اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق،
انقلاب یمن اور تحریک انصاراللہ یمن کے قائد سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے
جمعرات (12 دسمبر 2024ع) کو اپنے خطاب میں کہا: صہیونی دشمن غزہ پر مسلسل حملے کر
رہا ہے اور امت مسلمہ کو اپنے اسلحے کا رخ صہیونی دشمن کی طرف کرنا چاہئے۔
انھوں نے مزید کہا:
- ہم صہیونی جارحیت کے مقابلے میں ملک شام اور شامی قوم کے ساتھ
کھڑے رہنے پر تاکید کرتے ہیں۔
- یہودی دشمن نام نہاد
"گریٹر اسرائیل" بنانے کے درپے ہے جن مین شام کے تمام علاقے [شام،
لبنان، فلسطین اور اردن] نیز عراق، مصر اور سعودی عرب کے بہت سے علاقے شامل ہیں۔
- دشمن اسلامی ممالک میں
خانہ جنگیوں کو ہوا دے کر امت مسلمہ کی صلاحیتوں کو فرسودہ کرنا چاہتا ہے، یہاں تک
کہ یہ ممالک شکست و ریخت اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں۔
- اسلامی انقلاب سے قبل اور ایران کے محاذ مقاومت کا حصہ بننے سے
قبل بھی صہیونی دشمن نے شام پر حملہ کیا اور اس ملک کے ہزاروں باشندوں کا قتل عام
کیا۔
- شام پر مسلح جماعتوں کے قبضے کے بعد صہیونی دشمن نے جو کچھ کرکے
دکھایا اس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مسئلہ وہ نہیں ہے جو صہیونی دشمن کہہ
رہا ہے، مقصد ایران کا تعاقب کرنا یا اسے نقصان پہنچانا نہیں ہے بلکہ مقصد سرزمین
شام پر قبضہ کرنا ہے۔ کیونکہ ایران کے ساتھ شام پر مسلط ہونے والے دہشت گرد ٹولوں
کی دشمنی بالکل عیاں ہے لیکن وہ شام پر پھر بھی حملے کر رہا ہے۔
- صہیونی دشمن امت اسلامی اور اس کے تمام طبقوں، تمام مذاہب اور
تمام افکار اور رجحانات کے لئے حقیقی خطرہ ہے، [وہ صرف اہل تشیّع کا دشمن نہیں ہے
جیسا کہ بے حس مسلمان آج تک دعوی کرتے آئے ہیں]۔
- [عجب یہ ہے کہ خوشحالی اور امن لانے کا دعوی کرکے دمشق پر] مسلط
ہونے والے مسلح گروپوں کی طرف سے آج تک، شام پر صہیونی حملوں اور صہیونیوں کے
مسلسل خطروں، پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ غزہ میں اس ہفتے شہداء اور زخمیوں
کی تعداد 1800 تک پہنچی ہے۔
- دشمن امت کے تمام جنگی وسائل، بری، بحری اور ہوائی فوج کے تمام
ہتھیاروں اور صلاحیتوں نیز میزائل قوت اور فضائی دفاعی نظامات کو تباہ و برباد
کرنے کے درپے ہے، جیسا کہ اس نے شام میں کرکے دکھایا۔
- دشمن چاہتا ہے کہ عرب اور مسلمان اس کے تمام اقدامات سے خوشنودی
کا اظہار کریں، اور اس کے حملوں اور تباہ کاریوں کا خیر مقدم کریں اور اس کے تمام
مظالم اور جرائم پر آنکھیں بند رکھیں [جیسا کہ غزہ، لبنان اور شام میں دیکھنے میں
آیا اور مسلمانوں نے غزہ اور لبنان پر صہیونی جرائم کے سامنے پسندیدگی کا اظہار کیا
اور شام کی تباہی پر اس ملک کے تباہی کا سبب بننے والوں کو تہنیتی پیغامات
بھجوائے]۔
- عجیب ہے کہ بعض عرب اور اسلامی ممالک اب بھی
صہیونی جارحیتوں کے منکر ہیں، اے عربو! اے مسلمانو! اسرائیل تم سب کا دشمن ہے، اور
وہ کسی تذبذب کے بغیر تمہیں لوٹ مار اور جارحیت کا نشانہ بنائے گا۔
- دشمن ہمارے ملکوں کی آزادیوں اور خودمختاریوں اور ہمارے حقوق اور
ذخائر پر قابض ہونا چاہتا ہے۔
- غاصب صہیونی اس مرحلے میں شام میں ایک خاص قاعدہ نافذ کرکے اس کو
مستحکم کرنا چاہتا ہے جس کے بعد وہ شام کے بعد کے مرحلے کی طرف جانا چاہتا ہے۔
[عرب ممالک پر قبضہ]۔
- صہیونی دشمن نے کہا ہے کہ اس نے اپنی تاریخ کی عظیم ترین فضائی
کاروائی میں شام کی 80 فیصد فوجی صلاحیت کو تباہ کردیا ہے اور صہیونی دشمن امت
اسلامیہ کے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی یہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
- دشمن کا دوسرا معادلہ ـ جو صہیونی دشمن مسلط کرنا چاہتا ہے ـ یہ
ہے کہ ہمارے ممالک کی فوجی صلاحیت ایک معینہ حد تک محدود رہے تا کہ اس کی فوجی
بالادستی قائم رہ سکے۔ اور ہمارے پاس صرف اتنا اسلحہ ہو جس سے ہم "خانہ جنگیوں"
میں فائدہ اٹھا سکیں!
- مشرق وسطی کے چہرے کی تبدیلی کے سلسلے میں امریکہ
اور اسرائیل کے موقف کا مطلب یہ ہے کہ ایک بڑی امریکی ـ اسرائیلی سازش ہم مسلمانوں
کے خلاف جاری ہے، امریکہ ہماری اراضی سے ہر وہ چیز غصب کرنا چاہتا ہے جو وہ اپنے
لئے ضروری سمجھتا ہے، اور جہاں چاہیں وہاں فوجی اڈہ قائم کرنا چاہتے ہیں، اس کے
لئے وہ ابتدا میں عربوں کو صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرکے
فلسطینی کاز کو نیست و نابود کرنا چاہیں گے اور دوسرے مرحلے میں امت مسلمہ کو باہمی
اختلافات کے بھنور میں دھکیلنا چاہیں گے اور بڑے اسلامی ممالک کو کئی چھوٹے چھوٹے
ممالک میں تقسیم کریں گے۔
- اسرائیلی اور امریکی دشمن اسلامی اور عرب ممالک کو، کسی قسم کی
جارحیت سے نمٹنے کے لئے، ضروری دفاعی وسائل اور حفاظتی ہتھیاروں کے حصول سے باز
رکھنا چاہتے ہیں۔
- صہیونی دشمن نے غزہ کے اسپتالوں کو تباہ کر دیا ہے اور کمال
عدوان اسپتال پر مسلسل حملے کر رہا ہے، گویا کہ یہ اسپتال نہیں بلکہ مضبوط فوجی
قلعہ ہے، وہ ان حملوں میں مختلف قسم کے امریکی ساختہ ہتھیار استعمال کر رہا ہے، جو
یہودی ریاست کی درندگی کا ثبوت ہے۔ صہیونی دشمن نے کمال عدوان میں آکیسجن اسٹیشن
کو براہ راست نشانہ بنایا، یہ ایک ارادی جرم ہے جس کا مقصد انتہائی نگہداشت کے
کمروں میں قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں اور مریضوں کو جان بوجھ کر قتل کرنا ہے۔
صہیونی دشمن فلسطینی قوم کو فاقے کروا کر اور طویل عرصے تک بھوک میں مبتلا رکھ کر
فلسطینیوں کی نسل کشی کو جاری رکھے ہوئے اور صورت حال یہ ہے کہ غزہ کی پٹی میں
اکثر بے گھر پناہ گزینوں کو گھاس پھوس اور حیوانات کی خوراک سے استفادہ کرنا پڑ
رہا ہے۔
- غزہ میں فلسطینیوں کو درپیش مشکلات و مسائل بہت زیادہ اور شدید ہیں
اور دشمن غزہ کے شمالی علاقوں کو آبادی سے خالی کرانے کے لئے کوشاں ہے۔
- دریائے اردن کے مغربی کنارے کی صورت حال بھی دوسرے علاقوں سے
بہتر نہیں ہے۔ صہیونی دشمن قتل و غارت، اغوا، گھروں اور زرعی اراضی کے انہدام اور
ان پر قبضہ کرنے اور وہاں یہودی بستیوں کی تعمیر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ افسوس کا
مقام ہے کہ فلسطین کی نام نہاد خودمختار اتھارٹی بھی اسرائیلی دشمن کی خدمت میں
مصروف ہے، اور سیکورٹی کے حوالے سے اس کے ساتھ تعاون کرتی ہے اور مغربی کنارے میں
مقاومت کے مجاہدین کے قتل میں دشمن کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔ جبکہ تمام تر عرب اور زیادہ
تر مسلمان خاموش تماشائی ہیں اور عربیت نیز جہاد اور عقیدہ جیسے عناوین فراموش ہو
چکے ہیں۔
- اسرائیلی دشمن زیادہ تر مسلمانوں اور عربوں کی
مکمل شکست کے سائے میں مختلف النوع جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ فلسطینی عوام پر
ظلم عظیم کے غم انگیز مناظر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں اور عربوں کے لئے
معمول کا مسئلہ بن چکے ہیں۔ فلسطین کا المیہ مسلمانوں کے جذبات کو مزید مشتعل نہیں
کرتا اور ان کے [خفتہ] ضمیر کو بیدار نہیں کرتا اور وہ فلسطین کے حوالے سے اپنے
انسانی، اسلامی اور اخلاقی فرائض بھول چکے ہیں۔
- یہودی دشمن نے شام پر مسلح جماعتوں کے قبضے اور اس ملک میں معرض
وجود میں آنے والے ہلاکت خیز عدم استحکام سے فائدہ اٹھا کر اور ناجائز فائدہ اٹھا
رہا ہے، اور اس صورت حال میں اپنے لئے نئے مواقع تلاش کر رہا ہے! جرائم پیشہ نیتن یاہو
نے کہا کہ اسد حکومت کے خاتمے سے اسرائیل کو ایک نیا اور اہم موقع میسر آیا اور اس
نے اس موقع سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور شام کے ساتھ 1974ع کے عدم تنازعے کے
دوطرفہ سمجھوتے کو یکطرفہ طور پر منسوخ کر دیا ہے، اور شام کے مختلف علاقوں پر
قبضہ کیا۔
- صہیونیوں نے شام پر دو جہتی جارحیت کا ارتکاب کیا؛ ایک طرف سے اس
نے دمشق کے نواح تک زمینی پیشقدمی کی اور دوسری طرف سے شام کی فوجی صلاحیتوں کو
تباہ کر دیا۔
- آج صہیونی فوج دمشق کے 25 کلومیٹر کے فاصلے تک پہنجی ہے اور اسے
کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے، اور وہ شام پر مسلط مسلح جماعتوں یا عوام کی
طرف سے کسی مزآحمت کے بغیر، پیشقدمی کر رہا ہے۔
- ہماری اعلی ترین آرزو یہ ہے کہ شام پر مسلط
مسلح گروپ اپنی بندوقوں اور ٹینکوں کا رخ اسرائیلی جارحیت کی طرف موڑ لیں، اور یوں
اپنا مقام بلند کریں، اور اپنی ذمہ داری کا اظہار کریں، اسرائیل کے مقابلے میں
ہمارا موقف ممالک میں آنے والے حکام سے متاثر نہیں ہوتا، اور جب تک کہ عربی اور
اسلامی ممالک پر اسرائیلی جارحیت جاری رہے گی ہم ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
قائد انصار اللہ کے خطاب کے باقی نکات:
- شام پر صہیونی جارحیت اسلامی اور عربی ممالک میں یہودی ریاست کی
بدمعاشی اور بے شرمی کی نمائش ہے۔
- امریکیوں نے شام کے ایک حصے پر قبضہ کرکے تیل کے کنوؤں پر پنجہ
گاڑھ لیا ہے اور اعلانیہ طور پر شام کا تیل کے ذخائر لوٹ کر لے جا رہا ہے۔
- اسرائیل "جدید مشرق وسطی" کا اعلان کرکے اسلامی ممالک
کی دولت اور ذخائر کو لوٹنا چاہتا ہے۔ جدید مشرق وسطی کا واحد مقصد امریکہ اور
اسرائیل کے ہاتھوں اسلامی ممالک کے ذخائر لوٹ کر لے جانا ہے۔
- ہم نے لاکھوں یمنیوں کو میدان جنگ میں نفسیاتی، ثقافتی اور ایمانی
موجودگی کی تربیت دی ہے، ہم امریکہ اور اسرائیل اور ہر اس فریق کے خلاف لڑنے کے
لئے تیار ہیں جو امریکی اور اسرائیلی مفادات کی خاطر ہم پر حملہ کرے گا۔
- ہم صہیونیوں کے خلاف طوفان الاقصی کے دوسرے سال کے دوسرے مہینے میں
ہیں اور غزہ کے عوام کی حمایت کو بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں۔ القسام بریگیڈز نے اس
ہفتے صہیونی دشمن کے خلاف گھات لگا کر 16 حملے کئے ہیں؛ اور سرایا القدس نے بھی بھی
اچھی خاصی کاروائیاں کی ہیں اور مشرقی رفح میں صہیونیوں کے اڈے کو میزائل حملوں کا
نشانہ بنایا ہے۔
- یمن اور عراق کی اسلامی مقاومت کی طرف سے صہیونی ریاست پر مشترکہ
حملے جاری ہیں۔ حال ہی میں ہم نے ایسے ہی مشترکہ حملے کے دوران 19 بیلسٹک اور کروز
میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے حملہ کیا جس میں یافا (تل ابیب)، اسدود، عسقلان کو بھی
اور سمندر میں دو ڈسٹرائرز سمیت پانچ امریکی جہازوں کو بھی نشانہ بنایا، حالانکہ
ان جہازوں نے نظروں سے اوجھل رہنے کی غرض سے زبردست احتیاطی اقدامات کئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نکتہ: تاریخ یاد رکھے گی کہ اسلام دشمن صہیونیت
اور مغرب کے سامنے کھڑے ہونے والے اور فلسطینی سنیوں کی حمایت کرنے والے ایران،
حزب اللہ لبنان، عراقی اسلامی تحریکیں اور انصار اللہ یمن جیسے شیعہ تھے اور سنی
کہلوا کر خوش ہونے والے اور شام میں دہشت گردوں کی کامیابی پر تہنیتی پیغامات جاری
کرنے والے غزہ پر صہیونی-مغربی یلغار پر خاموش تماشائی تھے۔
غزہ اور پھر لبنان پر، صہیونی دشمن نے حملہ کیا
تو بے حس عرب اور اسلامی ممالک نے اس جنگ کے ایران اور اسرائیل کی جنگ کا نام دے
کر غیر جانبداری کو ترجیح دی یا جاہلیت کی بنیاد پر فرقہ وارانہ اور قوم پرستانہ
تعصبات کو "چراغ راہ" قرار دیا یا اسرائیل اور امریکہ کے سامنے نہ آنے
سے خائف ہو کر "تجاہل عارفانہ" کی بنا پر اسرائیل کو اپنا دوست اور ایران
کو اپنا دشمن سمجھ لیا اور بعض ذرائع اور اخبارات نے غزہ کی خبروں کو "ایران-اسرائیل
تنازعہ" کے سیکشن میں درج کرنا شروع کیا جبکہ ایران امت مسلمہ کی حمایت کر
رہا تھا اور مسلمانوں کو اس مغربی-اسرائیلی خطرے سے آگاہ کرتا رہا اور انہیں اس یلغار
کے سامنے کھڑے ہونے کی تلقین کرتا رہا۔ آج صہیونی دشمن نے ان ہی اسلامی ممالک کی
مدد سے شام پر ـ ترکی کی شراکت سے ـ قبضہ کر لیا ہے اور امریکہ کی مدد سے شام کی اینٹ
سے اینٹ بجا دی ہے اور اس نے مصر، اردن، لبنان، عراق اور سعودی عرب [ما سوائے ایران!]
پر قبضے کے اشارے دیئے ہیں، یعنی یہ کہ ایران کے اس موقف کی حقانیت بالکل عیاں ہو
چکی ہے کہ صہیونی دشمن اور مغرب مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے تمام اسلامی
ممالک کو نشانہ بنا رہا ہے ـ اور عجب یہ کہ جن ممالک پر قبضے کا منصوبہ ہے ان میں
ایران شامل ہی نہیں ہے یعنی یہ جنگ ایران ـ اسرائیل تنازعہ نہیں بلکہ اسلام ـ
اسرائیل تنازعہ ہے اور ایران امت کی جانب سے اس دشمن کا سامنا کرتا آیا ہے۔
تو اس صورت حال میں کیا عالم اسلام پھر بھی بے
حسی اور مجرمانہ خاموشی کی ذلت آمیز پالیسی پر قائم رہے گا اور اس دن کا انتظار
کرے گا جب ان کے صدارتی یا شاہی محلات میں سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں گی؟
بہرحال کافی دیر ہو چکی ہے، گوکہ ابھی بیدار ہونے کا وقت ہے تو کیا اس موقع سے
فائدہ اٹھائیں گے، بے حس مسلم حکمران؟
۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔
110