7 جنوری 2015 - 20:14
ہفتۂ وحدت مسلمانوں کو کیا درس دیتا ہے؟ آج عالم اسلام کی اہم ترین ضرورت کیا ہے؟

اسلامی جمہوریہ ایران سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ہفتۂ وحدت کی مناسبت سے محافل، سیمینار اور مختلف پروگرام منعقد کئے جا رہے ہیں جن میں مسلمانوں کے مابین اتحاد و وحدت پر تاکید کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف ہونی والی سازشوں کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ۔ ابنا ۔ کی رپورٹ کے مطابق  اسلامی جمہوریہ ایران سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ہفتۂ وحدت کی مناسبت سے محافل، سیمینار اور مختلف پروگرام منعقد کئے جا رہے ہیں جن میں مسلمانوں کے مابین اتحاد و وحدت پر تاکید کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف ہونی والی سازشوں کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ساتھی نے اسی موضوع پر ہندوستان کے معروف اہلسنت عالم دین اور لوک سبھا کے سابق رکن مولانا عبیداللہ خان اعظمی سے گفتگو کی اور ان سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے جبکہ اسلام کے نام پر نام نہاد مسلمانوں نے قتل و غارتگری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس قسم کی سوچ اور فکر رکھنے والے افراد، کس زمرے میں آتے ہیں جبکہ بانی انقلاب اسلامی نے تو اتحاد امت کو وقت کی اہم اور ناگزیر ضرورت قرار دیا ہے۔ اس پر ان کا کہنا تھا۔

خاتم المرسلین رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد مسعود کی خوشیاں پوری دنیا خاص طور پر عالم اسلام میں انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ منائی جا رہی ہیں۔ وہ ذات کہ جس نے جہالت میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو فلاح و نجات کا راستہ دکھایا اور اسے کامیابی کے راستے پر گامزن کیا۔ آنحضرت (ص) نے اسلام کی اعلی تعلیمات کو اپنی سیرت کے ذریعے دنیا والوں کے سامنے پیش کیا اور خدا نے بھی قرآن مجید میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگي کو انسانوں کے لیے بہترین نمونۂ عمل قرار دیا۔ پیغمبر اسلام نے اعلان نبوت کے بعد صرف تئیس برس کے عرصے میں اسلام کو پورے عرب میں پھیلا دیا اور اس کی گونج عرب سے باہر بھی سنائی دینے لگی۔

آج بھی پیغمبر اسلام (ص) کی تعلیمات انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں اور بھٹکے ہوئے انسانوں کو نجات کا راستہ دکھاتی ہیں۔ آج کے دور میں اسلام دشمن طاقتیں نہ صرف خود مسلمانوں کے مقابلے پر آ کر ان کے خلاف برسرپیکار ہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے درمیان مختلف بہانوں سے اختلافات پیدا کر کے اور انہیں کمزور بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کے چکر میں ہیں۔ اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات با برکت کو اپنے اتحاد کا محور قرار دیں اور بارہ سے سترہ ربیع الاول تک کے ایام کو ہفتۂ وحدت کے طور پر منائیں۔ ان کی اس تجویز کا پورے عالم اسلام میں بھرپور خیرمقدم کیا گيا اور اس پورے ہفتے میں عید میلادالنبی کے سلسلے میں جشن اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے شاتم رسول اور استعمار کے ایجنٹ سلمان رشدی کے خلاف ارتداد کا فتوی جاری کر کے دنیا والوں کو بتا دیا کہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اپنے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس بات میں کوئي شک نہیں کہ آج سے برسوں پہلے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے استقلال آزادی کا جو نعرہ بلند کیا تھا، آج وہ مظلوموں کی زبان پر جاری ہے اور آج ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کی صورت میں جو بیداری کی لہر اٹھی تھی اب وہ طوفان کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اس میں تیونس اور مصر کے ڈکٹیٹر اور استعمار کے ایجنٹ خس و خاشاک کی طرح بہہ چکے ہیں۔ تیونس اور مصر کے بعد اب بحرین اور سعودی عرب میں بھی مظاہروں میں شدت آ گئی ہے اور ایک بات اب طے ہو چکی ہے کہ ان ملکوں میں جہاں آمروں اور بادشاہوں کی حکومتیں ہیں، وہاں اب اس قسم کی حکومتوں کا زمانہ گزر چکا ہے اور عوام اب ڈکٹیٹروں کو مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہ عالم اسلام میں اتحاد و یگانگت بہت ہی ضروری اور اہم ہے لیکن ابھی بھی بعض مسلمان ممالک اور مسلم حکومتوں نے اس اہم موضوع کوسنجیدگي سے نہيں لیا ہے۔ البتہ یہاں پراس بات کا ذکرکرنا بھی ضروری ہے کہ ایک صدی سے عالم اسلام کے ہمدرد علماء اور دانشور حضرات اس سلسلےمیں اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہيں۔ حالیہ برسوں کے دوران مسلمانوں میں پیدا ہونے والی بیداری کی لہر کی برکت سے مسلمانوں نے اتحاد کے موضوع پرخاص توجہ دی ہے بالخصوص ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور امام خمینی (رہ) کی جانب سے اتحاد کی مسلسل دعوت دینے کے بعد مسلمانوں میں عملی اتحاد پیداکرنے کا جذبہ پہلے سے زیادہ پیدا ہوگیا ہے۔ آج مسلمان اس نکتے کو بخوبی درک کر رہے ہیں کہ ان کے درمیان مشترکہ نکات بہت زیادہ ہیں اور یہ مشترکہ باتيں تو ادیان الہی میں بھی پائي جاتی ہيں جن پر تکیہ کر کے آپس میں گفت و شنید کر سکتے ہيں۔ آج مغربی حکومتيں کھلے عام مسلمانوں کے خلاف اقدامات میں مصروف ہيں۔ عراق و افغانستان پر قبضہ، شام کے حالات کو خراب کرنا، صہیونی حکومت کے لئے ان کی ہمہ جانبہ حمایت اور بہت سے اسلامی ملکوں میں ان کی مداخلت، مسلمانوں کے خلاف مغربی حکومتوں بالخصوص امریکی سازشوں کے چند نمونے ہيں۔ مغربی طاقتوں کواس بات کا بخوبی علم ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد ان کی تسلط پسندی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی بات کے پیش نظر وہ نہ صرف مسلمانوں کے اتحاد کی راہ میں رکاوٹیں اور مشکلات کھڑی کرتے ہيں بلکہ ان کے درمیان اختلاف و تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کرتے ہيں۔ تجربے سے بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب بھی عالم اسلام کے اتحاد کے لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کی سمت بڑھتا ہے تو امریکہ برطانیہ اوراسرائیل جیسی اسلام دشمن قوتيں مسلمانوں کے فروعی معاملات کوبڑا بنا کر پیش کردیتی ہیں اور ان میں اختلاف و نفاق کا بیج بونے کی کوششیں کر دیتی ہیں۔ امریکہ آج کئی اسلامی ملکوں پر حملے کر کے مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے اور انھيں کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

دوسری طرف یہ بات بھی خوش آيند ہے کہ مسلمان یہ بات سمجھ چکے ہيں کہ سلفی تکفیری اور متعصب وہابی ٹولے، سامراجی طاقتوں کے لئے کام کرتے ہيں اوران کا اسلام سے کوئي لینا دینا نہيں ہے۔ آج عالم اسلام کے پاس افرادی قوت کے ساتھ ساتھ بے پناہ قدرتی ذخائر موجود ہيں اوروہ اپنی اس طاقت سے استفادہ کر کے اس بات کی صلاحیت رکھتا ہے کہ دنیا کی ایک مؤثر اور طاقتور قوت میں تبدیل ہو سکے لیکن اس منزل تک پہنچنے کے لئے سب سے پہلی شرط دین اسلام کی اعلی تعلیمات کے زیرسایہ امت مسلمہ کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اور اپنی صفوں میں اتحاد پیداکرنا ہے۔ ہفتۂ وحدت کے اتحاد بخش ایام آج پھر مسلمانوں کو اتحاد و یکجہتی کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی درس دیتے ہیں کہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانا ہی ایک حقیقی مومن کی نشانی ہے اور آج کے مسلمانوں نے اس درس کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے اور وہ اسی درس کے سہارے اپنی عزت کے احیاء کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

.......

/169