اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا :
اہل بیت (علیہم السلام) کی معمول کی سیرت سے یہی ثابت ہے کہ وہ بچوں کا لحاظ رکھتے تھے ان کی توقیر کرتے تھے، یقینا کمزوری کا احساس معمر افراد کے لئے تکلیف دہ ہے، اور انہیں عجیب رویوں پر مجبور کرتا ہے، لیکن یہ بچوں کو بھی مشکلات و مسائل سے دوچار کرتی ہے۔
چنانچہ امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"مَنْ هانَتْ عَلَیهِ نَفْسُهُ فَلا تَأمَنْ شَرَّهُ؛ [1]
جو اپنے آپ کو بے عزت اور ذلیل پائے خود کو اس کے شر سے محفوظ نہ سمجھنا"۔
رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنی کم سن بیٹی فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے سامنے اٹھ کھڑے ہوجاتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے۔ [2] کبھی اپنے نواسوں کے احترام اور ان کے طفولیت کا لحاظ رکھنے کے لئے، نماز کا سجدہ طویل کر دیتے تھے یا ان کی خواہش بر لانے کے لئے، اپنی نماز کو جلدی ختم کر دیتے تھے۔ ہر روز صبح اپنے بچوں اور نواسوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرتے تھے اور بچوں پر شفقت و مہربانی آپ کی دائمی خصلت تھی۔
علامہ مجلسی نے ایک روایت کے ضمن میں نقل کرتے ہیں: رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنے نواسے حسین (علیہ السلام) کے ساتھ کھیلتے تھے۔ ایک روز اس قدر حسین (علیہ السلام) کے ساتھ کھیلے کہ عائشہ نے احتجاج کرتے ہوئے کہا: کب تک کھیلیں گے اس کے ساتھ؟! تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: وائے ہو تم پر! میں ان سے کیسے محبت نہ کروں، حالانکہ وہ میرے دل کا میوہ (ثمرۃ) اور میری آنکھ کی روشنی (قرۃ العین) ہیں۔ [3]
ایک شخص نے حضرت موسی بن جعفر الکاظم (علیہ السلام) سے اپنے بیٹے کی لغزشوں اور خطاؤں کی شکایت کی تو امام نے فرمایا: اپنے فرزند کو مت مارو، اور اس کو سزا دینے اور ادب سکھانے کے لئے اس سے روٹھ جاؤ، لیکن خیال رکھنا کہ روٹھ جانے کا عرصہ طویل نہ ہونے پائے۔ [4]
معنوی اور روحانی نشو و نما اور اخلاقی تربیت کا لازمہ یہ ہے کہ بچے کے صحتمند جذبات کو پروان چڑھایا جائے۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا ہے:
"اِنَّ اللَّه لَیرحَمُ العَبدُ لِشِدَّه حُبِّهِ لِوَلَدِه؛ [5]
یقینا اللہ تعالی بندے پر اپنے بیٹے سے شدید محبت کی وجہ سے رحم کرتا ہے [اور اسے بخش دیتا ہے]"۔
نیز پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا ہے:
"مَن قَبَّلَ وَلدَهُ كَتَبَ اللّه ُ عَزَّ وجلَّ لَهُ حَسَنَةً وَمَن فَرَّحَهُ فَرَّحَهُ اللّه ُ يَومَ القِيامَةِ؛ [6]
جو اپنے بچے کو چوم لے اللہ عز و جل اس کے لئے نیکیاں لکھ دیتا ہے اور جو اس کو خوش کرے، اللہ تعالی روز قیامت اس کو خوش کر دیتا ہے"۔
سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) بچوں کے ساتھ محبت آمیز کلامی رابطے کے دوران انہیں "میری آنکھوں کی روشنی"، "میرے دل کا میوہ" کہہ کر پکارتی تھیں۔ [7] اور اپنے بچوں کے مسائل حل کرنے اور ان سے محبت و مہربانی کو دوسرے کاموں پر مقدم رکھتی تھیں اور سمجھتی تھیں کہ ماں کو فرزند کی نگہداشت اور پرورش کا کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ استحقاق حاصل ہے۔
بچوں کا کھیل کود اور جوش و خروش کی طرف بھی، اہل بیت (علیہم السلام) کی تربیتی روش میں توجہ دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ وہ بزرگوار بچوں کی نشوونما اور جہد و کوشش میں اضافہ کرنے کے لئے خون ان کے ساتھ کھیلتے تھے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) در ایک انتہائی نفیس عبارت کے ساتھ ارشاد فرماتے ہیں:
"مَنْ كانَ عنْدَهُ صَبيٌّ فَلْيَتَصابَ لَهُ؛ [8]
جس کے پاس کوئی بچہ ہے، اس کو خود بچہ کی صورت اپنانا [اور بچہ بننا] چاہئے [اور بچے کے ساتھ کھیلنا چاہئے]"۔
ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) خود دو ٹانگوں اور دونوں ہاتھوں کے بل چلنے لگے اور امام حسن اور امام حسین علیہما السلام آپ کی پشت مبارک پر سوار تھے تو آپ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا:
"نِعْمَ الْمَطِيُّةُ مَطِیتُكُمَا وَنِعْمَ الرَّاكِبَانِ أَنْتُمَا؛ [9]
بہترین سواری آپ دونوں کی سواری ہے اور بہترین سوار ہیں آپ دونوں"۔
سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) بھی اپنے بچوں سے کھیلتی تھیں اور کھیل کود کے دوران انتہائی عمدہ جملوں سے ان کے ساتھ بات کرتی تھیں اور بچوں کی شخصیت و کردار کی تعمیر میں ان کے لئے پسندیدہ نمونہ عمل تھیں۔
سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) اپنے بیٹے حسن مجتبی (علیہ السلام) کو اوپر اچھال رہی تھیں اور فرما رہی تھیں:
"أَشْبِهْ أَبَاكَ يَا حَسَنُ * وَاِخْلَعْ عَنِ اَلْحَقِّ اَلرَّسَنَ * وَاُعْبُدْ إِلَهاً ذَا مِنَنٍ * وَلاَ تُوَالِ ذَا اَلْإِحَنِ؛ [10]
بیٹا حسن! اپنے باپ کی طرح بن جا * رسی کھول دے حق کی گردن سے (آزاد کردے حق کو ستم کی قید سے)، احسان کرنے والے معبود کی بندگی کرنا * اور دشمنوں اور اہل ستم سے دوستی نہ کرنا"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1]۔ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج75، ص365، ح1۔
[2]۔ بحار الانوار، ج43، ص40۔
[3]۔ بحارالانوار، ج44، ص260۔
[4]۔ متقی الہندی، علی بن حسام الدین بن قاضی خان قادری، کنزالعمال، ج16، ص444۔
[5]۔ بحارالانوار، ج23، ص114۔
[6]۔ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج21، ص483۔
[7]۔ وسائل الشیعہ، ج21، ص475.
[8]۔ وسائل الشیعہ، ج21، ص486۔
[9]۔ ابن شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل أبي طالب، ج3، ص169۔
[10]۔ ابن رجب الحنبلی، (عبدالرحمان بن احمد بن عبدالرحمان سلامی)، فتح الباري شرح صحیح البخاری، ج8، ص210؛ فیروزآبادی یزدی، سید مرتضی بن سید محمد حسینی، فضائل الخمسۃ من الصحاح الستۃ وغیرہا من الکتب المعتبرۃ، ج3، ص210؛ الشیخ عبداللہ بن نور اللہ البحرانی، عوالم العلوم و المعارف و الأحوال من الأيات و الأخبار و الأقوال، ج11، ص898؛ بحارالأنوار، ج43، ص265۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔
110