اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، بزالیل اسموترچ (Bezalel Yoel Smotrich)، جو فلسطین کا نام لینے
کا بھی روادار نہیں ہے اور مغربی کنارے کو بھی غاصب ریاست میں ضم کرنے کا وکالت
کار ہے، نے حماس کے ساتھ ہونے والی جنگ بندی کو اس تحریک کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے
مترادف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر نیتن یاہو یقینی دہانی کرا دے کہ جنگ بندی کے
پہلے مرحلے کے خاتمے کے بعد ایک بار غزہ پر حملہ کرے گا تو میں کابینہ میں رہوں گا
ورنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کابینہ سا علیحدگی اختیار کروں گا۔
واضح رہے کہ حالیہ
ہفتوں میں شمالی غزہ کے علاقوں میں صہیونیوں کو بھاری جانی اور مالی نقصانات کا
سامنا کرنا پڑا تو صہیونی خفیہ ایجنسیوں نے رپورٹ دی کہ حماس نے ہزاروں افراد بھرتی
کر لیا ہے اور اپنی عسکری قوت بحال کر لی ہے، جس کے بعد جنگ بندی کے سمجھوتے پر
دستخط ہوئے۔
ادھر صہیونی
ذرائع نے بتایا ہے کہ نیتن یاہو اسموترچ کو استعفا نہ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش
کر رہا ہے۔
ادھر، معاہدے کے
تحت طے پایا ہے کہ صہیونی فوجی غزہ کے پورے علاقے سے پسپا ہونگے۔
۔۔۔۔۔
نکتہ: تاریخ
لکھے گی کہ "اسرائیل کے نام سے ایک تھی یہودی ریاست، جسے فلسطینیوں کی سرزمین پر زور زبردستی قائم کیا گیا تھا اور دنیا کی
تمام طاقتوں نے اسے بحال رکھنے کے لئے ہر قسم کی سرمایہ کاری کی۔ 2023ع میں فلسطینیوں
نے اپنے اوپر 75 سالہ مظالم و جرائم کے جواب میں طوفان الاقصی کے عنوان سے ایک
کاروائی کی تو پورا مغرب اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہوگیا اور اس نے یہاں ایک مقاومتی
تحریک "حماس" کی مکمل نابودی اور غزاوی عوام کی جبری نقل مکانی کا اعلان
کرکے 15 مہینوں تک فلسطین کے ایک چھوٹے سے علاقے "غزہ" پر ہزاروں ٹن
گولہ بارود گرا دیا، پورے علاقے کو تباہ کرکے رکھ دیا اور لاکھوں انسانوں کو شہید
اور زخمی کر دیا، مگر وہ اپنے کسی بھی ہدف کو حاصل کئے بغیر اس تحریک کے ساتھ جنگ
بندی کے سمجھوتے کے انعقاد پر مجبور ہؤا اور معرکۂ طوفان الاقصی میں اپنی عظیم تاریخی
شکست کی تلافی کرنے سے عاجز رہا اور یہ شکست اس کے نام ہو گئی قیامت تک۔
۔۔۔۔۔
110
