اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی _ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق یمن کے صدر نے اپنے سرکاری بیان میں کہا ہے کہ روز جمعہ 12 فروری کی صبح سے حوثی مجاہدین کے ساتھ جنگ بندی کا نفاذ کیا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق علی عبداللہ صالح نے حوثی مجاہدین کے ساتھ جنگ بندی کی سرکاری شرطوں پر نگرانی کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا اجلاس کل شام کو شروع ہوا تھا اور رات گئے تک جاری رہا۔ اس اجلاس کے آخر میں صدر نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے: خونریزی کے خاتمے اور شمال مغربی یمن میں صلح و آشتی کی بحالی کی ضرورت کے تحت طے پایا کہ جنگ 11 فروری کی رات بارہ بجے سے بند ہو اور جنگ بندی کا مکمل نفاذ ہو۔دوسری طرف سے شیعہ مجاہدین کے کمانڈر سید عبدالملک حوثی نے اپنے تحت فرمان مجاہدین کو ہدایت کی ہے کہ صالح کی طرف سے اعلان شدہ جنگ بندی کا احترام کریں۔ سید الحوثی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ: جب تک حکومت یمن جنگ بندی کی پابند ہوگی ہم بھی اس کے پابند ہونگے اور تمام راستے کھول دیں گے اور رکاوٹیں بر طرف کریں گے۔ حوثی مجاہدین نے فوجی کاروائیاں روکنے کے لئے حکومت یمن کی طرف سے مقرر کردہ چھ شرطیں قبول کرلی تھیں تاہم فائربندی کی حکمت عملی کے نفاذ کی بعض جزئیات پر اختلاف تھا مگر حکومت کے کل رات کے اعلان اور الحوثی کی طرف سے سرکاری جنگ بندی سے اتفاق کے اعلان کے بعد واضح ہوگیا کہ اختلافی نقاط بھی طے کرلئے گئے ہیں۔ یادرہے کہ قبل ازیں اعلان ہوا تھا کہ حکومت یمن عبدالملک الحوثی کو فائربندی کی حکمت عملی کے آخری نقطے سے اتفاق کرنے پر رضامند کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یمن کی حکومت پورے ملک میں مسائل کا سامنا کررہی ہے اور جنوبی یمن میں بھی اس کو زبردست مزاحمت کا سامنا ہے ایسے میں وہ شمالی یمن اور الصعدہ کے دلدل میں پھنس گئی تھی جس کے لئے اس نے سعودی عرب، مصر اور اردن سمیت امریکہ کو بھی اس جنگ میں جھونک دیا تھا اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی کئی ہفتوں تک شیعہ مجاہدین کے ٹھکانوں پر حملے کرتا رہا مگر مجاہدین کی قوت میں کوئی کمی تو نہیں آئی بلکہ اس کی عوامی طاقت اور مزاحمتی صلاحیت میں روز بروز اضافہ ہوا اور حکومت یمن اس دلدل میں دھنستی چلی گئی چنانچہ حکومت یمن نے فیصلہ کیا کہ شمال کے دلدل سے جان چھڑا کر جنوبی یمن کی مسائل کا حل تلاش کرے۔اب حکومت یمن نے اپنا انتہائی اقدام کرکے دکھایا ہے اور حکومت کے اندر کے وہ عناصر جو صعدہ میں جنگ جاری رکھنے پر بضد رہ کر اپنی سیاسی حیات کو صعدہ کی جنگ سے وابستہ کئے بیٹھے تھے اور ساتھ ہی سعودی عرب ـ جو علی عبداللہ کی رسی پکڑ کر صعدہ کے خوفناک کنوئیں میں اترا تھا اور علی عبداللہ صالح نے اس کو شمالی یمن پر تسلط کے سبز باغ دکھائے تھے ـ، اس سرکاری اعلان کے بعد مشکل میں پڑ گئے ہیں اور عین ممکن ہے کہ حکومت یمن کو ان کی جانب سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے مگر شمالی یمن کی جنگ سے اب وہ کنارے بیٹھ گئی ہے اور اگر ملکی قوت کو یکجا کرکے صداقت کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرنے کا عزم کرلے تو بعید از قیاس نہیں کہ یہ مشکلات بھی یکے بعد دیگرے حل ہوجائیں۔یادرہے کہ یمن کی بعثی حکومت نے شیعیان حوثی کے خلاف اپنی جارحیت کا آغاز 2004 سے کررکھا تھا اور اس دوران اس نے یمن کے بے گناہ شیعہ شہریوں پر 5 جنگیں مسلط کی تھیں جبکہ چھٹی جنگ بھی اس نے اگست 2009 میں شروع کردی جس میں سعودی عرب بھی کود پڑا اور امریکہ اور اردن نے بھی مجاہدین اور شیعہ علاقوں پر ہزاروں حملے کئے اور اردن کے فوجی بھی اس جنگ میں شامل ہوئے حتی کہ پاکستان نے بھی اپنے ملک کے اندر امن و امان کی بری صورت حال اور القاعدہ سے وابستہ دہشت گرد ٹولوں کے خلاف جنگ کے باوجود اپنے 300 فوجی سعودی عرب روانہ کئے تھے اور سعودیوں نے حکومت پاکستان سے یہ فوجی صعدہ کے شیعہ مجاہدین کی سرکوبی کے لئے بلوائے تھے مگر ان کے آنے سے بھی یمن اور سعودی عرب کے حکمرانوں کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔اس 7 سالہ جنگ میں اب تک ہزاروں بچے، عورتیں اور بےگناہ انسان بعثی، سعودی، امریکی اور صہیونی خواہشات کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں جبکہ ڈھائی لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ ....................
/ 110