ابنا: 32 برس قبل یعنی 25 اپریل سن 1980 کو امریکی کمانڈوز اپنے ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے رات کی تاریکی میں صحرائے طبس کے ایک متروک رن وے پر اپنے کئی دیو پیکر طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے ساتھ بحفاظت اترے لیکن پھر اڑ نہ سکے اور بوکھلاہٹ کے عالم میں اپنے ساتھیوں کی لاشوں کو چھوڑ کر ایسے بھاگے کہ پھر دوبارہ پلٹ کر دیکھنے کی بھی جرات نہ کر سکے۔ امریکہ کی اس ذلت آمیز شکست کی خبر جب صدر وقت جمی کارٹر کو دی گئی تو ان کے قومی سلامتی کے مشیر برژنسکی کے بقول جمی کارٹر اس خبر کو سن کر ایک زخمی سانپ کی طرح لوٹنے لگے اور رنج و غم ان کے چہرے سے مکمل طور پر عیاں تھا۔
جمی کارٹر تو اس واقعے کے بعد منہ دکھانے کے قابل نہ رہے اور صدارتی انتخابات میں اپنے حریف رونالڈ ریگن سے شکست کھاکر وھائیٹ ہاؤس کو خیرآباد کہہ کر تاریخ کا حصہ بن گئے۔ لیکن وھائیٹ ہاؤس میں ان کے بعد براجمان ہونے والے امریکی حکام اس تاریخی اور ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینے کے آج تک بے چین نظر آتے ہیں۔ طبس میں ریت کے طوفان کے ذریعے خداوند عالم نے ایک مغرور و سرکش قوت کو سرنگوں کیا۔ وہ تمام تر تیاریوں اور جدید ترین ہتھیاروں کے باوجود شرمناک شکست سے نہ بچ سکے اور انہیں ریت کے معمولی البتہ غیر متوقع طوفان سے عبرتناک شکست کا مزہ چکھنا پڑا۔
اپنی اس ذلت آمیز شکست کا اعتراف کرتے ہوئے جمی کارٹر نے بے ساختہ یہ بات کہی کہ اللہ ایرانیوں کے ساتھ ہے۔ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ نے امریکی حکام کی اس رسوائی پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک جرم بلکہ عالمی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ آپ نے فرمایا وہ طبس میں اترے اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ وہ طبس میں اپنے کمانڈوز اتاردیں گے اور اپنے جاسوسوں کو آزاد کرانے کے بہانے ایران پر قبضہ کرلیں گے لیکن خداوند عالم نے ان کے لئے تیز ہوا اور ریت کا طوفان برپا کیا جس نے انہیں شکست فاش سے دوچار کردیا۔
ایران پر چڑھائی سے پہلے چند امریکی کمانڈوزحضرت امام خمینی (رح) نے خدا پر توکل اور غیبی امداد کو ایک عظیم ہتھیار قرار دیتے ہوئے فرمایا مغرب والے ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ چنانچہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کے فرمان کے مطابق امریکہ اور مغرب والے آج بھی اس چیز کو سمجھے بغیر طرح طرح کی سازشوں میں مصروف ہیں۔البتہ مغربی ملکوں نے جب بھی امریکہ سے ہٹ کر اور مستقل بنیادوں پر کوئی فیصلہ کیا ہے تو اس میں اس حقیقت کے ادارک کی جھلک نظر آتی ہے ایران ایک آزاد اور خودمحتار ملک ہے جو کسی سے دبنے اور ڈرنے والا نہیں۔ چنانچہ آج اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان رامکین مہمان پرست نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران اس بات کا ذکر کیا کہ بغداد مذاکرات سے پہلے ایران پر عائد بعض پابندیوں کےخاتمے کا امکان ہے اور اگر مغربی ممالک پابندیوں کو ختم کردیتے ہیں تو یہ ان کی جانب سے مثبت قدم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بعض پابندیوں کےخاتمے سے یہ ظاہر ہوگا کہ مغربی ممالک ملت ایران کے خلاف اپنے غیر قانونی اورغیر دانشمندانہ اقدامات کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکیوں کی مشکل یہ کہ وہ اپنی ٹیکنا لوجی اور طاقت کے بل پرساری دنیا کو اپنا تابع فرمان بناکر رکھنا چا ہتے ہیں، ایک ایسی دنیا جہاں سب ان کے سامنے دم مارنے کی بجائے دم ہلاتے رہیں۔
11 فروری 1979 سے قبل تک کم بیش ایسا ہی تھا۔ کچھ ممالک جو امریکہ کے سامنے ڈٹے نظر آتے تھے وہ سابق سوویت یونین کے تابع فرمان تھے اور اپنی مرضی سے کچھ کرنے اور کہنے کی پوزیشن میں وہ بھی نہیں تھے۔ دراصل اس وقت کی ان دونوں طاقتوں نے دنیاکو دوحصوں میں بانٹ رکھا تھا اور ایسے حالات پیدا کردئیے تھے کہ کوئی ملک بھی مستقل طور پر زیادہ عرصے تک اپنی سیاسی حیات کو جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔ 11 فروری 1979 کو اس خطے میں امریکہ کی سب سے بڑی پٹھو حکومت کے خاتمے نے عالمی توازن کو درہم برھم کر کرکے رکھدیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ کی پٹھو حکومت کے خاتمے کے بعد ایران جو نظام قائم ہوا اس نے اسی شدت کے ساتھ سابق سویت یونین کو بھی دھتکاردیا جس شدت سے اس نے امریکہ کو اپنے سے دور کیا تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اور خود سابق سویت یونین یہ سمجھ رہا تھا کہ ایران مغربی بلاک سے نکلنے کے بعد روسی بلاک میں چلا جائے جائےگا اور اگر ایسا ہوجاتا تو یہ کوئی بڑی تبدیلی نہ تھی اور عالمی لٹیری طاقتوں کی منشا اور توقع کے عین مطابق تھی۔
c-130 طیارے کا ملبہ اور اس کے پاس امریکی کمانڈوز کی لاشیںلیکن بانی انقلاب اسلامی نے لا شرقیہ اور لا غربیہ کے اپنے نعرے کو پوری قوت سے عملی جامہ پہنایا تو اس وقت کی دونوں بڑی طاقتوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ لہذا ایسے حلات پیدا کئے گئے کہ ایران اپنی اس پالیسی کو ترک کرکے کسی ایک بڑی طاقت کے ساتھ منسلک ہوجائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ایران کوخانہ جنگی طرف دھکیل نے کی سازشیں کی گئیں، علیحدگی پسندی کا رجحان رکھنے والے گرہوں کو ابھارا گیا، فوجی بغاوت کے ذریعے اسلامی انقلاب کو ختم کرنے کا منصوبہ بنیا گیا، ان سب میں ناکام و نامراد ہونے کے بعد، عراق کے بلند پرواز صدر صدام حسین کے ذریعے باضابطہ فوجی چڑھائی کرادی گئی۔ صدام حسین عراق کا پانچواں صدر تھا جو بد نام زمانہ امریکی جاسوس تنظیم CIA کی مدد سے بتدریج عراق کے اقتدار پر قابض ہوا تھا۔ صدام کی جانب سے ایران پر فوجی چڑھائی کے بعد اس کی جس زور شور کے ساتھ امریکہ اور مغربی ملکوں نے حمایت کی وہ تاریخ کی صفحات پر ثبت ہے۔
ایران اس کے باوجود بھی کسی بھی طاقت سے وابستہ ہونے پر تیار نہ ہوا اور تن تنہا اس جنگ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا۔اس جنگ میں ایران کی مقابلے اصل شکست امریکہ اور دیگر سامراجی طاقتوں کو نصیب ہوئی، ایران اور ملت ایران آ] بھی اپنی خودمختاری، استقلال اور آزادی کا دفاع کر رہی ہے۔ ملت ایران واقعہ طبس میں امریکہ ذلت آمیز شکست کی یاد ایکئ ایسے وقت منا رہی ہے کہ علاقے میں امریکہ نواز حکمرانوں کو ان کی اقوام کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے اور حسنی مبارک جیسا ڈکٹیٹر عدالت کے کٹہرے میں اپنی تیس سالہ خیانتوں کا جواب دے رہا ہے۔ یہی حال یمن، بحرین، سعودی عرب اور کویت و قطر کا ہے کہ جہاں عوام اپنا حق لینے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور حالات یہ نوید رہے کہ معاشی مسائل اور سیاسی بحرانوں میں گھرا امریکہ، سویت یونین کے انجام کو پہچنے والا ہے۔انشا اللہ .......
/169