اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) امام خمینی (رضوان اللہ
علیہ) کی رحلت کی پینتیسویں برسی کے موقع پر امام کے مزار پر لاکھوں افراد کے
اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کے افکار میں مسئلہ
فلسطین کی غیر معمولی اہمیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: کے بارے میں امام خمینی
(رضوان اللہ علیہ) نے 50 سال قبل کی پیش گوئی بتدریج عملی صورت اپنا رہی ہے اور معجز
نما طوفان الاقصیٰ آپریشن نے خطے اور عالم اسلامی پر دشمنوں کے وسیع و عریض منصوبے
کو ناکام بنایا، صہیونی ریاست کو اضمحلال اور نابودی کے راستے پر ڈال دیا اور غزہ
کے عوام کی قابل تحسین ایمانی استقامت کی برکت سے غاصب ریاست دنیا والوں کی آنکھوں
کے سامنے پگھل رہی ہے۔
امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے شہید صدر رئیسی کی خصوصیات اور خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے جلوسہائے جنازہ میں کروڑوں ایرانیوں کی بامعنی شرکت کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا: ایرانی قوم کو درپیش انتخابات کا بہت اہم کارنامہ شہدائے خدمت کے وداع کے عظیم کارنامے کی تکمیل ہے اور ان شاء اللہ عوام پرجوش انداز سے شرکت کرکے بھاری ووٹوں اور انتخابی مقابلوں میں اخلاقیات کی حکمرانی کے ساتھ ایک محنتی، فعال، آگاہ اور انقلاب کے اصولوں کا پابند صدر منتخب کیا جائے اور معاشی اور ثقافتی خلاؤں کو پر کرتے ہوئے خطے اور دنیا میں ملکی مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔
رہبر معظم نے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ) کی برسی پر عظیم سالانہ اجتماع کا مقصد ان کی یاد منانا اور ملکی انتظام اور ترقی نیز انقلاب کے مقاصد کے حصول کے لئے امامؒ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھانا ہے۔
امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کے افکار میں مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: امامؒ نے اپنی اسلامی تحریک کے آغاز سے ہی مسئلۂ فلسطین کو توجہ دینے کا آغاز کیا اور باریک بینی اور دوراندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے، فلسطینی قوم کی پیش قدمی کی راہوں کا تعین کیا اور امامؒ کی یہ بہت اہم دوراندیشی بتدریج عملی صورت اختیار کر رہی ہے۔
امامؒ نے اپنی تحریک کی ابتداء میں ہی جابر اور ستمگر طاغوت [پہلوی بادشاہ] کی سرنگونی، سوویت روس کی طاقت و اعتبار کے زمانے میں کمیونسٹ نظام کی نابودی کی پیش گوئی کی تھی اور یہ امامؒ کی روشن بینی کے دو دوسرے نمونے ہیں۔
آپ نے فرمایا: یہ جو آج فلسطینی قوم ساز باز کے لئے ہونے والے مذاکرات میں دلچسپی نہیں لیتی اور عملی طور پر حقوق کے حصول کے میدان میں حاضر ہے، اور اقوام عالم ـ بالخصوص مسلم اقوام ـ اس کی حمایت کر رہی ہیں، یہ امامؒ ہی کے افکار کا ثمرہ ہے۔ یہ اہم اور بڑے واقعات اسی وقت عملی طور پر رونما ہو رہے ہیں [اور مقاصد حاصل ہو رہے ہیں]۔
آپ نے فرمایا: صہیونی ریاست طوفان الاقصیٰ آپریشن کے نتیجے میں ایک گوشے میں پھنس چکی ہے؛ اور اگرچہ امریکہ اور بہت سے مغربی ممالک اس ریاست کی حمایت بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ بھی جانتے ہیں کہ اس غاصب ریاست کے لئے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: طوفان الاقصیٰ کاروائی اس وقت خطے کی ضرورت تھی اور خطے کی اس اہم ضرورت کو پورا کرنا اور جرائم پیشہ ریاست پر کاری ضرب لگانا اس کاروائی کے اہم مقاصد ہیں۔ حقیقت یہ ہے امریکہ، عالمی صہیونی عناصر اور خطے کی بعض حکومتوں نے خطے کے قواعد اور حالات کی تبدیلی کے لئے ایک بڑا اور سوچا سمجھا منصوبہ تیار کیا تھا تاکہ صہیونی ریاست اور علاقے کے بعض ممالک کے درمیان رابطہ قائم کرکے، مغربی ایشیا اور عالم اسلام کی سیاست اور معیشت پر منحوس [یہودی] ریاست کے تسلط کے لئے ماحول فراہم کیا جاسکے۔
آپ نے فرمایا: یہ منحوس منصوبہ نفاذ کے لمحوں کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا کہ اسی اثناء میں معجز نما طوفان الاقصیٰ آپریشن کا آغاز ہؤا اور امریکہ، صہیونیت اور ان کے پیچھے پیچھے چلنے والوں کی تمام سازشیں برباد ہو کر رہ گئیں، یہاں تک کہ حالیہ آٹھ مہینوں کے دوران رونما ہوئے والے واقعات کے باوجود، اس منصوبے کی بحالی کی کوئی امید باقی نہیں رہ سکی ہے۔
رہبر انقلاب نے فرمایا: وحشی صہیونی ریاست کے لامحدود جرائم، سنگ دلیاں اور مظالم اور امریکہ کی طرف سے ان درندگیوں کی حمایت، اس بین الاقوامی سازش کی ناکامی کا رد عمل ہے، وہ صہیونیوں کو مسلمانوں پر مسلط کرنا چاہتے تھے اب ان کی سازش ناکام ہو چکی ہے۔
آپ نے فرمایا: طوفان الاقصیٰ کا دوسرا مقصد صہیونی ریاست پر ناقابل تلافی ضرب لگانا تھا اور امریکی، یورپی اور حتیٰ کہ منحوس صہیونی ریاست سے وابستہ تجزیہ کار اور ماہرین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ غاصب ریاست اپنے تمام تر وسائل اور مختلف قسم کے دعوؤں کے باوجود ـ ایک حکومت کے مقابلے میں نہیں بلکہ ـ ایک تنظیم کے مقابلے میں بدترین شکست سے دوچار ہوئی ہے اور آٹھ مہینوں سے جاری جارحیتوں اور قتل عام کے باوجود اپنے کم سے کم اہداف تک نہیں پہنچ سکی ہے۔
امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے طوفان الاقصیٰ کی طاقت اور وسعت کے بارے میں ایک مغربی تجزیہ کار کے تجزیئے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: طوفان الاقصیٰ آپریشن اکیسویں صدی کو بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور دوسرے مبصرین اور مؤرخین نے بھی کہا ہے کہ صہیونی ریاست کا سر چکرا رہا ہے، صہیونیوں کی الٹی نقل مکانی کی لہر اٹھ چکی ہے، صہیونی ریاست اور فوج مقبوضہ فلسطین کے رہائشی یہودیوں کو تحفظ فراہم کرنے سے عاجز ہے اور ان کے اعتراف کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ "صہیونی منصوبہ" (Zionist Project) آخری سانسیں لے رہا ہے اور دنیا صہیونیت کے خاتمے کے آغاز پر ہے۔
رہبر معظم نے فرمایا: مسئلۂ فلسطین آج دنیا کا پہلا مسئلہ ہے اور لندن، پیرس اور امریکی جامعات میں فلسطین کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے حالانکہ امریکی ـ صہیونی تشہیری مراکز اور ذرائع ابلاغ نے عشروں سے کوشش کی تھی کہ مسئلۂ فلسطین یکسر بھلا دیا جائے لیکن مسئلۂ فلسطین طوفان الاقصیٰ، غزہ کے عوام کی استقامت کی برکت سے آج دنیا کا پہلا مسئلہ ہے، اور آج امریکہ اقوام عالم کے عالمی اجماع کے مقابلے میں انفعالیت کا شکار ہو گیا ہے اور جلدی یا بدیر صہیونی ریاست کی حمایت ترک کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ کے عوام کو درپیش رلا دینے والے مصائب کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: تقریبا 40000 افراد کی شہادت، نوزائیدہ، اور شیرخوار بچوں سمیت، تقریبا 15000 بچوں کا قتل عام درحقیقت وہ قیمت ہے جو ملت فلسطینی قوم غاصب صہیونیوں سے چھٹکارا پانے کی راہ میں ادا کر رہی ہے۔ غزہ کے عوام اسلامی ایمان اور قرآن کریم کی آیات شریفہ پر یقین کی رو سے موجودہ مشکلات کو بدستور برداشت کر رہے ہیں اور حیرت انگیز استقامت کے ساتھ مقاومت کے بہادر مجاہدین کی حمایت کر رہے ہیں۔
آپ نے فرمایا: صہیونی ریاست ـ مقاومتی تحریکوں کی طاقت اور صلاحیت کے سلسلے میں اپنے غلط اندازوں کی بنا پر ـ ایک ایسی سرنگ میں داخل ہؤا جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے؛ یہ سرنگ جعلی ریاست کو پے در پے ناکامیوں سے دوچار کر رہی ہے اور اللہ کی قوت اور طاقت سے وہ اس بند سرنگ سے نجات پا کر نکل نہیں سکے گی۔
رہبر انقلاب نے مسئلۂ فلسطین کے بارے میں مزید فرمایا: صہیونی ریاست ـ مغرب کی تشہیری مہم اور مختلف النوع دعوؤں کے باوجود ـ دنیا والوں کی آنکھوں کے سامنے پگھل رہی ہے اور مٹ رہی ہے اور اقوام عالم کے سوا، عالمی سیاستدانوں ـ حتیٰ کہ ـ خود صہیونیوں نے بھی اس حقیقت کا ادراک کر لیا ہے۔
شہید خادم الرضا(ع) صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی
رہبر انقلاب نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں، اسلامی جمہوریہ ایران کے انمول، ہر دلعزیز اور محنتی صدر سید ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے دل دوز واقعے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: صدر کے ساتھ شہید ہونے والے تمام فرد قابل قدر شخصیات ہیں۔
آپ نے فرمایا: جناب آقائے آل ہاشم تبریز کے فعال اور قابل احترام اور عوامی امام جمعہ اور اہمیت کے حامل صوبہ مشرقی آذربائی جان میں رہبر کے نمائندے اور قابل قدر انسان تھے اور وہ لوگوں ـ بالخصوص نوجوانوں، طلبہ، فنکاروں اور کھلاڑیوں ـ کے ساتھ قریبی رابطے میں رہتے تھے۔
وزیر خارجہ شہید حسین امیر عبداللہیان
رہبر انقلاب نے فرمایا: آقائے امیر عبداللہیان ایک فعال، محنتی اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل وزیر خارجہ اور باصلاحیت، زیرک مذاکرات کار اور اصولوں کے پابند انسان تھے۔ اور اس حادثے میں شہید ہونے والے دوسرے افراد ـ بشمول مشرقی آذربائی جان کے گورنر، اور صدر کی حفاظتی ٹیم کے ذمہ دار برادر، نیز پرواز کے عملے کے ارکان، سب ان کے دوستوں کے مطابق، شائستہ، نمایاں اور با ایمان افراد تھے۔
آپ نے ان عزیزوں کی شہادت کو ملک کے لئے ایک حقیقی نقصان قرار دیا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ قرآن کریم سورہ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے: "وَلا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لا تَشْعُرُونَ؛ اور جواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں"۔ [1] چونکہ اس آیت اور اس کے سیاق میں کسی فوجی نقل و حرکت یا جنگ کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، چنانچہ جو لوگ لوگوں کی خدمت کرتے ہیں اور ان کے لئے جہادی انداز سے کام کرتے اور اور ملکی انتظام اور اسلامی جمہوریہ نظام کی ترقی کی راہ میں مارے جاتے ہیں، وہ شہید ہیں۔
رہبر انقلاب نے فرمایا: شہید صدر رئیسی اور ان کے ساتھیوں پر اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے۔ ہم ان عزیزوں کو شہدائے خدمت سمجھتے ہیں جیسا کہ صدر کے لئے "شہید خدمت" اور "شہید جمہور" جیسے عناوین عوام کے دلوں سے ابھر کر سامنے آئے۔
آپ نے صدر جمہوریہ کے فقدان کو ملک کے لئے بہت سنگین واقعہ قرار دیا اور ان کی نمایاں اور ممتاز خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: سب نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ وہ مرد عمل، مردم خدمت، با اخلاص اور مرد صداقت تھے، دن رات خدمت میں مصروف رہتے تھے۔ رئیسیِ عزیز نے ملک و ملت کی خدمت کے حوالے سے نئے معیار متعارف کرائے، کیونکہ ان سے قبل کے خادمین ملت خدمت کے باوجود، کمیت و کیفیت کے لحاظ سے اتنی وسیع اور صادقانہ اور جفاکشانہ خدمت نہیں کر سکے ہیں۔
رہبر انقلاب نے صدر شہید رئیسی کی دوسری خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا: انھوں نے ملک کے حال اور مستقبل کے لئے، خارجہ پالیسی میں وسیع اور بابرکت فعالیت کی، مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا، ایران کو دنیا کے سیاسی راہنماؤں کی نظروں میں نمایاں کر دیا۔
رہبر انقلاب نے شہید رئیسی کی انتظامی خصوصیات کے بارے میں فرمایا: ان کا انتظامی طرز ان کے ساتھیوں اور رفقائے کار کے درمیان خلوص اور بے تکلفی سے عبارت تھا۔ وہ لوگوں کے لئے بھی وقار و عظمت کے قائل تھے، انہیں موقع دیتے تھے، ان کی تکریم کرتے تھے اور نوجوانوں پر اعتماد کرتے تھے اور یہ سب ان کی امتیازی خصوصیات ہیں۔
آپ نے مزید فرمایا: صدر شہید ان لوگوں کو بھی نازیبا الفاظ استعمال کرکے جواب نہیں دیتے تھے بلکہ احترام اور بڑائی کے ساتھ جواب دیتے تھے جو ان کی توہین کر چکے ہوتے تھے، یا ان کے حق میں ستم کے مرتکب ہو چکے تھے۔
رہبر انقلاب نے فرمایا: شہید رئیسی انقلاب اسلامی اور اسلامی جمہوریہ کے مخالفین اور دشمنوں کے ساتھ فاصلہ محفوظ رکھتے تھے، دو معنی اور مبہم موقف اختیار نہیں کرتے تھے، دشمن کی مسکراہٹوں پر اعتماد نہیں کرتے تھے، اور ان خصوصیات میں ہر خصوصیات ہمارے سیاستدانوں اور آنے والے سربراہان مملکت اور مختلف شعبوں میں قوم کے منتخبین کے لئے نمونۂ عمل کی حیثیت رکھتی ہے۔۔۔
آپ نے فرمایا: نے محترم اور انمول شہیدِ عزیز صدر رئیسی اور ان کے شہید ساتھیوں کے درجات کی بلندی اور ان کے اہل خانہ کے لئے صبر جمیل کی دعا کرتے ہوئے ان ہستیوں کی وداعی رسومات میں کروڑوں لوگوں کی شرکت کو ایک نمایاں اور قابل تجزیہ باب قرار دیا اور فرمایا: قومی اور ذاتی مصائب پر ایک رد عمل اداسی اور تنہائی، اور مصیبت کے مقابلے میں شکست کھانے اور مایوسی سے عبارت ہوتا ہے لیکن دوسرا رد عمل، مصیبت کے مقابلے میں استقامت، اور قرآنی تعبیر کے مطابق "صبر" اختیار کرنا ہے جو مواقع سازی، کارنامے رقم کرنے اور تلخ واقعات سے شیریں نتائج اخذ کرنے کا سبب بنتا ہے، اور ملت ایران نے اس واقعے میں مؤخر الذکر رد عمل دکھایا۔
آپ نے تہران، مشہد، تبریزی قم، بیرجند، زنجان، مراغہ اور نجف آباد میں شہداء کی وداعی رسومات میں ملینوں انسانوں کی شرکت، تلخ واقعات میں، انقلاب اسلامی کے بعد کی تاریخ میں رقم ہونے والے، ملت ایران کے عظیم کارناموں میں سے ایک ہے جو ناقابل تردید پیغامات پر مشتمل تھا اور وہ پیغامات یہ ہیں کہ ملت ایران ایک متحرک قوم، ہے جو تھکتی نہیں ہے، جم کر کھڑی ہے، زندہ جاوید ہے، مصیبت کے مقابلے میں ہارتی نہیں بلکہ اس کی استقاومت اور استوار نیز تحرک پذیری میں اضافہ ہوتا ہے۔
رہبر انقلاب نے فرمایا: ایرانی عوام نے صدر اور ان کے ساتھیوں سے وداع کے مراسمات میں عوام کی عظیم شرکت کا ایک پیغام یہ ہے کہ عوام اور حکام کے درمیان قریبی تعلق اور یکجہتی قائم ہے اور دشمنوں کے دعوؤں اور تلقینات کے برعکس، جو کہتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ ایران قومی سرمایہ کھو چکا ہے، کروڑوں عوام نے ان وداعی مراسمات میں شرکت کی، جس کی دنیا میں کہیں بھی مثال نہیں ملتی، اور ثابت کرکے دکھایا کہ اسلامی جمہوریہ کا قومی سرمایہ ہمیشہ کی طرح باقی ہے۔ اور گوکہ امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ) کا جلوس جنازہ منفرد تھا، لیکن عوام اور صدر رئیسی اور الحاج قاسم سلیمانی جیسے حکام اور فوجی جرنیلوں کے درمیان نمایاں یکجہتی اور جذباتی تعلق بدستور قائم و دائم ہے۔
آپ نے فرمایا: شہید صدر اور ان کے ساتھیوں کے جلوسہائے جنازہ میں کروڑوں انسانی کی شرکت کا ایک پیغام یہ ہے ایران کے عوام اسلامی انقلاب کے نعروں اور پروگراموں کے حامی ہیں؛ کیونکہ شہید رئیسی انقلاب ہی کے نعرے بیان کیا کرتے تھے اور انقلابی نعروں کا عملی مظہر تھے؛ چنانچہ ان کی تکریم و تمجید در حقیقت اسلامی انقلاب کے نعروں سے عوامی وابستگی کا عملی ثبوت ہے۔
رہبر انقلاب نے فرمایا: عوامی حضور و شرکت کا ایک پیغام یہ ہے کہ عوام اپنے خدمت گزاروں کے قدرداں ہیں اور ان کی خدمات کو بھولے نہیں ہیں، اور ایک پیغام یہ تھا کہ صدر کے شہید ہونے کے باوجود ملک میں امن و سکون برقرار ہے۔ ایران اور ایرانیوں کی طرف سے ان پیغامات اور حقائق کے دنیا تک پہنچ جانے سے دنیا کے سیاستدانوں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی نظر میں ایرانی عوام کی تیاری، حوصلے، کام میں دلچسپی اور آمادگی نمایاں ہو گئی، جو بہت اہم اور خطے کے سیاسی قواعد اور طاقت کی تشریح اور تقسیم میں بہت مؤثر ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے آنے والے صدارتی انتخابات کو ایک عظیم کارنامہ قرار دیا جو ملت کے لئے عظیم کامیابیوں کا سبب بنے گا۔ اگر ان شاء اللہ یہ انتخابات بہتر اور عظمت اور شکوہ کے ساتھ منعقد ہو جائیں اور اس تلخ واقعے کے بعد لوگ اگلے صدر کو بھاری ووٹوں سے منتخب کریں تو یہ ملت ایران کے لئے عظیم کامیابی کا موجب ہوگا جس کی دنیا میں غیر معمولی عکاسی ہوگی چنانچہ 28 جون 2024ع کے انتخابات بہت اہم ہیں۔
رہبر انقلاب نے انتخابات کے کارنامے کو شہیدوں کے دفاع کے کارنامے کا تکملہ قرار دیا اور فرمایا: ملت ایران کو ـ بین الاقوامی مسائل اور قواعد میں اپنے مفادات اور اپنی تزویراتی گہرائی کے تحفظ اور استحکام، نیز اپنی صلاحیتوں اور فطری اہلیتوں کا عملی مظاہرہ کرنے کے لئے اور ملک کا ذائقہ میٹھا کرنے نیز اقتصادی اور ثقافتی خلاؤں کو پر کرنے کے لئے ـ ایک فعال، محتنی، آگاہ اور انقلاب کے اصولوں کے پابند صدر کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے نامزد امیدواروں کے درمیاں انتخابی مسابقت میں اخلاقیات کو ملحوظ رکھنے زور دیتے ہوئے فرمایا: ایک دوسرے کے خلاف بدزبانی، تہمت و افترا اور کیچڑ اچالنے سے معاملات کی پیشرفت میں کوئی مدد نہیں ملتی اور نہ صرف یہ بلکہ قومی آبرو کو نقصان پہنچتا ہے۔ کیونکہ انتخابات کا میدان عزت و عظمت اور کارنامے رقم کرنے اور خدمت کے لئے باہمی مقابلہ کرنے کا میدان ہے نہ کہ اقتدار پر قابض ہونے کے لئے کشمکش کا میدان۔ چنانچہ جو لوگ انتخابی مقابلے کے میدان میں اترتے ہیں وہ اخلاقیات کی رعایت کو اپنا فریضہ سمجھیں تاکہ خدائے متعال لوگوں کے دلوں کو بہترین امیدوار کی طرف جانے کی ہدایت عطا فرمائے اور ان شاء اللہ ایک قابل اور باصلاحیت صدر منتخب ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
[1]۔ سورہ بقرہ، آیت 154۔
جاری ہے