اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ یونیسف نے اپنی سالانہ رپورٹ 2025 میں انکشاف کیا ہے کہ بھوک، مسلح تنازعات اور مہلک بیماریوں نے دنیا بھر میں لاکھوں بچوں کے بچپن کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
یونیسف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگی علاقوں میں رہنے والے بچے روزانہ جان لیوا خطرات کا سامنا کر رہے ہیں، جہاں موت، خوف اور عدم تحفظ ان کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔
رپورٹ میں یونیسف جرمنی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرسٹین اشنائیڈر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جنگی علاقوں میں رہنے والے بچے حقیقی معنوں میں بچپن سے محروم ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے بچے دن رات خوف کے سائے میں جیتے ہیں اور بڑی تعداد میں بچے ذہنی دباؤ، نیند کی خرابی اور جسمانی و ذہنی نشوونما میں تاخیر کا شکار ہیں۔
یونیسف نے رپورٹ میں اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ سال 2025 کے دوران پہلی بار ایک ہی سال میں سوڈان اور غزہ میں قحط کی صورتحال باضابطہ طور پر سامنے آئی، اور دونوں مقامات پر قحط کی بنیادی وجہ جنگ اور انسانی امداد کی بندش کو قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سوڈان کے علاقے دارفور میں 2024 اور 2025 کے دوران قحط کی صورتحال برقرار رہی، جبکہ غزہ کے بعض علاقوں میں 2025 کے موسم گرما میں اسرائیلی جنگ اور طویل محاصرے کے باعث قحط کا اعلان کیا گیا، جس کے نتیجے میں انسانی امداد کی ترسیل بری طرح متاثر ہوئی۔
یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی صورتحال انتہائی نازک ہو چکی ہے، جہاں تقریباً ایک لاکھ بچے شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔
کرسٹین اشنائیڈر نے کہا کہ بچوں میں بھوک اور غربت کوئی قدرتی عمل نہیں بلکہ عالمی پالیسیوں کی واضح ناکامی کا نتیجہ ہے۔ ان کے مطابق، اگرچہ بچے جنگوں میں فریق نہیں ہوتے، لیکن سب سے بھاری قیمت انہیں ہی چکانا پڑتی ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ جمہوریہ کانگو میں صرف سال کے ابتدائی نو ماہ کے دوران بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے 35 ہزار سے زائد واقعات ریکارڈ کیے گئے، جبکہ ملک میں گزشتہ 25 برسوں میں ہیضے کی بدترین وبا بھی دیکھی گئی۔
یونیسف نے واضح کیا ہے کہ دنیا بھر میں جنگی اور بحرانی علاقوں میں رہنے والے بچوں کی تعداد تاریخی حد تک بڑھ چکی ہے، جہاں ہر پانچ میں سے ایک بچہ اس ماحول میں زندگی گزار رہا ہے، جو 1990 کی دہائی کے وسط کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہے۔
آپ کا تبصرہ