اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر اطلاعات (Intelligence Minister) جناب جحت الاسلام والمسلمین حیدر مصلحی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ کی جاسوسی ایجنسیوں نے بی بی سی کے بھیس میں ایران کے خلاف نئی تخریبکارانہ سرگرمیوں کا آغاز کررکھا تھا چنانچہ وزارت اطلاعات نے مداخلت کی اور برطانیہ کی تخریبی سرگرمیوں کا سد باب کرتے ہوئے بیشتر افراد کو برطانوی سروسز کے جال میں پھنسنے سے بچانے کے لئے مؤثر کاروائی کی۔
انھوں نے کہا: ہم نے کم از کم گرفتاریاں کی ہیں لیکن یہ اقدام ہمارے اقدامات کا آغاز ہے اور جہاں بھی ضرورت پڑے گی کسی کے ساتھ تکلف نہیں کریں گے اور ہم اپنے فرائض قطعیت کے ساتھ نبھائیں گے۔انھوں نے بی بی سی سے وابستہ جاسوسوں کی گرفتاری پر بیرونی رد عمل کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: ہم بیرونی اور اندرونی رد عمل پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ہمارے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کونسا گروہ یا فرقہ یا جماعت یا گروہ اس حوالے سے محرک کی حیثیت سے سرگرم عمل ہے کیونکہ ہم آنے والے اقدامات کے دوران ہر قسم کے رد عمل کو بھی مد نظر رکھیں گے۔وزیر اطلاعات نے بی بی سی کی فارسی سروس کے ڈائریکٹر کے عجلت زدہ اور غیر ماہرانہ رد عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: بی بی سی کے ایک اہلکار نے ایک دن میں چار مرتبہ انٹرویو دیا اور نہایت گھبرایا ہوا اور غصیلا چہرہ لے کر ایک طرف سے ہمیں اپنا پیغام منتقل کرنے کی کوشش کی اور دوسری جانب سے ایران میں اپنے غیرقانونی کارکنوں کو تسلی دینے نیز چارہ کار سکھانے کی کوشش کرتا رہا۔انھوں نے کہا: بی بی سی نے برطانوی حکومت حتی کہ امریکی حکومت سے درخواست کی ایران پر دباؤ ڈال دیں تا کہ وہ اس ادارے کے جاسوسوں پر ہاتھ نہ ڈالے یوں وہ جو اپنے آپ کو ایک ابلاغی ادارہ ظاہر کررہے ہیں امریکہ اور برطانیہ سے درخواست کررہے ہیں کہ عالمی تنظیموں کے ذریعے ایران کو ان جاسوسوں کے خلاف اقدامات سے روکیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔
جناب مصلحی نے کہا: بی بی سی کی فارسی سروس نے اپنے نیٹ ورک سے وابستہ افراد کی گرفتاری پر بہت عجلت سے بڑا واضح رد عمل ظاہر کیا اور یوں اس نے اپنی خودمختاری، استقلال، غیرجانبداری حتی کہ ابلاغی ادارہ ہونے کا پول کھول دیا اور ثابت کردیا کہ یہ ادارہ خودمختار، مستقل، غیرجانبدار نہیں ہے بلکہ یہ ایک ابلاغی ادارہ بھی نہیں ہے چنانچہ یہ بات بھی آشکار ہوئی کہ وزارت اطلاعات کا اقدام کتنا بروقت، مناسب، اہم اور باریک بینانہ تھا۔وزیر اطلاعات سے پوچھا گیا کہ کیا قبل ازیں حکومت نے اعلان کیا تھا کہ "بی بی سی کے ساتھ تعاون غیر قانونی ہے اور ممنوع ہے؟" جس کے جواب میں انھوں نے کہا: ہم نے اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر بی بی سی کی سرگرمیاں منع کردی ہیں اور اس سے قبل بی بی سی کے ساتھ براہ راست اور بالواسطہ تعاون کرنے والوں کو بلاواسطہ اور بالواسطہ طور پر خبردار کیا گیا کیونکہ بی بی سی ایک ذریعۂ ابلاغ نہیں ہے بلکہ ایک تنظیم ہے جس کا ظاہری بھیس ایک ابلاغی ادارے کا ہے لیکن اس کا اصل اور بنیادی تشخص بہائی، صہیونی ہے اور اس کا مشن سیاسی / جاسوسی (Intelligence-Politico) ہے۔ انھوں نے کہا کہ سنہ 2009 میں ایران میں رونما ہونے والے فتنے میں بی بی سی کا کردار فتنہ گردانی کا کردار تھا اور وہ کردار درحقیقت بی بی سی کے عملیاتی ذمہ داری (Operatinal Mission) کا حصہ تھا۔
انھوں نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ بی بی سی کا ادارہ اسلامی انقلاب کے خلاف سرگرم عمل ہر فکر کے لوگوں کے اجتماع کا مقام بنا ہوا ہے اور انقلاب مخالف تمام ٹولے اس ادارے میں اکٹھے کئے جاتے ہیں، معاند ترین اور ضدی ترین دشمن اور انقلاب کے خلاف مسلحانہ بغاوت کرنے والے عناصر کی بیٹھک بی بی سی ہے، بہائی جماعت بی بی سی فارسی کو تشکیل دیتی ہے، بادشاہت کے حامی دہشت گردوں سے لیکر تودہ پارٹی کے کمیونسٹوں، منافقین (ایم کے او)، کوملہ اور ڈموکریٹس نیز پژاک نامی ٹولوں کے عنوان سے سرگرم دہشت گرد، حالیہ فتنے کے اہم ترین عناصر جو سب کے سب کالعدم جماعتیں ہیں اور حال ہی میں شیطان پرستوں کا ٹولہ بھی ان سے جاملا ہے، کی ترجمانی میں مصروف ہے اور یہ سب عناصر بی بی سی کو اپنی پناہگاہ سمجھ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا: ہم ان تمام لوگوں کو خبردار کرتے ہیں جو بی بی سی کے ایران دشمن اور انقلاب دشمن ادارے سے رابطہ کرنے والے ہیں یا رابطہ و تعاون کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ وہ اس ادارے کی ظاہری صورت اور اس کے دلفریب نعروں کے چکر میں نہ آئیں۔ ہم ان روابط اور تعلقات کی گہری نگرانی کررہے ہيں اور مناسب موقع پر ضروری اقدام بھی کرتے ہیں۔.........................../110