28 جولائی 2023 - 16:38
عاشورا و اربعین حسینی کے کچھ فقہی احکام

مراجع کی اکثریت کے نزدیک گنبد کے اطراف اور قبر مطہر سے 5 یا 10 میٹر کے فاصلے تک پوری نماز پڑھی جاسکتی ہے اور امام سید علی خامنہ ای کے مطابق حرم کی حدود کے اندر جہاں بھی چاہیں نماز مکمل پڑھی جاسکتی ہے اور اگر کبھی حرم کی توسیع ہو اور اس کی حدود میں اضافہ ہو پھر بھی حکم یہی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، واقعۂ عاشورا اور امام حسین علیہ السلام کے بارے میں شیعہ تعلیمات کے ضمن میں خصوصی احکام وارد ہوئے ہیں:

1۔ مٹی کھانا حرام ہے لیکن شفا‏‏ء کی غرض سے مختصر سی تربت تناول کرنا حلال ہے؛

2۔ زمین پر سجدہ کرنا واجب، زمین کے تمام اجزاء [سوائے پھل دار درختوں کے پتوں کے] پر سجدہ کرنا جائز ہے لیکن تربت امام حسین علیہ السلام پر سجدہ کرنا مستحب ہے۔

3۔ تربت امام حسین علیہ السلام کی بنی تسبیح پر ذکر کرنا، مستحب ہے۔

4۔ تربت امام حسین علیہ السلام سے نومولود بچوں کا تالو کھولنا [اور زندگی کی پہلی خوراک کے طور پر تربت کی تھوڑی سی مقدار اس کےمنہ میں دینا] مستحب ہے۔

5۔ میت کو تربت امام حسین علیہ السلام سے حنوط دینا مستحب ہے۔

6۔ اربعین کے روز زيارت امام حسین علیہ السلام [زیارت اربعین] پڑھنا مستحب ہے۔

7۔ مختلف مذہبی مناسبتوں اور مواقع پر امام حسین علیہ السلام کی زیارت پڑھنا مستحب ہے۔

8۔ امام حسین علیہ السلام کے لئے عزاداری کا اہتمام اور گریا و بکاء کرنا، مستحب ہے۔

9۔ احادیث کے مطابق امام حسین علیہ السلام کی گنبد اطہر کے نیچے واجب نمازیں دونوں صورتوں میں [قصر بھی اور تمام بھی] پڑھی جاسکتی ہے۔ مراجع کی اکثریت کے نزدیک گنبد کے اطراف اور قبر مطہر سے 5 یا 10 میٹر کے فاصلے تک پوری نماز پڑھی جاسکتی ہے اور امام سید علی خامنہ ای کے مطابق حرم کی حدود کے اندر جہاں بھی چاہیں نماز مکمل پڑھی جاسکتی ہے اور اگر کبھی حرم کی توسیع ہو اور اس کی حدود میں اضافہ ہو پھر بھی حکم یہی ہے۔

10۔ سفر کے دوران تربت امام حسین علیہ السلام ساتھ رکھنا مستحب ہے۔

11۔ پانی نوش کرتے وقت امام حسین علیہ السلام کو یاد کرنا [اور سلامٌ عَلَی الحسین] کہنا، مستحب ہے۔

ماخذ: گزیده دانشنامه امام حسین علیه السلام ص 278۔

12۔ امام حسین علیہ السلام کی زيارت پر جانا مستحب ہے۔ کہا گیا ہے کہ حتی اگر ضروری ہوا تو قرض لے کر زيارت کے لئے جانا چاہئے اور زیارت امام حسین علیہ السلام سے غفلت نہيں کرنا چاہئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110