اور مختلف دھڑے کتنا آپس میں جڑے تھے اور اب صورت حال کیا ہے ،یقینا سردار شہیدقاسم سلیمانی کی ایک آرزو یہ تھی کہ یہ بیرونی افواج ملک سے باہر اپنی سرزمینوں پر واپس جائیں گرچہ شہید اپنی زندگی میں امریکہ اور دیگر اسکے حلیف فوجوں کی واپسی کو نہ دیکھ سکے اور تمام تر کوششوں کے بعد ایسا کچھ نہ ہوسکا کہ عراقی خود امریکہ و اسکے حلیفوں سے کہیں کہ تم ہماری سرزمین کو چھوڑ کر باہر نکلو، لیکن آج ایسا ہو رہا ہے اور عراقی پارلیمنٹ نے ایسا قانون پاس کر دیا ہے جس کے بموجب امریکہ کو عراق چھوڑنا ہوگا یہ امریکی فوجوں کے لئے کتنا ذلت آمیز ہے کہ گھر کا مالک بن بلائے مہمان سے کہے کے تم نکل جاو ہمارے گھر کو چھوڑ دو اور وہ ڈھٹائی پر اتر آئے کہ ہم نہیں جائیں گے آج یہ ذلت امریکہ کو قاسم سلیمانی کے خون کی بنیاد پر جھیلنا پڑ رہی ہے ۔
ٹرنپ انتظامیہ اور صہیونی حکومت دونوں کے ہاتھ لگی ناکامی :
یہ تو واضح سی بات ہے کہ نہ ٹرنپ کو وہ فائدہ اس شہادت سے ہوا جسے سوچ کر اتنابڑا فیصلہ لیا گیا تھا اور نہ ہی صہیونی حکومت کو لیکن وہ جو بظاہر مقصد تھا وہ کیا تھا اس بات پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ اور صہیونی لابی کی سطحی و اوپری سوچ کیا تھی چنانچہ یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ٹرنپ انتظامیہ نے ایسا کام کیوں کر کر دیا جسکی وجہ سے خود امریکہ میں سب تھوک رہے ہیں اور جسکی اتنی بڑی قیمت چکانی پڑ رہی ہے کہ امریکہ سے عراق کی حکومت کہہ رہی ہے کہ ہمارے ملک سے نکل جاو اگر ہم اس بات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں قاسم سلیمانی کی شہادت سے پہلے ان خبروں کو دیکھنا ہوگا ان تجزیوں پر نظر ڈالنا ہوگی جس میں باقاعدہ طور پر کہا جا رہا تھا کہ درونی انتشار کو ختم کرنے اور خود کو بچانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ایسے فعال و متحرک افراد کو نشانہ بنا کر شہید کیا جائے جنکی خطے میں گھن گرج ہے تاکہ خود کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا سکے۔
شہید قاسم سلیمانی کی شہادت سے ۲۵ دن قبل کی ایک رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت یوں تو امریکہ کے ہاتھوں ہوئی ہے ورنہ در اصل یہ کام تو اسرائیل کے تحفظ کی خاطر ہوا ہے چنانچہ عربی روزنامہ ”رائے الیوم” نے ۲۰۔ ۲۵ دن پہلے یہ تجزیہ پیش کیا تھا کہ ” گزشتہ دنوں میں عبری زبان کے اخبارات کا جائزہ لینے اور اسرائیل کے سابق جرنیلوں کےمشرق وسطی کے سیای و عسکری حوادث کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی سلامتی کے سلسلہ سے پیش کئے جانے والے تجزیوں اور تبصروں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسرائیل کے داخلی حالات سے نبٹنے کے لئے اب نیتن یاہو کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے اسکی وجہ سے اسرائیل کو بحران سے نکالنے کے لئے بیرونی آپریشن کی ضرورت ہے” س تجزیہ میں دو باتوں کو بنیاد بنایا گیا تھا
اول : بنجامن نتین یاہو پر جو الزامات لگائے گئے اور جو خیانت کا الزام اسرائیلی وزیر اعظم پر لگا اسکو دیکھتے ہوئے علاقے میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھنے کا احتمال بڑھ گیا ہے اس لئے کہ نیتن یاہو ایک زخمی چیتے کی طرح اپنی بقا کی جنگ میں مشغول ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم کی پوری کوشش ہے کہ ادھر ادھر چھلانگیں لگا کر خود کو حکومت کی آڑ میں بچایا جاسکے اور مسند اقتدار کو پیروں سے کھسکنے نہ دیا جائے۔
دوم : مقبوضہ فلسطین میں مزاحمتی محاذ کے قائدین کو نشانہ بنا کر شہید کرنے{ ٹارگٹ کلنگ} کی سیاست کی بازگشت جو محض فلسطین سے مخصوص نہیں بلکہ لبنان ، عراق، یاتہران جہاں بھی موساد اپنے مہروں اور مزدوروں کے ذریعہ مزاحمتی محاذ سے منسلک رہبروں کو شہید کر سکے وہاں یہ کام کیا جائے جیسا کہ موساد نے بہاءابوا لعطاء کو اپنے گماشتوں کے ذریعہ شہید کیا ۔
ان دونوں اہداف کے پیش نظر یہ طے پایا کہ پہلےسردار شہید سلیمانی کو راستے سے ہٹایا جائے اسکے بعد دوسرے رہنماوں کو شہید کیا جائے تاکہ مزاحمتی محاذ کی کمر توڑی جا سکے چنانچہ شہید قاسم سلیمانی پر حملہ ہوا تاکہ لوگوں کے دل میں ایک رعب و وحشت بیٹھ جائے اور لوگ سامراج کے خلاف کھڑے ہونے کا خیال دل سے نکال دیں ، اوراسی کے تحت یہ بڑا خطرناک قدم اٹھایا گیا ۔
سردار قاسم سلیمانی کی شہادت ا ور خدا کی مصلحت :
یوں تو سردار سلیمانی کو نشانہ بنائے جانے کی کئی بار ناکام کوشش ہو چکی تھی لیکن اس بار دشمن کو کامیابی مل گئی شاید اس میں بھی خدا کی کوئی مصلحت ہو اور شاید یہی مصلحت ہو کہ دشمن جس چیز کو شہادت کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتا ہے خاص طور پر اپنے ملک میں چین و سکون وہ ہرگز اسے میسر نہ ہو سکے ، جیسا کہ ٹرنپ نے کہا تھا کہ ہم نے شہیدسردار قاسم سلیمانی کو حملوں سے بچنے کے لئے شہید کیا تھا جبکہ اب سوال یہ ہے کہ کیا شہادت کے بعد تم حملوں سے بچ گئے جواب سامنے ہے قاسم سلیمانی کی شہادت سے قبل کبھی ایسا حملہ نہیں ہوا تھا امریکہ پر جیسا شہادت کے بعد ہوا اورتنے بڑے پیمانے پر کسی امریکی بیس پر کسی بھی ملک خاص کر ایران کی طرف سے اتنے میزائلز نہیں داغے گئے تھے میزائلز تو دور کسی امریکی بیس پر حملے کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ایسا ہوا ۔
ہاری ہوئی بازی کی تکرار دشمن کی شکست فاش کا اعلان ۔
مختلف شخصیتوں کو نشانہ بنا کر شہید کرنے کی سیاست کی طرف امریکہ و اسرائیل کی بازگشت مزاحمتی محاذ کی روز افزوں مضبوطی اور انکی بڑھتی طاقت کی بنیاد پر اسرائیلیوں کے درمیان دہشت و وحشت کو بیان کر رہی ہے کہ انکے وجود میں مزاحمتی محاذ کی روز بروز بڑھتی طاقت کی بنیاد پر کس قدر دہشت و وحشت بیٹھ چکی ہے ۔
اسی دہشت کی بنیاد پر اسرائیل ایران یا اس کے بازووں سے راست طور پر الجھنے سے ڈر تا رہا ہے لیکن یہ جان لینا چاہیے کہ یہ جدید تبدیلی یعنی ٹارگٹ کلنگ کی سیاست کی طرف بازگشت ایک ایسا مسئلہ ہے جو راست طور پر ایک دوسرے سے مڈبھیڑ کے باب کو کھول سکتا ہے جیسا کہ ایک بڑا باب ایران نے کھول دیا ہے اور قطعی طور پر عرا ق میں موجود حشد الشعبی کی فورسز بھی جوابی کاروائیوں سے امریکہ کے لئے عراق کو ایسا جہنم بنا دیں گی جو اسکے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا
اور جیسا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے واضح طور پر کہا ہے ہم اسرائیل کو اس حملے سے الگ نہیں دیکھتے ہیں اس لئے بہت ممکن ہے کہ دیر یا زود اسرائیل بھی نشانے پر آ جائے اور اسکی تباہی کی ایسی تاریخ رقم ہو جس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہ ہو اور یوں شہید قاسم سلیمانی کا خون وہ کام کر ڈالے جو اب تک نہیں ہو سکا اور وہ صفحہ ہستی سے اسرائیل نام کے ملک کا خاتمہ ہے
امید ہے کہ یہ خون رایگاں نہیں جائے گا اور اس کے اندر اتنی تاثیر ہوگی کہ جس طرح یہ خون قاسم سلیمانی کے بدن کا جب حصہ تھا تو ظالموں سے لڑ کر مظلوموں کو انکا حق دلا رہا تھا اسی طرح بدن کی قید سے آزاد ہو کر ہر فلسطین و بیت المقدس کو آزاد کرا کے فلسطینیوں کو انکا حق دلائے گا
فی الحال تو خطے کے حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں اور مبصرین کے بیانات کو دیکھا جائے تو زیادہ تر ٹرنپ انتظامیہ کے اس کام کی مذمت کر رہے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی کے اس خون نے وہ کام کر دیا ہے جو وہ خود اپنی زندگی میں نہیں کر سکے آج امریکہ کی ہیبت کافور ہو چکی ہے ،خطے میں موجود امریکی بیسز پر موت کا سا سناٹا چھایا ہوا ہے یہ سب ایسے میں ہے کہ ابھی ایران نے بس ایک طمانچہ ہی رسید کیا ہے ابھی عراق کی حشد الشعبی فورسز کا زوردار تھپڑ باقی ہے ابھی حزب اللہ اور حماس کی جانب سے انتقام لینا باقی ہے جبکہ ہر ایک کہہ رہا ہے ہم انتقام لئے بنا نہیں بیٹھیں گے ، کیا شہید قاسم سلیمانی کے خون کا یہ اثر کم ہے کہ کل جب وہ زندہ تھے تو خود سامراج کے سامنے کھڑے تھے آج انکے خون نے پورے مشرق وسطی کو امریکہ کے خلاف کھڑا کر دیا ہے وہ خون جو سرزمین عراق پر بہا آج وہ گلی گلی شہر شہر انتقام کے در پے ہے ساحر لدھیانوی نے صحیح کہا تھا :
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242