7 اکتوبر 2024 - 09:45
ڈرامہ 'اسرائیل' کی آخری قسط، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند صہیونیوں کی الٹی نقل مکانی + تصاویر

برطانوی اخبار گارڈین نے معرکۂ طوفان الاقصیٰ کی پہلی سالگرہ کے موقع پر رپورٹ دی ہے کہ مقبوضہ اراضی سے ماہرین، اعلیٰ تعلیم یافتہ، ہنرمند اور سائنسدان صہیونیوں کی الٹی نقل مکانی نے "اسرائیل کے وجود" کو ماضی سے کہیں زيادہ متزلزل کر دیا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق گارڈين سے بات چیت کرتے ہوئے نوام میڈیکل اسٹور کے ملازم ـ جو خود بھی اپنی بیوی اور تین بچوں کے ہمراہ "اسرائیل" ترک کرنے کے دفتری انتظامات مکمل کر رہا ہے ـ نے کہا: میرے بچے کے 5 یا 6 کے ہم جماعتی (class-fellow) اسکول چھوڑ کر چلے گئے کیونکہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ فلسطین چھوڑ کر بیرون ملک جانا چاہتے تھے"۔

"اسرائیل" کی قومی اقتصادی کونسل کے سابق سربراہ یوجین کینڈیل (Eugene Kandel) کا حالیہ مضمون ایک اہم انتباہ پر مشتمل تھا اور وہ یہ کہ "بہت زیادہ امکان یہی ہے کہ اسرائیل اگلی دہائی میں ایک خودمختار یہودی ریاست کے طور پر موجود نہ رہے"۔

اس مضمون میں "اسرائیل" کی ترقی کے انجن کا کردار ادا کرنے والے اور اس ریاست کی تکنیکی صنعتوں کے کرتے دھرتے دانشوروں، سائنسدانوں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین اور ہنرمند صہیونیوں کی تیزرفتار الٹی نقل مکانی اسرائیل کے وجود کے مکمل خاتمے کا اہم ترین سبب گردانا گیا ہے۔ ۔

اسرائیل گذشتہ عشروں میں دوسرے ممالک سے نقل مکانی کرکے مقبوضہ فلسطین میں آ بسنے والے یہودیوں کے ساتھ ایک سماجی معاہدے (Social contract) کے تحت معرض وجود میں آیا ہے اور ان لوگوں کے ساتھ اس معاہدے میں تل ابیب ریاست کا بنیادی عہد اور ذمہ داری، انہیں امن و سلامتی فراہم کرنا ہے۔

فلسطینیوں کا طوفان الاقصیٰ آپریشن ـ جو "اسرائیلی" ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ جنرل تامیر ہائمن کے بقول اسرائیل کی سب سے بڑی معلوماتی اور سیکورٹی شکست، تھا ـ پناہ گزین یہودیوں کے ساتھ "اسرائیلی" ریاست کے سماجی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی اور عہدشکنی سمجھا جاتا ہے۔ [جس کا ارتکاب 'اسرائیل" نے کیا اور ان  کو تحفظ فراہم نہ کرسکا]۔

نیتن یاہو کابینہ یہودی آبادکاروں کی الٹی نقل مکانی کی معلومات کو صیغہ راز میں رکھ رہی ہے، لیکن کچھ ذرائع نے اس حوالے سے اچھی خاصی معلومات دی ہیں گوکہ کچھ ذرائع نے بہت زیادہ احتیاط سے کام لیتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ ایک سال میں 40 ہزار یہودی آبادکار مقبوضہ فلسطین سے ہمیشہ کے لئے چلے گئے ہیں جبکہ "اسرائیل" کو اتنے ہی یہودی بیرون ملک سے لانے کے لئے 20 سال تک تگ و دو کرنا پڑی تھی اور بڑا سرمایا خرچ کیا تھا۔

ایک طرف سے یہودی مقبوضہ فلسطین سے نقل مکانی کر رہے ہيں، اور دوسری طرف سے "اسرائیل" کو بھاری بجٹ خسارے، سرکاری قرضوں، سرکاری قرضہ جات، ٹیکس کی شرح میں اضافے اور بیرونی اور اندرونی طور پر کریڈٹ ریٹنگ میں شدید کمی نے تل ابیب کی معیشت پر شدید منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔

بن گوریون یونیورسٹی میں عمرانیات کے استاد یوری رام (Uri Ram) کا کہنا تھا کہ اس اسرائیل کے حوالے سے پرانا تصور شکست و ریخت سے دوچار ہؤا ہے اور صرف اس صورت میں امیدوں کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے جنگ کا فوری خاتمہ ہو۔

لیکن نوبل انعام یافتہ "اسرائیلی" کیمسٹ اور ماہر حیاتیات ہارون سیچانوور  (Aaron Ciechanover) کا کہنا ہے کہ اسرائیل سات اکتوبر 2023ع‍ کے بعد ختم ہو چکا، اور جو فکری، سائنسی اور علمی انسانی قوت ایک ملک کی تعمیر کے لئے ضروری ہوتی ہے وہ، مقبوضہ فلسطین سے بھاگ کر چلی گئی ہے۔

گارڈین نے اس رپورٹ میں مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے 45٪ یہودیوں کے اس مطالبے پر سے پردہ اٹھایا ہے جو جنگ کے فوری خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس رپورٹ کے مطابق صرف کشیدگی کے فوری خاتمے کی صورت میں ہی اسرائیل کی تباہ شدہ معیشت کو سابقہ ڈگر پر لوٹانے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے؛ تاکہ ایک امریکی انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ "اسرائیلی" معاشی اشاروں (Economic indicators) 30 برس پیچھے تک پسپا ہو گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110