اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، بھارت میں اپوزیشن جماعتوں اور ناقدین نے ووٹر فہرستوں کی بڑے پیمانے پر نظرثانی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یہ عمل ملک کی جمہوریت کو کمزور کر سکتا ہے اور خاص طور پر مسلمانوں اور اقلیتوں کو حقِ رائے دہی سے محروم کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
گارڈین کی رپورٹ کے مطابق، ووٹر فہرستوں کی جس نظرثانی کو “اسپیشل انٹینسو ریویژن” (SIR) کہا جا رہا ہے، وہ اس وقت بھارت کی 9 ریاستوں اور 3 مرکزی زیرِ انتظام علاقوں میں جاری ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ عمل بظاہر انتخابی فہرستوں کی صفائی کے نام پر کیا جا رہا ہے، مگر درحقیقت یہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سیاسی گرفت مضبوط کرنے کا ایک ہتھیار بن چکا ہے۔
اپوزیشن کے مطابق یہ عمل عملی طور پر ایک خفیہ شہریت مردم شماری کی شکل اختیار کر چکا ہے، جس کے ذریعے خاص طور پر مسلمانوں اور غریب طبقات کو ووٹر فہرستوں سے نکالنے، حتیٰ کہ ان کی شہریت سلب ہونے اور ملک بدری کے خطرے سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان خدشات کو اسام ریاست میں نافذ کیے گئے متنازع نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) کے تجربے نے مزید بڑھا دیا ہے۔
بھارتی پارلیمان میں کانگریس پارٹی کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے اس منصوبے کو “ووٹ چوری کا منصوبہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب عوام کے ووٹ چھینے جاتے ہیں تو جدید بھارت کی بنیاد اور بھارت کے تصور کو نقصان پہنچتا ہے۔ تاہم مودی حکومت اور بی جے پی نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
مشرقی بھارت کی ریاست مغربی بنگال، جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی آباد ہے، میں اس منصوبے پر شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔ ریاست کی وزیرِ اعلیٰ ممتا بینرجی نے SIR کو سیاسی اور فریب پر مبنی اقدام قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں خوف اور بے یقینی کی فضا پیدا ہو رہی ہے۔
گارڈین کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں بعض مقامات پر انتہائی افسوسناک انسانی واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ کے قریب گاؤں خالیسنی میں رہنے والے ایک ان پڑھ مسلمان مزدور جاہیر مال نے، اس خوف اور ذہنی دباؤ کے باعث کہ اس کا نام ووٹر فہرست میں شامل نہیں اور اسے ملک بدر کیا جا سکتا ہے، سرکاری اہلکاروں کی آمد سے قبل خودکشی کر لی، حالانکہ وہ بھارت میں ہی پیدا ہوا تھا۔
اگرچہ بھارتی الیکشن کمیشن اس منصوبے کو محض ایک انتظامی عمل قرار دے رہا ہے، مگر اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس کے نتائج ووٹرز کی مجموعی ساخت کو حکمراں جماعت کے حق میں بدل سکتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق اس خدشے کو اس وقت مزید تقویت ملی جب SIR کے نفاذ کے بعد ریاست بہار میں بی جے پی نے واضح انتخابی کامیابی حاصل کی۔
رپورٹ کے مطابق، ووٹر فہرستوں کی حتمی اشاعت فروری 2026 میں متوقع ہے۔
آپ کا تبصرہ