15 جون 2009 - 19:30

آج پچیس اپریل ایران کے وسطی علاقے طبس میں امریکہ کی ذلت آمیزشکست کی سالگرہ ہے ۔

اس دن امریکیوں کواپنے ان یرغمالیوں کوچھڑانے اورایران کے خلاف کاروائی میں انتہائي عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا جو تہران میں امریکی جاسوسی اڈے میں انقلابی طلباء کے ہاتھوں میں قید تھے۔ یہ واقعہ پچیس اپریل 1980 کا ہے اورآج ایران کے عوام اس واقعہ کی انتیسویں سالگرہ منارہے ہيں ۔  ہرسال آج کے دن اس واقعہ کی سالگرہ منائی جاتی ہے اورپورے ملک میں ایرانی عوام امریکہ کی اس ذلت آمیزشکست کا جشن مناتے ہیں اورریڈیوٹیلی ویژن سے بھی اس سلسلے میں پروگرام نشرکئے جاتے ہيں جونئی نسلوں کی آگاہی کے لئے ضروری بھی ہيں مگرآج ہم اس اس واقعہ کے معنوی پہلووں پرکچھ نظرڈالنے کی کوشش کریں گے ۔امام خمینی کی قیادت میں آنے والے عصرحاضریایوں کہا جائے کہ تاریخ کے ایک بے مثال انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی نے بلاوجہ یہ بات نہيں فرمادی تھی کہ ہمارا آج کا معاشرہ اورہماری یہ قوم رسول اسلام کے زمانے میں موجود حجازکے قوم سے بہترہے اورپھر ایسے معاشرے میں طبس جیسے واقعہ کا رونماہونا کوئی معمولی بات نہيں ہے ۔ امریکہ کوایک ایسی قوم کے مقابلے میں مشیت الہی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا جوصحیح معنوں میں اسلام کی وفاداراورخداکے دین اوراس کےرسول کی سچی پیروہے۔ امریکہ نے ایک ایسی قوم کے خلاف فوجی کاروائی کی بھول کی تھی جس نے خود کواللہ کے سپردکررکھا تھا اوراسلامی انقلاب کوکامیابی سے ہمکنارکرنےمیں جس قوم کا کارنامہ صرف رضای الہی کی خاطرانجام پایا تھا، وہ قوم جوصرف احکام الہی کی بجا آوری اوراس کے رسول کی سنت کواستحکام بخشنے میں مصروف تھی اورسامراجی اوراسلام دشمن طاقتوں کی اس طرح کی سازشوں سے بے خبرتھی تویہ کیسے ممکن تھا کہ ارادہ الہی ایسی قوم کی مددونصرت کے لئے واردعمل نہ ہوتا؟ کیونکہ یہ توالہی وعدہ ہے کہ اگرتم اللہ کی مددکروگے یعنی اس کے لئے کام کروگے تووہ تمہاری مددکرے گا ۔  یہ بھلا کیسے ممکن تھا کہ ارادہ خداوندی اسلام دشمن سازشوں کوناکام اوربے نقاب نہ کرتا ؟یہ سنت الہی ہے کہ اللہ مومنوں کا دفاع اوران کی حفاظت کرتا ہے اورغداروں اورخیانتکاروں کے کید ومکرکوخودان کی ہی طرف پلٹادیتا ہے ۔جب ہم اس واقعہ کا معنوی جا‏ئزہ لیتے ہیں توکچھ اس طرح کی صورت حال سامنے آتی ہے کہ ایک طرف امریکہ تھا جوفروری انیس اناسی سے قبل برسوں تک ایران کواپنی ایک کالونی میں تبدیل کئے ہوئے تھا اورایرانی عوام کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک روارکھے ہوئے تھا اور بلاروک ٹوک ایرانی عوام کے ذخائراوران کی دولت وثروت کودونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا تھا  ۔اور دوسری طرف وہ قوم تھی جس نے اپنے اسلامی انقلاب کے ذریعہ امریکی سامراج اوراس کے آلہ کاروں کے تسلط اورجبرواستبداد کی حکومت کی بساط لپیٹ دی تھی اوراب وہ ان امریکی جاسوسوں کویرغمال بنائے ہوئی تھی جوانقلاب کے بعد ایران کے اندرمختلف سازشیں کرکے حالات کوانقلاب سے پہلے والی پوزیشن میں لے جانے کی کوشش کررہے تھے ۔امریکی حکومت ظلم وستم، لوٹ کھسوٹ اوربدتہذیبی ومعاشرتی برائیوں کا مظہربنی ہوئی تھی۔ اپنے تسلط کوباقی رکھنے کے لئے وہ تمام مادی اورغیرانسانی وسائل سے استفادہ کررہی تھی جبکہ دوسری طرف ایرانی عوام نےاپنے مذہبی ودینی عقائد پربھروسہ اورجذبہ شہادت سے سرشارہوکرامریکہ اوراس کے آلہ کاروں کے تسلط کا خاتمہ کرکے دشمنان اسلام کی بساط ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایران سے لپیٹ دی تھی اوروہ ہرگزاس بات کے لئے تیارنہيں تھے کہ کسی بھی صورت امریکہ اوراس کے آلہ کاردوبارہ  ایران کی سرزمین سرگرم ہوں، اوراپنے نام ونشان کا اعلان کربھی سکیں ۔ بنابریں تہران میں امریکہ کے جاسوسی اڈے پرامام خمینی کے افکارونظریات کے پیرو یونیورسٹی کے طلباء کا قبضہ اورامریکی جاسوسوں کویرغمال بنانے کے اقدامات ایران پرامریکہ کے دوبارہ تسلط کوروکنے کے لئے ہی انجام دئے گئے تھے اورملت ایران اپنے ایمان واعتقاد اورمعنویت پربھروسہ کرتے ہوئے اس جنگ میں بھی سرخرووسرافرازہوئی اوراللہ کی تائید ونصرت اس کامیابی کا سب سے بڑا محرک تھی ۔ طبس کے واقعہ میں اللہ نے شیطان کے پیرووں کے مقابلے ميں اپنے مومن بندوں کا آشکارہ دفاع کیا۔ بالکل اسی طرح کی  مددونصرت جس طرح سے خداوندعالم نے ابرھہ یا اصحاب الفیل کے مقابلے میں خانہ کعبہ کی حفاظت کے سلسلے میں اپنے ارادے ومدد کی جلوہ نمائی کی تھی  ۔طبس کے صحرامیں امریکہ کے ہیلی کاپٹرزکئی دنوں کی اپنی جنگی مشقوں کے بعد جیسے ہی اصل کاروائی انجام دینے کے لئے تہران اورقم کی جانب اڑاچاہتے تھے ریت کے طوفان نے انھیں آدبوچا اورسب آپس میں ٹکراکرتباہ ہوگئے جس کا علم ایران کے عوام اورحکام کوبعد میں ہوا۔ خداوندعالم نے اپنے وعدے کوپہلے ہی پوراکردکھایا تھا ۔اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی رہ نے اس واقعہ کا تجزیہ اوراس پرتبصرہ کرتے ہوئے فرمایاتھا میں نے بارہا کہا ہے کہ کارٹردوبارہ صدارتی انتخابات جیتنے کے لئے ہرطرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے کوتیار ہے وہ پوری دنیاکوآگ میں جھونک دینا چاہتا ہے اوراس کے ثبوت یکے  بعد ديگرسامنے بھی آرہے ہيں ۔مگرکارٹرکی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اس طرح کے احمقانہ اقدامات سے ایران کے عوام کوجس نے اپنی آزادی وخودمختاری اوردین کی حفاظت کے لئے کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے دریغ نہيں کیا ہے ان کواپنے راستے سے جوانسانیت اوراللہ کاراستہ منحرف کرسکے گا ۔کارٹراب بھی نہیں سمجھ پارہا ہے کہ اس نے کس قوم سے پنجہ ملایا ہے  اوروہ کس مکتب فکرکے ساتھ کھیلنے کی کوشش کررہا ہے ہماری قوم خون وشہادت کی قوم ہے اورہمارامکتب جھاد وقربانی کا مکتب ہے ۔امام خمینی نے اپنے اس تجزیہ میں جوایک پیغام کی صورت میں تھا واقعہ طبس کی دونوں جانب کی خصوصیات کوبخوبی نمایاں کردیا تھا ایک طرف وہ لوگ تھے جواپنا منصب ومقام باقی رکھنے کے لئے پوری دنیا کوجنگ کی آگ میں جھونک دینے سے بھی گریزنہيں کررہے تھے اوردوسری طرف وہ لوگ اوروہ قوم تھی جس نے اپنے دین کی حفاظت اوراپنے حقوق کی بازیابی کے لئے اللہ کے راستے کا انتخاب کررکھا تھا اورایرانی قوم کی یہی خصوصیت تھی جس نے اسلامی انقلاب کوکامیابی سے ہمکنارکیا اوراسی پاک جذبہ نے آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں ایرانی سرفروشوں کوفتح دلائی تھی اوردشمنوں کے سیاسی دباؤ اوراقتصادی پابندیوں کوغیرموثربنا دیا تھا یہی نہیں انقلاب اوراسلامی نظام کوختم کرنے کی دشمنوں کی ملک کے اندراوربین الاقوامی سطح کی ہرطرح کی سازشوں کوبے نقاب کرنےکے ساتھ ساتھ انھیں ناکام بنادیا اورآج بھی دشمنوں کی ان سازشوں کوناکام بنانے کے لئے ایمان اتحاد وصداقت کے اسی جذبہ کی حفاظت کی ضرورت ہے اورآج بھی ایران کےعوام تیس سال کا عرصہ گذرجانے کے بعدبھی انقلاب کے ابتدائی دنوں کی ہی طرح انقلابی جذبوں اورروح ایمان ومعنویت سے سرشار ہیں ۔ یہی تووجہ ہے کہ اس وقت کے امریکی صدرکارٹر نے طبس کے واقعہ میں شرمناک شکست کھانے کے بعد کہاتھا کہ جدید ترین اسلحے توہمارے پاس ہیں مگرخدا ایرانیوں کے ساتھ ہے اورآج تیس سال کا عرصہ گذرنے کے بعد باراک اوبامہ اوران کی انتظامیہ اس نتیجے پرپہنچی ہے کہ ایران کے عوام سے دھونس ودھمکی کی زبان میں ہرگزبات نہيں کی جاسکتی ۔یہی وہ مقام ہے جہاں وعدہ الہی پوراہوتا دکھائی دیتا ہے کہ ان تنصرواللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم