28 دسمبر 2024 - 00:00
یہودی ریاست نے دمشق پر مسلط اپنے ہی حلیف ٹولے "ہیئت تحریر الشام" کو "دہشت گرد" ٹولہ قرار دیا

ترکی-صہیونی-امریکی کے تعاون سے شام پر مسلط دہشت گرد ٹولوں کے مجموعے ہیئت تحریر الشام نے یہودی ریاست کے ہاتھوں شام کی اینٹ سے اینٹ بجائے جانے کے باوجود اب تک صہیونیوں کی چاپلوسی کے سوا کوئی بھی یہود دشمن موقف نہیں اپنایا لیکن صہیونی ریاست نے بھی انہیں پہچان لیا ہے گویا اور ان کے مستقبل سے مطمئن نہیں ہے چنانچہ صہیونی وزیر خارجہ نے ان کی چاپلوسیوں کا جواب دیتے ہوئے انہیں "ٹیررسٹ گینگ" قرار دیا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

محور مقاومت کے دوست بھی جانتے ہیں اور عالم اسلام کے اندر مقاومت کے نادان دشمن بھی جانتے ہیں کہ شام کا فتنہ 2011ع‍ میں اس وقت امریکہ، یورپ، یہودی ریاست اور اسلامی بیداری یا عربی بہار کی تحریکوں سے خوفزدہ مطلق العنان عرب ریاستوں کی مدد سے شروع ہؤا اور اس فتنے کی آڑ میں صحیح اہداف و مقاصد کے لئے شروع ہونے والی دوسری تحریکیں بھی منحرف ہوگئیں؛ اور اخوان المسلمین کو مصر میں حکومت ملی، جبکہ اخوانیوں کی ترکی شاخ کی حکومت ترکیہ میں قائم تھی۔ مصر کی اخوانی حکومت نے اگرچہ صہیونیوں کی خوشامد میں بہت آگے بڑھ گئے لیکن انہیں آخر کار السیسی کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا جس نے امریکہ، یورپ، سعودی عرب اور امارات کی مدد سے مرسی کو جنگلوں میں بند کرکے عدالتوں میں پیش کیا اور اور دشمن اسلام کے فریب میں آنے والے مرسی عدالت ہی میں اللہ کو پیارے ہوگئے اور یوں وہ نہ صرف خود افسوسناک بدسلوکیوں کا شکار ہوکر چل بسے بلکہ انقلاب مصر کو بھی نیست و نابود کرکے رکھ دیا۔

ادھر ترکیہ میں اخوانی البتہ یہودیوں اور نصرانیوں کا اعتماد گویا حاصل کر سکے تھے چنانچہ ان کی مدد سے جبہۃ النصرہ کے اخوانیوں سے لے کر داعش تک نے شام کو کھنڈر بنا دیا۔ گوکہ ترک اخوانیوں کو بھی ایک خوفناک فوجی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا مگر ایران نے سلطان حمید بننے والے رجب طیب اردوگان کو ایران میں پناہ دی اور ایران ہی سے انہیں اپنی فوج کے ساتھ رابطوں کا امکان فراہم کیا گوکہ اخوانی اخوانی ہی ہوتا ہے اور احسان فراموشی بظاہر اس جماعت کے تمام دھڑوں میں مشترکہ خصوصیت ہے۔ طیب اردوگان کے خلاف ہونے والی بغاوت میں مغرب اور عرب ممالک ـ بالخصوص امارات اور سعودی عرب ـ نیز صہیونی ریاست کا ہاتھ تھا، اور اگرچہ وہ آج شام کو فاتحانہ انداز سے دیکھ رہے ہیں اور اس کے شمالی علاقوں کو ترکیہ میں ضم کرنے کی سوچ رہے ہیں مگر اخوانی ہونے کے ناطے وہ مغرب کے نزدیک زیادہ قابل اعتماد نہیں ہیں اور وہ اگرچہ غزہ کی جنگ میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور ترکیہ کے فوجی اور ترکیہ کا اسلحہ اور ترکی سے گذرنے والا تیل، مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں کا سہارا بنا ہؤا ہے تاکہ وہ کسی بھی وقت پھر بھی کسی بغاوت یا دہشت گردانہ حملے یا کسی مصنوعی حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں؛ لیکن یہ موضوع نہیں ہے ہمارا۔ ہمارا موضوع یہ ہے کہ جب سے ترکیہ، امریکہ، اسرائیل، یورپ اور بعض امیر عرب ممالک ـ جن کے پاس امریکی اور صہیونی مفادات کے لئے اپنی دولت خرچ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ـ کی مدد سے ابو محمد الجولانی جیسے بدنام زمانہ دہشت گرد نے مختلف دہشت گرد ٹولوں کو ہیئت تحریر الشام میں اکٹھا کرکے شام پر حملہ کیا اور امارات، قطر اور سعودی عرب نیز صہیونی ریاست کے زرخرید شامی جنرلز نے اپنے صدر اور اپنے ملک کے ساتھ غداری کرکے مورچے چھوڑ دیے اور یہ ملک دہشت گردوں کے قبضے میں چلا گیا تو ابو محمد الجولانی نے القاعدہ والا اسٹائل چھوڑ کر ٹائی پہن لی، لیکن عجب یہ کہ الجولانی کے دمشق پہنچتے ہی صہیونیوں نے شام پر ہلہ بول دیا اور کم از 600 مرتبہ شام پر بمباریاں کیں، شام کی فضائیہ اور بحریہ کو نیست و نابود کر دیا اور بری فوج کا 80 فیصد حصہ تباہ کر دیا، اور شام کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کیا اور جب یہ سب ہو چکا تو ابو محمد الجولانی نئے بھیس میں ٹی وی اسکرین پر نمودار ہؤا اور شامی فوجیوں کے کلیجے چبانے والے (الجولانی) نے اس بار شام کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا: "شام لڑائی جھگڑوں سے تھک چکا ہے، ہم کسی کے خلاف لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے، ہم تو بس ایران اور حزب اللہ کے دشمن ہیں!"۔ اور بعدازاں اس کے دوسرے ساتھیوں نے باربار اسی طرح کے جملے دہرائے اور صہیونیوں کو واضح پیغام دیا کہ "ہم تو نوکر ہيں، بھائی، بس آپ کے ساتھ دوستی کے سوا کچھ بھی نہیں چاہئے"، یہاں تک کہ شامی عوام نے بھی احتجاج شروع کیا کہ اب تو نہ ایران یہاں ہے اور نہ حزب اللہ، صہیونیوں نے ہمارے ملک کو کیوں تباہ کیا اور ہماری سرزمین پر قبضہ کیوں کیا اور الجولانی جواب کیوں نہيں دیتے، تو دمشق پر مسلط کردہ الجولانی کے گورنر ماہر مروان نے کہا: "ہمارا اسرائیل کے ساتھ لڑنے کا نہیں بلکہ مصالحت کا ارادہ ہے!!"، چنانچہ آخرکار صہیونی وزیر خارجہ نے ان چاپلوسیوں کا جواب دیتے ہوئے کہا: شام پر مسلط گروپ درحقیقت "ایک دہشت گرد ٹولہ" ہے۔

موصولہ رپورٹ کے مطابق، صہیونی ٹی وی چینل عروتز شیفع (Arutz Sheva) (i7) نے کہا ہے کہ جدعون ساعر (Gideon Sa'ar) دعویٰ کیا ہے کہ "شام کی نئی حکومت وہی ٹولہ ہے جو اسرائیلی حکمرانوں کی نیندیں حرام کرے گا!!!!!"

اس رپورٹ کے مطابق، ساعر نے صہیونی دفتر خارجہ میں ایک اجلاس کے دوران شام کی نئی حکومت کے استحکام کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ شام کی نئی حکومت دہشت گردوں کا ایک ٹولہ ہے، نہ کہ ایک مستحکم حکومت۔

صہیونی وزیر خارجہ کے اس موقف کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صہیونی اور مغربی اس ٹولے کی چاپلوسیوں کے باوجود، اس کو مستحکم نہیں ہونے دیں گے۔

ساعر نے مزید کہا: دنیا میں یہ بات ہو رہی ہے کہ شام میں منظم انداز سے ایک نظام حکومت تبدیل ہو چکا ہے لیکن ایسا ہے نہیں، ایک نئی حکومت جمہوری انداز سے منتخب ہوئی ہو، اور پورے شام پر حکومت کر رہی ہو۔ وہ تو بس دہشت گردوں کا ایک ٹولہ ہے جو اس سے پہلے ادلب میں تھا اور اب اس نے دمشق پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔

غاصب صہیونی-یہودی ریاست کے وزیرخارجہ نے کہا: دنیا چاہتی ہے کہ شام میں ایک نئی اور مستحکم حکومت قائم ہو، اور چاہتی ہے کہ جن ممالک میں شامی باشندوں پناہ گزینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، وہ ممالک انہیں شام میں واپس بھجوادیں۔ لیکن صورت حال ایسی نہیں ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ ساحلی علاقوں میں علویوں کے ساتھ جھڑپیں ہو رہی ہیں، اردوگان دو ٹوک الفاظ میں دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ کردوں کی خودمختاری کو نیست و نابود کرنا چاہتے ہيں؛ ان دنوں شام میں عیسائی برادری کو اذیت و آزار کا سامنا ہے۔

صہیونی وزیر خارجہ نے اپنے ہی گماشتوں کے خلاف یہ الفاظ ایسے حال میں بیان کئے ہیں کہ وہ، وہ سب کچھ کر چکے ہیں جو صہیونی اور امریکی چاہتے تھے اور گویا اب کسی اور ٹولے کی ضرورت ہے جو صہیونیوں کے اگلے اہداف میں ممد و معاون ثابت ہو۔

بہرصورت، جمعہ کی شام کو دمشق کے نئے گورنر نے ـ جس نے اپنے مرشد کی طرح بھیس بدل کر ٹائی پہنی تھی ـ کہا: شام پر اسرائیلی حملے بالکل جائز ہیں، اور شام کی نئی حکومت کسی صورت میں بھی اسرائیل کی سلامتی کو خطرے میں نہیں ڈالے گی!

اس نے امریکی نیشنل پبلک ریڈیو ـ NPR ـ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ شام کے نئے حکمران اسرائیل کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

شام پر دہشت گرد ٹولوں کے مسلط ہونے کے بعد، غاصب اسرائیلی ریاست نے شام کو بدترین بمباریوں کا نشانہ بنایا ہے اور اس کے کچھ علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا ہے مگر دمشق پر الجولانی کے گورنر نے کہا: ہم اس بات کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ شام میں نئی حکومت آنے سے اسرائیل فکرمند ہو سکتا ہے!

اس کا کہنا تھا: شاید اسرائیل کو خوف محسوس ہؤا ہے کہ شام میں پیشقدمی کر رہا ہے اور مختصر سی بمباری بھی کی!

واضح رہے کہ صہیونیوں نے کم از چھ سو مرتبہ شام پر بمباری کی جسے خاک وطن سے بیگانہ دہشت گردوں نے مختصر سی بمباری قرار دیا ہے اور اس حقیقت کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا ہے کہ صہیونیوں نے ان بمباریوں کو اپنی تاریخ کی سب سے بڑی فضائی کاروائی قرار دیا اور ان حملوں کے دوران انہوں نے شام کی فضائیہ، بحریہ اور اس کے پورے سائنسی اور فوجی ڈھانچوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔  

دمشق کے مبینہ گورنر کو اسرائیل کی چاپلوسی کے ضمن میں البتہ بہ امر مجبوری یہ بھی کہنا پڑا کہ "ہم اسرائیل سے نہیں ڈرتے اور اسرائیل کے ساتھ ہمارا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے، ہم کسی بھی ایسی چیز میں ملوث نہیں ہونگے جس سے اسرائیل کی سلامتی خطرے سے دوچار ہوتی ہو۔

ہیئت تحریر الشام اور اس کے حلیف ٹولوں نے 8 دسمبر 2024ع‍ کو شامی فوج کی طرف سے کسی بھی قسم کی مزاحمت کا سامنا کئے بغیر شام کے شہروں حماہ اور حمص پر اور پھر دارالحکومت دمشق پر قبضہ کیا۔

تحریرالشام کے قبضے کے فورا بعد پوری سرزمین شام پر شدید ترین بمباریوں کا آغاز کیا اور اپنے فضائی حملوں کو فوجی اڈوں، ہوائی اڈوں اور شامی فوج کے ہتھیاروں اور تمام اوزاروں اور آلات پر مرکوز کرکے انہیں تباہ کر دیا اور دمشق پر قابض باغی گروپوں نے یہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں سہہ لیا اچھے بچوں کی طرح اور کسی بھی قسم کا رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ صہیونیوں نے صوبہ قنیطرہ، صوبہ درعا اور دمشق کے نواح تک پیشقدمی بھی کی اور بہت سے علاقوں پر قبضہ بھی کیا لیکن اس ملک پر امن و امان اور خوشحالی لانے کے بہانے مسلط ہونے والے ٹولے نہ لڑنے کے وعدوں کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکے ہیں۔

ایران، یمن، عراق اور حزب اللہ کے علاوہ مصر، اردن، کویت اور کچھ دوسرے ممالک نے شام پر یہودی جارحیت کی مذمت کی لیکن ترکی اور مغربی ممالک نیز شام میں ان کے گماشتوں نے مذمت تک بھی نہیں کی جبکہ صہیونی اب شام میں دندناتے پھرتے نظر آتے ہیں، ہیلی بورن (Heliborne) آپریشن کرتے ہیں، لوگوں کو قتل کرکے بھاگتے ہیں، سائنسدانوں کو اغوا یا پھر جان سے مارتے ہیں، المختصر یہ ملک آج امن پانے کے بہانے بدامنی کی انتہاؤں پر ہے اور ایک ملین سے زیادہ شامی باشندے ملک کے اندر ہی پناہ گزین ہو چکے ہیں۔

 یہودیوں نے شامی افواج کے ڈھانچوں اور ہتھیاروں کی تباہی کرنے کے لئے ہونے والی اپنی کاروائی کو ایرو آف باشان 2024ع‍ (Arrow of Bashan - 2024) کا نام دیا۔ باشان عبرانی زبان میں آج کے ملک کے شام کا پرانا نام ہے جس کا مغربی علاقہ جولان کی پہاڑیوں کے نام سے مشہور ہے۔

صہیونیوں نے بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد 1974 کے سمجھوتے کو منسوخ قرار دیا جس کے تحت صہیونی اور شامی افواج کے درمیان ایک بفر زون قرار دیا گیا تھا اور شامی سرزمین پر زمینی جارحیت کا آغاز کیا۔ یہ سمجھوتہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 338 کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔

ادھر صہیونیوں کے سفاک وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جب تک شام میں نیا نظام وضع نہیں ہوگا، صہیونی فوج شام کے مقبوضہ علاقوں میں رہے گی۔

بہرحال، یہودی کسی سے راضی نہیں ہوتے مگر یہ کہ ان کی دیانت کو اپنا لے۔

ارشاد ربانی ہے:

"وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ؛ [1]

اور آپ سے یہودی اور عیسائی تو اس وقت تک کبھی خوش نہیں ہو سکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ ہو جائیں۔ [اے میرے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ:] آپ کہہ دیجئے کہ اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے اور اگر آپ اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آ چکا ہے، ان کے من مانے خیالات کی پیروی کیجئے تو اللہ کے غضب سے بچانے کے لئے آپ کا نہ کوئی حامی ہو گا نہ مدد گار"۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: احسان احمدی – فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 



[1]. سورة البقرة-120.