اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

طویل عرصے سے امریکی جارحیت کا شکار اور افغانستان کے ساتھ ساتھ، دنیا کی واحد اور انوکھی ریاست کے عنوان سے اپنی سرزمین پر امریکہ کے خلاف نیابتی لڑائی (Proxy war) لڑنے والے ملک پاکستان کے حکمران اور سیاستدان ہی نہیں بلکہ بعض صحافی ـ جو حریت فکر نیز دہشت گردی اور تنگ نظری کے خلاف لڑنے کے دعویدار ہیں اپنے بلند بانگ دعؤوں کے باوجود، ـ داعش کی بیخ کنی میں بنیادی کردار ادا کرنے والے ایرانی جرنیل کی امریکہ کے ہاتھوں شہادت کے بعد، ان کے خلاف صف آرا ہوئے ہیں جبکہ جڑواں سعودی-یہودی ریاستوں کے چاپلوس تکفیری بھی طوفان بدتمیزی مچائے ہوئے ہیں اور چونکہ سرکار میں بھی ان کے ہمفکروں کی کوئی کمی نہیں ہے لہذا ان کو بھی آزاد چھوڑا گیا ہے۔



پاکستان کی صورت حال عجیب ہے۔ پڑوسی ملک کے ایک قومی ہیرو کو دنیا کے بڑے شیطان ـ یہود و نصاری کی مسلّمہ علامت، تکفیریوں کے آقا، سعودیوں اور نہیانیوں کے مالک ـ امریکہ نے شہید کردیا ہے تو یہاں ان کی شہادت سے بھی حسد برتا جارہا ہےاور لفظ "ہلاکت" کو دہرا دہرا کر اللہ کی دی ہوئی عزت کا انکار کیا جارہا ہے جس کا مقصد یا تو سعودیوں کی خوشنودی ہے یا پھر امریکہ کی خدمت مقصود ہے۔ یقینا یو ٹرن جیسی بے اصولی کو اپنا اصول قرار دینے، غلاموں کو اپنا آقا بنانے اور اپنے ان کی خوشامد کی خاطر اپنے ہی بلائے ہوئے اجلاسوں کا بائیکاٹ کرنے والے لیڈرنماؤں کی لیڈری اور زرد صحافت کے قائل صحافی نما‎ؤں کی صحافت کے ذریعے  کوئی ریاست پنپ کر باعزت قوموں کی صف میں کھڑی نہیں ہو سکتی؟
حقیقت یہ ہے کہ عظمت ایک اکتسابی عمل کا ثمرہ ہوتی ہے؛ عظمت کے حصول کے لئے علم و بصیرت اور علم و فہم و بصیرت پر مبنی محنت کرنا پڑتی ہے چنانچہ کسی کی عظمت چھپانے سے عظمت حاصل نہیں ہوا کرتی۔

افسوس کی بات ہے کہ مسلمان کہلوانے والے ـ کسی بھی بہانے ـ یہود نصاری اور ان کے چیلوں کے سامنے تو سر خم کرتے ہیں لیکن مسلمان برادر ملک کے مقتدرانہ عالمی کردار پر بغض و عناد و حسد میں مبتلا ہو کر اس کی عظمت کو ہمآہنگ اور دانستہ انداز سے  نظر انداز کرتے ہیں حتی کہ سرکار بھی اور میڈیا کا مغرب نواز، یہودی نواز اور سعودی نواز ٹولہ بھی سفارتکاری کے آداب اور صحافت کے مسلمہ اصولوں کو پاؤں تلے روندتے اور اپنے ملک میں ان کے کروڑوں بہی خواہوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہوئے، امت مسلمہ کو درپیش اس نازک صورت حال میں اس دیرینہ دوست ملک کو دشمنی اور نفرت کے تمام تر اشارے دیتے ہیں اور چار پٹرو ڈالروں کی لالچ میں غلام عرب ریاستوں کی بوسیدہ  رسی پکڑ کر غیر متعلقہ بحرانوں کے تاریک کنویں  میں اترنے کے شوق میں دیوانے ہوکر دوسرے پڑوسیوں کے ساتھ شدید اختلافات اور تنازعات کے باوجود ـ اپنی واحد تزویری گہرائی (strategic depth) کو اپنے ہاتھ سے نکال رہے ہیں اور کشمیر کے مسئلے میں بہترین موقف اپنانے، پاکستان کو بجلی فراہم کرنے اور گیس پائپ لائن کو پاکستان کی سرحد تک پہنچا کر پاکستان کے گیس بحران پر غلبہ پانے کے لئے بہترین تجاویز دینے والے ملک کے ساتھ متحد ہوکر امن و امان اور ترقی کے بےپایان جادۂ روش پر گامزن ہونے کے بجائے، کچھ نادان ریاستوں کی مرضی کو اپنے طویل المدت مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔

یہاں تک کہ پاکستان کے وزیر خارجہ سمیت متعدد حکام اور ـ کچھ حریت فکر رکھنے اور دور رس ملکی مفاد کے تحفظ پر یقین رکھنے والے صحافیوں، اخبارنویسوں اور ٹی وی اینکروں کے سوا ـ کئی صحافی اسلام کے حلفیہ دشمن کے ہاتھوں قتل ہونے والے دوست ملک کے عظیم اور ہردلعزیز ہیرو کی شہادت کو ہلاکت قرار دے رہے ہیں۔ یا اچانک امریکہ کے پاگل وزیر خارجہ سے بات پھسل جاتی ہے کہ "ہم نے جنرل سلیمانی پر دہشت گردانہ حملے کی پیشگی اطلاع پاکستانی سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو دی تھی"۔ جس سے یہ شائبہ زور پکڑتا ہے کہ پاکستانی سپہ سالار نے دوست ملک اس سازش کی خبر نہیں دی تھی۔

جنرل باجوہ سے پامپیو کے پیشگی رابطے پر انڈیا ٹوڈے سمیت کچھ بھارتی اخباروں نے بھی اپنی مرضی کے تبصرے کئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر کچھ ہی دنوں میں ان کے تیل کی دولت سے مالامال ریاستوں پر مسلط غلام بادشاہ  پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کے بغیر "اقبال کے جنیوا [تہران]" میں حاضر ہوجائیں تو یہ حضرات کس منہ سے اس برادر ملک اور بہادر و فاتح قوم کا سامنا کریں گے؟ کیا اس ملک میں کوئی بھی نہیں ہے کہ اس ناعاقبت اندیشی کا ازالہ کرے؟
کیا ایک ایٹمی اسلامی ملک کو اپنے مبہم مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے؟ کیا پاکستان کو واحد دوست ملک اور حقیقی تزویری گہرائی کے ہاتھ سے نکل جانے کی کوئی فکر نہیں؟ اور پاکستان پر جنگ مسلط ہونے کی صورت میں صف اول میں پہنچ کر پاکستان کی سلامتی پر جان نچھاور کرنے کا عزم ظاہر کرنے والے جنرل شہید سلیمانی کے بقول: اے پاکستانی حکمرانو! اور اے پاکستان کے اعلی فوجی افسرو! [اور اے ناعاقبت اندیش قلمکارو!] "أَيْنَ تَذْهَبُونَ" [تو تم لوگ کدھر جا رہے ہو؟]

مختصر یہ کہ امریکہ نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایک تیسرے اور خودمختار ملک کی خودمختاری پر حملہ آور ہوکر اس ملک کے اعلی حکام کی دعوت پر آنے والے حاضر خدمت ایرانی جرنیل ـ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کے میزبان اور رفیق کار، اسلامی مزاحمت کے عراقی کمانڈر ابو مہدی المہندس کو ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنا کر شہید کیا۔

ایران اور عراق کی رضا کار فوج "الحشد الشعبی" نے انتقام کا وعدہ دیا؛ ایران نے عراق میں امریکی اڈوں پر مجموعی طور پر میزائل داغ کر اعلان کیا کہ "شدید انتقام" کا پہلا مرحلہ انجام کو پہنچا ہے اور یہ بھی کہا کہ اگر امریکہ نے رد عمل دکھا کر دوبارہ جارحیت کی تو اگلا انتقامی مرحلہ بہت شدید ہوگا اور پورے علاقے میں 104 امریکی اہداف کو نشانہ بنایا جائے گا جس کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی امریکی صدر نے اپنے خطاب میں اعلان جنگ کے بجائے ایران کو مذاکرات کی دعوت دی! یعنی یہ کہ امریکہ علاقے میں ایران کے آگے بےبس ہوگیا اور اس نے اپنی شکست کو تسلیم کیا۔

ایرانی میزائل حملے بعد ٹرمپ کے حملے پر مختلف قسم کے تبصرے سامنے آئے جن میں سے ایک کچھ یوں تھا:

"امریکی صدر کا خطاب غیرمربوط تھا، ٹرمپ شدید بوکھلاہٹ کا شکار تھے۔ امریکہ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق وزارت دفاع پینٹا گان کے حکام نے صدر کو ایران کے ساتھ ممکنہ جنگ کے نقصانات سے آگاہ کیا تھا اور یوں صدر نے کسی بھی قسم کی کاروائی سے پسپائی اختیار کی۔۔۔ ٹرمپ نفسیاتی جنگ بھی ہار چکے ہیں اور اپنی افواج کی تعریف کی اور اپنے نئے میزائل سسٹم کی بھی تعریف کی لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ "کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنی فوج اور اپنے میزائل سسٹم کو استعمال کریں گے"۔

ٹرمپ اور اس کے اعوان و انصار نے دیکھ لیا کہ کروڑوں انسانوں نے قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کے جنازے میں شرکت ۔۔۔ دوسری عالمی جنگ کے ایران وہ پہلا ملک ہے جس نے براہ راست امریکی فوج پر حملہ کرکے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور امریکہ کے تکبر کو خاک میں ملایا ہے۔۔۔ وہ نہ صرف عین الاسد اور اربیل کے اڈوں میں ایرانی میزائل حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کو چھپایا ہے اور کہا ہے کہ ان حملوں میں حتی ایک امریکی بھی زخمی یا ہلاک نہیں ہوا ہے۔

یہ سب اس لئے تھا کہ امریکہ میں ان سے انتقامی کاروائی کا مطالبہ نہ کیا جاسکے۔۔۔ پہلی مرتبہ امریکی انتظامیہ کے سربراہ نے "All the options are on the table" کہنے کے بجائے اس سے بھی زیادہ بھونڈی ہرزہ سرائی کی اور کہا: "میں ایران کے ساتھ مذاکرات اور مصالحت چاہتا ہوں" ادھر الحشد الشعبی نے کہا ہے کہ "شہید جنرل سلیمانی کا انتقام لیا گیا اور اب ابو مہدی المہندس کا بدلہ باقی ہے جو اگر ایرانیوں کے انتقام سے شدید تر نہ ہو تو اس سے کم بھی نہ ہوگا۔ انصار اللہ نے انتقام میں اپنا حصہ ڈالنے کا اعلان کیا ہے چنانچہ شک نہيں ہے کہ تابوتوں کی قطاریں بہت جلد امریکہ روانہ ہورہی ہیں"۔  

یہی نہیں بلکہ امریکہ نے گذشتہ 75 سال کے عرصے میں بہت سی قوموں کو ستایا ہے، بہت سے ممالک میں اس کے اڈے ہیں اور وہاں کے عوام ان کی موجودگی کے خلاف ہیں۔ چنانچہ اب جو ایرانیوں راستہ کھول دیا ہے تو ان ممالک میں بھی امریکیوں سے انتقام لینے کے پہلے سے موجودہ جذبات بھڑک سکتے ہیں اور جیسا کہ راقم نے 2016ع‍ میں سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا تھا "ٹرمپ امریکہ کو اپنی سرحدوں اور ساحلوں تک محدود کرنے چلے ہیں"، تو جب امریکہ محدود ہوگا تو اس سے خائف حکمران بھی عقل کے تقاضے کے مطابق کہاں جائیں گے؟ ادھر جب صاحب ثروت عرب ریاستوں کے حکمرانوں کے اس تیل خوار آقا کو جب علاقے سے بےدخل کیا جائے گا تو انہیں یقینا اپنی جارحانہ پالیسیوں اور بڑی طاقتوں کی اداکاری کرتے ہوئے اپنی سرحدوں کے بیچ محدود ہونا پڑے گا اور جب ان کے بیرونی عزآئم نہ ہونگے تو انہیں رشوت دے کر دوسروں کو اپنے ساتھ ملانے کی ضرورت نہ رہے گی، تو اس صورت میں ان کی خوشنودی کے حصول کی خاطر دوستوں کو دشمن بنانے والے حکمرانوں اور ممالک کے پاس کیا چارہ کار رہے گا؟

خلاصہ یہ کہ ایک طاقتور پڑوسی ملک کے ساتھ ـ جو گذشتہ 73 برسوں میں پاکستان کا دوست اور واحد تزویری گہرائی سمجھا جاتا رہا ہے ـ دوستانہ اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات قائم کرنا وقت کا وہ تقاضا ہے جس کا ادراک نہایت سطحی ذہنیت رکھنے والے لوگوں کے لئے بھی ممکن ہے؛ جبکہ وہی سطحی عقلیت گذشتہ عشروں میں یہاں کے حکمرانوں کو یہود و نصاری کے ممالک کے ساتھ یکطرفہ وفاداری پر مبنی دائمی معذرتخواہانہ تعلق قائم کرنے پر مجبور کرتی رہی ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو اسد


/110