بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || مشرقی قدس اور خود اسرائیل سمیت مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر اقوام متحدہ کے آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن نے ایک نئی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی ریاست نے غزہ کی پٹی پر مستقل کنٹرول قائم کرنے اور مقبوضہ مغربی کنارے اور اسرائیل کی سرحدوں کے اندر یہودیوں کی اکثریت کو برقرار رکھنے کا "واضح اور مستقل ارادہ" ظاہر کیا ہے۔
کمیشن نے مقبوضہ فلسطین کے تمام علاقوں میں اراضی اور رہائش سے متعلق پیش رفت کا جائزہ لیا اور اراضی کی ضبطی، آبادی کی منتقلی، زمین اور رہائش میں امتیازی سلوک اور یہودی آبادکاروں کے لئے نئی بستیوں کی تعمیر اور توسیع کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی۔
اقوام متحدہ کے نقطہ نظر سے اسرائیلی مجرمانہ کارروائیوں کے ثبوت
رپورٹ میں "نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن" کے تحت غزہ میں اسرائیل کے طرز عمل پر کمیشن کے "کانفرنس روم پیپر" کا خلاصہ بھی شامل ہے۔ انسانی حقوق کونسل کے 60ویں اجلاس کے دوران 16 ستمبر کو جاری ہونے والی دستاویز میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ غزہ میں فلسطینی عوام کو تباہ کرنے کے ارادے سے چار مجرمانہ کارروائیاں کی گئی ہیں۔ یہ کارروائیاں اسرائیلی حکام اور سیکورٹی فورسز کی طرف سے فلسطینیوں کو تباہ کرنے کے مخصوص ارادے کے ساتھ کی گئی ہیں اور انہیں ریاست اسرائیل کی کارروائیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسرائیل، ایک ریاست کے طور پر، اس لئے "نسل کشی کے ارتکاب، اس کی روک تھام میں ناکامی اور اس کے مجرموں کو سزا نہ دینے کے لئے ذمہ دار ہے۔"
کمیشن نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی صدر، وزیراعظم اور سابق وزیر جنگ نے اپنے بیانات سے نسل کشی کی ترغیب و تحریک دلائی ہے۔
غزہ کی پٹی میں، نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے "کوریڈورز اور بفر زون" میں شہری بنیادی ڈھانچے کو منصوبہ بند اور منظم طریقے سے اور وسیع پیمانے پر تباہ کر دیا ہے اور جولائی 2025 تک اپنے زیر کنٹرول علاقے کو غزہ کے تقریباً 75 فیصد تک علاقوں تک پھیلا دیا ہے اور ان اقدامات سے فلسطینیوں کے حق خودارادیت بہت زیادہ محدود کر دیا ہے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ شہری اہداف کی تباہی اور لوگوں کی جبری منتقلی کے دوران، اسرائیلی حکام نے جان بوجھ کر غزہ کے فلسطینیوں کو 'بقاء کے لئے ضروری وسائل' سے محروم کر دیا ہے، اور یوں "غزہ کے عوام کی مکمل یا جزوی طور پر تباہی منتج ہونے والے حالات مسلط کر دیئے گئے ہیں"؛ یہ وہی جرم کا بنیادی عنصر ہے۔
کمیشن کی چیئرمین ناوی پیلے (Navi Pillay) نے کہا: ""اسرائیل کو غزہ میں ـ بفر زون اور راہداریوں کے قیام اور توسیع کے لئے ـ فلسطینی اراضی کی ضبطی اور استعمال کو فوری طور پر بند کرنا چاہئے، اور ضبط کی گئی زمین فلسطینی مالکان کو واپس کرنی چاہئے،" سیکورٹی کے بہانے کئے جانے والا قبضہ نہ صرف سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ اس نے فلسطینیوں کے مصائب کو مزید گہرا کر دیا ہے اور انہیں خوراک کی پیداوار کے امکانات سمیت ضروری وسائل سے بھی محروم کر دیا ہے۔
مشرقی قدس سمیت مقبوضہ مغربی کنارے میں، اکتوبر 2023 سے اسرائیلی پالیسیاں اور اقدامات، ـ جن میں آباد کاروں کے تشدد کی کھلی اور ڈھکی چھپی سرکاری حمایت شامل ہے، فلسطینیوں کو زبردستی منتقل کرنے، یہودی آبادکاروں کی موجودگی میں اضافہ کرنے اور مغربی کنارے کو مکمل طور پر سابقہ مقبوضہ علاقوں سے ملحق کرنے کے واضح ارادے کا اظہار ہے۔ ایک ایسا اقدام جو کسی بھی خود ارادیت اور فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں رکاوٹ ہے، اور غیر معینہ مدت تک قبضے کو برقرار رکھتا ہے۔
کمیشن نے نوٹ کیا کہ 2025 کے اوائل سے مغربی کنارے کے جنین، طولکرم اور نور شمس کیمپوں میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں نے علاقے کے جغرافیائی منظرنامے کو یکسر تبدیل کر دیا ہے، عمارتیں اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے اور رہائشیوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ تباہ شدہ عمارتوں میں سے کچھ کو اسرائیلی فوج نے "دہشت گردوں کے مکانات" کے طور پر نامزد کیا اور انہیں سزا یا روک تھام کے طور پر تباہ کیا کر دیا۔ کمیشن کو ان اقدامات کا کوئی فوجی جواز نہیں ملا اور ثابت ہؤا کہ یہ اقدامات مغربی کنارے کے عوام کو "اجتماعی سزا" دینے کے جرم کے زمرے میں آتے ہیں۔
پیلے نے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالل اسوٹرچ (Bezalel Smotrich) کے حالیہ پلان-بی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جس کے تحت مغربی کنارے کے 82 فیصد حصے کو ضم کرنے اور "E-1" بستی کے توسیعی منصوبے کی منظوری دی گئی ہے۔
پیلے نے کہا: "وزیراعظم نیتن یاہو نے کھلے عام کہا ہے کہ یہ اقدام فلسطینی ریاست کے قیام کو روک دے گا۔ یہ پیش رفت مغربی کنارے پر اسرائیل کے وسیع پیمانے پر قبضے پر مبنی، ہمارے اخذ کردہ ہمارے نتائج کی تصدیق کرتی ہے۔ اور فلسطینیوں کی نقل مکانی اب ایک اعلانیہ ہدف بن گیا ہے جس کا اسرائیلی حکام فخر سے اعلان کرتے ہیں؛ جبکہ یہ منصوبے اور بیانات گھناؤنے ہیں اور ان کی بڑے پیمانے پر مذمت ہونی چاہئے۔
'اسرائیل' کے اندر بھی، کمیشن نے مشاہدہ کیا کہ اسرائیلی حکومتوں نے یکے بعد دیگرے ایسے قوانین اور پالیسیوں کو نافذ کیا ہے جنہوں نے 'اسرائیل کے فلسطینی شہریوں' کے رہائش اور زندگی کے ماحول کو محدود کر دیا ہے، فلسطینی محلوں کو محصور کر دیا ہے، ان کی رہائش میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں، اور ان محلوں کو یہودی آبادکاروں کے محلوں میں ضم کر دیا ہے۔ سماجی-اقتصادی عدم مساوات سے پیدا ہونے والی غیر رسمی رکاوٹیں کئی دہائیوں سے مسلسل گہری ہوتی چلی گئی ہیں، جو [اور واحد اسرائیلی معاشرہ بنانے کے اسرائیلی دعوے کے برعکس] دونوں آبادیوں کے انضمام میں رکاوٹ ہیں۔ اسرائیل کے وضع کردہ اور نافذ کردہ کچھ قوانین واضح طور پر امتیازی ہوتے ہیں، جب کہ دیگر قوانین کے اثرات امتیازی' ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں دو معاشروں کے درمیان علیحدگی کی ایک شکل برقرار رہتی ہے۔
فلسطینیوں کے خلاف جرائم؛ اصل مجرمین کون ہیں؟
کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی نافذ کردہ 'زمین اور رہائش سے متعلق پالیسیوں' کی باہمی مماثلت فلسطینیوں کی جغرافیائی موجودگی کو کم کرنے اور اسرائیل کے زیر کنٹرول تمام علاقوں میں یہودی اکثریت کو مستحکم کرنے کی مجموعی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے؛ ایسا اقدام جس سے فلسطینیوں کے جغرافیائی محل وقوع کا تعین کرنے کا امکان ختم ہو جاتا ہے [= دو ریاستی حل کی راہ میں عملی رکاوٹ]۔
اس رپورٹ میں چھ اسرائیلی وزراء کو زمین اور مکانات سے متعلق بین الاقوامی جرائم کے ارتکاب کے اصل مجرمین کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے:
* غزہ میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے لئے یوآو گالانٹ (سابق وزیر جنگ) اور اسرائیل کاٹز (موجودہ وزیر جنگ)؛
* مغربی کنارے اور مشرقی قدس میں بستیوں کی تعمیر اور توسیع کی ہدایت کے لئے بیزلیل سموٹریچ (وزیر خزانہ) اور اورٹ اسٹروک (سیٹلمنٹ اینڈ نیشنل پروجیکٹس کا وزیر)؛
* فلسطینی اسیروں کے ساتھ ناروا سلوک کرنے پر ایتمار بن گویر (اندرونی قومی سلامتی کا وزیر)، فلسطینی اسیریوں کے ساتھ بدسلوکی کی بنا پر؛
* اور بنیامین نیتن یاہو (وزیر اعظم) جو پوری مقبوضہ سرزمین میں تمام تر اسرائیلی پالیسیوں کا حتمی ذمہ دار ہے اور اسی نے براہ راست جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی پر مبنی جرائم کے احکامات جاری کئے ہیں۔
نیتن یاہو اور گالانٹ پر بھی "نسل کشی پر اکسانے" کے ملزم ٹہرائے گئے ہیں
کمیشن نے آخر میں، اسرائیلی ریاست سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں نسل کشی کا سلسلہ فوری طور پر بند کر دے، بین الاقوامی عدالت انصاف کے عبوری اقدامات اور اس کی 2024 کی مشاورتی رائے کی مکمل تعمیل کرے، فلسطینی اراضی پر غیر قانونی قبضہ فوری طور پر ختم کرے، مغربی کنارے اور دیگر علاقوں سے یہودی آبادکاروں کی تمام بستیوں اور آبادکاروں کو نکال دے، مقبوضہ وادی کی زمینوں پر دوبارہ قبضے کے احکامات کو فوری طور پر منسوخ کر دے۔
یہ رپورٹ 28 اکتوبر 2025 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں پیش کی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ