8 اکتوبر 2024 - 10:11
کیا یورپ اسرائیل کے معاملہ میں اپنا راستہ امریکہ سے الگ کر رہا ہے؟

نیویارک ٹائمز نے اسرائیل کو ہتھیار فراہم نہ کرنے کے بارے میں فرانسیسی صدر امانوئل میکرون کے موقف کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ فرانس اس سے پہلے تل ابیب کی ہمہ جہت حمایت کر رہا ہے اور میکرون کے نئے موقف سے لگتا ہے کہ فرانس ایک آزاد بڑی طاقت بننے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے لکھا: فرانسیسی صدر امانوئل میکرون نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کے عمل کو جنگ بندی کی عالمی کوششوں سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنے کا مطالبہ کیا جس کی وجہ سے اسرائیلی حکمران ان پر برس پڑے۔

بنیامین نیتن یاہو نے میکرون کے جواب میں ایک ویڈیو پیغام نشر کرکے کہا: "ہم "وحشیوں" سے لڑ رہے ہیں چنانچہ دنیا کے "تہذیب یافتہ ممالک" کو ہمارے ساتھ کھڑا رہنا چاہئے لیکن صدر میکرون اور بعض دوسرے مغربی حکمرانوں نے اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندی کا مطالبہ کیا ہے، شرم ہو ان پر"۔

نیتن یاہو نے دعوی کیا کہ اسرائیل ان کی حمایت کے بغیر بھی کامیاب ہوگا، لیکن یہ ممالک اس کامیابی کے بعد عرصے تک شرمندہ ہونگے!!

نیویارک ٹائمز لکھتا ہے: لیکن یہ میکرون کی پہلی تجویز نہیں ہے، بلکہ انھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل بند کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی کے قیام کی کوششیں، اسی اثناء میں ہتھیاروں کی ترسیل، سے متصادم ہے؛ لیکن اس بار ان کے موقف نے نیتن یاہو کے غیظ و غضب کو ابھارا ہے۔

مبصرین بھی میکرون کے اس موقف سے حیرت زدہ نہیں ہوئے ہیں، کیونکہ وہ مشرق وسطی میں جنگ اور اسرائیل کی حمایت کے درمیان اپنے رویے کو متوازن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ فرانس بہت کم ہتھیار اسرائیل کو فراہم کرتا ہے اور اس کے 90 فیصد ہتھیار امریکہ اور جرمنی سے آتے ہیں، اور فرانس امریکہ پر دباؤ ڈال کر اسے اسرائیل کو ہتھیار کی عدم فراہمی پر مجبور کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے چنانچہ میکرون سے واضح ہوتا ہے کہ وہ امریکہ سے بہت مایوس ہو چکے ہیں۔

ایک فرانسیسی ماہر دفاعیات نے کہا کہ میکرون کا موقف اچھا نہیں تھا کیونکہ وہ اس موقف کی وجہ سے ناسازگار اور غیر مفید نظر آئے اور دوسری طرف سے فرانسیسی پروفیسر کریم امیل بیتارنے کہا کہ میکرون نے دونوں فریقوں کو راضی کرنے کی کوشش کی اور دونوں فریقوں کو ناراض کر بیٹھے۔

نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ میکرون گذشتہ ایک سال کے دوران غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی حمایت پر زور دیتے آئے ہیں اور حماس کے ہاں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

فرانسیسی وزیر اعظم نے بھی کل پیر کے روز یہودی تنظیموں کے ایک گروپ سے ملاقات میں یہودی کمیونٹی کے تحفظ کا عزم ظاہر کیا لیکن جب انھوں نے میکرون کا تذکرہ کیا تو یہودیوں نے اس کا مذاق اڑایا۔

نیویارک ٹائمز نے مزید لکھا ہے کہ فرانس کے لبنان کے ساتھ تاریخی، ثقافتی اور جذباتی رشتے ہیں، میکرون نے بھی اس سابقہ فرانسیسی نوآبادی میں اپنا سیاسی اثاثہ استعمال کیا ہے، اور بیروت کے دھماکے کے بعد بھی لبنان کے دورے پر گئے تھے۔

فرانسیسی خارجہ پالیسی کے ماہر، ریم ممتاز نے کہا ہے کہ "لبنان وہ مقام ہے جہاں فرانس اب بھی ایک بڑی طاقت کے طور پر ظاہر ہو سکتا ہے، خواہ وہ مزید بڑی طاقت نہ بھی ہو"۔

ممتاز کا کہنا تھا کہ میکرون وہم میں مبتلا نہیں ہیں، اور وہ جانتے ہیں کہ ان کا موقف اسرائیل کے تئیں امریکی فوجی حمایت پر اثر انداز نہیں ہوتا، لیکن انھوں نے اپنے موقف سے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ فرانس ـ [نیز] شاید باقی یورپی ممالک ـ کا موقف امریکہ سے مختلف ہے!

۔۔۔۔۔۔۔۔

110