اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق زلمی خلیل زاد کا کہنا ہے کہ سعودی حکام نے ان سے ملاقات میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنے کا اعتراف کیا تھا۔
انھوں نے پالیٹیکو جریدے میں اپنی یادداشت میں لکھا ہے کہ میں نے حال ہی میں سعودی عرب کا جو دورہ کیا تھا اس میں مجھے ایک حیران کن اعتراف کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے پہلے میں نے سعودی عرب کے جتنے بھی دورے کیے تھے ان میں جب بھی میں سعودی حکام کے سامنے انتہا پسندانہ اسلام کی مالی حمایت کا مسئلہ اٹھاتا تھا تو مجھے صرف انکار سننے کو ملتا تھا لیکن اس بار جب میں نے سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز کے علاوہ شہزادہ نائف، نائب ولی عہد محمد بن سلمان اور کئی سعودی وزیروں سے ملاقات کی تو سعودی عرب کے ایک اعلی عہدیدار نے اعتراف کیا کہ ہم نے آپ کو دھوکہ دیا ہے۔
زلمی خلیل زاد نے مزید کہا کہ اس نے وضاحت کی کہ سعودی عرب نے ناصرازم (مصر کے سابق صدر جمال عبدالناصر کے نظریات) کا مقابلہ کرنے کے لیے کہ جو سعودی عرب کے لیے خطرہ سمجھا جاتا تھا اور جس کی وجہ سے یمن کی سرحد پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ہوئی، انیس سو ساٹھ کی دہائی کے اوائل سے انتہا پسند اسلام کی حمایت شروع کی۔ کیونکہ اس حکمت عملی سے انھوں نے ناصرازم کو کامیابی سے کنٹرول کیا۔
زلمی خلیل زاد نے کہا کہ سعودی حکام نے انھیں بتایا کہ ریاض نے انیس سو اسی کی دہائی میں بھی امریکہ کے تعاون سے انتہا پسندی کو سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد سعودی عرب نے اس ہتھکنڈے کو ایران کی حمایت یافتہ شیعہ تنظیموں اور تحریکوں کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔
خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ایک سعودی عہدیدار نے دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب ایک عرصے کے بعد اب اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ انتہا پسندی خود اس کے لیے ایک خطرے میں تبدیل ہو گئی ہے اور اب یہ ایران کے ساتھ ساتھ اس کے لیے ایک بڑا خطرہ شمار ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۴۲