اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ حوزہ علمیہ جامعۃ العروۃ الوثقیٰ لاہور میں مورخہ 22جولائی ماہ مبارک کی تیسویں شب اور تیسری شبِ قدر کے حوالے سے منعقدہ پروگرام عوامِ کی جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے نامور اسلامی اسکالر حجۃ الاسلام و المسلمین سید جواد نقوی صاحب نے کہا کہ انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے، اس وقت دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یہ مسلمان حکمرانوں اور ان کی اپنی بنائی ہوئی تقدیر ہے، ایک تقدیر بنو امیہ نے اپنے جرائم چھپانے کیلئے متعارف کروائی تھی جس کے مطابق انسان کے ہرعمل کا ذمہ دار خدا وند تعالیٰ کی ذات ہے لیکن قرآن مجید کہہ رہا ہے کہ انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے، جس طرح ایک انسان کی تقدیر ہوتی ہے بالکل اسی طرح ایک قوم کی بھی تقدیر ہوتی ہے اور قرآن نے واضح کیا ہے کہ جو قوم اپنی تقدیر نہیں بدلتی اُس کی تقدیر اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا۔ انسان فیصلہ کرتا ہے خدا وند تعالیٰ ہدایت کرتا ہے، انبیاء ؑ، اولیاء ؑاور فقہا و علماء کے ذریعے اسے راستے کے خطروں سے آگاہ کرتا ہے تاکہ فیصلہ کرتے ہوئے درست فیصلہ کرے۔ قومیں اگر عزت کا راستہ چاہیں تو خدا کبھی بھی انھیں ذلت کا راستہ نہیں دیتا۔ اور اگر وہ ذلت کا راستہ اختیار کرے تو انھیں جبراً عزت کا راستہ نہیں دیتا۔ اگر قومیں ترقی و عروج کا راستہ اپنا لیں تو جبراً اللہ انھیں زوال نہیں دیتا۔ یہ فیصلہ انسان کے ہاتھ میں دیا ہے کہ وہ جو فیصلہ کریگا وہی اس کے حق میں ہوگا۔
موصوف نے مزید کہا: آج تیرہ ملین یہودی اسرائیل کے اندر موجود ہیں اور ایک ارب چالیس کروڈ مسلمان روئے زمین پر موجود ہیں، ایک ارب چالیس کروڈ مسلمان کا مزاق یہ تیرہ ملین یہودی اڑا رہے ہیں ،دن دھاڑے ظلم و بربریت انھوں نے برپا کیا ہوا ہے اور سب طرف خاموشی و سناٹا ہے ، یہ سناٹا ایک دن پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کے اسباب و عوامل ہیں، یہ وہ تقدیر ہے جو ملتوں اور ان کے سربراہوں نے اختیار کی ہے ، سربراہوں نے ملتوں کے سامنے یہ راستے رکھے اور انھوں نے اختیار کیا، عرب حکمران شراب و کباب میں مست ہیں اور عوام محرومیوں میں غرق ہے اور انھیں معلوم نہیں کہ تیرہ ملین یہودی ان کی تقدیر سے کھیل رہے ہیں ۔
علامہ جواد نقوی نے مزید کہا: صہیونی ریاست کا ڈرامہ رچایا گیا پھر ترسٹھ سال کے اندر صہیونی ریاست سے تکفیری ریاست متولد ہوئی ہے ۔ صہیونی ریاست کا یہود کے اندرایک نظریہ پیدا ہوا۔ صیہون اسرائیل کے اندر مقدس پہاڑی ہے، جس طرح سے مسلمانوں کے ہاں بھی کچھ پہاڑیاں مقدس ہیں، جن میں حادثات پہلے رونما ہوئے ہیں یا بعد میں ہوں گے، جیسے کوہِ طور پر ایک نبی آئے اور وہاں معجزات ہوئے، اسی طرح یہ سرزمین جس پر صہیونیوں کا قبضہ ہے فلسطین یہ محورِ ادیان ہے،ادیان میں اس کو ہارٹ لینڈ کہا جاتا ہے یعنی یہ زمین کا دل ہے ۔ اس لئے کہ جتنے ادیان اس وقت یہاں آسمانی رائج ہیں وہ اسی سرزمین سے پھوٹے ہیں ۔فلسطین میں ہر مذہب کے مقدسات ہیں، عیسائیت، یہودیت اور مسلمان سب کے ہیں ،ہر ایک کی تاریخ میں ان کی فضیلت موجود ہے، یہودی ساری دنیا سے یہاں آتے ہیں اور یہاں آکر زیارات کرتے ہیں، مقدس سرزمین ہے، قرآن نے بھی اسے مقدس سرزمین کہا ہے ۔ صیہون ایک پہاڑی ہے جو یہودیوں کے مطابق مقدس ہے کہ ملتِ یہود کے لئے اس پہاڑی سے بہت کچھ نمایاں ہوا ہے اور آئندہ بھی ہوگا، اسی نام پر سیاسی حزب وجود میں آئی، جس نے نظریہ شو کیا کہ یہ سرزمین یہودیوں کی ہے اور یہاں اپنی مملکت قائم کریں گے، یہ ظاہری ماجرا شروع ہوا۔ ایک عیسائی صہیونیت بھی ہے، عیسائی صہیونیت کے اندر بھی اس سرزمین کی حیثیت ہے، تمام مذاہب کے مطابق آخری نبرد اس خطے میں ہونے والی ہے۔ شیعیت کے اندر ظہور کا تصور اسی حوالے سے ہے، صہیونیت اور عیسائیت دونوں میں آخری نبرد کا نظریہ پایا جاتا ہے، عیسائیوں کے مطابق یہ آخری نبرد ہے، ان کے مطابق یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ظہور کریں گے اور آپؑ کے ظہور کے جو حالات ہیں وہ یہ ہے کہ جو ابھی ایشیا میں ہو رہا ہے یہ علامتیں ہیں۔ جس طرح شیعوں کو بتایا جاتا ہے کہ امامؑ کے ظہور کی یہ علامات ہیں، زلزلے آئیں گے ، ملک عبداللہ آئے گا، یعنی ہر وہ کام جو غیر متوقع ہے ، جیسے کیلے کے درخت پر آم اور آم پر کیلے لگیں گے یہ افسانوی علامات ہیں ، رہبرِ معظم نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ اگر علامتِ ظہور سو ہیں تو دس علامات درست ہیں، اکثر بے سند اور خوابوں کی وجہ سے بنی ہے ، جب سے خواب تفسیر میں شامل ہوا اور خواب دین کا منبع ہوا ، دین افسانہ و کہانی بننا شروع ہوا ہے۔اسی طرح سے حضرت عیسیٰ کی ظہور کے علامات میں اس خطے کے حالات ہیں ، علامات میں یہ ہے کہ ایک جھوٹا نبی آئے گا، نعوذباللہ عیسائی حضرت محمد ؐ کو جھوٹا نبی کہتے ہیں کہ ، اس صہیون کے پاس آخری نبرد ہوگی جہاں پر جھوٹے نبی کے پیروکار شکست کھائیں گے ، عیسیٰ ظہور کریگا اور تمام یہودی حضرت عیسیٰ ؑ کو نبی مان لیں گے ۔ یہ اس نبرد کی تیاریاں ہیں ، اس نظریے کے جو پیروکار ہیں عیسائیوں کے اندر انہیں عیسائی صہیونسٹ کہاجاتا ہے ، اس لئے مشرقِ وسطیٰ پر ان کی نظر ہے ۔
انہوں نے کہا: ہر مذہب کی آخری نبرد اسی علاقے میں ہے، شیعہ بھی یہی کہتے ہیں امامؑ مکہ میں ظہور کریں گے اور دجال آئے گا اور آخری نبرد اس مشرق وسطیٰ میں ہے ، شیعوں کے مطابق یہ آخری نبرد نہیں ہے جو گذشتہ کے طرح واقعات ہیں جو رونما ہو رہے ہیں ، یہود کا یہاں ایک نظریہ ہے ، تفسیر ان واقعات کے نیچے بہرکیف یہودی اور عیسائی صہیونیت نے مل کر مسلمان سرزمین پر صہیونی سرزمین قائم کی، بیت المقدس اور مسجد الاقصیٰ فلسطین میں ہے، تمام دنیا سے یہود اکٹھے کئے گئے اور انھیں فلسطین منتقل کیا گیا تمام ممالک سے سوائے امریکہ کے، امریکہ سے یہودی نہیں آئے یہاں بہت کم آئے، وقتی طور پر آئے اور چلے گئے ، امریکن یہودی امریکہ میں ہے لیکن باقی دنیا کے سارے یہودیوں کو منتقل کرنے کی کوشش کی گئی اور دنیا میں جتنے غریب یہودی تھے وہ اکٹھے کئے گئے ، امیر یہودیوں میں سے کوئی بھی فلسطین نہیں آیا، باہر، یہودیت اور صلیبیت کے پیٹ سے صہیونیت متولد ہوئی اور مسلمان سرزمین پر یہ مملکت وجود میں آئی جس کا کام مسلمانوں کو ختم اور نابود کرنا ہے، دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی اور مشرق وسطیٰ میں یہ سرزمینیں بننا شروع ہوئیں، موجودہ نقشہ مشرق وسطیٰ کا دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آیا ہے ، پہلے عثمانی حکومت تھی اور اس کے ما تحت تھا اس میں افریقہ اور یورپ کا کچھ حصہ اور سارا مشرق وسطیٰ عثمانی حکومت کے ما تحت تھا۔
انہوں نے کہا کہ جنگ عظیم وہ ہوتی ہے جو عظیم مقصد کے لئے لڑی جائے ، جبکہ یہ جنگ پست ہے ، جنگ عظیم وہ جنگیں جو عظیم مقاصد کیلئے لڑی گئی ہوں ، جنگ بدر، احد، خیبر ، کربلا اور جنگ صفین عظیم جنگیں باقی حقیر جنگیں ، پست لوگوں نے پست مقاصد کے لئے لڑی ہیں ، چونکہ ہمارے لوگوں نے پست نصاب بنایا اور حقیر لوگوں کو پست جنگیں عظیم کر کے بتائی گئیں ہیں اور عظیم جنگوں کو پست کر کے بتایا گیا، حقیر جسے جنگ عظیم کہتے ہیں اس کے بعد ایک عثمانی ریاست تھی جسے خود توڑ دی گئی اور تقریباً ۲۵، ۲۶ ملک بنائے گئے ، چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اور مختلف لوگوں کو تقسیم کر دیے گئے ، کچھ شمالی افریقہ ملاکر یہ ۵۲ ممالک بنائے گئے، اُس وقت کے حالات کی یہ ضرورت تھی کہ مسلمان ٹوٹے اورپچیس ملک بنے ،ایک طرف سے یہ ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور ایک طرف ایک ریاست کی جنم ہوئی ، 1945ء میں اسلامی حکومت ٹوٹی اور1947ء میں صہیونی ریاست وجود میں آئی، درحقیقت اس ریاست کیلئے یہ انتظام کیا گیا، اس ریاست کے بڑے مقاصد تھے، ایک تو یورپی سرزمینوں سے یہودیوں سے پاک کیا جائے ، ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ پر یہودیوں نے ظلم کیا ہے ، لہٰذا نفرت کرتے ہیں ،جرمن پیش پیش ہیں لیکن باقی سارے عیسائی نفرت کرتے ہیں ، ان لوگوں کو یورپ سے نکالا تاکہ ان کی سرزمینیں یہودیوں سے پاک ہو، ان کے مطابق یہودی ریاست کا قیام عیسیٰ ؑ کی ظہور کی علامات میں ہے لہٰذا برطانیہ، امریکہ وغیرہ یہودیوں کے حامی ہیں ، جن سے نفرت کرتے ہیں ان کے حامی ہیں۔ یہ ریاست اگر یہود کیلئے ، یہودی قوم کیلئے بنانا ہوتا تو کہیں بھی بنائی جا سکتی تھی، امریکہ میں بنایا جا سکتا تھا، امریکہ میں کینیڈا خالی پڑا ہے ، پاکستان کے ایک صوبے کے برابر آبادی ہے اور بڑا ملک ہے وہاں یہود آباد کئے جا سکتے تھے، اسی طرح سے بہت علاقے آسٹریلیاخالی ہے، آبادی کیلئے پاکستانیوں کو دعوت دیتے ہیں ، نیوزیلینڈ خالی ہے وہاں ایک ریاست بنائی جا سکتی تھی لیکن انھیں یہودیوں کو آباد کرنا مقصود نہیں تھا بلکہ یہودی ریاست بنانا تھا چونکہ یہ حضرت عیسیٰ ؑ کے ظہور کیلئے علامت ہے ، ابھی بھی اوباما روز تقریر کر کے صہیونیوں کی حمایت کرتا ہے ، فلسطینی بچوں کے قتل عام کرنا صہیونیوں کا حق سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ صہیونی اپنا دفاع کر رہے ہیں ، یہ بیان دے رہا ہے۔
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ بہرکیف مسلمان کی سرزمین کے اندرصہیونی ریاست وجود میں آئی ، اس کیلئے جو ماحول بنایا گیا، مشرقِ وسطیٰ میں ممالک بنائے گئے ، ایک ریاست چھوڑ کر چھبیس ممالک بنائے گئے اور ایک صہیونی ریاست بنائی گئی ، صہیونی ریاست بنانے میں عرب حکمرانوں کا بہت دخل ہے ، انھیں لالچ یہ دی گئی کہ آپ مسلمانوں کو آپس میں الجھائیں گے ، کوئی مسلمان فوج یا عوام صہیونیت کی طرف متوجہ نہیں ہوگی اور اس خلوت میں اس موقعے پر فرصت سے فائدہ اٹھاکر آپ صہیونی ریاست بنائے بھی اور مضبوط کرے ، آپ ساٹھ سال کی تاریخ دیکھیں ، آل صعود جو1932ء میں پیدا ہوئے اور پھر1947ء میں انکا تسلط حجاز پر ہوا اور انھوں نے صہیونی ریاست بننے میں بہت زیادہ موقع دیا، چونکہ ان کی ماموریت یہ تھی کہ جب تک صہیونی ریاست بن کر مضبوط نہ ہوتی ، آل سعود مسلمانوں کو آپس میں مشغول رکھیں تاکہ مسلمانوں کی طرف کوئی خطرہ مسلمانوں میں نہ ہو، جب جمال عبد الناصر مصر کا حکمران تھا تب تک عرب کو جمع کرنے کی کوشش کی ، پانچ چھ جنگیں صہیونیوں کے خلاف عربوں نے لڑیں ، لیکن برے طریقے سے شکست کھائی ، اس طرح بری طرح شکست کھائے کہ آدھا اردن دے بیٹھے، فلسطین لینے کے نام سے اردن بھی دے بیٹھے، جولان کی پہاڑیاں اور جنوبی لبنان یہودیوں کو دے بیٹھے ، اس وقت صہیونی اتنے نہیں تھے لیکن عربوں کو ذلیل کیا، اس ہارنے میں بھی آلِ سعود کا اہم کردار تھا، اس وقت صہیونی حکومت کو اہم ملک سمجھا جاتاہے لیکن اس وقت نئی صدی جب شروع ہوئی، اکیسیوں صدی کے آغاز میں اس عمل کا نیا مرحلہ شروع ہوا ہے ، اس نئے مرحلے میں یہ نئے حالات کی ضرورت تھی ، مشرق وسطیٰ کو توڑ کر نئے صفحے بنانے کی ضرورت پڑی، نئے مشرق وسطیٰ کی اصطلاح استعمال کی ، جارج بش کی حکومت نے کہا نیا مشرق وسطیٰ بنانا ہے ، چونکہ یہ مشرق وسطیٰ جنگ حقیر کے زمانے کیلئے تھا اس وقت فائدہ اٹھایا، لہٰذا یہ نقشہ بنایا گیا،وہ نقشہ بدلنا چاہے اور صورتحال ابھی بدل گئی ، کچھ ضعیف تھے طاقتور ہوگئے اور کچھ طاقتور تھے وہ ضعیف ہوگئے کہ اب ایک سیاسی نظام لیبرل ڈیموکریسی نے پوری دنیا پر حکومت کرنی ہے ، ایک تجارتی نظام بنانا ہے ، زمین کا دارالخلافہ امریکہ ہوگا باقی سارے اس کے یونین ہوں گے ، اس کیلئے انھیں تبدیلی کی ضرورت تھی، ہارٹ لینڈ کے اندر یعنی مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کا نیا عمل شروع ہوا، اور یہ نائن الیون سے شروع ہوا، نئی حکمت علمی کا نقشہ پرانا بنا تھا لیکن اپریشنل مرحلہ نائن الیون9/11 سے شروع ہوا کہ ایک ڈرامہ رچایا گیا اور فوراً اسلامی ممالک کا رخ کیا گیا اور نیٹو کے نام سے پوری طاقت لے کر مشرقی ممالک پر چڑھ دوڑے اس کیلئے یہاں انھوں نے حامی گروپ بنا رکھے تھے ، وہی گروہ آج نئی ریاست قائم کرنے والے ، تکفیری ریاست قائم کرنے والے ہیں، اس وقت ان کا نام مجاہدین رکھا ، چونکہ یہ امریکہ کیلئے بھی شاید ایک نیا مرحلہ تھا، وہ عملی فورس بنانے کیلئے کہیں سے توجہ تھی لیکن کہیں اور سے ملی، امریکہ روس جنگ جسے افغان روس جنگ کہتے ہیں ، اس جنگ کے دوران مفت ایک فوج ملی مجاہدین کے نام سے ، جس میں عرب سے بہت سارے لوگ آکر شامل ہوئے ۔
انہوں نے کہا کہ ضیاء نے اپنے اقتدار کی مضبوطی کیلئے یہ حماقت کی، اس جنگ کا نام جہاد رکھا کہ روس کے خلاف امریکہ سرپرستی میں جہاد ہو رہا ہے ، جتنے پاکستانی و عرب جہاد میں شامل ہوئے ان کے نام بدلتے رہے، یہ مجاہد بنے ، دنیا پرست بنے پھر ان کے مختلف گروہ بن گئے ، کوئی القائدہ، کوئی طالبان، اور کوئی کیا بن گیا، ان میں ایک بڑا گروہ عرب مجاہدین کا تھا ، اس کے اندر اب نیا نظریہ نکلا تکفیری اور تکفیری لشکر مشرق وسطیٰ کی نئی تشکیل اور اس میں نئی ریاست کا قیام ، جنگِ حقیر کے بعد جو یورپ میں لڑی اور اس کا نقصان مشرق کو ہوا، نئے نقشے کے مطابق مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنا ہے چونکہ اس وقت کیلئے یہ نقشہ اچھا تھا جیسے گھر بناتے ہیں اور پچاس ساٹھ سال بعد گھر بناتے ہیں ، جیسے ابھی میٹرو بسیں اور ماڈرن شہر بنے ہیں تو پرانے گھربھی تبدیل کئے جا رہے ہیں ، ابھی بڑی بڑی شاہراہیں بن رہی ہیں ، شہروں کے نقشے بدل رہے ہیں ، جہاں محلہ تھا روڈ بن گیا، جہاں روڈ تھا وہاں کالونی بن گئی ، جہاں کھیت تھے وہاں آبادیاں آگئیں، چونکہ حالات بدل رہے ہیں ، پہلے لوگوں کے پاس حیوان تھے اب گاڑیاں ہیں ، پہلے استبل بنتا تھا اب گاڑی کھڑی کرنے کے لئے جگہ بناتے ہیں ، اسی طرح سے سیاسی حالات بدل گئے ، ایک طاقت اور ایک ریاست بننی ہے ، اس کیلئے نئی ترتیب اور نئے سیاسی نقشے کی ضرورت ہے ، اس نئے سیاسی نقشے میں وہی کام جو صہیونی ریاست کے قیام کے لئے صہیونی لشکر نے ادا کیا نئے نقشے میں تکفیری لشکر وہی کام کر رہا ہے ، تکفیری ریاست بننے جا رہی ہے ۔
انہوں نے کہا: امریکہ کیلئے نئی بات تھی کہ ان ممالک میں ایسی فورس چھپی ہوئی جو مذہبی و جہادی جذبے کے ساتھ ہے جو لڑنے مرنے کیلئے ہیں ، اس وجہ سے انھیں بلایا گیا، پھیلایا گیا اور کثرت سے یہ طبقہ اور لشکر پیدا ہوا۔ اس لشکر کے ذریعے اب تکفیری ریاست وجود میں آنی ہے ، تکفیری ریاست بننا بھی صہیونی ریاست کیلئے ضروری ہے ،آج سوسال پہلے صہیونی ریاست کی قیام کیلئے ایک شخص نے کتاب لکھی اور اس نے صہیونی ریاست کا جو بفر زون منظور کیا ، بفر زون وہ حفاظتی علاقہ جو اسی علاقے کے محفوظ رکھنے کیلئے ہوتا ہے ، مثلاً ایک مدرسے کو محفوظ رکھنے کیلئے چاروں طرف کچھ اور خالی ایریا بنایا جایے تاکہ وہ حفاظتی ایریا شمار ہو، یہ حصہ باہر کی دنیا اور اندر کی دنیا میں حائل ہوتا ہے ، یہ حفاظتی علاقہ ہے ، صہیونی ریاست اسرائیل میں بنی اور اس کا نقشہ دریائے نیل سے فرات تک بنایا گیا اور ان کے درمیان کی سرزمین، نیل تا فرات صہیونی ریاست بننے کی ضرورت ہے ، بفر زون کے طور پر اس ریاست کیلئے اس صہیونی تھیوریسین نے کہا تھا کہ بفر زون کیلئے بہترین ریاست کرد ہے ، کرد عوام کی ایک ریاست بنائی جائے ، کردستان پر قبضہ نہ کیا جائے ، کردستان چار ممالک میں ہے ، ایک بڑا ایران میں ، عراق میں ، مصر میں اور سوریا میں ہے ، صہیونی ریاست کے معماروں نے کہا تھا کہ کردی ریاست بناکر صہیونی ریاست کا بفر زون بنایا جائے ۔ یعنی یہ حفاظتی علاقہ صہیونیوں کی بچت کیلئے ضروری ہے ، کردستان اپنے ملک کا اب اعلان کریگا، جو سب سے پہلے عراق سے علٰحیدہ ہوگا، تکفیری لشکر کے ذریعے عراق ٹوٹ پھوٹ ہوگا، تکفیری لشکر یہودیوں کو بفر زون فراہم کرنے کیلئے ، اس وقت غزہ پر جو بربریت ہے اس کے حوالے سے تکفیری عالم دین نے قرآن سے ثابت کیا ہے کہ یہود کے خلاف نہیں لڑنا ہے ، آج تک تکفیری لشکر ، ان کے علماء، مفتی اور کمانڈروں نے ایک دفعہ بھی غزہ کیلئے بیان نہیں دیا ہے ، حالانکہ وہ ان کے ہم مسلک ہیں ، ایک پاکستانی صحافی کے مطابق جس خطے کے اندر سو فیصد سنی مسلمان ہے اس پر ظلم ہو رہا ہے اور خطے کے حامی صرف شیعہ ہیں، باقی کیوں خاموش ہیں ، فقط شیعہ ان کی حفاظت اور دفاع کیلئے پوری دنیا کے اندر کیوں آواز اٹھاتے ہیں ، تکفیروں نے پہلے اپنے علاوہ سب کے کفر کا فتویٰ تیار کیا اور پھر کہا کہ کفر کے خلاف جہاد کرنے کا حکم ہے ، تکفیری ریاست کا مقصد نئے مشرق وسطیٰ بنانا ہے۔
عروۃ الوثقیٰ کے سربراہ نے کہا کہ سابقہ امریکن وزیر خارجہ کونڈلی زرائیس نے2005ء میں جدید مشرقِ وسطیٰ اصطلاح استعمال کی تھی ، پرانا مشرق وسطیٰ میں یہ خلیجی ممالک ہیں ، سعودی عرب، ایران ، مصر وغیرہ ہے ، نئے مشرق وسطیٰ کیلئے بحران کی ضرورت ہے اس شیطان عورت کا یہ جملہ ہے ، اس نے کہا کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ولادت کے وقت اس کی ماں کو بہت درد ہوتا ہے ، جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں دردناک مرحلے سے گزرتی ہے ، درد ولادت اس کو کہہ سکتے ہیں ، کنڈلیزرائس کے مطابق یہ جو قتل عام ہو رہا ہے یہ نئے مشرق وسطیٰ کے تولد کے لئے ضروری ہے ، اگر یہ درد نہیں ہوگا تو نیا بچہ پیدا نہیں ہوگا، اگر ایک بچے کے جگہ چھ سات بچے پیدا ہوں ، نئی مشرق وسطیٰ میں نو ملک بنیں گے، ترکی نے ٹوٹنا ہے یا تین ترکی بننے ہیں ، عراق نے ٹوٹنا ہے تین بننے ہیں ، ایران ٹوٹنا ہے ، پانچ ایران بننے ہیں ، اور پاکستان نے ٹوٹنا ہے ، انھوں نے کہا نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش کیلئے یہ دردناک منظر ہے ، وہ کہتے ہیں نئے ملک بنیں گے اور ان کیلئے یہ درد ضروری ہے ، یہ کئی دفعہ پاکستان آئی اور پاکستانیوں نے ان پر درود سلام پڑھا، پاکستان میں یہ درد ہے اور یہ پاکستانیوں کو سمجھانے آتی تھی کہ یہ درد ضروری ہے ، بلوچستان ، سندھ، پنجاب اور سرحد کو الگ الگ کرنے کا پلان ہے ، انھوں نے اپنے پرنٹ میڈیا میں ایسے نقشے چھاپے ہیں جن میں پاکستان ٹوٹا ہے ، اسی طرح سے ایران نے ٹوٹنا ہے ، ایران کو بھی اس درد سے گزرنا پڑیگا، ایران میں ایک عربستان بننا ہے ، ایک بلوچ ایران بننا ہے ، ایک کرد اور ایک ترک ایران بننا ہے اور ایک فارس ایران بننا ہے ، ظاہر ہے جہاں پانچ بچے پیدا ہوں وہاں زیادہ درد ہونا ہے ، عراق میں تین بچے ہونے ہیں ، یعنی کردستان شیعہ عراق اور سنی عراق، اسی طرح ترکی کردستان ترکی بننے کیلئے یہ درد شروع ہوگا، کرد ریاست بننا صہیونی ریاست کے لئے بفر زون ہے ، عرصے سے یہ کوشش میں تھے کہ کرد عوام اور قبائل جن کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں بھی ہے ، ،یہ کرد قبائل صہیونی ریاست بننے کے بعد کوشش میں ہے کہ کردستان بنے، اب انھیں امید نظر آرہی ہے کہ کردستان بن سکتی ہے ، تکفیری طاقت نے ایک نیا موڑ لایا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ افغان جنگ میں تکفیریوں پر تجربہ کیا گیاہے اور اب عراق اور شام میں تکفیریوں کا استعمال کیا جا رہا ہے ، تکفیری لشکر نے دہشت پھیلانے کیلئے سب سے سستا خون بہانا ہے ، دوسروں کو ڈرانے کیلئے سب سے سستا خون گرانا ہے تاکہ سب خوفزدہ ہوجائیں، اس وقت سستا ترین خون شیعہ کا ہے ، اس کا نہ کوئی خون بہا مانگتا ہے ، وہ مارتے ہیں ، خود پولیس کو کہتے ہیں کہ ہم نے شیعوں کو قتل کیا ہے لیکن نا معلوم کے خلاف پرچہ کاٹا جاتا ہے ، خبر نامعلوم کے خلاف، کوئٹہ میں قتل عام ہوتا ہے لشکر جھنگوی ذمہ داری قبول کرتی ہے اور اخبار میں خبر چھپتی ہے کہ نا معلوم افراد نے دھماکہ کیا۔ ان کے مجرم جیلوں سے نکالے جاتے ہیں ، چونکہ شیعہ سب سے سستا خون ہے ، جیسے میڈیکل کے ٹریننگ کیلئے چوہے اور مینڈک استعمال کئے جاتے ہیں ، دہشت گردی کی ٹریننگ کیلئے سب سے سستا خون شیعہ کا ملا ہے ، ساری دنیا کو ڈرانے کیلئے شیعہ کو ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہیں ، مارتے ہوئے گلے کاٹتے ہوئے ، توہین اور بے حرمتی کرتے ہوئے ، دردناک مناظر کے ساتھ ویڈیو بناتے ہیں پھر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے ہیں ، میڈیا پر دیتے ہیں ، کوئی بھی اپنے خلاف نفرت پیدا نہیں کرنا چاہتا لیکن چونکہ یہ دہشت پھیلانا چاہتے ہیں اور ایسا کر رہے ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت عراق میں بہت خوف پھیلایا گیا ہے، جس شہر میں یہ کہا جاتا ہے کہ داعش آرہی ہے وہاں سے سارے عراقی نکل کر بھاگ جاتے ہیں ، تکفیریوں نے یہ طریقہ اپنایا ہے کہ شیعہ کو کافر کہو، اس کا بے دردی سے قتل کرو اور پوری دنیا کیلئے ویڈیوز بناکر پھیلاؤ تاکہ پوری دنیا خوفزدہ ہوجائے، جب وہ خوفزدہ ہوجائے تو پھر حملہ کرو اور اس پر قبضہ کرکے اپنی مرضی کا خود ساختہ نظام نافذ کرو۔ انھوں نے عراق کے سنیوں کو پیغام دیا ہے کہ ہم نے جو خلیفہ مقرر کیا ہے یعنی ابوبکر بغدادی کی بیعت کرو ورنہ تمہارا حشر بھی شیعوں والا ہوگا۔ جیسے بندر کے بچے کو سدھانے کیلئے کتے کے پلے کااستعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت جماعت اسلامی نے رٹ لگایا ہوا ہے کہ سعودی عرب اب عالم اسلام کو کنٹرول کرے، اب سعودی عرب خود اپنے بچوں سے ڈرا ہوا ہے چونکہ تکفیریوں نے بہت دہشت پھیلائی ہے ، ایک زمانے میں شیعہ ان کا ہدف اور ٹارگٹ تھا لیکن اب شیعہ ان کا وسیلہ ہے ، دوسروں کو ڈرانے کیلئے شیعوں کا استعمال کیا جا رہا ہے ، یہ گردن کاٹتے ہیں اور ساتھ ویڈیو بناتے ہیں اور وہ اس لئے کہ اس سے ہزار گردن جھک سکتے ہیں ۔ عراق میں یہ لشکر بنا، چھوٹے چھوٹے گروہ بنے ، پھر جمع ہوکر حملہ کیا اور ابھی خلافت کا اعلان کیا ہے اور شیعہ سنی سب کو دھمکی دی ہے کہ جو اس منحوس ترین انسان کی بیعت نہیں کریگا وہ مار دیا جائے گا۔ان تمام گروپوں کے اندر بوکھلاہٹ ہے ، یہ تکفیری لشکر جس نے عراق پر چڑھائی کی عراق پر قابض ہوا اور ساتھ ہی غزہ پر چڑھائی ہے یہ بھی وحشت کے منظر کا کھیل ہے ، صہیونیت اور تکفیریت میں بہت ساری شباہتیں پائی جاتی ہیں ،چونکہ صہیونیت یہودیوں کے پیٹ سے نکلی ہے اور تکفیریت وہابیت کے پیٹ سے۔
حجۃ الاسلام سید جواد نقوی نے مزید کہا کہ حزب اللہ نے دنیا کو بتایا کہ اسرائیل بیت عنکبوت ہے ، 2006ء میں حزب اللہ نے دنیا کو بتایا کہ جس کو تم وحشی اور خطرناک سمجھتے ہو یہ بہت بزدل اور کمزور لشکر ہے ، تکفیری بھی ایسا ہی ہے اگر کوئی اس کے مقابلے میں کھڑا ہوجائے ، جیسے یہی شام میں گیا اور حزب اللہ نے اس کے خلاف قیام کیا ، یہ شام سے بھاگ کر عراق آیا اور یہ یہاں بھی وحشت پھیلاکر اپنا کام کر رہا ہے چونکہ یہ لڑنہیں سکتا صرف دہشت پھیلاتا ہے ، اس وقت تیس ہزار فوج سعودیہ نے جمع کر کے عراقی بارڈ پر لگا دیا ہے چونکہ اب یہ سعودی عرب کیلئے بھی خطرہ بن گیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۴۲